جولائی ۲۰۲۳

دنیا میں کسی بھی مذہب یا نظریہ نے علم وحکمت کی اہمیت و ضرورت کو اتنا اجاگر نہیں کیا جتنا اسلام نےکیا ہے ۔صحیح علم کی رہنمائی،اس کا شوق دلانے،اس کی قدر و منزلت،اہل علم کی عزت افزائی کرنے،اس کے آداب بیان کرنے اوراس کے اثرات ونتائج واضح کرنے میں اسلام نے جو بھرپور اور مکمل ہدایات پیش کی ہیں،ایسی مثالیں کہیں اورنہیں ملتی ہیں ۔
قرآن مجید میں علم کا ذکر دیگر مشتقات کے ساتھ آٹھ سو سے زائد بار ملتا ہے۔اس سے علم و حکمت کی افادیت و اہمیت کا پتہ چلتا ہے ۔اسی طرح جب ہم حدیث کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان میں علم سے متعلق مکمل ابواب ملتے ہیں ۔مثلا ًصحیح بخاری میں وحی کی ابتدا اور ایمان کے باب کے بعد ہی علم کا باب شروع ہو جاتا ہے۔جس طرح اللہ تعالیٰ نے علم کو عزت بخشی اسی طرح علم کے حصول میں مددگار چیزوں کو بھی عزت بخشی ہے۔اللہ نے قرآن مجید میں سب سے پہلے قلم کا ذکر کیا ہے اور یہ قلم کی نہایت عزت افزائی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

نٓ‌ ۚوَالۡقَلَمِ وَمَايَسۡطُرُوۡنَۙ ۞(القلم:01)

ن۔ قسم ہے قلم کی اور اُس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں
یہاں قلم کے ساتھ قلم سے لکھی جانے والی چیز کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔علم کی روشنی کو سورج،چاند اور ستاروں کی روشنی پر ترجیح دی گئی۔قرآن میں علم اور علم سے متعلق چیزوں کا ذکر بھی اللہ تعالیٰ سے منسوب ہوا،کبھی رسولوں سے منسوب ہو کر، اور کبھی لوگوں کی نسبت سے، اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا سکھائی گئی:

وَقُلْ رَّبِّ زِدۡنِىۡ عِلۡمًا ۞ (طٰہ :114)

 (اے پروردگار مجھے  مزید علم عطا کر۔)
امام قرطبی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں کہ اگر کوئی چیز علم سے افضل اور برتر ہوتی تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتا کہ وہ اس میں سے مزید طلب کرے جیسا کہ مزید علم طلب کرنے کا حکم دیا گیا ۔اس لیے رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے علماء کی روشنائی کو شہیدوں کے خون کے برابر قرار دیا ہے۔علم ان مادی چیزوں کا احاطہ کرتا ہے جو کائنات میں ظاہر یا پوشیدہ ہیں۔مثلا ًسائنسی علوم، علم کیمیا،فزیالوجی،فلکیات، طب اور انجینیئرنگ وغیرہ جو مشاہدے اور تجربے پر مبنی ہے، لیکن مغربی اصطلاح میں علم کا محدود تصور ہے جس کے مقابلے میں اسلامی تعلیمات میں دینی و دنیوی تمام علوم پر علم کا اطلاق ہوتا ہے۔ مغرب جہاں علم کو دنیوی کامیابی کا ذریعہ اور زینہ سمجھتا ہے، اسلام اسے آخرت کی سرخروئی اور دنیا میں کامیابی دونوں کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔وہ دین ودنیا کو الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کرتا۔اسی لیے قدیم و جدید یا دینی و دنیوی علوم کی تفریق غلط بنیاد پر قائم ہے، البتہ آخرت کی سرخروئی اور دنیا میں سر بلندی کے لحاظ سے جو علم جتنا ضروری ہے، اسی کے بقدر اس کی اہمیت سمجھنی چا ہیے۔
علم کو صدیوں سے جتنا نظر انداز مسلمان کرتے آرہے ہیں ،اتنا کسی اور قوم نے نہیں کیا۔دنیوی علوم میں بھی یہی حال ہے،اور دینی علوم میں کی بھی یہی صورت حال ہے ۔ایسا بھی نہیں ہے کہ ملت کے افراد دینی علوم میں غیر معمولی طورپر منہمک و مشغول ہیں،اسی لیے دنیوی علوم کی طرف توجہ نہیں ہو پا رہی ہے، بلکہ جب سے دنیوی علوم میں پیچھے جا رہے ہیں،تبھی سے دینی علوم میں بھی بتدریج زوال آ رہا ہے۔یہ ملت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اگر زمانے کی رفتار سے آگے نہیں تو کم از کم ساتھ ساتھ چلنے کی صلاحیت تواپنے اندر پیدا کرے ،اور اس کے لیے عالمی حالات سے واقفیت بھی ضروری ہے اور بنیادی دینی علوم میں مہارت کے ساتھ دنیوی علوم میں بھی عبورحاصل کرنا اشد ضروری ہے ۔
علم نامعلوم شےکی دریافت کا ذریعہ اور تاریکیوں میں روشنی کی کرن ثابت ہوتا ہے ۔علم وہ زبردست قوت ہے جس کی بدولت انسان اپنی زندگی کو آگے بڑھاتا ہے، اور اپنے وجود کو وسعت سے ہمکنار کرتا ہے۔ پھر اپنی ذات کے خول میں بند نہیں رہ جاتا ہے، نہ اپنے اردگرد کے ماحول، اپنی نسل حتیٰ کہ اس زمین کے دائرے میں محدود ہو کر رہتا ہے۔بلکہ ان دائروں سے آگے بڑھ کر ماضی میں بھی جھانکتا ہے۔حاضر کی روشنی میں مستقبل کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور کائنات کی ساری وسعتوں کے بارے میں غور وفکر کرتا ہے، اور پھر اس طرح محو سفر ہو جاتا ہے جیساکہ ابن عبد البر نے حضرت معاذ بن جبلؓ کی روایت میں نقل کیا ہے:’’ علم وحشت میں مونس و غمخوار،اجنبیت میں ساتھی، تنہائی کا رفیق، خوشحالی اور تنگ دستی میں رہنما اور دشمنوں کے خلاف ہتھیار ہے۔اسی سے حلال و حرام کی تمیز پیدا ہوتی ہے ،وہی عمل کا رہنما ہوتا ہے اور عمل اس کے تابع فرمان۔‘‘
علم انسان کے لیے اللہ کا عجیب وغریب عطیہ ہےاور یہ تخلیق کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے، جس سے اللہ نے انسان کو عزت بخشی ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کے حصول پر ابھارنے کے لیے جو تعبیر اختیار فرمائی وہ نرالی ہے،اور اس طرح کی رہنمائی کوئی رسول ہی دے سکتا ہے،جس کا رابط اللہ سے قائم ہو،فرمایا:
’’ علم حاصل کرنا فرض ہے۔‘‘
یہ مختصر سا جملہ ہی روشنی کی کرنیں بکھیر دیتا ہے اور زندگی کی وسعتوں کو کھول دیتا ہے۔ فرض کا ایک پہلو تو یہ ہوتا ہے کہ انسان کےلیےاس کا ادا کرنا ضروری ہے، اس کی راہ میں کسی طرح کی مشغولیت اور روکاوٹ حائل نہیں ہونی چاہیے۔دوسرا پہلو یہ ہوتا ہے کہ یہ ایسی ذمہ داری ہے، جو انسان اپنے رب کے لیےپوری کرتا ہے۔تیسرا پہلو یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ بندہ اپنے رب سے تقرب حاصل کرتا ہے۔اسلامی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ طب یا فلکیات ،فزکس یا کمسڑی کے میدان میں کوئی عالم تحقیقات کر رہا ہو اور وہ عقیدے سے کٹ گیا ہو، یا یہ کہ عقیدہ اس کی تحقیقات کی راہ میں روکاوٹ بن رہا ہو یا اس کے دل میں علم اور عقیدہ یا علم اور دین کے درمیان جنگ کی صورت پیدا ہوئی ہو۔ علم ،عقیدے کے ذریعے اور اس کے زیرسایہ پروان چڑھتا رہا اوریہ رستہ علمی انکشافات تک پہنچتا رہا، جس کا اعتراف یورپ کے متعصب علماء تک نے کیا، اور یہ اس لئے کہ علم اللہ کا فرض تھا اور نماز، روزہ، زکوٰۃ کی طرح ہی ادا کیا جا رہا تھا۔
بلاشبہ علوم میں اولین مقام علم دین کا ہے۔ جس کے ذریعے انسان خود اپنے آپ کو پہچانتا ہے اور اپنے پروردگار کی معرفت بھی حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح علم دین کے ذریعے اپنا راستہ پاتا ہے،اپنی منزل مقصود تک پہنچتا ہے اور ان چیزوں کو سمجھتا ہے جو اس کے لیے مفیدیا اس کے لیے نقصان دہ ہیں۔ پھر اس کے بعد درجہ بدرجہ ہر اس علم کا مقام ہے جس کے ذریعے کسی ایسی حقیقت کی پہنچان حاصل ہو، جو لوگوں کو حق تک پہنچائے ، یا بھلائی کا ذریعہ بنے یا جس سے انہیں کوئی فائدہ حاصل ہو یا جس کے ذریعے وہ کسی نقصان سے بچ سکیں۔
حضرت معاذ بن جبل ؓ فرماتے ہیں کہ علم اس لیے حاصل کرو کہ اس کا حاصل کرنا خوف الہٰی ہے، اس کی طلب عبادت ہے ،اس کا درس دینا تسبیح ہے اور علمی گفتگو کرنا جہاد ہے جو شخص نہ جانتا ہو تو اسے پڑھانا خیرات ہے،جو علم کا اہل ہو اسے علم کی دولت سے نوازنا تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے،یہی علم تنہائیوں کا ساتھی ،سفر کا رفیق،دین کا رہنما،تنگدستی و خوشحالی میں چراغ راہ ، دوستوں کا مشیر ،اجنبی لوگوں میں قربت پیدا کرنے والا، دشمنوں کے حق میں تیغ براں، راہ جنت کا روشن مینار ہے۔اسی علم کی بدولت اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو عظمت عطا کرتا ہے ،انہیں قائد،رہنمااور سردار بناتا ہے ،لوگ ان کی اتباع کرتے ہیں، ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں، ان کے عمل کو دلیل بناتے ہیں،فرشتے ان کی دوستی اور رفاقت کی خواہش کرتے ہیں ،اپنے بازوؤں کوان کے جسموں سے مس کرتے ہیں، بحر وبر کی تمام مخلوق یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں اور کیڑے، خشکی کے درندے اور چوپائے، آسمان کے چاند ، سورج اور ستارے سب ان کے لیےمغفرت کی دعا کرتے ہیں ۔ اس لیے علم دل کی زندگی ہے ، علم نور ہے اس سے تاریکیاں دور ہو جاتی ہیں، علم سے بدن کو قوت ملتی ہے، ضعف دور ہوتا ہے۔ علم کی بدولت، انسان نیک لوگوں کے بلند درجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔علمی امور میں غور وفکر کرنا روزہ رکھنے کے برابر ہے۔ علم کی تدریس میں مشغول رہنا شب بیداری کے برابر ہے۔ علم ہی سے اللہ کی اطاعت،عبادت اور تسبح و تحمید کا حق ادا ہوتا ہے، اسی سے تقوی حاصل ہوتا ہے، صلہ رحمی کی توفیق ہوتی ہے۔حلال و حرام میں تمیز کا شعور پیدا ہوتا ہے۔
علم امام ہے عمل اس کا تابع ہے ، خوش قسمت لوگوں کے دل ہی علم کی آماجگاہ بن سکتے ہیں، بدقسمت لوگ اس سے محروم رہتے ہیں۔ حضرت ابن مبارک ؒسے کسی نے پوچھا کون لوگ صحیح معنی میں انسان ہے؟ انھوں نے جواب دیا:’’ علماء ۔‘‘
اس گفتگو میں قابل غور بات یہ ہے کہ عبداللہ ابن مبارک نے صرف علماء کو انسان قرار کیوں دیا ؟ کیونکہ جو چیز انسانوں کو جانوروں سے ممتاز کرتی ہے وہ علم ہے ۔انسان کا امتیاز نہ تو جسمانی طاقت کی وجہ سے ہے، اس لیےکہ اونٹ اس سے زیادہ طاقتور ہے، نہ یہ امتیاز جسامت کے لحاظ سے ہے ،اس لیےکہ ہاتھی انسان کے مقابلے میں زیادہ جسیم ہے۔ شجاعت اور بہادری بھی وجہ امتیاز نہیں بن سکتی، اس لیےکہ درندے اس سے زیادہ بہادر اور شجاع ہوتے ہیں۔ خوش خوراکی بھی انسان کے لیے شرف کی علامت نہیں ،اس لیے کہ بیل اس سے زیادہ کھاتے ہیں،بلکہ اس کا شرف صرف اور صرف علم ہے اور اسی علم کے لیے وہ پیدا ہوا ہے۔ بعض دانشوروں کا قول ہے کہ ہمیں کوئی یہ بتلا دے کہ جس کو علم نہ ملا اسے کیا ملا اور جسے علم مل گیا اسے کیا نہیں ملا؟فتح موصلی ؒ نے ایک مرتبہ اپنے مصاحبین سے دریافت کیاکہ اگر مریض کو تین دن کھانا پانی اور دوائیاں نہ دی جائے تو وہ مر نہ جائے گا ؟ لوگوں نے کہا کہ یقیناً مر جائے گا۔فرمایا یہی حال دل کا ہے۔ فتح موصلی ؒ نے بالکل صحیح کہا ہے۔اس لیےکہ دل کی غذا علم و حکمت ہے، جس طرح بدن کی زندگی غذا سے ہے ،اسی طرح دل کی زندگی علم و حکمت سے ہے۔ جس شخص کو علم میسر نہیں ،اس کا دل بیمار ہے اور موت اس کا مقدر بن چکی ہے۔قرآن پاک کا ارشاد ہے :

