جولائی ۲۰۲۳

ملکی خبریں

 بالاسور ٹرین حادثہ

جون کے مہینے میں یوں تو کئی خبریں شہ سرخیوں میں رہیں، لیکن تین جون کو بالاسور میں ہونے والے ٹرین حادثے نے پورے ملک کے ٹی وی چینلوں کا رخ اپنی طرف کر لیا، اس حادثے کو صدی کا سب سے بھیانک حادثہ قرار دیا گیا۔
جمعے کی شام انڈیا کی مشرقی ریاست اڈیشہ میں ضلع بالاسور کے قریب تین ٹرینوں میں تصادم کے باعث کم از کم 288 افراد ہلاک جبکہ 800 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ جن میں کئی شدید طور پہ زخمی ہوگئے اور کئی زخمی حالت میں ہی انتقال کر گئے۔یہ حادثہ اس لیے بھی شدید ترین تھا کہ یہ ٹکراؤ دو ٹرینوں میں نہیں بلکہ تین ٹرینوں کے درمیان ہوا تھا، جن میں سے دو ایکسپریس ٹرین جن میں ہزاروں کی تعداد میں مسافر سوار تھے اور ایک مال گاڑی تھی، وزیر اعظم نے جائےوقوعہ کا معائنہ کرتے ہوئے اسے بدترین حادثہ قرار دیا، ملکی و غیر ملکی سطح پراس حادثے پہ اظہار افسوس کیا گیا۔
اڈیشہ کے وزیر اعلیٰ نے ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا اور مجرموں کے خلاف کارروائی کا وعدہ بھی کیا۔ انڈین ریلویز کے وزیر اشونی وشنو نے مرنے والوں کے لواحقین کو 10-10 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا۔اس کے ساتھ انہوں نے شدید زخمی ہونے والوں کے لیے دو لاکھ روپے اور معمولی زخمیوں کے لیے 50 ہزار روپے کے معاوضے کا اعلان کیا۔

 بپرا جوئے طوفان

بحیرۂ عرب سے اٹھنے والا بپرا جوئے طوفان اس وقت گجرات میں ایک بڑی تباہی پیدا کر چکا ہے، اس طوفان کے مرکز میں ہوا کی رفتار 200 کیلومیٹر فی گھنٹہ تک رہی، اس کے نتیجے میں اس سے اٹھنے والی موجیں 35 سے 40 فٹ بلندی تک چھو رہی تھیں۔
اتھارٹیز نے بڑے پیمانےپر آپریشن کیے۔ اس میں پچاس ہزار لوگوں کو نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچا یاگیا۔ بتایا جاتا ہے کہ گجرات میں محض دو سالوں میں یہ دوسرا طوفان ہے، جس نے اتنے بڑے پیمانے پر عوام اور معمولات زندگی کو متاثر کیا ہے۔ بڑی تعداد میں درخت جڑوں سے اکھڑ گئے، کئی علاقوں سے بجلی غائب ہوگئی اور سمندر سے قریب نشیبی علاقے زیر آب ہو گئے ۔ بپرا جوئے طوفان میں مرنے والوں کی تعداد دو بتائی جا رہی ہے اور بائیس افراد زخمی ہوئے ہیں۔
یہ طوفان آگے کی طرف بڑھتا جا رہا ہے، سمندری طوفان بپرا جوئے گجرات سے ہوتے ہوئے راجستھان میں بھی پہنچ چکا ہے۔ وہاں اس کے آنے کے آثار پہلے ہی محسوس کر لیے گئے تھے، اس لیے وہاں کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے تمام دفاعی انتظامات کر لیے تھے۔ انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کل ایک جائزہ میٹنگ کے بعد شہری دفاع اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے لوگوں کی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بپرا جوئے طوفان نے عام معمولاتِ زندگی کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے، اگر چہ اس کی آمد کی پیشن گوئی ہونے کی وجہ سے احتیاطی تدابیر اختیار کر لی گئی تھیں۔اس سے بہت کم جانی نقصان ہونے کی اطلاع دی جا رہی ہے۔ اس طوفان نے پاکستان کے کچھ علاقوں کو بھی متاثر کیا ہے، وہاں بھی راحت رسانی کا کام جاری ہے۔

 منی پور تشدد

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں اس وقت تشدد کے شعلے بھڑک رہے ہیں، پچھلے ایک ماہ سے یہ ریاست شرپسند عناصر کے نشانے پرہے، اس وقت سو سے زائد لوگوں کی موت ہو چکی ہے اور پچاس ہزار سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، بےشمار لوگوں کے گھر، دکان یہاں تک کہ عبادت گاہیں بھی جلا دی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ یہ لڑائی دو برادریوں کوکی اور میتئ کے دیرینہ اختلافات کا شاخسانہ ہے، تشدد کا آغاز 3 مئی کو ہوا جب ریاست کے کوکیوں سمیت دیگر قبائلی برادریوں نے میتئی کمیونٹی کو قبیلے کا درجہ دینے کے مطالبے کے خلاف ایک ریلی نکالی جو بعد میں پرتشدد ہو گئی۔ انھوں نے میتئی کمیونٹی پر حملہ کیا۔ اس کے جواب میں میتئی برادری نے بھی جوابی کارروائی شروع کر دی اور میتئی اکثریتی علاقوں میں رہنے والی کوکی برادری پہ حملہ کیا اور ان کے گھروں کو جلا دیا۔ ان حملوں کے بعد میتئی اکثریتی علاقوں میں رہنے والے کوکیوں اور کوکی اکثریتی علاقوں میں رہنے والے میتیوں نے اپنا گھر بار چھوڑنا شروع کر دیا۔
اس وقت یہ تشدد ایک خوفناک صورت اختیار کر چکا ہے، ایک ماہ سے جاری اس تشدد پر ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے عوامی سطح پہ کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ اس کی وجہ سے بھی عوام میں اضطراب پایا جا رہا ہے۔لوگوں میںریاستی حکومت سے زیادہ مرکزی حکومت کے تئیں غصہ ہے۔ اس وقت ریاست میں 40 ہزار سیکیوریٹی اہلکار تعینات ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں کے حالات کتنے خراب ہیں، کہا جاتا ہے کہ فسادات پر قابو پانے کی حکومت کی طرف سے تشفی بخش کوشش نہیں کی گئی، اس کی وجہ سے بھی یہ معاملہ طول پکڑ گیا۔

عالمی خبریں

بورس جانسن پرپارلیمنٹ کے دروازے بند

بےشک جھوٹ بولنا ایک اخلاقی جرم ہے،یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔عام انسانی زندگی میں بےشک اس کے لیے کم ہی گنجائش ہوتی ہے، لیکن سیاسی زندگی میں جس طرح لوگ بےمحاباجھوٹ بولتے ہیں اس سے ہر کوئی واقف ہے۔سیاسی ایوانوں میں جھوٹ بولنااور اپنے مفادات کے لیے حقائق کو مسخ کرنا معمول کا حصہ بن چکا ہے۔ ایسے میں یہ خبر چونکا دینے والی ہے کہ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم بورس جانسن کا پارلیمنٹ میں داخلہ اس لیے ممنوع قرار دے دیا گیا کہ انہوں نے  وزیر اعظم ہاؤس چھوڑنے کے بعد ایک سال کے دوران پیش آنے والے واقعات میں پارلیمنٹ سے جھوٹ بولا۔
بورس جانسن سے متعلق تیار کی جانے والی ویلج کمیٹی کی رپورٹ پر اراکین پارلیمنٹ میں سے 254 ارکان نے ووٹ دیا اور سات اراکین نے اس کے خلاف ووٹ دیا، اس رپورٹ کے تحت ان کا خصوصی پاس بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔بےشک ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ درحقیقت یہاں سچائی کا علم بلند کرنے کے لیے یہ فیصلہ لیا گیا ہے، اس کے پیچھےیقیناً سیاسی قائدین کے اپنے مفادات کارفرما ہیں، لیکن یہ بات ضرور قابل غور ہے کہ برطانیہ کی سیاست میں اخلاقیات اور قوانین کا غلبہ ہندوستانی سیاست سے کہیں زیادہ ہے۔وہاں کی سیاست و صحافت سے ہندوستانی سیاست کو سبق لینے کی ضرورت ہے۔ برطانیہ اپنے معاشی بحران کے باوجود کئی معاملات میں عالمی سیاست میں اپنی ایک نمایاں پہچان رکھتا ہے۔

یو اے ای میں ایک ہزار قیدیوں کے رہائی کا حکم

ہر ملک کی اپنی کچھ ایسی روایات ہوتی ہیں ،جو وہاں کی تہذیب کا قابل ذکر حصہ ہوتی ہیں، یہ تہذیب نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔ ایسی ہی ایک روایت یو اے ای کی ہے، یو اے ای کی امارات کا یہ عام رواج ہے کہ وہاں کے حکمران اہم اسلامی مواقع کے دوران قیدیوں کو معاف کر دیتے ہیں۔
خلیج ٹائمز کے مطابق اس بار عید الاضحیٰ کے موقع پرمتحدہ عرب امارات کے صدر عزت مآب شیخ محمد بن زاید النہیان نے 988 قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ گذشتہ سال شیخ محمد بن زاید النہیان نے عیدالاضحیٰ پر 505 قیدیوں کی رہائی کے احکام جاری کیے تھے۔
صدر کی طرف سے ملنے والی رہائی سے قیدیوں کو اپنے مستقبل پر نظر ثانی کرنے اور کامیاب سماجی اور پیشہ ورانہ زندگی گزارنے کے لیے اپنے خاندانوں اور برادریوں کی خدمت میں مثبت کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس اقدام سے قیدیوں کو اپنی زندگی کو ایک بارپھر سے از سر نو شروع کرنے کا موقع ملتا ہے، ان کے خاندان اور اعزہ واقارب اور چاہنے والوں کی تکلیف میں کمی ہوتی ہے۔ بےشک اس طرح کی روایتوں کو ہر ملک کی تہذیب کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ اعلیٰ اقدار اور انسانیت کو فروغ دیا جا سکے۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. JAVERIA

    جزاک اللہ خیرا۔سیاسی منظرنامہ وقت کی اہم ضرورت ہے

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے