جولائی ۲۰۲۳
زمرہ : النور

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ ، وَكَانَ رَسُولُ اللَهِ صَلَّى اللَهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَكَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ شَاءَصَامَهُ ، وَمَنْ شَاءَتَرَكَهُ.

( عاشوراء کے دن زمانۂ جاہلیت میں قریش روزہ رکھا کرتے تھے ۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رکھتے تھے ۔پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں بھی عاشوراء کے دن روزہ رکھا ،اور اس کا لوگوں کو بھی حکم دیا ۔لیکن رمضان کی فرضیت کے بعد آپ نے اس کو چھوڑ دیا ۔ اور فرمایا کہ اب جس کا جی چاہے اس دن روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔) (بخاری)

 عن ابن عباس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قدم المدينة فوجد اليهود صياما يوم عاشوراء فقال لم رسول الله صلى الله عليه وسلم ما ه‍ذاليوم الذي تصومونه فقالوا ه‍ذا يوم عظيم انجى الله فيه موسى وقومه وغرق فرعون وقومه فصامه موسى شكرا فنحن نصومه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم فنحن احق وأولى بموسى منكم فصامه رسول الله صلى الله عليه وسلم وأمر بصيامه.

(حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہود کو یوم عاشورہ (10 محرم) کا روزہ رکھتے دیکھا۔آپ نے ان سے پوچھا کیا یہ کوئی خاص دن ہے ؟ کہ تم لوگ اس دن روزہ رکھتے ہو ؟انہوں نے کہا کہ ہمارے لیےیہ بڑی عظمت والا دن ہے ۔اس دن اللہ تعالی نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کیا تھا تو موسی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے اس انعام کے شکر میں اس دن کا روزہ رکھا تھا۔اس لیے ہم بھی اس دن کا روزہ رکھتے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے پیغمبر موسیٰ علیہ السلام سے ہمارا تعلق تم سے زیادہ ہے اور ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی عاشورہ کا روزہ رکھا اور امت کو بھی اس دن کے روزے کا حکم دیا ۔)(بخاری و مسلم)

 عن ابن عباس قال ما رأیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یتحری صیام یوم فضلہ علی غیرہ الا ھذا الیوم یوم عاشوراءوھذاالشھر یعنی شھر رمضان .

(حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نہیں دیکھا کہ آپ کسی فضیلت والے دن کے روزے کا بہت اہتمام اور فکر کرتے ہوں سوائےاس دن یوم عاشوراء کے اور اس ماہ مبارک رمضان کے۔)
( صحیح بخاری و صحیح مسلم)
ایک اور حدیث حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء میں روزہ رکھنے کو اپنا معمول بنالیا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس دن کو یہودونصاری بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان شاءاللہ جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں محرم کو روزہ رکھیں گے ۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’لیکن اگلے سال کا ماہ محرم آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔(صحیح مسلم)
یوم عاشوراء زمانہ جاہلیت میں قریش مکہ کے نزدیک بھی بڑا محترم دن تھا ،اسی دن خانۂ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے۔ احادیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ شروع میں عاشورہ کا روزہ واجب تھا۔ بعد میں جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور اس کی حیثیت ایک نفلی روزے کی ہوگئی۔یوم عاشوراء کا روزہ نفلی روزوں میں اس لحاظ سے سب سے زیادہ اہم ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے پہلے وہی فرض تھا۔جب رمضان کے روزے فرض کیےگئے تو اسکی فرضیت منسوخ ہوگئی اور وہ نفلی روزہ قرار پایا۔جس کاجی چاہے رکھے اور جس کا جی چاہے اسے چھوڑ دے۔
اس دن بہت سی بدعتیں بھی عام ہوتی جارہی ہیں ۔ جیسے حلوہ ،کھیر ، حلیم وغیرہ بنا کر تقسیم کرنا،اور شہادت حسین ؓکا ماتم، خود کو زد کوب کرکے، منانا، قبروں کی زیارت کرنا ، مزاروں اور درگاہوں پر پھول چڑھانا، مرادیں اور منتیں مانگنا، اور ان رسومات میں روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے،جو تقالید کے نام پر، اور مذہبی لبادے میں مسلمانوں کی زندگیوں کا حصہ بن گیا ہے۔مسلمانوں پر مطالعہ کرنے والا ان رسوم کو اسلام کا لازمی جز سمجھتا ہے اور یوں وہ اسلام کو دوسرے مذاہب سے مشابہ قرار دیتا ہے، جہاں رسم و رواج کی بھرمار ہوتی ہے۔
عاشورہ کے روزے کا حق صرف اس صورت میں ادا ہوگا کہ اسے ہم پیارے نبی ﷺ کا عمل سمجھ کر قربت الی اللہ کا ذریعہ بنائیں، اور اپنی اصلاح کرسکیں۔اللہ تعالیٰ ہم کو شرک و بدعت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

اس دن بہت سی بدعتیں بھی عام ہوتی جارہی ہیں ۔ جیسے حلوہ ،کھیر ، حلیم وغیرہ بنا کر تقسیم کرنا،اور شہادت حسین ؓکا ماتم، خود کو زد کوب کرکے، منانا، قبروں کی زیارت کرنا ، مزاروں اور درگاہوں پر پھول چڑھانا، مرادیں اور منتیں مانگنا، اور ان رسومات میں روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے،جو تقالید کے نام پر، اور مذہبی لبادے میں مسلمانوں کی زندگیوں کا حصہ بن گیا ہے۔مسلمانوں پر مطالعہ کرنے والا ان رسوم کو اسلام کا لازمی جز سمجھتا ہے اور یوں وہ اسلام کو دوسرے مذاہب سے مشابہ قرار دیتا ہے، جہاں رسم و رواج کی بھرمار ہوتی ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے