جولائی ۲۰۲۳

’’تمہاری پہلی غلطی۔‘‘ اس نے انگشت شہادت اٹھائی۔
’’تم مسلمان تھیں، مسلمان صرف اور صرف اللہ کو خالق و حاکم جانتا ہے۔ تم نے اس کی ذات و صفات میں شرک کیا۔‘‘
’’نمبر دو۔‘‘اس نے دوسری انگلی اٹھائی۔
’’تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ہدایت، رہنمائی اور روشنی سے لبریز کلام موجود تھا۔ تم نے اسے طاق میں سجاکر اسے شوپیس بناکر رکھ دیا۔ بجائے اس کو کھول کر پڑھنے اور اس میں بتائے گئے نصائح و احکام سے بہرہ مند ہونے کے، تم نے اسے صرف چومنے کی تک محدود رکھا۔ ہمارا رب فرماتا ہے: قرآن ہم سب کے لیے بصارت کی روشنیاں ہے اور یقین لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔‘‘
’’نمبر تین،تم نے کبھی اپنے دین (اسلام) کا شعوری مطالعہ نہیں کیا۔اپنے دین کو تم نے کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر تم قرآن کو سمجھ کر پڑھتیں، تو اپنے دین کو جان پاتیں۔ نمبر چار،تمہارے پیرنٹس نے تم پر پابندیاں لگائی ہوئی تھیں، تو تم سوچا کرتی تھیں کہ لڑکیوں کے لیے اسلام نے کوئی حق نہیں دیا، یہ تم نے خود فرض کرلیا تھا، تمہیں چاہیے تھا کہ تم پہلے معلوم کرتیں کہ آیا اسلام میں عورتوں کے حقوق ہیں یا نہیں؟ تم قرآن سے معلوم کرتیں۔ تم نے براہ راست کہہ دیا کہ اسلام نے خواتین کو کوئی حق نہیں دیے۔ یعنی یہ کہا کہ اللہ نے کوئی حق نہیں دیا۔ معاذ اللہ! یہ تم نے تو اللہ پر بہتان باندھ دیا۔‘‘کہہ کر علیزہ نے توقف کیا۔
’’نمبر پانچ،تم نے ایک غیر لڑکے سے تعلقات قائم کیے۔اور اپنی فیملی کے علم میں لائے بغیر اس سے شادی کرلی۔ نیز اللہ نے جن کاموں کے بارے میں سختی سے تنبیہ کی ہے کہ تمہیں ان کے قریب بھی نہیں پھٹکنا چاہیے۔ وہ تمام کام تم کر گزریں۔ اور ایسے لوگوں کے لیے فریا! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: دردناک عذاب تیار کررکھا ہے۔ اس ختم ہونے والی دنیا اور نہ ختم ہونے والی دنیا، دونوں میں سوائے ذلّت و رسوائی کے اور کچھ نہیں۔‘‘ علیزہ نے اس کو بغور دیکھتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز سے کہا۔
’’اور اب، جس راہ کو تم نے اپنی مرضی سے چنا تھا، وہاں بھی فریب اور خارملے تو تم اسے ترک کرکے پھر کسی اور راہ پر چل نکلنے کے لیے تیار ہو۔ تم نے مذہب کو کھیل بناکر رکھ دیا ہے۔ جب جی چاہااپنا لیا، جب جی چاہا ترک کردیا۔‘‘ علیزہ نے فریا کی آنکھوں میں جھانکا۔
’’تمہاری معلومات کے لیے بتاتی چلوں فریا! کہ اسلام نے جتنے حقوق خواتین کو دیے ہیں، اتنے کسی نے بھی نہیں دیے۔اسلام نے لڑکیوں کو زندہ رہنے کا حق دیا، انہیں آزادی دی ہے، لیکن کچھ حدود مقرر کیے ہیں، جو ہمارے ہی تحفظ اور امن کے لیے ہیں۔ لڑکیوں کو اسلام نے حق وراثت دیا ہے، حق مہر دیا ہے۔ اور کئی حقوق ہیں جو اسلام نے لڑکیوں کو دیے ہیں۔ ہم جانتے ہی نہیں ہیں۔ اسلام میں ہوتے ہوئے بھی ہم نہیں ہیں۔‘‘علیزہ سانس لینے کے لیے رکی، اوراس نے ایک گہری سانس لی۔
اب وہاں خاموشی طاری تھی۔ فریا کے لب ایک دوسرے میں پیوست تھے۔ اس کے چہرے سے کچھ ظاہر نہیں تھا کہ وہ کیا سوچ رہی ہے۔ اس خاموشی کو سحرش کی آواز نے توڑا۔’’تم کہہ رہی تھیں علیزہ کہ ’’بہو لاؤ، بیٹی بچاؤ‘‘اس مہم میں صرف غیر شادی شدہ لڑکیوں کو ہی نہیں، بلکہ شادی شدہ لڑکیوں کو بھی پھنسایا جا رہاہے۔‘‘ سحرش کی سوئی ابھی بھی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔
’’بالکل۔ تمھارے گھر میں بھی قرآن کو صرف مرحومین کی بخشش اور شادی بیاہ کے موقع پر پڑھا جاتا ہے۔ کتنے قرآن ختم کرنے ہیں، اور اس عمل میں کتنا دوسروں پر سبقت لے جانا ہے۔ یہی تم لوگوں کا مقصد ہے۔ایک بات بتاؤ، تم لوگ ڈاکٹر بن رہی ہو،کبھی نصاب کی کتاب کو سرسری پڑھا؟ نہیں ناں، کہ ایسا پڑھوگی تو تم ڈاکٹر نہیں بن پاؤگی۔ کامیاب نہیں ہوپاؤگی۔‘‘اس نے ان تینوں کو دیکھا۔
’’بالکل اسی طرح تم قرآن مجید کوسمجھنے کے مقصد سے نہیں پڑھوگی، اس پر عمل نہیں کروگی تو اِس جہان اور اُس جہان، دونوں میں فیل ہوجاؤگی۔‘‘سحرش نے اس کی بات کو سمجھتے ہوئے سر ہلایا۔
’’قرآن کو سمجھ کر پڑھو۔ اپنے ہر مسئلے کا حل قرآن میں ڈھونڈو۔‘‘ پھر اس نے تینوں کو دیکھا اور گویا ہوئی۔ 
’’سارے مسئلے اور پریشانیاں قرآن سے دوری کے نتیجے میں آتی ہیں۔ ہم قرآن سے اتنا گہرا تعلق جوڑیں، اللہ سے رابطہ اس طرح استوار کریں کہ خواہ کوئی کام ہم کررہے ہوں، چھوٹا یا بڑا، عام یا خاص، معمولی یا غیر معمولی، سب سے پہلے ہمیں اللہ یاد آئے۔ سب سے پہلا خیال اللہ کے کلام (قرآن مجید) کا آئے۔ اس کے بعد دل اور دماغ خود سے سوچنے لگ جاتے ہیں کہ آیا یہ کام جو ہم کررہے ہیں، صحیح ہے یا غلط۔ پھر خودبخود کام صحیح ہوتے جاتے ہیں۔ ہمارے کاموں میں برکت آتی ہے۔ اور اللہ کی رحمتیں ہم پر سایہ فگن ہوتی ہیں۔‘‘

٭ ٭ ٭

سحرش نے گھر جاکر سب سے پہلے اپنے ابا کو اپنے اوپر ہونے والے مظالم سے آگاہ کیا۔ اس کے والد اس کی بات سنتے ہی آگ بگولہ ہوگئے۔ غصے میں انھوں نے فوری پولیس میں کمپلین کردی۔ پولیس عورت پر تشدد کرنے کے جرم میں اس کی ساس اور شوہر کو اپنے ساتھ لے گئی۔ اور انہیں قید کردیا۔سحرش ان سے ملنے پولیس اسٹیشن گئی۔ اس کی ساس اسے دیکھتے ہی معافیاں مانگنے لگی۔ سحرش نے انہیں بتایا کہ جہیز کے لیے وہ اس پر ظلم کررہے تھے، تو بدلے میں جیل کی سزا کاٹ رہے تھے۔جہیز،جس کی اسلام میں کوئی اہمیت نہیں۔ قرآن میں کہیں پر بھی جہیز کا ذکر نہیں ہے۔ یہ ایک ہندوانہ کلچر ہے۔ جوہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں مسلمان بھی رسم کے طور پر ادا کررہے ہیں۔ اور جس کی وجہ سے دونوں پارٹیز (لڑکی کے میکہ اور سسرال)میں تناؤ پیدا ہوتا ہے۔ تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ غرض زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں۔
اس کے شوہر اور ساس کو اپنی زیادتیوں کا احساس ہوچکا تھا۔ وہ گڑگڑا کر ان سے معافی مانگ رہے تھے۔ ان کی منت کررہے تھے۔ آخر سحرش کے والد کو ان پر رحم آہی گیا، اور انہوں نے معافی نامہ دے دیا۔ اس کی ساس اور شوہر نے رہا ہوکر توبہ کرلی،اور سحرش کا بیٹی کی طرح خیال رکھنے لگے۔ اسے کالج جانے کی بھی اجازت دے دی۔سحرش نے اپنے گھر میں ترجمان القرآن لا کر رکھ دیا، اور اپنے ابا سے کہا:’’ابّا! آپ کی بیماری کی ایک وجہ آپ کا ڈرنک کرنا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو پہلے ہی شراب سے منع کررکھا تھا۔ شراب کو ایک گندا شیطانی کام قرار دیا ہے۔ ان سے پرہیز کرنے کا حکم دیا ہے۔شراب کو حرام اور ام الخبائث(برائیوں کی ماں)کہتے ہیں۔ لیکن ہم سب کچھ ختم ہوجانے کے بعد سمجھتے ہیں۔ کاش پہلے ہی یہ سب سمجھ لیا ہوتا! ہمارے لیے کتنی آسانیاں کردی ہیں اللہ نے۔ آج آپ کا لیور اتنا خراب نہ ہوتا ابا!‘‘سحرش نم آنکھوں سے کہہ رہی تھی۔ اس نے اپنی امی، ابا، اور دادی ماں کو قرآن کے حقوق سے روشناس کرایا۔ انہیں اب تک چلی آرہی غلطیاں بتائیں۔ ان سب نے توبہ کرلی۔ انہوں نے قرآن کو محض مرحومین کی بخشش کے لیے اور شادی کے موقع پر تلاوت کرنے کی حدود سے آزاد کرکے اس کو سمجھ کر پڑھنا شروع کر دیا۔

٭ ٭ ٭

فریا کے لیے یہ بہت سخت مرحلہ تھا۔ دوبارہ سے اسلام میں داخل ہونا۔لیکن اب کی دفعہ وہ پورے فہم و شعور کے ساتھ اس دین کو اپنا رہی تھی۔
’’اے ایمان لانے والو!تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ۔ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔‘‘(البقرہ)
اسے لگ رہا تھا یہ آیت اسی کے لیے ہے۔ اس کی فیملی نے پہلے اس پر بہت لعنت و پھٹکار کی تھی۔ لیکن دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر آخر اسے گھر میں آنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ لیکن وہ اس کا مکمل بائیکاٹ کیے ہوئے تھے۔ فریا کو اس بات پر پہلے دکھ تھا کہ اپنی فیملی کو ٹھکرا کر اس نے جس کا ہاتھ تھاما،اس نے بھی اسے دھوکا دیا۔ وہ فریب کار تھا۔ فریا نے اللہ کے حضور تمام گناہوں کی معافی مانگی۔ وہ توبہ کرچکی تھی۔ لیکن اسے اس بات کا یقین تھا کہ پوری زندگی بھی وہ معافی مانگتی رہی تو اتنی آسانی سے اسے معافی نہیں ملنے والی۔ اس کے سمجھانے پر، قرآن مجید سنانے پر، اس کی فیملی نے بھی شرک چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے توبہ کرلی تھی۔ اور نیک کاموں میں جت گئے تھے۔ لیکن خوفزدہ وہ بھی تھے کہ انہیںمعافی ملے گی بھی یا نہیں۔ فریا سوچ رہی تھی کہ شاید ان لوگوں کو معافی مل بھی جائے۔ لیکن اسے نہیں مل سکتی۔ وہ کافر بھی تھی اور مشرک بھی رہ چکی تھی۔ اس کو پوری زندگی معافی ہی مانگنی تھی۔ وہ یہ بھول گئی تھی کہ اللہ قہا ر ہے تو جبار اور غفار بھی ہے۔ وہ سزا دیتا ہے تو معاف بھی کرتا ہے۔ وہ غفور و رحیم ہے۔

٭ ٭ ٭

عمیمہ صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ آج اس نے مکمل لباس زیب تن کیا تھا۔ اس کی تصاویر سوشل میڈیا سے ہٹ چکی تھیں۔ وہ خوش تھی۔ اس نے بچپن میں ناظرہ قرآن کے بعد کبھی قرآن کو کھول کر نہیں دیکھا تھا۔ نہ اس کی فیملی میں کبھی کوئی قرآن مجید کی تلاوت کرتا تھا۔ آج لاؤنج میں پاپا، ممی، بھائی، آرزو، حاشر اور اس کا چار سالہ بھتیجا، سبھی بیٹھے تھے۔ اس نے اسکارف لپیٹا اور شیلف میں اوپر رکھا قرآن مجید اٹھا لائی۔ اس پر گرد کی دبیز تہ تھی۔ اس نے گرد صاف کی اور قرآن مجید کھول کر تلاوت شروع کردی۔

 بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

(اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور نہایت رحم فرمانے والا ہے۔)
وہ ترجمہ بھی پڑھتی جارہی تھی۔ سب ہمہ تن گوش باادب بیٹھے اسی کو سن رہے تھے۔

 اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن

 (تمام تعریفیں اور شکر اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام کائنات کا رب ہے۔)

الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

(نہایت مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔)عمیمہ کی زبان کپکپا گئی۔

مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ

(روز جزا کا مالک ہے۔)

اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ

(ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔)

اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ

(ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔)

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ

(ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام فرمایا۔)

غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ

(جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔)(سورۃ الفاتحہ)
اس نے نم آنکھوں کے ساتھ ’’آمین‘‘ کہا، اور سر اٹھایا۔ سب اسی کو دیکھ رہے تھے۔ وہ مسکرادی۔

٭ ٭ ٭

’’میں نے کچھ غلط تو نہیں کیا ناں بابا؟‘‘ علیزہ اپنے بابا کے ساتھ بیٹھی تھی۔
’’نہیں بیٹا!بہت اچھا کام کیا تم نے۔‘‘ سعادت نے جواباً کہا۔
’’لیکن بہت باتیں سنا دیں میں نے انہیں۔ اب مجھے برا لگ رہاہے۔ لیکن میں نے دانستہ ایسا نہیں کیا بابا! مجھے بہت غصہ آگیا تھا۔ مجھے یہ بھی خیال آرہا ہے کہ مجھے انہیں یہ سب باتیں نہیں کہنی چاہیےتھیں۔ ان کے گھر کے لوگ کوئی مسئلہ کھڑا کردیں تو؟ وہ یہ سمجھیں کہ میں ان کی بیٹیوں کو بہکا رہی ہوں، تو؟‘‘
’’اللہ تعالیٰ تمہارے لیے بھی اور ان کے لیے بھی آسانیاں پیدا کردے گا۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے:
اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جس کے ذمہ اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے؟ (القرآن)
اور راہ راست پر لانے والا تو اللہ ہے بیٹا۔ اگر وہ ہدایت پانا چاہیں تو اللہ انہیں راہ راست پر لے آئے گا۔ اور تم زیادہ پریشان نہ ہو، کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ سعادت نرمی سے کہہ رہے تھے۔
’’ان کے ساتھ اتنے برے برے واقعات پیش آئے، اگر اب بھی نہ سمجھیں تو سمجھ لینا اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے۔ قرآن کو سمجھ کر نہ پڑھنے والے، اس پر عمل نہ کرنے والے، اس سے نصیحت نہ لینے والے، اس پر تدبر نہ کرنے والے، اس سے منہ موڑنے والے، دنیا اور آخرت دونوں میں اسفل السافلین میں شمار ہوجاتے ہیں بیٹا! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: 
ہم نے قرآن کو نصیحت کی خاطر آسان بنادیا۔ پس کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟(سورۃالقمر : 33)
مسلمانوں کے زوال اور پستی کی اصل وجہ یہی ہے بیٹا کہ وہ قرآن کی تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں۔‘‘
’’بابا! فریا کی طرح کی دوسری لڑکیاں بھی جو ہندوؤں کی اس سازش کا شکار ہوگئی ہیں، وہ بھی واپس مسلمان ہو سکتی ہیں؟‘‘
’’ایسی لڑکیوں کو چونکہ حق سنانے والا کوئی نہیں ہے۔ اس لیے ان کا راہ راست پر آنا مشکل امر ہے۔ مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ تمہاری فرینڈ اس چنگل سے کیسے پیچھا چھڑا آئی۔ اس کو اس غیر مسلم لڑکے سے دھوکا ملنا، اس کا مدد کے لیے تمہارے پاس آنا، تمہارا اسے اللہ کا کلام سنانا، اور اس کا دل پھر جانا، یہ سب صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوا ہے۔ یقینا ًاس کی کوئی نیکی اللہ کو پسند آگئی ہوگی۔ ورنہ لہروں کو مخالف سمت موڑ کر راستہ بنانا، ناممکن بات ہے۔ ہواؤں کا رخ صرف اللہ بدل سکتا ہے۔

 واللہ اعلم۔‘‘
’’واللہ اعلم۔‘‘

علیزہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’ہندو انتہا پسندوں کی اس سازش سے اپنی بچیوں کو بچانا ہو تو والدین اپنے گھر میں ایسا ماحول پیدا کریں کہ بچوں کے بھٹکنے کے امکان ہی نہ ہوں۔ گھر میں ہی قرآن کی باتیں ہوں۔ قرآن کی تلاوت ہو۔ عہد نبویؐ میں خواتین مساجد میں جایا کرتیں، خطبے سنتیں، درس قرآن سنتیں اور سناتیں، جس سے ان کا ایمان ہمیشہ تازہ رہتا۔ قرآن کی تعلیمات سے وہ واقف ہوتیں۔ غلط کام کی طرف رغبت نہ ہونے کے برابر ہوتی۔آج خواتین کو مساجد میں آنے سے روکا جاتا ہے۔ چند ایک ممالک کے علاوہ پوری دنیا میں خواتین کا مساجد میں داخلہ ممنوع ہے۔ اس محرومی کی وجہ سے بھی خواتین اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں۔ جس کے باعث وہ غلط راہ پر چل پڑتی ہیں۔ خواتین کے لیے بھی مساجد کے دروازے کھول دینے چاہئیں۔ قرآنی درسگاہوں کو عام کرنا چاہیے۔ گھر گھر قرآن کی تحریکیں چلانی چاہئیں۔ اور ہر گھر میں قرآن کی تلاوت، اس کا ترجمہ، اور اس کو سمجھ کر پڑھنا عام کرنا چاہیے۔ جس کے نتیجے میں مشکلات، پریشانیوں، فسادات، شر انگیزیوں، ذلتوں، رسوائیوں، فتنوں اور امراض سے یقیناً یہ قوم محفوظ رہے گی،اور معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے گا۔‘‘

٭ ٭ ٭

علیزہ اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس بیٹھی باہر دیکھ رہی تھی۔ بادل جو اپنے اندر اتنے دنوں سے نہ جانے کتنا غبار سموئے بیٹھے تھے، آج رات وہ خوب روئے۔ ان کی آنکھیں اتنی برسیں کہ ساری آلودگی ان کے آنسوؤں کے ساتھ بہہ گئی۔ ساری دھند چھٹ گئی۔ اور بصارت صاف ہوئی۔ پھر وہ مسکرادیے۔ اور آسمان کو الوداع کہہ کے چلے گئے۔ نورِ الٰہی سے ہر گھر منور ہوا۔ علیزہ کی آنکھیں بھیگ گئیں۔اس نے اپنا فرض ادا کردیا۔ اس نے دوستی کا حق ادا کردیا تھا۔ وہ قرض سے نجات پاگئی تھی۔

٭ ٭ ٭

علیزہ، عمیمہ، سحرش اور فریا؛ چاروں عبایا میں ملبوس ایک ساتھ چلتی ہوئی کالج جارہی تھیں۔ آج وہ چاروں مطمئن تھیں۔ سامنے کالج کی عمارت کے پیچھے سے نئے دن کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔آج آزادی کا دن تھا۔ ارتداد سے آزادی کا، شرک کی نجاست اور توہم پرستی پر مبنی تہذیب سے آزادی کا، بت پرستی اور کفر سے آزادی کا، انسانوں کی اشرف اور ارذل پر مبنی تہذیب سے آزادی کا، اور ہر قسم کی قید سے آزادی کا دن۔اور ’’توبۃ ً نصوحاً‘‘،اللہ کی طرف واپسی، قرآن کی طرف واپسی کا دن۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے