جولائی ۲۰۲۳
زمرہ : ادراك

حکمراں جب انسانوں کی فلاح و بہبود پر سوچنا چھوڑ دیں،تو کھیلنے کو صرف سیاست بچ جاتی ہے۔ مسلم دشمنی میں منافرت کا پھیلانا ہو یا پولرائز ہوتی ملک کی عوام ،کسی بات سے سیاسی حکمرانوں کو کوئی واسطہ ہے نہ علاقہ ۔ناقص اور خستہ نظام تعلیم ، ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، آسمان چھوتی مہنگائی،ماحول کی دن بدن بگڑتی صورتحال؛ یہ مسائل تو ادھورے رہے اور بات کی جارہی ہے یکساں سول کوڈ پر ۔
لاء کمیشن نے یکساں سول کوڈ پر ہر شہری کی رائے طلب کی ہے اور ملک کے سبھی انٹلیکچوئل ان دنوں یکساں سول کوڈ پر گفتگو فرمارہے ہیں ۔یکساں سول کوڈ مطلب پورے بھارت میں یکساں عائلی قانون ، عائلی قوانین میںنکاح ، طلاق ، فسخ نکاح ، خلع ، وارثت کی تقسیم ؛یہ قوانین شامل ہوں گے ۔ہندوستان کثیر المذاہب ملک ہے۔ جس طرح ہندوستان میں ہر دو کیلومیٹر پر زبانیں مختلف ہیں، اسی طرح یہاں مذہب،رواج اور تہذیب مختلف ہے۔
ہندوستان میں موجود عوام کے بیشتر عائلی قوانین ان کی قدیم روایت پر مبنی ہیں ۔ہندو مذہب میں چارسو سے زائد روایتی اعتبار سے سول قوانین میں تنوع پایا جاتا ہے ۔ہندوستان میں موجود مختلف مذاہب کو ایک جیسے قانون میں نہیں باندھا جاسکتا ۔ہر ایک کا اپنا پرسنل لاء موجود ہے، ہر شخص اپنے پرسنل لا ءسے روحانی اور جذباتی اعتبار سے جڑا ہواہوتا ہے ۔یکساں سول کوڈ پر یہ پہلی مرتبہ آراء نہیں منگوائی گئیں، ایسی کوشش پہلے بھی کی جاتی رہی ہے اور عوام کے ہر طبقے نے اس کی پرزور مخالفت کی ہے۔
بھارت کےسماجی سیٹ اپ کو اتحاد اور امن کے ساتھ ترقی کی نئی دھارا کو قبول کرتے ہوئے آگے بڑھنے کے بجائے ملک میں سیاسی مفاد کو سامنے رکھ کر کی جانے والی کوشش دن بدن ملک کی سالمیت اور یکجتی کو نقصان پہنچارہی ہے ۔

پرسنل لا ء

ہر مذہب اور تہذیب سے جڑی کمیونٹی کے پاس اپنا اپنا پرسنل لاء ہوتا ہے،جس کے اپنے عائلی قوانین کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے ۔کرسچن ، سکھ ، ہندو ، قبائلی ، مسلمان ، کشمیری مسلم اور کشمیری پنڈت ، سب کے اپنے اپنے قوانین ہیں ۔ان قوانین کو ایک رنگ دینے کا مطلب ہر ایک کی مذہبی شناخت کو ختم کرنا ہے ۔
مسلمانوں کا اپنا پرسنل لاء ہے جسے شریعہ لا ءبھی کہتے ہیں ۔شمس پیرزادہ صاحب نے مسلم پرسنل کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء کی تاریخ مختصراً یہ ہے کہ مغلیہ دور حکومت میں اسلام کا قانون ، ملک کا قانون (Law of the Land) تھا، یعنی سول قانون ہی نہیں بلکہ فوجداری قانون (Criminial Law) بھی اسلام ہی کا نافذ تھا اور اس کے مطابق عدالتوں کا نظم چلا یا جا تا تھا، البتہ غیر مسلموں کو شادی بیاہ ، وراثت اور جائدادوغیرہ کے سلسلے میں ان کے اپنے مذہبی اور روایتی قانون پر چلنے کی پوری آزادی تھی، یعنی ان کے لیے ان کا اپنا پرسنل لاء تھا اور مسلمانوں کے لیے ان کا اپنا پرسنل لا ۔1725ء میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے عدالتوں کی از سر نو تنظیم کی تو انگریز جج قانون دانوں کی مدد سے اسلامی قوانین کے مطابق فیصلے کرتے رہے۔ بعد میں رفتہ رفتہ انگریزی قانون رائج ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ 1822ء میں اسلام کے فوجداری قانون (Criminal law) کوختم کر کے انڈین پینل کوڈ (Indian Penal Code)-جو آج بھی اسی نام سے رائج ہے- نافذ کر دیا گیا، اور نکاح ، طلاق اور وراثت ، ہبہ وغیرہ عائلی اور شخصی امور کی حد تک اسلامی قانون کو باقی رہنے دیا گیا ،لیکن غیر اسلامی تہذیب کے زیر اثر مسلمانوں کی بعض برادریوں میں رواجی قوانین نے اسلامی قانون کی جگہ لے لی تھی۔ مثلاً: ہندو تہذیب کے زیر اثر عورتوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جا تا تھا، اس لیے علمائے کرام اور عام مسلمانوں کے مطالبہ پر انگریزوں کے دور حکومت میں 1937ء میں مسلم پرسنل لاء

(Muslim Personal Law) Shariat 1937 Application Act

کا نفاذعمل میں آیا۔‘‘
یکساں سول کوڈ کیا ہے؟موجودہ حکمراں کے ذہن میں یکساں سول کوڈ کا خاکہ کیا ہے ؟ اس پر کوئی کام نہیں کیا گیا، خدوخال واضح نہیں ہیں، مختلف النوع مذاہب اور روایتوں سے جڑی کمیونٹی پر ایک قانون کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا ہے ۔قوانین کے نفاذکے بعد Amendment (ترمیم )کی گنجائش ہمیشہ باقی ہوتی ہے، اگر اس کا نفاذ درست نہ ہوتو،  اس کے لیے لازم ہے وہ افراد قانون سازی نہ کریں جو ان قوانین سے متعلق نہ ہوں ، مثلاً یہ بات قانون طلاق کے وقت بھی کہی گئی تھی کہ طلاق کا حق اسلام میں موجود ہے، لیکن اس پر صرف علماء کی رائے لی جانی چاہیے اور قانون بنانا چاہیے۔یہ قانون اسلام سے جڑا قانون ہے ،اس کی باریکیوں کو مسلم علماء ہی سمجھ سکتے ہیں، لیکن قانون کا نام تو ٹرپل طلاق رکھا گیا ،لیکن جب قانون بنا تو پتہ چلا کہ اس قانون نے عورتوں کے کتنے حقوق غصب کیے؟ناپسندیدہ بیوی بھی شوہر کے ایک حقارت آمیز رشتہ نبھانے پر مجبور کردی گئی ہے۔اس قانون کے بعد مرد کی جانب سے طلاق ملنے اور اس کے مال ودولت اور مہر ملنے کے بجائے یا تو خلع لینے پر مجبور کرنے کا مزاج مردوں میں پیدا ہوا اور خلع لینے پر مجبور کرنا دراصل عورت کا مال غصب کرنے کی نئی راہ بنانا ہے۔
شریعہ کونسل فیملی کورٹ کے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ طلاق کے نئے قانون کے بعد سے اب تک طلاق حسن کا تناسب گھٹ گیا ہے ،اب صرف خلع لینے پر مجبور کیا جاتا ہے ،جبکہ خلع میں ایک خاتون کو اپنے جائز حق سے بھی محروم کیا جارہا ہے ۔ناپسندیدہ بیوی اور نباہ نہ ہونے پر مرد طلاق دیتا ہے، چونکہ مرد کی جانب سے پہل ہے تو وہ بیوی کو کچھ دے دلاکر بھلے طریقے سے رخصت کرتا ہے ،اور اگر بیوی کی ناپسندیدگی شامل ہوتو وہ سب کچھ معاف کرکے خلع لیتی ہے ۔
کتنا لطیف نکتہ ہے کہ شوہر بیوی کے تعلق میں Compatibility (ذہنی ہم آہنگی )کی سب سے بڑی اہمیت ہے۔ تعلق میں Toxicity ہر دو کی ذہنی صحت کےلیے نقصان دہ ہے ۔وہ علیٰحدہ ہوکر دوسری شادی کے ذریعہ رشتہ نبھا سکتے ہیں ۔انسانی نفسیات وجذبات کی لطافت کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ علیٰحدگی کا راستہ نہ ہوتو ایک دوسرے سے چھٹکارے کے ناجائز راستےکو بند کیا گیاہے ۔
نئے طلاق کے قانون نے ایک مرد کو طلاق سے خائف بنادیا، ساتھ ہی شرعی اعتبار سے اس میں پیچیدگیاں بھی ہیں کہ ایک شخص خاتون کو طلاق دے اور سزا کاٹے اور بعد طلاق وہ اس کی بیوی ہی رہے ؛شرعی اعتبار سے انتہائی غلط ہے۔اب قانون طلاق کے بعد ایک خاتون یا تو میکے چھوڑ دی جارہی ہے،رشتہ معلق ہے ،نہ اس کی ذمہ داری مرد نبھاتا ہے نہ اسے آزاد کرتا ہے۔ اس کربناک حالت کو قانون ساز نہیں جانتے، لامحالہ وہ خلع لینے پر مجبور کی جاتی ہے ۔
ایک فیملی کونسلرنے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس قانون کے بعد سے اب تک ایک بھی طلاق نہیں ہوئی، 25000 خلع کے رجسٹر موجود ہیں ۔قانون بنانے اوراس کے نفاذ کے بعد جانچ کا کوئی طریقۂ کار حکومت اور قانون ساز اداروں کے پاس موجود نہیں ہے ۔
اسی طرح دوسری مثال ہندو میرج ایکٹ ہے ،جس میں پچاس سال پہلے کی گئی ترمیم کے بعد کبھی اس کا سروے نہیں کیا گیا کہ آیا ہندوسسٹرز کو ان کے والد کی پراپرٹی میں برابر کا حصہ دیا جاتا ہے یا نہیں؟پچاس سال سے اب تک کتنے فی صد اس کا نفاذ ہوا ہے؟ کیونکہ ہندو میرج ایکٹ 1955 ءمیں بیٹی کو باپ کی پراپرٹی میں برابر کے حصہ ملنے کی بات کہی جاتی ہے، لیکن وہیں باپ کی وصیت کا آپشن بھی موجود ہے، جہاں باپ وصیت میں پوری پراپرٹی اپنے بیٹے کے نام یہ کہتے ہوئے کرتا ہے کہ بیٹی کے کنیا دان پر خرچ کردیا گیا تھا ۔اس لیے ہندوؤں میں اصلاً بیٹی کو حصہ ملنے کی عملی صورت موجود ہے،جبکہ اسلامی شریعت میں وارث کے حق میں قرآن کی رو سے اس طرح کی وصیت کی کوئی گنجائش نہیں بنتی ۔
تیسری مثال جس کو ابھے کمار نے اپنے آرٹیکل میں نقل کیا ہے کہ جھارکھنڈ،اڈیشہ اور چھتیس گڑھ کے قبائلی آدی واسی جوقانونی بندش اور روایت پسندی کی بناپر اپنی زمینوں کو نہ بیچتے ہیں،نہ ہی غیر آدی واسی کو بیچ سکتے ہیں،ان ریاستوںمیں معدنیاتی ذخائر سے مالامال زمینوں کا حصول سرمایہ داروں کے لیے آسان نہیں ہے۔یکساں سول کوڈ کے ذریعہ اس پر بھی ان سرمایہ داروں کی نگاہ ہےجن کی حکمراں طبقے سےدوستی ہے، تاکہ یکساں سول کوڈ کی قانون کی رو سے ان کی زمینوں کے حصول کو بھی آسان بنایا جاسکے۔
بظاہر تو اس میں مسلم منافرت کی سیاست نظر آرہی ہے لیکن اس شعبدہ بازی کا نشانہ ملک کے محروم طبقات بھی ہیں ۔فائل کے لیے قانون بننے ہوں اور سیاست کھیلنے کےلیے بنانے ہوں تو یہ بازی گری ہوسکتی ہے، عملاً سوسائٹی کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔
اسی طرح اس کی مزید ایک مثال ہندو میرج روایت کی ہے، جہاں ہندو روایت کی رو سے شادی کے سات پھیرے اتنے لازم سمجھے جاتے ہیں کہ پھیرے اگر پانچ بھی ہوجائیں تو شادی قابل قبول نہیں ۔بات یکساں سول کوڈ کی ہوگی تو کنٹراکٹ میرج بنایا جائے گا ،کیا صرف سائن کرکے ایجاب وقبول پر ہندو کمیونٹی اکتفا کرسکتی ہے ؟ یہ بہت بڑا سوال ہے ۔
حکومت کو سمجھنا چاہیے ایک رات میں نوٹ بندی کا اعلان ،GST کا آناً فاناً اعلان یا ایک دم 370 کاخاتمہ ، ایک ہفتے میں طلاق کا قانون اور ایک مہینے میں شہریت بل کی پیش کش ، بغیر کسی ہوم ورک کے کسان بل ، ایک رات میں مظلوم طالب علم کی گرفتاری ، چار گھنٹوں میں بلڈوزر پھیر کر گھروں کا انہدام؛ یہ ظلم کی مختلف شکلیں اور سیاست کی بازی گری تو ہوسکتی ہے ،لیکن ملک و عوام کی بھلائی کے کام نہیں ہیں۔
حکومت نے عوامی رائے طلب کی ہے اور مخالفتیں آنا بھی شروع ہوچکی ہیں۔میگھالیہ ٹرائبل کونسل صدر نے ایک قراداد پیش کی ہے، جس میں یکساں سول کوڈ کے متعلق یہ کہتےہوئے مخالفت درج کروائی ہےکہ ہم اپنی روایت سے جڑے ہیں اور اسی پر قائم رہیں گے۔
یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے جھارکھنڈ میں 30 سےزیادہ قبائلی اداروں کے نمائندے آدیواسی سمنوَے سمیتی (اے ایس ایس) کے بینر تلے رانچی میں جمع ہوئے،اور اس بات پر تبادلۂ خیال کیا کہ UCC (یکساں سول کوڈ )قبائلی رواج کو کمزور کر سکتا ہے۔قبائلی اداروں نے لاء کمیشن پر زور دینے کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ یکساں سول کوڈ کو واپس لے،کیونکہ اس سے ان کی شناخت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ انہوں نے بھی یو سی سی پر تازہ مشاورت کے خلاف احتجاج شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
اے ایس ایس کے رکن دیو کمار دھان نے کہا کہ میٹنگ میں ہم نے لاءکمیشن کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قبائلی تنظیمیں 5 جولائی کو راج بھون کے قریب یو سی سی کے خلاف مظاہرہ کریں گی اور گورنر کو ایک محضر پیش کیا جائے گا۔ بہار کے سابق رکن اسمبلی دیویندر ناتھ چمپیا نے کہا کہ آئین کی بنیاد پر پانچویں شیڈول کا اطلاق قبائلی علاقوں پرہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ وہاں مشترکہ قانون لاگو نہیں ہے اور اسی وجہ سے قبائلیوں کو ہندوستانی جانشینی ایکٹ اور ہندو میرج ایکٹ میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیا کوہیما نے بھی لاءکمیشن کی اس پر آراء مانگنے کے خلاف احتجاج درج کروایا۔جھارکھنڈ میں 30 سےزیادہ قبائلی اداروں کے نمائندے آدیواسی سمنوے سمیتی (اے ایس ایس) کے بینر تلے رانچی میں جمع ہوئے۔اسی طرح میگھالیہ کی ایک قبائلی کونسل نے اپنے دائرہ ٔاختیار کے علاقوں میں مجوزہ یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) کے نفاذ کی مخالفت کرنے کے لیے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی ہے۔
‏UCC کا تصور شادی، طلاق، وراثت، گود لینے اور جانشینی سے متعلق ذاتی قوانین کا ایک مشترکہ مجموعہ ہے ،جو مذہبی وابستگیوں سے قطع نظر تمام شہریوں پر لاگو ہوگا۔
ہفتے کے روز قرارداد پیش کرتے ہوئے، خاصی ہلز خود مختار ڈسٹرکٹ کونسل (KHADC) کے چیف ایگزیکٹو ممبر Pyniaid Sing Syiem‏ نے کہا کہ یکساں سول کوڈ UCC خاصی برادری کے رسم و رواج، روایات، طریقوں، وراثت، شادی اور مذہبی آزادی کو متاثر کرے گا۔ خاصی برادری میں سب سے چھوٹی بیٹی خاندانی جائیداد کی نگہبان بن جاتی ہے۔خاصی ایک مادری برادری ہے جہاں سب سے چھوٹی بیٹی خاندانی جائیداد کی نگران بنتی ہے اور بچے کو اس کی یا اس کی ماں کا نام دیا جاتا ہے۔ KHADC کے زیر انتظام علاقوں پر کمیونٹی کا غلبہ ہے۔میگھالیہ میں دو دیگر کمیونٹیز: گارو اور جینتیا بھی ہیں اور گارو ہلز خود مختار ضلع کونسل اور جینتیا ہلز خود مختار ضلع کونسل کے زیر انتظام ہیں۔
ایوان (کونسل) نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا۔یکساں سول کوڈ کی کوشش ماضی میں بھی ناکام ہوچکی ہے۔ اب تک کی صورتحال سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کے لیے اور ملک کی سالمیت کے لیے خیر کاباعث نہیں ہوگا۔جس طرح راستے تعمیر کرنے میں وقت لگتا ہے، اسی طرح سماجی قوانین کی نزاکت کو سمجھ کر ترمیم کرنے میں وقت لگتا ہے ۔بے جان تعمیر کو مشکل جان لیا جائے اور انسانی سماج کی قانون سازی کو بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھنا مہنگا بھی پڑ سکتا ہے۔
رہی بات مسلم پرسنل لاء کی، تو جب بات قانون کی ہوگی، ہم بحثیت مسلمان یہ یقین رکھتے ہیں کہ ملک کا انٹلیکچول طبقہ ہر قسم کے قوانین کا مطالعہ کرے گا اور قانون خداوندی کی حقانیت کو دل میں تسلیم کرے گا ۔وہ مسلمان بھی جنہیں قوانین ازبر ہونےچاہیےتھے، وہ اب اس طرف رجوع کریں گے ۔
تاہم یاد رہے کہ یکساں سول کوڈ سب سے بڑا مسئلہ ملک کی ہندو اکثریت کا ہے، مسلمانوں کا نہیں ۔حکومت ہندوستانی سماج کی بہبود کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے تو چاہیے کہ:
( 1) سب سے پہلے تو یہ کہ لا کمیشن ایک ایسے مسئلے پر رائے مانگ رہا ہے جس کا کوئی ڈرافٹ ہی تیار نہیں ہے ۔اسٹینڈرڈ اورمعیاری پروسیجر سے پہلے یکساں سول کوڈ کی بات چھیڑنا ہی دراصل افراتفری پھیلا ناہے۔Standard procedureسے مراد یہ کہ اگر لاء میںترمیم کا مقصدواقعی سوسائٹی کی بھلائی ہوتو ہوم ورک کیا جائے اور تمام مذاہب اور کمیونٹی کے ماہرین مل کر اس پر ہوم ورک کریں کہ بنایا گیا قانون کسی بھی مذہب کی اصل روح یا روایت اور شناخت کی جذبات کو متاثر تو نہیں کرتا ہے؟ سماج کے لیے کون سا قانون بہتر ہے؟ اس پر اسی مذہب کے ماہرین درمیانی راہ نکال سکتے ہیں ،نہ کہ عوامی رائے اور ٹی وی ڈبیٹ کے نام پر فضول چیخ وپکار اس کا سنجیدہ حل نکال سکتی ہے ۔
(2) ہندوستان میں موجود تمام مذاہب کےماہرین کے ساتھ ان کے پرسنل لاء کی باریکیوں پر غور کرنا چاہیے۔ تمام مذاہب کے دھرم گروؤں کو اعتماد میں لیے بغیر پیش قدمی ملک کی سالمیت کے خطرہ ہے ۔
(3)’ سب کا ساتھ، سب کا وکاس ‘یہ صرف نعرہ کی حد تک نہ رہے، اس پر عملاً حکومت کو اقدام کرنا چاہیے اور عوامی اعتماد کو اب مزید متزلزل نہیں کرنا چاہیے۔
(4) یکساں سول کوڈ ہندوستان میں کسی ایک مذہبی گروہ کا مسئلہ نہیں،پورے ملک کا مسئلہ ہے، اس لیے ہر ایک کو ٹرائبل کمیونٹی کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔
(5)جاری نظام میں

Arbitratiom Court
Family Court

Reconciliation Proceduresوغیرہ کے ذریعے خود بھارتی عدالتی نظام سماج سے چاہتا ہے کہ ان کے مختلف عائلی مسائل آپس میں حل کر لیے جائیں، ایسے میں مرکزیت اور یکساں ضابطے کا جبری نفاذ اس عمل کے خلاف ہی جائے گا۔ کمیونٹی کا اپنے ہی نجی عدالتوں میں ڈسپوٹ کو حل کرنے کی کوشش زیادہ اہم ہے، اسے جاری رکھنا چاہیے۔ مرکزی حکومت کی اس میں مداخلت سراسر سیاسی شعبدہ بازی کے سوا کچھ نہیں ۔
(6) یکساں سول کوڈ کی تبدیلی سے پہلے اس پر بھی غور کیا جائے کہ عدالتوں میں جتنے کریمنل کیس ہیں وہی سرد خانے میں برسوں پڑے رہتے ہیں ، فیملی کورٹ عدالتوں کے بوجھ کو کم کرنے کااچھا نظام ہے ،اسے مزید مستحکم کرنا چاہیے ۔نیزہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ لاءکمیشن کی لی گئی رائے پر اپنا احتجاج درج کروائے، تاکہ ملک کے سیاسی ماحول مزید بگڑنے سے روکا جاسکے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

تیسری مثال جس کو ابھے کمار نے اپنے آرٹیکل میں نقل کیا ہے کہ جھارکھنڈ،اڈیشہ اور چھتیس گڑھ کے قبائلی آدی واسی جوقانونی بندش اور روایت پسندی کی بناپر اپنی زمینوں کو نہ بیچتے ہیں،نہ ہی غیر آدی واسی کو بیچ سکتے ہیں،ان ریاستوںمیں معدنیاتی ذخائر سے مالامال زمینوں کا حصول سرمایہ داروں کے لیے آسان نہیں ہے۔یکساں سول کوڈ کے ذریعہ اس پر بھی ان سرمایہ داروں کی نگاہ ہےجن کی حکمراں طبقے سےدوستی ہے، تاکہ یکساں سول کوڈ کی قانون کی رو سے ان کی زمینوں کےحصول کو بھی آسان بنایا جاسکے۔

Comments From Facebook

5 Comments

    • Shahida

      Galat hai

      Reply
  1. Shahida

    Haadiya

    Reply
  2. Mahjabeen

    Ye galat horha hai bhut galat Aisa nahi hona chahiye Mai ye nhi chahati ye kannon badle jaisa tha wosa hi rhe ye meri darkhawast hai aap se

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے