جولائی ۲۰۲۳

ہندوستان ایک کثیر آبادی والا ملک ہے ،جہاں سینکڑوں مذاہب کو ماننے والے بستے ہیں ۔ یہاں طرح طرح کی بولیاں بولی جاتی ہیں اور مختلف تہذیبیں پائی جاتی ہیں ۔ اللّٰہ کا لاکھوں کروڑوں احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنے کارخانہ ٔقدرت میں پائی جانے والی ان گنت خلقت میں اشرف المخلوقات بنایا، اور مزید اس رحیم پروردگار نے مسلمان بنایا ، نہ صرف مسلمان بنایا بلکہ امت محمدیہ کا فرد بنایا، جس پر صبح شام سوتے جاگتے اس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے، کیونکہ جس امت میں پیدا ہونے کےلیے میں انبیاء سابقین و صالحین نے دعائیں کیں اور ہم بنا کسی دعا کہ اس امت میں بھیجے گئے ،تو اندازہ کیجیےکہ ہم کتنے خوش نصیب ہیں ۔ پھر اندازہ کیجیےکہ ہماری عظمت کا کیا مقام ہوگا ، پھر غور و فکر کیجے کہ خدا نے یونہی مجھے اور آپ کو اس امت میں نہیں بھیجا بلکہ یہ اس کا بنایا ہوا منصوبہ ہے ، ضرور خدا ہم سے کچھ چاہتا ہوگا ۔ پھر جب خدا کی حکمت سمجھ آ جائے تو لرز جائیے کہ کتنی بڑی ذمہ داری ہے جو خدا نے مجھے اور آپ کو دی ہے اگر وہ پوری نہ ہو سکی تو کیا ہوگا ؟
خدائے لا شریک لہ ‘نے جب سے دنیا بنائی ہے ،اپنے بندوں کی ہدایت کےلیے نبیوں اور پیغمبروں کا انتظام کیا ۔ جب جب انسانیت گمراہی کے دہانے پر پہنچ جاتی تھی، تب تب خدا کا پیغام پہنچانے والا ہدایت کی روشنی لےکر راہ سے بھٹکی ہوئی قوم کے پاس آ جاتا تھا ۔ یہ سلسلہ نہ جانے کتنے سالوں تک چلتا رہا، لیکن ایک دن وہ گھڑی آگئی جس کا دنیا کو انتظار تھا ۔ یہ وہی گھڑی تھی جس وقت حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز کیا گیا،یعنی اب اعلان کیا گیا کہ جو نبیوں کا سلسلہ آدم سے شروع کیا گیا تھا اس کی آخری کڑی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ جب رسول اور پیغمبر کے آنے کا سلسلہ بند کر دیا گیا ہے، تو اب قوموں کو گمراہی کی تاریک راہوں سے نکال کر ہدایت کی روشنی کی طرف کون لائے گا ؟اس سوال کا جواب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر خدا کو گواہ بنا کر کہہ دیا تھا کہ میں نے خدا کا پیغام تم تک پہنچادیا ہے، اب تمہاری ذمہ داری ہے کہ یہ پیغام تم پوری دنیا تک پہنچاؤ ۔ یعنی اب یہ نبیوں والے کام کی ذمہ داری امت کے ہر فرد کے کاندھوں پر رکھ دی گئی ہے جس کی باز پرس خدا آخرت میں ہر نفس سے کرے گا ۔ اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے اقبال نے کہا تھا:

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

امت مسلمہ کو اٹھائے جانے کا مقصد قرآن مجید میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللٰهِؕ

(]اے مسلمانو![ تم بہترین امت ہو جو لوگوں [کی ہدایت ]کے لیے ظاہر کی گئی، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔)
اب انسانوں کے حق میں دین فطرت سے بڑھ کر کون سی چیز اچھی ہو سکتی ہے بھلا ؟ ہم ہندوستان کی سر زمین پر رہتے ہیں، جہاں کی اکثر آبادی خدا ناشناس ہے ۔ ایسے میں ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے برادران وطن کو سمجھائیں کہ یہ دنیا بنانے والا تم سے کیا چاہتا ہے ، آخر تم اس دنیا میں کیوں پیدا کیے گئے ہو ؟ پھر تم مر کر کہاں جاؤ گے ؟ انہیں قبراور آخرت کے عذاب سے ڈرایا جائے پھر انہیں جنت کی پر آسائش زندگی کے بارے میں بتایا جائے کہ یہاں کون کون رہ سکتے ہیں ۔ ان کو بتایا جائے کہ خدا ہر بڑے سے بڑا گناہ تو معاف کر سکتا ہے ،لیکن شرک کو ہرگز معاف نہیں کر سکتا ۔
2014 ءسے ملک کے جو حالات بدلے ہیں اور مسلسل بدلتے جا رہے ہیں،اس سے اہل علم با خبر ہیں ۔
ملک میں ،خصوصا ًمسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، اس پر لکھنے بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ہم اس سے بخوبی واقف ہیں ۔ ایسے حالات بننے کے پیچھے کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ مسلمانوں کا دعوت دین سے منہ موڑنا ہے ۔ آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں نے دعوت کو اپنی زندگی میں وہ اہمیت نہیں دی جو دی جانی چاہیے تھی ۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ کسی نے بھی اس کام کو انجام نہیں دیا،بلکہ راہ حق کے اصل مجاہدین اور مومنین نے اپنی زندگیاں اس راہ میں کھپا دی ہیں، جس کی بدولت اب تک ہم چین کی سانس لے رہے ہیں ۔ اگر ہم آگے بھی دعوت کے کام کو مسلسل نظر انداز کر دیتے ہیں تو اس بات کا کوئی بھروسہ نہیں ہے کہ اس ملک میں ہم چین و سکون کے ساتھ رہ پائیں گے ۔زمانہ ٔحال میں دعوت کی کیا اہمیت ہے، ہم سب اس سے اچھی طرح واقف ہیں ،لیکن ہمارا نفس ہے کہ ہمیں ہر وقت ڈراتے رہتا ہے کہ کہیں تیری بات سے فساد نہ ہو جائے ، کہیں تمہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہ ڈال دیا جائے ، کہیں تم شیطان کے پجاریوں کے ہاتھوں قتل نہ کردیے جاؤ، مزید طرح طرح کے خدشات دل و دماغ میں پیدا ہوتے ہیں جو داعی کی راہ کا روڑا بن جاتے ہیں ۔
یاد رکھیں! جو کام آپ کرنے جا رہے ہیں، وہ کوئی آسان کام ہے بھی نہیں ، یہ خدا کی طرف سے ایک عظیم کام ہے جس کو کرنے کی توفیق ہم میں سے کم ہی کو ملتی ہے ۔ جب یہ کام خدا کا ہے تو یقین رکھیں کہ خدا بھی آپ کے ساتھ ہے ۔ جب خدا آپ کے ساتھ ہے تو کامیابی آپ کے ساتھ ہے ۔ میرا خود کا تجربہ ہے کہ یہ لوگ جنہیں ہم اپنا دشمن سمجھتے ہیں وہ ہمارے اصل دشمن نہیں ہیں بلکہ یہ لوگ تو حق کے پیاسے ہیں ،جن کی پیاس صرف آپ اور میں ہی بجھا سکتے ہیں ۔ اگر آپ بھی یہ کام کرنا چاہتے ہیں تو بالکل کر سکتے ہیں یہ کوئی بہت زیادہ مشکل کام نہیں ہے ۔ بس داعی کو صابر ہونا چاہیےاور اس کے پہلو میں انسانوں سے محبت کرنے والا دل ہونا چاہیے اور مزید ایک اہم بات کہ داعی کو اپنی دعوت بڑی حکمت کے ساتھ پیش کرنی ہوگی،اور آپ کا تعلق مدعو کے ساتھ بڑا گہرا ہونا چاہیے ۔ بس کام آسان ہو جائے گا اور خدا کی نصرت شامل حال ہوگی ۔
مدعو کے پاس جانے سے پہلے خدا سے اس کی ہدایت کےلیےدعا کرنی چاہیے اور واپسی کے بعد بھی لگاتار اس کے حق میں دعائیں کرنی چاہئیں ۔ میں نے ایک دن اپنی ہندوسہیلی سے کہا کہ میری عزیز دوست !بتاؤ کہ اس دنیا میں کتنے خدا ہیں ؟
اس نے کہا ہمارے یہاں تو بہت سارے ہیں ۔
میں نے کہا کہ بہت سارے کیسے ہو سکتے ہیں ؟ سوچو! اگر دنیا میں دو خدا ہوتے تو ایک اپنی مرضی چلاتا اور دوسرا اپنی مرضی، جس سے دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہو جاتا اور میں نے ہندی کی نظم کا حوالہ دیا ۔
پھر میں نے کہا کہ وہ بھگوان کیسے ہوا جس کی بیوی ہو ، بچے ہوں اور خاندان ہوں، بھلا ایسا شخص بھگوان کیسے ہوا ؟وہ تو ہم جیسا ہوا ناں ؟
تو اس پر وہ تھوڑا سا چکرا سی گئی اور اس وقت اس نے میری بات پرہامی بھر لی۔ اس کے بعد میں نے اسےکنڑ زبان میں ’’سلامتی کا راستہ‘‘ اور’’ زندگی بعد موت ‘‘نامی کتابیں دی تھیں ۔

٭ ٭ ٭

آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں نے دعوت کو اپنی زندگی میں وہ اہمیت نہیں دی جو دی جانی چاہیے تھی ۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ کسی نے بھی اس کام کو انجام نہیں دیا،بلکہ راہ حق کے اصل مجاہدین اور مومنین نے اپنی زندگیاں اس راہ میں کھپا دی ہیں، جس کی بدولت اب تک ہم چین کی سانس لے رہے ہیں ۔ اگر ہم آگے بھی دعوت کے کام کو مسلسل نظر انداز کر دیتے ہیں تو اس بات کا کوئی بھروسہ نہیں ہے کہ اس ملک میں ہم چین و سکون کے ساتھ رہ پائیں گے ۔

Comments From Facebook

2 Comments

  1. Mohammad Ikrama Nadwi

    ما شاء اللہ بہترین مضمون

    Reply
  2. JAVERIA

    اس دور میں ایسے مضمون کی اشد ضرورت تھی ۔ ماشاءاللہ

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے