جولائی ۲۰۲۳
زمرہ : ٹی ٹائم

شخصیت

حفیظ جالندھری ٹرین میں سفر کر رہے تھے۔ سامنے والی سیٹ پر ایک صاحب موجود تھے۔ حفیظ جالندھری مشہور شاعر تھے ،ان کے دل میںخیال آیا کہ یہ صاحب مجھے پہچان نہیں رہے، ورنہ خوش ہوتے کہ کس مشہور شخصیت کے ساتھ سفر کر رہا ہوں۔
آخر کچھ دیر بعد خود ہی مخاطب ہوکر تعارف کی غرض سے اپنا نام بتایا:’’میرانام حفیظ جالندھری ہے ۔‘‘
یہ سنتے ہی وہ صاحب سیٹ سے اٹھے اور گرمجوشی سے ان کی طرف بڑھے۔حفیظ جالندھری دل میں خوشی محسوس کر ہی رہے تھے کہ ان صاحب نے گلے ملتے ہوئے کہا :’’بڑی خوشی ہوئی کہ آپ بھی جالندھر کے ہیں ۔‘‘

حافظہ اور بھول

حضرت ہشام کلبی فرماتے ہیں کہ مجھے حافظہ بھی عجب ملا اور بھول بھی غضب کی ہوئی۔ میں نے ایک بار حافظہ کی تیزی کا ثبوت بھی ایسا دیا کہ شاید کسی نے نہ دیا ہو ،
اور ایک مرتبہ مجھ سے بھول بھی ایسی ہوئی کہ شاید کسی سے نہ ہوئی ہو۔
میرے حافظہ کی تیزی کا عالَم تو یہ ہے کہ میں نے مکمل قرآن کریم صرف تین دن میں یاد کرلیا تھا، اور بھول ہوئی تو ایسی کہ ایک دن میں خط بنانے بیٹھا،ڈاڑھی کو مُٹّھی میں لے کر نیچے کے بال کاٹنا چاہتا تھا، مگر بدحواسی میں مُٹّھی سے اُوپر کے بال کاٹ ڈالے اور پوری ڈاڑھی ہاتھ میں آگئی۔

کتاب:ردالمحتار،از:علامہ ابنِ عابدین شامی

برا بھلا

برے کی صحبت نیکوکاروں کو بھی برا بنا دیتی ہے، یا کم ازکم وہ بروں میں تو ضرور ہی گنے جاتے ہیں۔
مثلاً جب ہم بطور محاورہ کہتے ہیں کہ’’فلاں نے مجھے بہت برا بھلا کہا!‘‘ تو ذرا اِس ترکیب پر تو غور کیجیے کہ’’بھلا‘‘ جو بھلائی سے ماخوذ ہے، وہ بھی جب ’’برا‘‘ کے ساتھ جڑ کر اور اُس کے پیچھے لگ کر آتا ہے تو اپنا اصل مفہوم کھو دیتا ہے اورصرف برائی کے مفہوم ہی میں شمار ہوتا ہے۔
سو اپنی صحبت پر غور کرتے رہا کیجیے!یا کم از کم برائی اور بروں کو قیادت نہ کرنے دیجیے، آگے نیکی اور نیکوکاروں ہی کو رکھیے۔

محمد فیصل شہزاد

پیسہ

جان میکس ویل کہتا تھا:
’’تم پیسے سے نہیں جیت سکتے۔ اس کو کمانے پر فوکس کرو تو مادیت پرست کہلاؤ گے۔کمانا چاہو اور نہ کما سکوتو Loserر ہو۔ بہت کما کے خرچ نہ کرو تو کنجوس ہو۔ اگر کما کے خرچ کرتے رہو تو فضول خرچ ہو۔ اگر کمانے کی فکر نہ کرو تو تم Unambitious ہو۔ اگر بڑھاپے تک بہت سے پیسے کے مالک ہو تو تم بے وقوف ہو کہ اس پیسے کو قبر میں لے جانا چاہ رہے تھے۔‘‘
’’پھر کیا کرنا چاہیے پیسے کے ساتھ؟‘‘
’’پیسے سے جیتنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے باس!اس کو مٹھی میں نہیں دبا لینا،بلکہ ڈھیلی گرفت کے ساتھ اس کو پکڑنا ہے،اور پھر کھلے دل سے اس کو قابلِ قدر چیزوں کو حاصل کرنے پر صرف کرنا ہے۔‘‘

نیکی

جرمنی میں پناہ گزین ایک شامی خاندان کے پڑوس میں مقامی معمر خاتون رہتی تھی۔یہ شامی مہاجرین اپنی حیثیت کے مطابق اس کا بھرپور خیال رکھتے۔پڑوس کا حق ادا کرتے ہوئے اس کی خدمت بجا لاتے۔ جب وہ بیمار ہوئی تو علاج معالجہ اور دیکھ بھال میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔وہ سمجھ رہے تھے کہ یہ غریب اور لاوارث خاتون ہے۔ اس لیے اللہ کی رضا کےلیے اس کی خدمت کرتے رہے،لیکن نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی۔
جرمن خاتون ان کی بے لوث خدمت سے بڑی متاثر ہوئی۔ وفات سے پہلے اس نے شامی خاندان کےلیے وصیت کی کہ بینک میں موجود میری دولت ان مہاجروں کو دے دی جائے۔ معلوم ہوا کہ اس کے اکاؤنٹ میں 40 ملین یورو موجود تھے۔ یوں بیٹھے بیٹھے شامی مہاجرین 40 ملین یورو کے مالک بن گئے۔ یہ رقم پاکستانی کرنسی میں کل 9 ارب، 92 کروڑ، 29 لاکھ، 33 ہزار، 548 روپے اور انڈین کرنسی میں3 ارب،57کروڑ،35لاکھ،60ہزار بنتی ہے۔
[نیوز سورس:ٹی آر ٹی عربی]

ضیاء چترالی

پچیس لفظوں کی کہانی

رحم

’’چکن تِکّا فل پلیٹ،نان ویج پراٹھا،مٹن کڑاہی اسپیشل اور دو چکن بریانی۔‘‘آکاش نے آرڈر کیا،پھر کہنے لگا:
’’یار! بقر عید پہ مسلمان اتنے جانوروں کو مار دیتے ہیں،رحم نہیں آتا؟‘‘

احمد بن نذر

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جولائی ۲۰۲۳