جولائی ۲۰۲۳
زمرہ : النور

 أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلۡهٰٮكُمُ التَّكَاثُرُۙ‏ ۞ حَتّٰى زُرۡتُمُ الۡمَقَابِرَؕ ۞ كَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَۙ‏ ۞ ثُمَّ كَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَؕ ۞ كَلَّا لَوۡ تَعۡلَمُوۡنَ عِلۡمَ الۡيَقِيۡنِؕ ۞ لَتَرَوُنَّ الۡجَحِيۡمَۙ ۞ ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيۡنَ الۡيَقِيۡنِۙ ۞ ثُمَّ لَـتُسۡئَـلُنَّ يَوۡمَئِذٍ عَنِ النَّعِيۡمِ ۞
( سورۃ التكاثر ،آیت: 1-8 )

ترجمہ:تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے۔ یہاں تک کہ (اسی فکر میں) تم لب گور تک پہنچ جاتے ہو۔ ہرگز نہیں، عنقریب تم کو معلوم ہو جائے گا۔ پھر (سن لو کہ) ہرگز نہیں، عنقریب تم کو معلوم ہو جائے گا۔ ہرگز نہیں، اگر تم یقینی علم کی حیثیت سے (اِس روش کے انجام کو) جانتے ہوتے (تو تمہارا یہ طرز عمل نہ ہوتا)۔ تم دوزخ دیکھ کر رہو گے۔ پھر (سن لو کہ) تم بالکل یقین کے ساتھ اُسے دیکھ لو گے۔ پھر ضرور اُس روز تم سے اِن نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔

یہ مختصر سی سورۃ شعور و جدان کو جھنجھوڑ دینے والی بہت ہی جامع اور بلیغ سورۃ ہے۔ اس میں لوگوں کو دنیا پرستی کے برے انجام سے خبردار کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ مرتے دم تک زیادہ سے زیادہ مال و دولت ، عزّت و شہرت،عہدہ و منصب حاصل کرنے اور ان پر فخر کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بینک بیلنس سب سے زیادہ رہے، معیار زندگی کی دوڑ میں وہ سب کو پیچھے چھوڑ دیں۔ پس اسی کوشش میں ساری زندگی ختم ہو جاتی ہے اور اس کے بعد کے مراحل، قبر کی تاریک کوٹھری، میدان حشر ، جزا و سزا، بھڑکتی ہوئی جہنم جو غافل لوگوں کا ٹھکانہ ہے۔ان چیزوں پر غور کرنے اور اس کی تیاری کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔

’’تکاثر ‘‘کامعنیٰ ہے مال و اولاد کی کثرت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش، تگ و دو کرنا۔ اور’’ الہا‘‘ کا معنیٰ ہےغافل کرنا، لہو و لعب میں مشغول ہو کر مقصد سے غافل ہونا۔ عرب جاہلیت میں مال میں تکاثر کے ساتھ اولاد کے تکاثر کا جذبہ بھی پایا جاتا تھا۔ اب موجودہ دور میں مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر مسلم سماج میں بھی خاندانی منصوبہ بندی کا تصور غالب ہے، اس وجہ سے اب اولاد کی کثرت کا رجحان ختم ہو گیا ہے البتہ معیار زندگی کا تصور غالب ہے، البتہ معیار زندگی کو بلند کرنے میں پوری طاقت، وقت اور صلاحیت لگا دی جاتی ہے جس کی کوئی حد و انتہاء نہیں ہے۔

اس عارضی دنیا کی نعمتوں کے حصول میں ہر دن تسابق و مقابلہ آرائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ اس تکاثر کی برائی سے پاک نہیں، خواہ تعلیم کا میدان ہو یا معاشی سرگرمیاں۔ حتی ٰکہ عبادات میں بھی مذموم مقابلہ آرائی ہوتی ہے، مسجد کی تعمیر میں تفاخر، قربانی کے جانور میں تفاخر، انفاق کی تختیاں لگانا، نکاح کے مراسم میں حد سے زیادہ تفاخر اور مقابلہ آرائی؛ حتی کہ موت کے بعد بھی مفاخرت کا سلسلہ بند نہیں ہوتا۔ عربی کا ایک شعر ہے:

أبوا الامباہاۃً و فخراً
علی الفقرائِ حتی فی القبور

( عالیشان مقبروں کی تعمیرتک میں اہل ثروت غریبوں پر فخر جتاتے ہیں۔)

حتی زرتم المقابر

اس کا مفہوم یہ ہے اسی تکاثر کی تگ و دو میں پوری زندگی ختم ہو جاتی ہے اور لوگ قبروں میں جا پہنچتے ہیں۔ زیارت کا مطلب اس دنیا کی زندگی سے نکل کر قبر کے عارضی مسکن کی زیارت کرنا ہے۔ اس کے بعد اپنے دائمی مستقر کی طرف جانا ہوگا۔ اس عارضی تنگ و تاریک کوٹھری میں آخرت کے اچھے اور برے انجام کا مشاہدہ کرا دیا جاتا ہے۔
آگے کی آیات میں غفلت میں پڑے انسانوں کو بہت زوردار اور مؤثر انداز میں تنبیہ کی جا رہی ہے کہ متاع دنیا کی محبت نے تمہیں فریب میں مبتلا کر رکھا ہے، مگر جان لو کہ اگر تم نے اپنی روش نہ بدلی تو اس دنیا میں بھی ذلّت و مسکنت سے دوچار رہو گے اور آخرت میں بھی۔ اس جملے میں جو وعید اور ڈر مضمر ہے، وہ محتاج بیان نہیں ہے ۔اس کے بعد غفلت کا اصل سبب بتاتے ہوئے فرمایا کہ تم کو یقین نہیں آرہا ہے کہ فی الواقع وہ دن آنے والا ہے، جس دن جہنم کو یقین کی آنکھوں سے دیکھو گے اور پھر ہر نعمت کے بارے میں بازپرس ہوگی، جزا اور سزا ملے گی۔ اگر پختہ یقین ہوتا تو تم اپنی قیمتی زندگیاں جو آخرت کی تیاری کے لیے ملی ہیں، بے مقصد کاموں میں برباد نہ کرتے، انجام کا یقینی علم ہوتا تو حقیر مفادات کے لیے مسابقت نہ کرتے ،بلکہ مسابقت کے حقیقی میدان کی طرف توجہ دیتے ،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ (آل عمران: 133)

مزید سورۃ الصافات میں جنت کی نعمتوں کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا:

لِمِثْلِ هَٰذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ (الصافات:۶۱)

(اسی جیسی فوز عظیم کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔)
آیات کے اسلوب پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ’’ لو‘‘ کا جواب محذوف ہے، شدت تہویل کے لیے ۔ اس کی متعدد مثالیں قرآن کریم میں موجود ہیں۔ اس کی بلاغت یہ ہے کہ مخاطب کو خود غور و فکر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ وہ خود سے اپنے رویّے کا جائزہ لے کہ اب تک جو زندگی گزاری ہے وہ کتنی غلط، انجام کے ا عتبار سے کتنی نا عاقبت اندیشانہ ہے ۔

ثم لتسئلنَّ یومئذ عن النعیم

یہ آخری آیت گویا پوری سورۃ کا خلاصہ ہے۔ پھر اس دن یقیناً تم سے نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ یعنی نعمتوں کی ناشکری ،ناقدری اور اس کے غلط استعمال کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو بھی قوت،صلاحیت، صحت ، مال و دولت، عزّہ و جاہ عطا کیا ہے وہ سب ’’نعیم‘‘ ہیں۔ اس کا حق یہ ہے کہ ان کو خدا کی مرضی کے مطابق استعمال کیا جائے،نعمت کا ضیاع یا منعم حقیقی کی مرضی کے خلاف اس کا استعمال سزا کا مستحق بناتا ہے ۔انسان کے آنکھ ، کان، دل و دماغ سب نعمت ہیں،جن سے متعلق باز پرس ہوگی۔
قال اللہ تعالیٰ :

اِنَّ السَّمۡعَ وَ الۡبَصَرَ وَ الۡفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنۡہُ مَسۡـُٔوۡلًا
(سورۃ بنی اسرائیل: 36)

آپﷺ نے بھی نعمت کی قدر کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے، ارشاد فرمایا:

 نعمتان مغبون فیہما کثیرمن الناس: الصّحّۃُ و الفراغ

یعنی زیادہ تر لوگ ان دو عظیم نعمتوں سے کماحقہ استفادہ نہیں کرتے۔ صحت اور فراغت ،یہاں تک کہ مرض اور مشغولیت نیکی کے حصول میں مانع ہو جاتے ہیں۔
نعمت کی مسؤلیت کے تعلق سے ایک دوسری مشہور حدیث ہے۔ قال النبی ﷺ :

لا تزولُ قد ما عبدٍ یومَ القیامۃ حتیّ یسأل عن خمس، عن عُمرُہ فیما أفناہُ، و عن شبابہٖ فیما أبلاہُ و عن مالہٖ مِن أین اکتسبَہُ و فیما أنفقَہُ ؟ و عن علمہٖ فیما فعل فیہٖ(رواہ الترمذی)

یعنی ان پانچ نعمتوں کے بارے میں ہر فرد سے محاسبہ ہوگا۔ عمر کہاں گزاری؟خصوصاً عہد شباب کو کس کام میں کھپایا ؟مال کہاں سے حاصل کیا؟ کہاں خرچ کیا ؟اور علم پر کتنا عمل رہا؟ یا علم دین حاصل بھی کیا کہ نہیں؟یعنی کفران نعمت کا انجام انتہائی گراں اور ہولناک ہوگا۔
حاصل درس یہ ہے کہ یہ سورۃانسانی احساسات پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ فکر مند اور حساس دل فکر آخرت میں محو ہو جاتا ہے، دنیا کی عارضی لذتوں سے اس کا دل بیزار ہو جاتا ہے، اور پھر ہر قدم پر وہ اپنا محاسبہ خود کرنے لگتا ہے۔
٭یہ سورۃ زندگی کی ایسی تصویر پیش کرتی ہے جیسے زندگی کا طویل سفر پلک جھپکنے کا لمحہ ہو۔
٭یہ سورۃ باہمی تفاخر کی روش ،دنیا میں آگے بڑھنے کی ریس، مال و دولت جمع کرنے کی ہوڑ پر کاری ضرب لگاتی ہے۔
٭یہ سورۃ ہمیں احتساب کی دعوت دیتی ہے کہ اپنی معاصر زندگی، مادیت پسندی، تعلیمی نصاب و نظام کا بگاڑ، خاندانی و اجتماعی زندگی کی خرابیاں، ہماری زندگی میں خدا اور اس کے اوامر و منہیات کا کیا مقام رہ گیا ہے، اس کی رزّاقیت پر کس درجہ یقین ہے، اخلاقیات کا کیا حال ہے ؟ہم اس کا جائزہ لیں اور اصلاح و تلافی کی کوشش کریں۔ مزید یہ کہ قبر میں پہنچنے سے پہلے قبر کی زیارت کرنی چاہیے ،اس سے دل کی سختی دور ہوتی ہے ۔آپﷺ نے فرمایا:
’’ قبروں کی زیارت کرو، کیونکہ یہ چیز دنیا سے بے رغبت کرتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔‘‘( ابن ماجہ )

اللہم و فقنا لما فیہ رضاک.

ویڈیو :

آڈیو:

آیات میں غفلت میں پڑے انسانوں کو بہت زوردار اور مؤثر انداز میں تنبیہ کی جا رہی ہے کہ متاع دنیا کی محبت نے تمہیں فریب میں مبتلا کر رکھا ہے، مگر جان لو کہ اگر تم نے اپنی روش نہ بدلی تو اس دنیا میں بھی ذلّت و مسکنت سے دوچار رہو گے اور آخرت میں بھی۔ اس جملے میں جو وعید اور ڈر مضمر ہے، وہ محتاج بیان نہیں ہے ۔اس کے بعد غفلت کا اصل سبب بتاتے ہوئے فرمایا کہ تم کو یقین نہیں آرہا ہے کہ فی الواقع وہ دن آنے والا ہے، جس دن جہنم کو یقین کی آنکھوں سے دیکھو گے اور پھر ہر نعمت کے بارے میں بازپرس ہوگی، جزا اور سزا ملے گی۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے