جولائی ۲۰۲۳

 ’’ماما جانی! پلیز اپنے پہلے گھر واپس چلتے ہیں۔ مجھ سے یہاں نہیں رہا جاتا۔‘‘ننھے زوہیب نے فریاد کی۔
’’ہاں ماما جانی! ہمارا بھی یہاں دل نہیں لگتا، اور اتنے گندے بچے ہیں کہ ہمیں ان کے ساتھ کھیلنا بھی پسند نہیں۔‘‘اب تو زوہیب کی فریاد میں بڑے بیٹے صہیب کی بھی صدا شامل ہوئی۔
’’ہمم! کون کیا کہہ رہا ہےَ زرا پھر سے کہو، کیوں ؟کیا پرابلم ہے تم لوگوں کو اس گھر اور محلے سے ؟‘‘
’’اگر بابا جان کاٹرانسفر اس شہر میں نہیں ہوتا تو ہم اپنے گھر میں ہی رہتے اور وہیں اپنے پیارے دوستوں کے ساتھ کھیلتے، اسکول جاتے، لکھتے پڑھتے اور خوب مزہ کرتے۔‘‘ ماما جانی کے کہنے پر ایمن نے مدعا بیان کیا تھا۔
’’اووہ! تو یہ بات ہے۔ تم تینوں کو یہ محلہ اور یہاں کے پڑوسیوں سے تکلیف ہے۔ تو بیٹا جانی! میدان چھوڑ کر بھاگ جانا کہاں کی عقلمندی ہے؟ یہ تو بزدلی ہے بزدلی۔‘‘ ماما جانی نے تینوں پر اچھا خاصہ طعنہ کسا۔
’’ماما جانی !آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ میری سمجھ میں نہیں آرہا۔ آپ تفصیل سے بتائیں ناں۔ ‘‘زوہیب نے کہا۔
’’اچھا ، چلو تم تینوں مجھ کو بتاؤکہ تمہیں یہاں کیا تکالیف ہیں جو تم کہہ رہے ہو کہ تمہیں یہاں نہیں رہنا۔‘‘
’’ماما جانی! سب سے پہلے میں بتاؤں گا،میں سب سے چھوٹا ہوں۔‘‘زوہیب نے کہا۔
’’اوکے بیٹا جانی! شروع کرو۔‘‘
’’پہلی بات، اس محلے کے بچے  بالکل بھی اچھے نہیں ہیں،میں ان کے ساتھ نہیں کھیل سکتا، کھیلنے کے دوران بہت جھگڑتے ہیں، پھر لڑائی بڑھ جاتی ہے تو اپنی امی کو شکایت لگا دیتے ہیں، جس کے بعد ان کی امی آپس میں لڑ پڑتی ہیں۔ چھوٹی سی بات پر ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں۔ ایک دوسرے سے بات کرنا بند کردیتے ہیں۔ ان کے گھر بھی صاف نہیں رہتے۔ ہم محلہ کی گلی سے گزر نہیں سکتے۔ ہمیشہ کوڑے کا ڈھیر لگا ہوتا ہے۔ اف! کیسے لوگ ہیں۔‘‘زوہیب بولتے بولتے روہانسا ہوگیا تھا۔زوہیب نے اپنی بات ختم کی تو صہیب نے کچھ سوچ کر کہا:’’ماما جانی بالکل صحیح کہہ رہی ہیں۔ پیٹھ دکھا کر جانا بزدلی ہے۔ بہادری تو اس میں ہے کہ ہم یہیں رہ کر ان لوگوں کو صحیح راستے کی طرف متوجہ کریں، بچوں کو تعلیم سے اور اپنی اقدار سے روشناس کروائیں،اسلام پر چلنا سکھائیں۔ دین سے آشنا کریں تاکہ یہ بچے آگے چل کر ذمہ دار  شہری ہونے کے ساتھ ساتھ سچے پکے مسلمان بھی بن جائیں۔‘‘
’’ صہیب! تم سمجھ گئے جو بات میںتم کو سمجھانا چاہتی تھی۔‘‘ ماما جانی نے کہا۔
’’جی بالکل، ہم سمجھ گئے ماما جانی کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے۔‘‘ ایمن اور زوہیب نے ایک ساتھ کہا۔
’’ ہمم تو پھر آج ہی سے یہ تحریک شروع کردو بچو!‘‘
شروع میں اس تحریک کو کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی، لیکن پھر تھوڑے دنوں کے بعد محلے کے بچوں اور بڑوں کی سمجھ میں آنے لگا۔
ایک وقت آیا کہ اصلاح کی تحریک عروج پر پہنچ گئی۔ لڑکیاں صاف رہنے لگیں، لڑکے آپس میں اچھےدوستوں کی طرح رہنے لگے۔ تعلیم سے ہر بچہ روشناس ہوا۔ بڑے بھی بچوں کو دیکھ کر نمازوں کی پابندی کرنے لگے، ساتھ ہی دین پر چلنے کی پوری کوشش کرنے لگے۔ ایک روز صاف گلی سے گزرتے یونیفارم پہنے اسکول جانے والے بچوں پر ماما جانی کی نظر پڑی تو بے ساختہ ان کے ذہن میں علامہ اقبال کا شعر گونج اٹھا:

 نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

1 Comment

  1. Zafar

    Bahut khoob

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جولائی ۲۰۲۳