جولائی ۲۰۲۳

موسم گرما کی تعطیلات اب ختم ہونے کو ہیں۔ نیا تعلیمی سال بھی شروع ہو چکا ہے۔ یہ وقت بہت اہم ہوتا ہے ،کیونکہ بچوں کی آگے کی تعلیم کے لیےوالدین فکرمند ہوتے ہیں۔ بچوں کے آگے کے مضامین کے سیلیکشن میں وہ پریشان ہوتے ہیں کہ انہیں آگے کس لائن میں ڈالا جائے اوروہ کس فیلڈ کو اختیار کریں ؟ ایک دباؤ سا بچوں پر ،ایک ذہنی فکر والدین اور اسکول کے اساتذہ پر ہوتی ہے ۔
ہمارے یہاں کا نظام تعلیم ایسا نہیں ہے کہ جس میں کوئی ایسا سسٹم کام کر رہا ہو، جہاں بچوں کی ذہنی و فکری صلاحیتوں کے پیش نظر ان کے آگے کی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے ان کی الگ الگ ٹیم بنائی جائے ،پھر ہر بچے کی صلاحیت اور دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے اسکول الگ ہوں، انہیں ان کی متعلقہ فیلڈ میں آگے بڑھ کر تعلیم دی جائے اور انہیں آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے ۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ تعلیم صرف پڑھنے لکھنے کا ہی نام نہیں، بلکہ زندگی گزارنے کے طور طریقے سیکھنے کا شعور بھی تعلیم ہی سے حاصل ہوتا ہے، گویا تعلیم ایک ذہنی ،جسمانی اور اخلاقی تربیت کا نام ہے، اس کے ذریعے ایسے مہذب افراد تیار ہوتے ہیں، جو ریاست کے ذمہ دار شہری اور اچھے انسان بنتے ہیں اور اپنے فرائض کو انجام دیتے ہیں ۔یوں کہیں کہ قوم کی زندگی کا دارومدار تعلیم یافتہ ،معیاری اور بہترین افراد پر منحصر ہے۔
ایک چینی کہاوت ہے کہ تمہارا منصوبہ اگر سال بھر کے لیے ہے تو کاشت کرو، اگر تمہارا منصوبہ دس سال کے لیےہے تودرخت لگاؤ اور اگر دائمی منصوبہ ہے تو افراد تیار کرو۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ افراد کو تیار کرنے کاسب سے بہترین آلہ تعلیم ہے اور اعلیٰ و بہتر تعلیم کے لیے نظام تعلیم کا بہتر ہونا ضروری ہے۔
آئیے !سب سے پہلے دنیا کے چند ٹاپ نظام ہائے تعلیم کا جائزہ لیتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم سنگاپور کے ایجوکیشن سسٹم پر بات کریں گے ۔

سنگاپور کا ایجوکیشن سسٹم

سنگاپور ایک چھوٹا سا جزیرہ نما (Island)ملک ہے۔1965 ءمیں برٹش ایمپائر سے آزادی ملنے کے بعد 57 سالوں میں سنگاپور دنیا کا ایک لیڈنگ ٹریڈ سنٹر اور فائنانشیل سینٹر بن گیا، اس کاسہرا اس کےایجوکیشن سسٹم کو جاتا ہے۔ سنگاپور کا ایجوکیشن سسٹم اس وقت دنیا کا بہترین ایجوکیشن سسٹم مانا جاتا ہے۔
آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹ کا پروگرام فار انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ ایسیسمنٹ(Pisa) ٹیسٹ، جو ہر تین سال میں ہوتاہے ،یہ ٹیسٹ دنیا بھر کے ایجوکیشن سسٹم کو سامنے رکھتے ہوئے 15 سال کی عمر کے بچوں کی سوچ اور ٹیلینٹ کاہوتا ہے ، جس کو دنیا بھر کے بچوں کی کی کر یٹکل تھنکنگ کا ٹیسٹ مانا جاتا ہے۔ 2018 ءکے Pisa ٹیسٹ میں چائنا اور سنگاپور نے ٹاپ رینک حاصل کیا۔ کینیڈاچھٹے نمبر پر، فن لینڈ 7ویں نمبر پر، یوکے دسویں نمبر پر ،آسٹریلیا 17 ویںنمبرپر، امریکہ22ویں نمبر پر، فرانس 23 ویں نمبر پر رہا ۔
اگر اس رزلٹ پر باریکی سے غور کریں تو چائنا اور سنگاپور کے اسٹوڈنٹس دنیا بھر کے ٹاپ ممالک کے اسٹوڈنٹس سے آگے ہیں، لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟
-1 سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ پاور فل ٹیوٹرنگ اور پرائیویٹ ٹیوشن، جو کہ بچوں کواسکول کی طرف سے دی جاتی ہے اور یہ ایک مضبوط سپورٹنگ سسٹم ہے۔
2 – دوسری چیز یہاں کا ٹیچنگ سسٹم ۔سنگاپور میں ٹیچنگ ایک بہت ہی معتبر پیشہ ہے ۔ہمارے یہاں میڈیکل کی اور آئی آئی ٹی یا آئی اے ایس کی تعلیم کی جو اہمیت ہے ،وہی یہاں ٹیچنگ پیشے کی ہے اور یہ بہت ہی Highly paid profession مانا جاتا ہے۔ ایک ٹیچر لگاتار اپنے skill کو ڈیولپ کرتا رہتا ہے ،اپنی صلاحیتوں کو آگے بڑھاتا رہتا ہے اور طرح طرح کی کوششیں کرتا رہتا ہے، سیکھتا ہے ،پھر یہی چیزیں وہ بچوں کو سکھاتا ہے اور بچوں کی نشوونما میں ٹیچر کی یہ تمام صلاحیتیں کام آتی ہیں ۔
یہاں کا سب سے اہم امتحان پرائمری لیول پر (PSLE) پرائمری اسکول لیونگ ایگزام ہوتا ہے، جیسے ہمارے یہاں دسویں لیول کا امتحان، جو بچوں کے لیے کافی چیلنجنگ ہوتا ہے ۔یہ امتحان ان کامستقبل طے کرتا ہے ۔یہاں سے نکل کر بچے
1-Express level
2-Normal level
3-Normal technical level
پر جاتے ہیں اور اپنا مستقبل طےکرتے ہیں۔اس میں سب سے زیادہ بہتر پرفارمینس والے اسٹوڈنٹس جو ایکسپریس لیول پر جاتے ہیں،ان کےلیے ایک Gifted education system دیا جاتا ہے، جو ان لیے کا فی سپورٹنگ اور فائدہ مند ثابت ہوتا ہے ۔

 چین کا ایجوکیشن سسٹم

 اب ہم چائنا کے ایجوکیشن سسٹم پر بات کریں گے۔ چائنانہ صرف مارکیٹ اور بزنس میں ترقی پر ہے، بلکہ یہ ایجوکیشنل فیلڈ میں بھی اپناایک اہم مقام رکھتاہے ۔ان کی یونیک ٹیکنالوجی اور تعلیم کی بے مثال ٹیکنیک کی وجہ سے ایجوکیشن فیلڈ میں چائنا نے اپنا لوہا منوایا ہے ۔ چائناکا لٹریسی ریٹ 1980 ءمیں%70 تھا، لیکن1990 ءسے یہاں یونیورسٹیز کی تعداد دوگنی ہو گئی، اور آج دنیا میں سب سے زیادہ گریجویٹ چائنا کے مانے جاتے ہیں۔ یونائیٹڈ اسٹیٹ اور یورپین یونین کا ملا جلا سسٹم مل کر بھی اتنے گریجویٹ نہیں پیدا کر سکا۔
چائنا کے اسٹوڈنٹس دنیا کی ٹاپ مور یونیورسٹیز زمیں ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ OVCDs کے پچھلے اسکور کے مطابق ہر تین سال میں ایک بار ہونے والے PISAامتحان میں چائنا نے ٹاپ کیا ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟آئیے !دیکھتے ہیں۔
ان کا 1-پرائمری لیول، 2-جونیئر میڈل لیو ل، 3-سینئر لیول اور ABC کلاسیز جو کنڈرگارڈن لیول پر ہوتی ہے ۔ایک اوربالکل الگ اور unique سسٹم ہے، جو ہے:
AT Equipment and head gear system
ا س میں ٹیسٹ دیتے وقت یہ بچوں کو پہنا دیا جاتا ہے، اس سے ان کے اندر ہونے والی تمام حرکات وسکنات ،ان کا فوکس، ان کے دماغ کے خیالات، ان کے رجحانات ،یہاں تک کہ بچوں کی صحت کو بھی یہ ریکارڈ کر لیتا ہے۔ اس سے ملنے والے ڈاٹا کے ذریعے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ بچے کا لیول کیا ہے؟ وہ کس چیز پر فو کس کر رہا ہے؟ اور پھر اس کی اطلاع والدین کو بھی دی جاتی ہے، اس طرح ان کی آگے کی سمت طے ہوتی ہے ۔ اسی طرح کلاس روم میں روبوٹ کا ہونا، بچوں کی نقل و حرکت کو مانیٹر کرنے کے لئے ریکارڈنگ اور یونیفارم میں چپ (chip) لگا کر ان کی تمام حرکات کو ریکارڈ کرکے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ بچے کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے۔ بچوں کو آگے بڑھانے کے لیے ایجوکیشن سسٹم میں ایک اہم چیز آفٹر اسکول کلاسز اور ویک اینڈ کلاسز پھی ہیں، جو بہت اہم کردار نبھاتی ہیں ۔ جہاں کلاس ختم ہونے کے بعد بچوں کو ان کے ذوق کے مطابق الگ الگ فیلڈز مثلاً: میوزک، کار پینٹنگ ،گارڈننگ وغیرہ ان کے ذوق کے مطابق کرای اسکول لیول پر یہ تیاری تعلیم کے ساتھ ہی جاری رہتی ہے۔ پھر جونیئر کالج کے بعد جب انہیں آگے بھیجا جاتا ہے تو وہاں کئی لیول کے ایگزام ہوتے ہیں، اس میں خاص یہ ہیں:
1-Zhongkao Exam
2-Gaokao Exam
یہ ایک طرح کا انٹرنس ایگزام ہوتا ہے، جو کہ ہائی اسکول لیول کے لیےہوتا ہے ۔اگر اسے بچہ پاس کر لیتا ہے، تواسے آگے کے لیے بھیجا جاتا ہے اور اگر یہ کلیئر نہیں کر سکا، تو پھر انہیں Skill سکھانے کے لیے Vocational training دی جاتی ہے،تاکہ وہاں کوئی ہنر سیکھ کر اپنی زندگی اچھی طرح گزار سکے ۔اگر بچہ نے اوپر کے دونوں لیول پاس کرلیے تو اسے آگے یونیورسٹی میں ایڈمیشن ملتا ہے۔ وہ یونیورسٹی بھی ایسی ہوتی ہے جو الگ الگ فیلڈز کےلیےاسپیشلائز ہوتی ہے۔ اس میں انجینیئرنگ، میڈیکل، آرٹ ،سائنس، میڈیسن، سول لائنز وغیرہ الگ الگ سبجیکٹس پر مبنی ہوتی ہے۔جبکہ ہمارے انڈیا میں ایک ہی سسٹم، ایک ہی سلیبس، ہر ایک کے لیے ہوتا ہے۔One size fit for all کسی کی قابلیت کی بنیاد پر کوئی پروگرام نہیں بنایا جاتا۔ جہاں غیر معمولی صلاحیت اور کم صلاحیت کے مالک الگ الگ ذوق رکھنے والے سبھی بچے ایک ساتھ ہی رکھے جاتے ہیں۔
ان کےیہاںایجوکیشن سسٹم کو بہت ہی مضبوط سیاسی سپورٹ حاصل ہوتا ہے، جو ان کےکام کرنے میں معاون اور مددگار ہوتا ہے۔ معاشی طور پر تعلیم کو مضبوطی حاصل ہوتی ہے، اس پر پیسہ خرچ کیا جاتا ہے، اسٹوڈنٹ کو گورنمنٹ کا سپورٹ حاصل ہوتا ہے، تعلیم کا پرائیویٹائزیشن، مہنگی اورسستی تعلیم، نیز کسی طرح کی دکانداری یا خرید و فروخت نہیں ہوتی، والدین کودردر بھٹکنا نہیں پڑتا۔
یہی چیز جرمنی کے نظام تعلیم میں بھی ہے، بچوں کو پرائمری تک فری تعلیم ملتی ہے ،اس کے بعد یہ طے ہوتا ہے کہ آگے کیا کرنا ہے ۔

 فن لینڈ کا نظام تعلیم

اس وقت دنیا کے ٹاپ نظام تعلیم کی فہرست میں فن لینڈ اول نمبر پر ہے۔ یہ اپنی آنے والی نسلوں کو لے کر بہت حساس ہے ۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں ہر پیدا ہونے والے بچے کو ایک ایسی کٹ دی جاتی ہے، جس میں اس کے لیے بہت سی بنیادی ضرورت کی اشیاء مہیا کرائی جاتی ہیں، جس سےاس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کو لیکرکس قدر حساس ہے۔فن لینڈ کا ایجوکیشن سسٹم 1930 ءسے ہی بہت زیادہ چرچا میں رہا ہے۔ ان کے 15 سال کے بچے OVCDکےPISA ٹیسٹ میں لگاتار رینک حاصل کر رہے ہیں، اس کی وجہ اگر دیکھیں تو یہ ہےکہ فن لینڈ کا ایجوکیشن سسٹم ۔دنیا کا سب سے ٹاپ کا ایجوکیشن سسٹم ہے ،اوراب دوسرے ممالک بھی اسے قبول کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں، اس کی وجوہات درج ذیل ہیں۔ سب سے پہلے پہلی چیز وہاں کا پولیٹیکل سسٹم یہ خاص بات ہے کہ وہاں 230 میونسپلٹی ہے ہر اسکول لوکل میونسپلٹی سے گورن ہوتا ہے، اور اسی کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ وہاں ٹیچنگ اور نصاب کی آزادی بھی ہے، وہاں پولیٹیکل سپورٹ حاصل ہے، سب سے اوپر وہاں کی پارلیمنٹ اور منسٹری آف ایجوکیشن اینڈ کلچر ہے، اس کے علاوہ یہ بھی کہ ان کے پاس دو ایسی مضبوط ایجوکیشن باڈیز ہیں ،جو ایجوکیشن سسٹم کو ایویلویٹ کرنے کا کام کرتی ہیں، یعنی اس کا جائزہ لیتی رہتی ہیں، اس کو تولتی ہیں کہ یہ سسٹم کس طرح کام کر رہا ہے۔
اس کی دو برانچیز یا شاخیں ہیں:
1-FNBE
2-FEEC
1۔فنش نیشنل بورڈ اف ایجوکیشن
2۔ فنش ایجوکیشن ایویلویشن سینٹر
اس طرح دونوں باڈیز کے ذریعے ایجوکیشن پالیسی اور اس کے سسٹم کو بہتر بنانے اور اسے آگے تک لے جانے کا کام جاری رہتا ہے۔ ان کا سیاسی سسٹم اتنا ذمہ دار ہے اور اسکول کے معاملے میں اتنا حساس ہے کہ یہاں اسکولنگ کے لیے کوئی فیس یا چارج نہیں لیا جاتا۔ سارے کے سارے اسکولز گورنمنٹ سے گرانٹیڈ ہوتے ہیں اور ٹیکس فیئر کی رقم کے ذریعے چلائے جاتے ہیں، یا ہر اسکول کو گرانٹ ملتی ہے اور یہ گرانٹ ہر ایک کو برابر ملتی ہے ،خواہ وہ فنڈنگ ہی کیوں نہ ہو۔ وہاں اسکول اچھا اور برا نہیں مانا جاتا۔ کسی وجہ سے کوئی کمتر یا بالاتر نہیں ہوتا، بلکہ صرف گریڈ کی بنیاد پر یہ منحصر ہوتا ہے، اور جب ہر اسکول   کا ہوتا ہے تو والدین کو اسکول کے لیے شاپنگ نہیں کرنی پڑتی، نہ ہی دردر بھٹکنا پڑتا ہے۔دوسرے ممالک مثلاً:امریکہ ،یو کے اور انڈیا کی طرح یہاں تعلیم ایک بزنس نہیں ہے۔ اسکول کے لیے ڈونیشن یہاں غیر قانونی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب اسکول کا اور تعلیم کاکمرشلائزیشن ہو جائے تو اس کی تاثیر کم ہو جاتی ہے۔

 فن لینڈ کی ہسٹری اور کلچر

دوسری بڑی وجہ وہاں کی تاریخ ہے اور وہ مضبوط فنش آئیڈنٹٹی یا پہچان ہے، جو انہیں آگے بڑھنے میں مدد کرتی ہے۔ فن لینڈ کو 1917 ءمیں آزادی ملی اور اس کے بعد اس نے اپنی پہچان کچھ اس طرح بنائی کہ اپنی ذہنی صلاحیت اور ذہانت و عقلمندی کو پیمانہ بنایا، اور اس میں وہاں کے بڑے بڑے فلاسفر اور عقلی بصارت رکھنے والے فلسفیوں کا ہاتھ ہے۔

ٹیچنگ سسٹم

ٹیچر بھی ایجوکیشن سسٹم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ یہ پیشہ ایک معتبر اور ذمہ دار پیشہ ہے ۔فن لینڈ میں ٹیچر بننے کا شرف حاصل کرنا بہت فخر کی بات ہے۔ یہاں پر ہر طالب علم اس خواب کو شرمندۂ تعبیر دیکھنا پسند کرتا ہے کہ وہ ٹیچر بنے،اس کے لیے یہاں کوئی کمپٹیشن نہیں، بلکہ پانچ سال کا ایم اے لیول کا ماسٹر کورس پاس کرنا ہوتا ہے۔ اس کے مخصوص 8 ادارے ہیں، جہاں یہ کورس کروایا جاتا ہے اور ٹیچر کو مخصوص ٹریننگ دی جاتی ہے، اور پھر ٹیچر کی قابلیت اور صلاحیت کو مان کر انہیں بہترین تنخواہ پر رکھا جاتا ہے۔
وہاں ٹیچر پر کوئی بلا وجہ کا بوجھ یا ذمہ داری (مثلاً:الیکشن ڈیوٹی، پولیو ڈیوٹی وغیرہ ہمارے یہاں کی طرح) نہیں ہوتی ،اور سوسائٹی کا کوئی دخل بھی وہاں نہیں ہوتا۔9سال تک بچے کی تعلیم بالکل مفت ہوتی ہے ،کوئی امتحان نہیں ہوتا، صرف اپنے آپ کاایولیولیشن کرنا ہوتا ہے اور بچہ Stress free learning کرتا ہے، بنا کسی پریشر کے وہ اگے کی تعلیمی منزلیں طے کرتا ہے۔ یہاں اسکولنگ 7 سال میں شروع ہوتی ہے، شروع کے  6 سال پرائمری اسکول اور 3 سال سیکنڈری اسکول، کل 9 سال میں جونیر ہائی اسکول کروا دیا جاتا ہے ،اور یہ بنیادی تعلیم ہر بچے کے لیے لازمی ہوتی ہے۔کوئی امتحان اور کوئی ہوم ورک نہیں ہوتا، بلکہ ایک مخصوص سسٹم کے ذریعے Activity learning کا سارا کام ہوتا ہے۔ کسی ذہنی تناؤ کے بغیر بچہ آگے بڑھتا ہے ،لیکن جب یہی بچہ اوپر کے لیول پر کوئی بڑا امتحان دیتا ہے، تو بڑے بڑے لوگوں کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ US,UK اورآسٹریلیا جیسے ممالک بھی پیچھے رہ جاتے ہیں ،اس کی وجہ؟
1-Stress free learning
2-Evaluation process
3-Study credit hours
یعنی پورے ہفتے میں صرف 20 گھنٹہ ،ایک دن میں چار گھنٹہ پڑھنا ہے، یہاں بچے پر ذہنی دباؤ اور پریشر نہ ہونا؛ انہیں اگے بڑھنے میں اپنا جائزہ لینے کے لیے تیار کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ کسی ڈاکٹر، انجینیئر،آئی آئی ٹی ٹاپر بننے کے لیے کوئی ٹینشن نہیں رہتی ۔کم سے کم تعلیم لے کر بھی وہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ پروفیشنل آئی ٹی آئی کی ٹریننگ کر کے جاب حاصل کر سکتا ہے۔پھراگر وہ دوسرے لیول پر آگے بڑھ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تو کوئی رکاوٹ نہیں ۔
فن لینڈ کا نظام تعلیم اور اس کی خوبیاں آپ کے سامنے پیش کرنے کے بعدجرمنی کے نظام تعلیم پر بھی کچھ باتیں رکھی جائیں، دراصل ان دنوں میں جرمنی کے سفر پر ہوں۔

 جرمنی کے نظام تعلیم کی چند جھلکیاں

یہاں کا نظام تعلیم بھی اسی طرح کی بہت سی خوبیوں سے بھرا ہوا ہے ۔جرمنی دوسری جنگ عظیم کے بعد بالکل ختم ہو چکا تھا، لیکن انہوں نے دوبارہ محنت کر کے اپنا نظام تعلیم مضبوط کیا ۔یہاں کی خوبی یہ ہےکہ یہاں ابتداء میں بچے کنڈر گارڈن میں جاناہوتا ہے، جہاں بچوں کو اتنا پیار دیا جاتا ہے کہ وہ ٹیچر سے لگاو محسوس کرنے لگتے ہیں ،ٹیچر ان کے اندر اتنا اعتماد پیدا کر دیتی ہے کہ وہ کبھی مایوسی یا کم ہمتی کا شکار نہیں ہوتے۔ بچوں کی والدین کے ساتھ سیٹنگ ہوتی ہے، کچھ جگہ چھوٹے بچوں کے ساتھ ماں کو ساتھ رہنے کا موقع دیا جاتا ہے ۔کنڈر گارڈن میں تین سال میں کھیل کھیل میں بہت کچھ سکھا دیا جاتا ہے۔
زبان،نالج وغیرہ یہاں بچوں کی صحت و صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ٹیچر بچوں کے ٹفن اور لنچ کا جائزہ لیتی رہتی ہے، ان کے ساتھ کھانا کھاتی ہے،پھر والدین کو ان کے کھانے کو بہتر بنانے کی رائے دیتی ہے۔ بچوں کو ہفتے میں دو بار باہر لے جا کر انہیں سڑک پر چلنا ،دوسروں کا خیال رکھنا،قطار میں رہنا سکھایا جاتا ہے۔ غلطی ہو جانے پر ٹیچر بچوں کو سوری کرتی ہے۔
یہاں بچوں کی تعلیم فری ہے، اس کا بزنس نہیں ہوتا ۔والدین کے لیے بچوں کو پڑھانے کی ٹینشن بالکل بھی نہیں ہوتی۔ جو باتیں اوپر کے دوسرے ممالک کے ضمن میں آئیں ،کم وبیش یہاں بھی یہی سسٹم موجود ہے ۔ان کے علاوہ کلچرل چیزیں، مثلاً: تہذیب Attitude اور اخلاقی تربیت جو ایک ضروری چیز ہے، جو انسان کو انسان بناتی ہے وہ دیکھنے کو ملتی ہے۔
اب آخر میں ہم ہندوستان کے نظام تعلیم پر بات کریں گے اور جائزہ لیں گے کہ ہندوستان کا نظام تعلیم کس طرح کا ہے یہاں کے والدین اور ان کے بچے کس مشکل کا سامنا کر رہے ہیں۔

ہندوستان کا نظام تعلیم

ہندوستان کا تعلیمی نظام دیگر ممالک کے مقابلے میں نہایت کمزور اور ناقص ہے۔ اس کی چند وجوہات ہیں۔ آئیے! دیکھتے ہیں ہندوستان کے نظام تعلیم کی کمیاں اور خامیاں کیا ہیں؟
اگر ہم ہندوستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں تعلیم طبقات میں بٹی ہوئی نظر اتی ہے۔ اعلیٰ ذات کے لوگوں کو جو تعلیمی حقوق حاصل ر ہے،وہ پچھڑی ذات کے لوگوں کو نہیں ملے، ان کے لیے دوسرں کے برابر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے کی آزادی نہیں تھی۔آزادی کے بعد بھی یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ دلتوں کو تعلیم کا حق حاصل نہیں تھا، عورتوں کو بھی تعلیم کا حق حاصل نہیں تھا، اس سلسلے میں ایک اہم نام جیوتیبا پھولے اور ان کی اہلیہ ساوتری بائی پھولے کا اور ان کی ساتھی فاطمہ شیخ بی بی کا سامنے آتا ہے۔ انہوں نے تعلیم کے میدان میں بڑا کارنامہ انجام دیا اور عورتوں اور بیواؤں کی تعلیم کے لیے بھی اہم قدم اٹھایا۔
جیوتیباپھولےنے سب سے پہلے اپنی بیوی ساوتری بائی پھولے کو تیار کیا،وہ ان کے ساتھ اچھوتوں اور بچھڑے ہوئے لوگوں اور عورتوں کو پڑھانے کا کام کرنے لگیں ۔انہیں تعلیم کا برابر حق دلوانے کے لیےسوشل کام بھی کیے ۔انہوں نے 1847 ءمیں پہلا اسکول لڑکیوں کے لیے کھولا۔ اس طرح ہزاروں سالوں سے محروم لوگوں کے لیے انہوں نے ایک ایسا راستہ دکھایا، جس کے ذریعے غریب و پسماندہ طبقات کو ،پیدائشی طور سے محروم لوگوں کو تعلیمی اور سماجی انصاف ملنے کی امید پیدا ہوئی، نیزہندوستان کی تاریخ میں تعلیم کے میدان میں ایک اہم باب کا اضافہ ہوا۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں ہندوستان کا ایک کلچر رہا ہے کہ تعلیم صرف مخصوص طبقے تک ہی محدود رہی، وہاں کچھ بدلاؤ آیا، لیکن اس کے باوجود آج بھی تعلیم کے میدان میں تفریق دیکھنے کو ملتی ہے، اس کی کچھ اور بھی وجوہات ہیں، جو درج ذیل ہیں:

ہندوستان کی تعلیمی پالیسی

ہندوستان میں تعلیمی پالیسی کا المیہ یہ ہے کہ حکومت سماجی برابری اور انصاف کی بنیاد پر سب کو برابر تعلیم دینے کی بات تو کرتی ہے ،لیکن یہ ساری باتیں صرف کاغذی حد تک پالیسی پروگرام میں درج ہو تی ہیں۔ حقیقت میں ان کا عملی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ہماری سرکار یں اس پر کوئی توجہ نہیں دیتیں اور مطالبے کے باوجود کوئی سانس تک نہیں لیتیں ،یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ گورنمنٹ اس سلسلے میں کتنی سنجیدہ ہے ۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے غریب ملک میں تعلیم کا بجٹ جی ڈی پی کا6% ہی ہے اور ڈیفنس کا بجٹ اس سے کہیں زیادہ ہے، جبکہ دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں% 20 جی ڈی پی کا تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے۔پرائمری تک کی تعلیم بالکل مفت ہوتی ہے۔ آگے کی تعلیم کے لیے بھی بچوں کو وظائف ملتے ہیں۔

پرائیویٹائزیشن

اہم مسئلہ پرائیویٹائزیشن کا بھی ہے۔ ہندوستان میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ تعلیم کو پرائیویٹائز کر دیا گیا ۔جہاں یہ بات دستورمیں درج ہے کہ 6سال سے 14 سال کے بچوں کی تعلیم لازمی تعلیم ہوگی اور ہدایتی اصول ( ڈائریکٹو پرنسپل) کی ہدایات کے باوجود بچوں کی تعلیم مفت نہیں ہے۔ 90 سے% 100 تک اندراج (انرولمنٹ) ہونے کے باوجود پرائمری کے بعد ہی بچوں کا ڈراپ آؤٹ شروع ہو جاتا ہےہائ اسکول لیول تک یہ تعداد بڑھتی جا تی ہے اورگریجویشن لیول پر پہونچتےپہونچتے%5 تک ہی رہ جاتی ہے۔  پرائیویٹائزیشن کی وجہ سے سے تعلیم کا فائدہ صرف دولت مند گھرانے کے بچوں کو ہی حاصل ہو پاتا ہے۔ تعلیم کے مہنگے ہونے اور بھاری فیس کی رقم نہ دے پانے کی وجہ سے انڈیا میں تعلیم عام نہیں ہو سکی اور بہت سے بچے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں، اعلیٰ تعلیم تک پہنچ نہیں پاتے۔
ایک طرف سرکاری اسکولوں کا معیار خراب ہے، دوسری جانب پرائیویٹ اسکول بہت مہنگے ہیں، یہاں ایک بہت بڑا گیپ ہے جس نے امیر غریب کے درمیان تعلیم حاصل کرنے میں ایک کھائی کا کام کیا ہے۔ سرکاری اسکولوں کے ٹیچرز کاٹرینڈ نہ ہونا ، سرکاری بھرتی ہونے کے بعد اساتذہ کی لاپرواہی ،دیگر کاموں میں ڈیوٹی مثلاً پولیو اور الیکشن ڈیوٹی کرنا، دوسرے پرسنل کاموں میں زیادہ دلچسپی لینا، اسکولوں کا جائزہ نہیں لیا جانا وغیرہ۔

 کرپشن

تعلیمی ترقی نہ ہونے کی بڑی وجہ تعلیم کے میدان میں کرپشن بھی ہے۔محکمۂ تعلیم یہ سمجھتا ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر پیسہ لوٹ رہے ہیں۔ اس لیے وہ اور ان کے اعلیٰ افسران اسکولوں کا جائزہ لیتے وقت پرائیویٹ اسکولوں سے بھاری رقم وصول کرتے ہیں، اور ان کا استحصال کرتے ہیں۔دوسرے یہ کہ گورنمنٹ اسکولوں کا حال یہ ہے کہ ان کا معیار بہت خراب ہے۔ کبھی کبھی تو یہ بھی دیکھا گیا کہ بڑا بھائی ٹیچر ہے لیکن وہ دوسرے کاموں میں لگا ہواہے وقت نہیں دے پاتا اور اس کی جگہ جھوٹا بھائی جو بالکل ٹرینڈ نہیں اور دسویں پاس ہے ،وہ پڑھا رہا ہے۔تو اس طرح کا کرپشن اور فراڈ تعلیم کے میدان میں بہت زیادہ ہےاوربھی ایسی کچھ مثالیں دیکھنے میں آتی ہیں۔
دوسری وجہ کرپشن کی یہ بھی ہے کہ سرکاری ا سکولوں کا معیار بہت خراب ہےٹیچر دوسرے کاموں میں مصروف ہیں اسکول پر توجہ نہیں دیتے اسی طرح امتحان میں پیپر کالیک ہونا ،امتحان کا ٹائم پر نہ ہونا، ڈیٹ صحیح وقت پر اناؤنس نہ ہونا، امتحان کینسل ہو جانا،نصاب کی کتابیں صحیح وقت پر مارکیٹ میں نہ آنا ،آئی بھی تو کم تعداد میں پرنٹ ہونا،سبھی بچوں کو فراہم نہیں ہونا وغیرہ۔
سرکاری اسکولوں میں کلاس روم، ٹوائلیٹ، پلے گراؤنڈ کی خستہ حالی ،بچوں کے لیے کوئی سہولت نہ ہونا؛ ایک بہت ہی خراب تصویر پیش کرتا ہے۔دوسری طرف پرائیویٹ اسکول بہت ہی خوبصورت اور تمام سہولیات سے آراستہ ہوتے ہیں، مگر ان کی فیس اور بچوں کو اس میں پڑھانا ہر ایک کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔
خلاصہ یہ کہ تعلیم کے میدان میں اس طرح کے مسائل اور کرپشن دیکھنے کو ملتا ہے۔پھر پرائیویٹ اسکولوں کی فیس پرائمری (Pre shooling) کی 70 ہزار سے ایک لاکھ تک دیکھنے کو ملتی ہے،لہذا ان توجہ طلب امور پر حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے،تا کہ ان پر قابو پایا جا سکے۔ جی ڈی پی کا زیادہ حصہ تعلیم پر خرچ کیا جانا چاہیے ۔بچوں کی تعلیم کو سستی اور پرائمری تعلیم فری اور معیاری کرنے کی سمت متوجہ ہونا چاہئے ۔ کرپشن کو ختم کرنا چاہیے، تعلیم کا کمرشیلائزیشن ختم کر نے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ اگر ہندوستان میں ان تمام پہلوؤں پرتوجہ دی جائےتو تعلیم کا معیار بہتر ہو سکتاہے اور انڈیا کا تعلیمی نظام بہتر ہوسکتا ہے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے