جولائی ۲۰۲۳

(حفصہ، فیضان، صفیہ؛ تین بہن بھائی جو بہت اچھے ماں باپ کے بچے ہیں۔)

حفصہ (بڑی بہن): (اپنی ماں سے ناشتہ کرتے ہوئے) امّی کیا صفیہ اور فیضان نے نماز پڑھی؟

ماں: ہاںبیٹے پڑھی ہے، کچھ دیر قرآن کا کچھ حصہ مجھے سنا کر سو گئے ہیں۔

حفصہ: امّی آپ کو کچھ بتانا تھا، مجھے صفیہ کا رویہ اس نئے کالج میں جوائن ہونے کے بعد الگ ہوتا نظر آرہا ہے، آپ نے غور کیا۔ اسے فرینڈز تو اچھے ملے ہوں گے ناں؟( فکر مندی سے)

ماں: ہاں بیٹے میں کچھ دنوں سے کام کی وجہ سے توجہ نہیں دے پا رہی ہوں،کل ان شاءاللہ کالج جا کر ماحول دیکھ کر آؤں گی۔

حفصہ: ہاں امّی جائیں اور اس کی سہیلیوں سے مل کر پتہ تو کریں کہ ان کی مصروفیات کس طرح کی ہیں کالج میں؟

(وہیں سے صفیہ سن لیتی ہے۔)

صفیہ: آپی آپ بڑی نیک پارسا بننے کی کوشش نہ کریں، آئیں بڑی میرے جاسوسی کرنے والی، پہلے خود کو دیکھ لیں، یہی کافی ہے۔

ماں: صفیہ یہ کیا ہے طریقہ ہے بات کرنے کا ؟ بڑی بہن ہے وہ تمہاری۔

صفیہ: امی آپ تو چپ رہیں بس، ہمیشہ آپی کا ساتھ دیتی ہیں ، مجھے تو سمجھنے کے لیے وقت ہی نہیں ہے آپ کے پاس۔

(غصے سے کرسی دھکیل کر چلی جاتی ہے۔)

حفصہ: امّی آپ پریشان مت ہوں۔ (ماں کے کندھے پر ہاتھ رکھتی ہے۔)وقتی طور پر ہر کوئی کبھی نہ کبھی گمراہ ہو ہی جاتا ہے، پھر واپس بھی پلٹ آتا ہے، بس اللہ ہدایت دے۔

(رات کو فرقان (باپ) گھر آتے ہیں۔)

فرقان: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ (گھر میں داخل ہوتے ہوئے، آ کر صوفے پر بیٹھ جاتے ہیں ۔)

(حفصہ اور ماں دونوں مسکراتے ہوئے سلام کا جواب دیتی ہیں اور حفصہ پانی کا گلاس پیش کرتی ہے۔)

ماں: حفصہ بیٹا کھانا لگاؤ۔ بابا کھانے کے لیے آ رہے ہیں۔

بابا: صفیہ اور فیضان نظر نہیں آ رہے ہیں۔

ماں: وہ اپنے روم میں ہیں، کھانے پر بلاتی ہوں تاکہ بس مل کر اکٹھے کھائیں،لیکن صفیہ نہیں آیا کرتی، اب تو اس کا یہ معمول بن چکا ہے ۔آج بھی وہ بلانے پر یہی کہہ رہی تھی کہ اسے بھوک نہیں۔

(کھانے کے بعد فیضان اور حفصہ کے چلے جانے کے بعد صفیہ کاتمام مسئلہ  اس کے باپ کو سناتی ہے۔)

بابا: اچھا تو یہ ہوا۔ ٹھیک ہے تم پلیٹ میں کھانا ڈال کر دو، میں لے جاتا ہوں اس کے پاس۔

(فرقان دروازہ کھٹکھٹاتا ہے) صفیہ صفیہ

(دروازہ کھول کر) السلام علیکم باباکھانا لائے ہیں آپ؟

بابا: تم نےکھانا نہیں کھایا،اس لیے میں لے کر آیا ہوں، بچی ہو تم ہماری، بھوکی سو جاؤ گی تو نیند ہمیں نہیں آئے گی۔یہ لو منہ کھولو

صفیہ: بابا میں کھالوں گی۔آپ زحمت نہ کریں۔

بابا: پتہ ہے بیٹا؟ انسان دور کی چمک حاصل کرنے کی جستجو میں قریب کی روشنیاں خود اپنی ہی پھونک سے بجھا دیتا ہے ۔  خیر جانے دو، تمہارے نئے کالج کا ماحول کیسا ہے ؟تمہیں پسند آیا ناں؟

صفیہ: جی بابا  ٹھیک ہے۔ ( سمجھے ہوئے انداز میں)

بابا: چلو الحمدللہ ماحول جس طرح کا بھی ہو بیٹا، مگر اس ماحول میں رہتے ہوئے ہمیں اپنے کردار کی حفاظت کرنی چاہیے۔صفیہ مومن تو چراغ کی طرح ہوتا ہے ۔یہ چراغ ہی ہوتا ہے جو یہ طے کرتا ہے کہ ہمیں کمرے کو کس طرح سے دیکھنا ہے، یہ کمرہ نہیں طے کرے گا کہ ہمیں چراغ کو کیسے دیکھنا ہے ۔ یہ معاشرہ، یہاں کے لوگ اور ہمارے حالات ہم پر اپنا اتنا اثر ڈال دیں کہ ہم سرے سے اپنے آپ کو تبدیل ہی کرنے لگ جائیں۔نہیں یہ تو ہم ہوں کہ اپنے کردار سے اس ماحول کو تبدیل کریں، یہ تو ہم ہوں کہ اپنے اخلاق سے اس میں رنگ بھریں۔اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھوکہ تمہارے سب سے بڑے خیر خواہ تمہارے ماں باپ ہیں ۔ آئندہ جو بھی مسائل ہوں ،سب سے پہلے تم ہم سے شیئر کیا کرو گی؟

صفیہ: جی بابا (سر ہلاتے ہوئے، نظریں نیچے رکھ کر)

بابا: بیٹا امّی کہہ رہی تھی آپ ناراض ہیں ہم سے۔

صفیہ: نہیں بابا ایسا کچھ نہیں ہے ،وہ بس وہ… سر درد ہو رہا تھا۔

بابا: دیکھو بیٹے تمہارے بڑے تمہارے ماںباپ تمہارا بھلا دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ تمہیں برائی کی طرف جاتے نہیں دیکھ سکتے۔ آپی بڑی ہیں، وہ تمہاری ماں کی جگہ ہے، ان سے بدتمیزی کرنا ،بری بات کہہ دینا، بہت غلط ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ ماں باپ کو اُف تک نہ کہو ان کے ساتھ احسن طریقے سے پیش آؤ، یہ آپ نے بارہا سناہوگا۔

جو ماں باپ کو محبت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے اس کےلیےحج اور عمرے کا ثواب ہے۔

صفیہ: بابا وہ میرے بارے میں امّی سے شکایت کر رہی تھیں، اس لیے مجھے غصہ آگیا۔

بابا: کیا تم حفصہ کو آگ میں جاتے ہوئے دیکھ سکوگی اس کو غلط راستے پر جاتے ہوئے دیکھو گی؟ بس حفصہ نے بھی یہی کیا، جو تم بھی نہیں چاہتیں۔

صفیہ: (آنکھوں میں آنسو لے کر اپنے باپ سے لپٹ جاتی ہے۔ )مجھے معاف کر دیںبابا، مجھ سے غلطی ہوگئی۔

بابا: امّی اور آپی سے معافی مانگیے

(اتنے میں ہی حفصہ اور ماں دونوں آتی ہیں۔)

حفصہ: بابا آپ نے صفیہ کو کھانا کھلا دیا ہے؟

بابا: ہاں بیٹا بہت اچھے سے۔( مسکراتے ہوئے)

صفیہ: آپ مجھے معاف کر دیںامّی سوری

ماں: چلو کوئی بات نہیں۔ چلیں ہال میں چلتے ہیں۔قرآن اور حدیث کا مطالعہ بھی تو کرنا ہے۔

بابا: ہاں چلیں۔ (پانچوں ہال میں چلتے ہیں اور قرآن اور حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں۔)

فیضان آج تم قرآن پڑ ھ کرترجمہ کرو گے ،اور صفیہ حدیث سنائے گی۔

[آپ اپنی لڑکیوں کے ساتھ باتیں کریں، اپنے لڑکوں کے ساتھ کھیلیں۔دوسروں سے پہلے آپ کو انکا بہترین دوست بننے کی ضرورت ہے۔یہ سماج یہ معاشرہ انہیں بہت سے خراب دوست آفر کریں گے ۔اس سے پہلے کہ وہ ان کو دوست بنائیں۔ وہ آپ کے اندر اپنے بیسٹ فرینڈز پالیں۔]

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جولائی ۲۰۲۳