رَبَّنَآ اٰتِنَا فِى الدُّنۡيَا حَسَنَةً وَّفِى الۡاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ ۞
(البقرۃ: 201)

(اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا)
اس آیت کے متعلق حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دنیا کے ’’حسنہ‘‘ سے مراد علم اور عبادت ہے اور آخرت کے ’’ حسنہ‘‘سے مراد جنت ہے۔ جو شخص علم و حکمت میں مصروف ہوتا ہے لوگ اسے عزت واحترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔حضرت لقمان ؑنے بیٹے کو علماء کی ہم نشینی اور قربت کی نصیحت اس لیے کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نوروحکمت سے دلوں کو اس طرح زندہ کرتا ہے جس طرح زمین کو بارش سے سرسبز وشاداب بنا دیتا ہے۔
اگر ہم علم سے مراد آج کے دور میں رائج اس مادی علم ہی کو لیں جو تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر قائم ہے، تب بھی ہم اس کی قدر و قیمت کا انکار نہیں کرسکتے۔لوگوں کو اس کی ضرورت ہے اور بلا شبہ علم مادی بھی مطلوب ہے،اگر چہ اس کی حیثیت خود مقصد کی نہیں بلکہ وسیلہ و ذریعہ کی ہے، کیونکہ مادی علم انسان کی زندگی میں مددگار ہے، اس کے راستے آسان کرتاہے، زمان و مکان کے فاصلے کم کرتا ہے،دور کو نزدیک اور سخت کو آسان بناتا ہے، لیکن تنہا یہی علم خوش بخت نہیں بنا سکتا ،نہ تنہا انسانی قافلہ کے سفر کو منضبط کرسکتا ہے اور اس کی انا پرستی اور نفسانی میلانات کی روک تھام کرسکتا ہے۔ اس لیے انسان کو دینی علم کی انتہائی ضرورت ہے جو ایمان کو پروان چڑھاتا ہے، ضمیر کو زندہ کرتا ہے، اس میں بلند عادتیں اور کردار پیدا کرتا ہے ، نفس کے بخل و تحفظات سے بچاتا ہے۔ عقل پر حیوانی جذبات کو اور ضمیر کی آواز پر خواہش نفس کو غالب آنے سے روکتاہے۔اور پھر یہی دینی علم مادی علم کو بھی انحراف، جارحیت ،سرکشی اور تباہی وبربادی کے لیے استعمال ہونے سے بچاتا ہے۔قرآن کریم نے اس سلسلے میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی مثال دی ہے، جنہیں ایسی بادشاہت دی گئی تھی جو پھر کسی اور کو نہیں دی گئی ۔کیونکہ ان کے پاس بلا شبہ حقیقی علم تھا۔وہ علم جو ایمان کی طرف رہنما ئی کرتا ہے۔
حقیقی ایمان علم کا میدان وسعی کرتا ہے اس طرح علم اور ایمان ایک دوسرے کے شریک اور باہم تعاون کرنے والے بھائی ہیں۔ اسلام یہی علم مراد لیتا ہے ،چاہے اس کا موضوع اور میدان کچھ بھی ہو۔اس لیے قرآن اپنی پہلی آیت نازل کرتے ہوئے فرماتا ہے :

اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّكَ الَّذِىۡ خَلَقَ‌ۚ ۞ (العلق : 1)

( پڑھو (اے نبیؐ) اپنے ربّ کے نام کے ساتھ  جس نے پیدا کیا،)
پڑھنا، علم کا عنوان اور اس کی کنجی ہے جب قرآن میں نازل کردہ پہلا ہی حکم الٰہی پڑھنے سے متعلق ہے تو اسلام میں علم کے مقام ومرتبہ کی اسے واضح تر دلیل اور کیا ہو سکتی ہے ؟ علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالیٰ نے علم کے متعلق فرمایا:
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں توہے مگر صاحب کتاب نہیں

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے