جولائی ۲۰۲۳

اس دنیا میں کئی ساری ایسی نعمتیں ہیں جن کا کوئی بدل نہیں اور ان میں سے کچھ نعمتیں اس دنیا کی خوبصورتی کا باعث ہوتی ہیں اور کچھ نعمتیں اس کائنات کے نظام میں حسن کے ساتھ ایک اہم کردار کی حیثیت رکھتی ہیں، جیسے کہ انسانی بچے۔ بلاشبہ بچے ماں باپ کے لیے دولت کونین سے کم نہیں ہوتے، قدرت کے قانون کے تحت یہ افزائش نسل کا ذریعہ ہوتے ہیں، قدرت نے ان کے لیے خاندان نامی ادارہ بنا کر ان کی شخصیت سازی اور ذہن سازی کے لیے پورا انتظام کیا ہے۔ اس خاندانی ادارے کے سربراہ عمومی طور پہ ماں باپ ہوتے ہیں، اس کے ساتھ گھر کے دوسرے افراد بھی ایک ضمنی کردار ادا کرتے ہیں۔
بچے اپنے آپ میں سب سے بڑی نعمت ہیں ،چناچہ اس نعمت کے حوالے سے جو سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ ہے ان کی تربیت، کیونکہ ہر بچہ اپنے ساتھ پوٹینشیل نامی امکانی صلاحیتوں کے خزانے کے ساتھ اس دنیا میں آتا ہے، لیکن محض اس کے ہونے سے ہی کامیاب زندگی کا حصول ممکن نہیں، اسے عملی سطح پہ بروئے کار لانے کے لیے مختلف طرح کے عوامل کی مدد لینی پڑتی ہے، اسے ہم مجموعی طور پر ذہن سازی بھی کہہ سکتے ہیں، جس میں خاندان بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ بچوں کی بہترین خطوط پہ تربیت سازی کرنا فرض عین کے زمرے میں شامل ہے، اس کے لیے ماں باپ جواب دہ ہیں۔
بچوں کی تربیت ایک شعوری عمل کا نام ہے، اس کے ذریعے ان کی نفسیات اور ان میں موجود غیر معمولی صلاحیتوں کو پرکھ کر ان کے ساتھ ڈیل کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے رویے پائے جاتے ہیں جو اگرچہ یوں ہی یا کسی روایت کے ساتھ اپنائے جاتے ہیں، لیکن اس کے نتائج منفی اثرات کے حامل ہوتے ہیں، المیہ یہ بھی ہے کہ لوگ ان غلطیوں کا دفاع اپنی اچھی نیت کو دلیل بنا کر کرتے ہیں، وہ اقدامات و معاملات کی نتیجہ خیزی پرنہ غور کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی صد فیصد ذمہ داری قبول کرتے ہیں ،اس کی وجہ سے ان منفی نتائج کے حامل رویوں کی نشوونما ہوتی رہتی ہے، وہ اس قدر عام ہو جاتے ہیں کہ لوگ انہیںمعمولات زندگی میں شامل کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے، جس کے منفی نتائج معاشرے اور افراد دونوں کو ہی یکساں طور پہ متاثر کرتے ہیں۔
اسی طرح کے رویوں میں سے ایک رویہ والدین کا بچوں کے حوالے سے کنٹرولنگ ،جس کو نفسیات کی اصطلاح میں اتھاریٹیرین پیرنٹنگ کہتے ہیں، یہ وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے بچوں کی نفسیات پر ایسے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ وہ ساری زندگی اس کے اثر سے نہیں نکل پاتے، اس کی وجہ سے بچے کی فطری جستجو اور اس کی انفرادیت کے خاتمے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ بچے اپنی زندگی کی پروگرامنگ خود نہیں کر پاتے ،نتیجۃًان کی شخصیت دو حصوں میں بٹ جاتی ہے اور دونوں ہی تشنۂ تکمیل رہ جاتی ہیں۔ وہ نہ اپنے والدین کی توقعات پرپورا اتر پاتے ہیں، نہ ہی اپنی خواہشات کی تکمیل کو یقینی بنا پاتے ہیں۔ یہاں میں یہ نہیں کہہ رہی کہ بچوں کو مکمل طور پہ آزاد کر دیا جائے۔ ان کے ہر طرح کے فیصلوں کی خاموش حمایت کی جائے، یا ماں باپ کو بچے کی شخصیت میں مداخلت کرنے کا قطعی کوئی حق حاصل نہیں ہے، ماں باپ بچوں کی زندگی میں ایک رہنما اور مربی کی حیثیت رکھتے ہیں، اس کے تحت فرائض کے ساتھ ان کے اپنے حقوق و اختیارات بھی ہیں، یہاں میرا مقصد اس رویے پر قدغن لگانا ہے جو کنٹرولنگ کے زمرے میں آتے ہیں،اس کے تحت پائی جانے والی انتہا پسندی کو موضوع بحث بنانا ہے، اور اس کے مضمرات کو سامنے لانا ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے بچوں کی شخصیت پر ایسے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، جو کہ انہیںانتہا پسند رویوں کا حامل بناتے ہیں ،اور اس کی وجہ سے بعض اوقات ان کی صلاحیتیں تاعمر بروئے کار نہیں آ پاتیں، یا پھر باغیانہ طرز زندگی کو اپنا لیتے ہیں، جس سے اس فرد کے ساتھ ساتھ خاندان اور معاشرے کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچتاہے۔
اتھاریٹیرین پیرنٹنگ کے حوالے سے سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ والدین جو اپنے بچوں کے سب سے بڑے خیرخواہ ہوتے ہیں، آخر وہ اپنے بچوں کے ساتھ ایسی زیادتیاں کیوں کر جاتے ہیں؟ کیا وہ اپنی ان غلطیوں کا شعور رکھتے ہیں یا محبت کے نام پر انہیں حد سے زیادہ سیکیوریٹی دینے کی خواہش میں وہ ایسا کر جاتے ہیں؟ جب تک ہم بنیادی عوامل کو نہیں سمجھیں گے، کبھی بھی مسائل اور مشکلات کا مداوا کرنا ممکن نہیں ہوگا، اس لیے آئیے اس کے جواب میں ہم والدین کی بنیادی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
والدین کی اولاد کے تئیں محبت اور خلوص پہ شک نہیں کیا جا سکتا ۔بچے ان کی آرزوؤں اور جستجٔوؤٔں کا محور ہوتے ہیں، بچے جب چھوٹے اور نا سمجھ ہوتے ہیں تو ماں باپ انہیں نہ صرف بولنا اور چلنا سکھاتے ہیں ،بلکہ انہیں یہ بھی سکھاتے ہیں کہ کس موقع پرانہیں کس طرح پیش آنا ہے، انہیں صحیح عادات و اطوار سکھاتے ہوئے غلط رویوں سے بھی بچانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے،دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ والدین کی توجہ اور فکر کا مرکز و محور بچے ہوتے ہیں۔
بےشک یہ والدین کی وہ قربانی ہے جو انہیں تمام رشتوں سے ممتاز کرتی ہے، اب ایسے میں والدین ہونے کے مطلب قطعا ًیہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کسی حد یا باؤنڈری کا دھیان رکھے بغیر بچوں کے ہر فیصلے یا سوچ کو کنٹرول کرنا شروع کردیں، بعض اوقات والدین بچوں کی نشوونما کرتے ہوئے چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اعلیٰ اقدار کے حامل بنیں، لیکن خود کو ان خوبیوں سے تقریبا ًنابلد ہی رکھتے ہیں، ایک طرف وہ بچوں کو اپنے خودساختہ اصولوں میں جکڑنا چاہتے ہیں، دوسری طرف خود کو ہر قید و بند اور اصول سے مبرا خیال کر لیتے ہیں، اس کی وجہ سے بھی بچے کی سوچ اور شخصیت میں ایک کشمکش اور دوہرا مزاج پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
بچوں کی تربیت کرتے ہوئے والدین کو اپنے بھی رویوں اور فیصلوں کا جائزہ لیتے رہنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے بغیر معتدل پیرنٹنگ کو نہیں اپنایا جا سکتا۔ابتدائی مرحلے میں بچے والدین پہ مکمل طور سے انحصار کرتے ہیں، لیکن وقت کے ساتھ جیسے جیسے ان کی سمجھ کی نشوونما ہوتی ہے تو وہ اپنے اندر کے پوٹینشیل کو یوٹیلائز کرنے کی لاشعوری طور پہ جدوجہد کرتے ہیں، لیکن ماں باپ اکثر بےدھیانی یا والدین ہونے کے زعم میں انہیں ایسا کرنے نہیں دیتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بچے ہمیشہ ان کے تابع رہیں، وہ ان کے لیے جو بہتر سمجھتے ہیں اسی کو وہ اپنے لیے بہتر سمجھیں، بےشک ماں باپ بچوں سے زیادہ تجربہ رکھتے ہیں ،اگر وہی تجربہ کار والدین بچوں کے تجربہ کرنے کی راہ میں حائل ہوں گے، تو بچے خود کیسے سیکھیں گے؟ ان کے اپنے نظریات کیسے ڈیولپ ہوں گے؟ کیا ان کی مقلدانہ نفسیات معاشرے میں ہمیشہ قابل قبول سمجھی جائے گی؟
اس کنٹرولنگ رویے کی وجہ سے بچے کی قوت فکر متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے، والدین بچوں کو غلط چیزوں سے روکتے ہیں لیکن ان کا سامنا کرنے اور ان کے منفی نتائج سے متعلق ان سے بات نہیں کرتے ،اس کی وجہ سے وہ ہمیشہ ان عادتوں کے حوالے سے متجسس رہتے ہیں انجانے میں اسے کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں، گویا ایک طرف ماں باپ اسے اپنے اصولوں کی طرف کھینچ رہے ہیں ،دوسری طرف وہ اپنے تجسس کے ہاتھوں ان کے خلاف جانے کی سعی کرتے ہیں۔بچے بڑے ہوتے چلےجاتے ہیں پھر بھی والدین ان کی خودمختاری یا آزادی کو قبول نہیں کرتے، نہ ہی ان پر اپنا آپ مسلط کرنا بند کرتے ہیں، یہاں تک کہ ان کا کیرئر کیا ہوگا؟کن کے ساتھ ان کا رویہ کیا ہوگا؟ ان کو کیا فیصلہ کرنا ہے؟ سب کچھ وہ اپنے ہاتھ میں لیے رہنے کے جتن کرتے رہتے ہیں، اس کی وجہ سے بچے نہ انفرادیت کو باقی رکھ پاتے ہیں، نہ ہی ان کی فکری قوت کی نشوونما ہو پاتی ہے، ان کی خوداعتمادی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے، اپنے خیالات کو نہ اعتماد کے ساتھ سامنے رکھ پاتے ہیں نہ ہی اس کے لیے اسٹینڈ لے پاتے ہیں، وہ اپنی ذمہ داریوں کو یا تو قبول نہیں کرتے یا اگر کرتے بھی ہیں تو محض تقلیدی نوعیت کی سطح پہ کرتے ہیں، وہ اپنے والدین کی غلطیوں کو دہرانے میں ذرا بھی تامل محسوس نہیں کرتے، کیونکہ ان کی تجزیاتی صلاحیت کو پنپنے سے پہلے ہی دبا دیا جاتا ہے اور وہ کٹھ پتلی بن کے رہ جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو وہ دوسری انتہا پر پہنچ جاتے ہیں۔ مطلب ان کے اندر بغاوت کی آگ بھی بھڑکنا شروع ہو جاتی ہے، جس پر والدین بعد میں واویلا کرتے نظر آتے ہیں۔
والدین کا بچوں کے رویوں کو کنٹرول کرنا ایک مشکل اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ والدین کا بچوں کے رویوں کو کنٹرول کرنے کا مطلب ہے کہ وہ بچوں کی سوچ،عمل یا فیصلوں پر قابو رکھنا چاہتے ہیں۔یہ غالباً ایک انتہائی ناقص اور غیر ممکن العمل کوشش ثابت ہوتی ہے، کیونکہ ہر انسان اپنے اصولوں، تجربات، اور زندگی کی ترجیحات کے مطابق سوچتا ہے۔ اس طرح بچہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ اس آزادی کے استعمال کے حق کا مستحق ہے۔
ماہرین نے اپنی تحقیقات کی روشنی میں اس بات کو ثابت کیا ہے کہ بچوں کو حد سے زیادہ کنٹرول کرنے کا نتیجہ انتہائی برا ہوتا ہے وہ بچوں کے رجحانات کی تعیین میں رکاوٹ ہوتا ہے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ والدین کا بچوں کی دن بھر کی سرگرمیوں کے حوالے سے مصروف ترین شیڈول بنا کر اسے بچے پر تھوپنے کا رویہ بچے کی ذہنی نشوونما پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ خاص طور پر اس سے بچے کے دماغ کے اس حصے کو نقصان پہنچتا ہے ،جو شعورکی ترقی اور فہم و ادارک کے ساتھ منسلک ہے۔
نفسیاتی رسالے’’فرنٹیئر سائیکلوجی‘‘ کے مضمون کے مطابق امریکی سائنسدانوں نے چھ برس کی عمر کے 70 بچوں پر کیے جانے والے ایک مطالعے کے نتیجے سے اخذ کیا کہ والدین کا ضرورت سے زیادہ بچوں کو مرضی کے تابع رکھنے کا رویہ بچوں کی دماغی نشوونما کو متاثر کر سکتا ہے۔ جبکہ ایسی مائیں بچوں میں شعور اور آگاہی پیدا کرنے کے حوالے سے مددگار ثابت نہیں ہوتی ہیں۔ یہی بچے جب بڑے ہوتے ہیں اور عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں، اس وقت ان کی شخصیت میں کسی خاص سمت میں معلق ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے، کچھ غلطیوں پہ ہو سکتا ہے کہ وہ عارضی طور پہ قابو پا لیں، لیکن وہ اس کو جڑ سے ختم کرنے سے قاصر ہوتے ہیں، اول یا تو وہ اسے غلط ہی نہیں سمجھتے دوم اگر لاشعوری طور پر یہ خیال اس کے اندر ہو بھی تو وہ شعوری طور پہ اس سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش نہیں کر پاتے۔
ایسے میں یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ والدین کس طرح خود کو کنٹرولنگ پیرنٹ یا اتھاریٹیرین پیرنٹ بننے سے روکیں ؟یا پھر وہ کس طرح اپنے بچوں کی تربیت میں ایک مثبت مربی کا کردار ادا کریں؟میں یہاں خلیل جبران کا ایک اقتباس کا حوالہ دینا چاہوں گی، جسے انہوں نے بچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنے ناول ’’النبی ‘‘میں لکھا ہے:
’’تمہارے بچے تمہارے نہیں ہیں۔ یہ زندگی کی امانت ہیں۔ انہیں اپنی محبت دو مگر اپنے خیالات نہ دو۔ کیونکہ اِن کے اپنے خیالات ہوتے ہیں۔تم اِن کے جِسموں کا خیال رکھ سکتے ہو، اِن کی روحوں کا نہیں۔ کیونکہ ان کی روحیں آنے والے کل کے مکانوں میں رہتی ہیں، جہاں تمہاری رسائی ممکن نہیں۔‘‘
بےشک والدین کو کچھ خصوصی حقوق و اختیارات حاصل ہوتے ہیں، جس کے تحت وہ بچوں کی رہنمائی کرتے ہیں ،اور ان کو صحیح راستے پہ چلانے کے لیےمختلف طرح کے اقدامات کرتے ہیں ۔
میرے خیال کے مطابق ہر اختیار کو سلیقے سے استعمال کر کے اس کے ذریعے مثبت نتائج پیدا کیے جا سکتے ہیں، اس لیے والدین کو چاہیےکہ وہ بچوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے بجائے انہیں سوچنے کا سلیقہ سکھائیں، فیصلہ سازی کے ہنر سے روشناس کرائیں، فیصلوں کے غلط ثابت ہونے پہ انہیں صد فیصد ذمہ داری قبول کرنے کا حوصلہ دیں، ان میں غلطیوں سے سیکھنے کی صلاحیت کو اجاگر کریں، جس کے ذریعے ان کے شعور کی نشوونما کو ممکن بنایا جا سکے۔ اگر وہ غلط راستوں پہ چلنے پہ بضد ہوں تو ان پر پابندیاں عائد کرنے سے پہلے انہیں عقلی طور سے اس کے منفی اثرات سے آگاہ کریں، پھر ان کے حدود کے گرد بند باندھیں۔ ان کو یقین دلائیں کہ آپ ان کے بہی خواہ ہیں ،پابندیاں کبھی بھی کارگر حل نہیں ہوتیں، اس لیے اس سے حتی المقدور گریز کریں۔
بچوں کی تربیت میں سب سے زیادہ جس عنصر پہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ ہے بچوں کا خدا سے ایک زندہ تعلق بنانا، انہیں اپنے ڈر سے مغلوب کرنے کے بجائے خدا کے سچے احساس سے متعارف کروائیں، یاد رکھیں !بچہ والدین کی اولاد بعد میں ہوتا ہے، پہلے وہ اللہ کا بندہ ہوتا ہے۔ اگر یہ تعلق کمزور ہو گیا تو باقی رشتوں کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی، اور بچہ بڑا ہو کر خود اپنی زندگی میں بھی کشمکش اور بےجا تناؤ کا شکار ہو سکتا ہے۔
بچوں کو اپنا پابند بنانے پر فوکس کرنے کے بجائے ان سے اپنے تعلقات کو بہتر بنانے پرتوجہ دیں ،اس طرح کمی و زیادتی ہونے کی صورت میں بروقت اس کا ازالہ ممکن ہوتا ہے، بات چیت کا عمل جاری رہتا ہے۔انہیں ایک اچھا انسان بننے کی ترغیب دیں، پھر وہ اپنے طے شدہ مادی شعبوں کی کامیابی کو ازخود مینیج کرلے گا۔ ان کو غیر مشروط محبت کا احساس دلائیں، اگر اسے اپنا قیمتی اثاثہ سمجھتے ہیں ،تو انہیںاس بات کا احساس بھی دلائیں، انہیں یہ بتائیں کہ آپ ان کے لیے کتنے اہم ہیں، خود کے لیےان کے اندر اہم ہونے کا جذبہ پیدا کریں۔
کسی بھی تعلق کو فار گرانٹڈ لے کر اس کی قدر نہیں کی جا سکتی اس کے لیے ضروری ہے کہ اس میں احساسات و جذبات کے ساتھ وقت کی بھی انویسٹمنٹ کی جائے۔ان کو بےجا حدود اور پابندیوں میں جکڑنے سے گریز کریں، اصولوں کے نفاذ کے بعد اس کے نتائج کا بھی جائزہ لیتے رہیں ۔بچے جوں جوں بڑے ہوتے جائیں ،ان سے باقاعدہ بات چیت کر کے اصولوں میں ردوبدل پر بھی غور کرنا چاہیے۔اپنے بچوں کا موازنہ دوسروں سے کرنے کے بجائے ان کی پچھلی پرفارمینس سے کریں کہ پہلے سے اب تک ان میں کیا بہتری پیدا ہوئی ہے، بہتری کی صورت میں انعام اور لفظی توصیف ان کا حق ہے، اس طرح بچے کے اندر سیکھنے کی صلاحیت کو بہتر کیا جا سکتا ہے، اور اس سے اعتماد کے ڈیولپمنٹ میں بھی مدد ملتی ہے۔اگر آپ ان سے کوئی مثبت اور جائز توقع رکھتے ہیں تو اسے دل میں رکھ کر انجانے میں ان کو کنٹرول کرنے کے بجائے ان سے اس حوالے سے بات کرنے کو ترجیح دیں، اگر یہ محسوس ہو کہ بچے کا فطری رجحان اس طرف نہیں ،اس کی تکمیل میں کوئی قباحت بھی نہیں، تو ان پر پریشر بنانے کے بجائے ان کی خوشی کو قبول کرنا سیکھیں۔
آج کی اس ترقی یافتہ دنیا میں بہت ساری سہولتیں پیدا ہو گئی ہیں ،ہو سکتا ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ بچوں کی تربیت احسن طریقے سے ہو، لیکن آپ اس کے طریقۂ کار کو سمجھ نہیں پا رہے ہوں، ایسے میں آپ ایکسپرٹس سے مدد لے سکتے ہیں ،یا پھر ان لوگوں سے ڈسکس کر سکتے ہیں جو اس حوالے سے تجربہ کار ہوں۔ کتابیں بھی ایک معاون کردار ادا کرتی ہیں، ساتھ ساتھ اپنے اندر کچھ خوبیوں کے پیدا کرنے میں خصوصی توجہ دیں۔ مثلاً: صبر، تربیتی عناصر کی سمجھ، بات چیت کا طریقہ، نظم و ضبط، اور خود کو منظم رکھنے کی قابلیت وغیرہ وغیرہ۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

میرے خیال کے مطابق ہر اختیار کو سلیقے سے استعمال کر کے اس کے ذریعے مثبت نتائج پیدا کیے جا سکتے ہیں، اس لیے والدین کو چاہیےکہ وہ بچوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے بجائے انہیں سوچنے کا سلیقہ سکھائیں، فیصلہ سازی کے ہنر سے روشناس کرائیں، فیصلوں کے غلط ثابت ہونے پہ انہیں صد فیصد ذمہ داری قبول کرنے کا حوصلہ دیں، ان میں غلطیوں سے سیکھنے کی صلاحیت کو اجاگر کریں، جس کے ذریعے ان کے شعور کی نشوونما کو ممکن بنایا جا سکے۔ اگر وہ غلط راستوں پہ چلنے پہ بضد ہوں تو ان پر پابندیاں عائد کرنے سے پہلے انہیں عقلی طور سے اس کے منفی اثرات سے آگاہ کریں، پھر ان کے حدود کے گرد بند باندھیں۔ ان کو یقین دلائیں کہ آپ ان کے بہی خواہ ہیں ،پابندیاں کبھی بھی کارگر حل نہیں ہوتیں، اس لیے اس سے حتی المقدور گریز کریں۔

Comments From Facebook

3 Comments

  1. Seemin Muhammad Hussain shahpure

    JazakAllahu khairan kaseera, Alhamdulillah Allah aap ki koshish ko qubul farmay aur Hum Sab walidain ko is per amal karne ki taufique ata farmay, Aameen

    Reply
  2. نام قدسیہ کوثر

    بہت خوب اور مفید باتیں بتائی گئی۔۔۔سچ میں والدین کہیں نہ کہیں اپنی اولادکو obidie

    Reply
  3. نام قدسیہ کوثر

    بہت بہترین اور صحیح باتیں بتائی گئی۔۔۔
    والدین اپنے بچوں کو سماج اور خاندان میں ا*پنا *فرمانبردار بنانے کے لئے inderectly اتنا pressurise کرتے ہیں کہ بچے والدین سے دور رہنے میں ہی اپنی بہتری سمجھتے ہیں۔۔۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے