نومبر ۲۰۲۳

عالمی خبریں

اسرائیل میں میکسیکو کے سابق سفیر جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار

میکسیکو کے صدر نے پیر کو کہا کہ میکسیکو کے مصنف اور سابق سفارت کار آندریس رومر( جنھیں جنسی جرائم کے متعدد الزامات کا سامنا ہے) کو اسرائیل میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔میکسیکو کے صدر آندریس مینوئل لوپیز اوبراڈور نے اپنی صبح کی معمول کی پریس کانفرنس میں کہا کہ رومر کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔
میکسیکو کے سابق سفارت کار کو ان کے ملک کے حوالے کردے گا ،جہاں آندریس رومر کے خلاف جنسی زیادتی اور ہراسانی کے مقدمات چلائے جائیں گے۔60 سالہ آندریس رومر میکیسکو کے سان فرانسسکو میں قونصل جنرل اور اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو میں اپنے ملک کی نمائندگی کرچکے ہیں جب کہ وہ ملک کے معروف لکھاری اور پروڈیوسر بھی ہیں۔
سابق سفارت کار آندریس رومر پر سب سے پہلے فروری 2021 ءمیں سوشل میڈیا پر چلنے والی ’’می ٹو مہم‘‘ کے دوران میکسیکو کی معروف رقاصہ اٹزل سناس نے جنسی زیادتی کا الزام لگایا تھا، جس کے بعد سے تقریباً 60 سے زائد جنسی جرائم کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ان خواتین نے الزام عائد کیا تھا کہ آندریس رومر نے کام کے دوران نامناسب انداز سے چھوا اور نازیبا حرکات کیا کرتے تھے، جس کے باعث کچھ خواتین کو ملازمت چھوڑنی بھی پڑی تھی۔
ان الزامات کے بعد میکسیکو نے اپنے ہی سفارت کار کے خلاف اسرائیل سے درخواست کی تھی کہ اندریس رومر کو ملک بدر کر کے واپس میکسیکو بھیجا جائے۔

غزہ کے فلسطینیوں کی حفاظت کس کی ذمہ داری ہے؟

حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی جانب سے پورے غزہ شہر پر کی جانے والی بمباری سے شہریوں کا وہاں جینا محال ہوتا جا رہا ہے۔ بمباری کے علاوہ پانی اور بجلی بند ہے، خوراک اور ادویات کا سنگین بحران پیدا ہو چکا ہے۔تنظیم برائے آزادیِ فلسطین (پی ایل او) کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سیکریٹری جنرل حسین الشیخ نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ غزہ میں فوری طور مداخلت کی جائے اور انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد پہنچائی جائے۔یہ کہتے ہوئے کہ غزہ کو اس وقت بہت بڑے انسانی بحران کا سامنا ہے، پی ایل او کے سیکریٹری جنرل نے زور دے کر مطالبہ کیا کہ اس محصور علاقے میں امدادی سامان پہنچایا جائے، بجلی اور پانی کی سپلائی بحال کی جائے۔
اسرائیل کی بمباری کا نشانہ بننے والا غزہ کا پسماندہ شہر جہاں زندگی کسی نہ کسی طرح رواں دواں تھی، اس وقت کھنڈر میں بدل چکا ہے اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔اسرائیلی فضائیہ نے گذشتہ چھ دنوں سے غزہ پر شدید بمباری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور ممکنہ زمینی حملے سے قبل ہزاروں فوجیوں کو سرحد کے قریب جمع کر رکھا ہے۔اسرائیل میں ملک کی فوج کے سربراہ، لیفٹیننٹ جنرل ہرزی ہیلیوی نے جمعرات کو کہاکہ اب جنگ کا وقت آ گیا ہے۔
بی بی سی کے غزہ میں نامہ نگار رُشدی ابو الوف بتاتے ہیںکہ یہ میری زندگی اور میرے 25 برسوں کے صحافتی کیرئیر کی شدید ترین بمباری ہے۔ میں 20 خاندانوں کی ایک رہائش عمارت میں موجود تھا۔ یہ عمارت ساری رات دھماکوں سے لرزتی رہی۔ بچے خوف سے چیختے رہے۔غزہ میں ایسی کئی عمارتوں پر بمباری ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر اسلامک یونیورسٹی آف غزّہ کی عمارت پر بمباری کی گئی، اسرائیل نے کہا کہ یہ مسجد ٹریننگ کیمپ تھی اور اس میں اسلحہ بنایا جا رہا تھا۔غزہ کی صورتحال تشویشناک ہے اور اس کے باشندوں کی حفاظت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اسرائیلی بمباری اور ممکنہ زمینی چڑھائی کی صورت میں غزہ کے فلسطینی اپنے اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہیں۔لیکن ان کے سامنے بنیادی چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنے گھر اور محلے چھوڑ کر کہا جائیں۔ شدید ترین ہوائی بمباری اور زمینی حملے کی صورت میں حماس کے جنگجو بھی مزاحمت کریں گے۔ عام لوگوں کا دونوں کی لڑائی میں پھنسنے کا امکان ہے۔

ملکی خبریں

والد: شفقت یا زحمت؟

والد کی محبت میں شفقت ہوتی ہے، لیکن کیا والد کی محبت میں درندگی کا تصّور کر سکتے ہیں ؟ نہیں ناں، لیکن قرب قیامت ہے کچھ بھی ممکن ہے۔ جی، ہم بات کر رہے ہیں ایک ایسی ہی بچّی کی جو اپنے ہی گھر میں محفوظ نہ رہ سکی۔ پلول کے تھانہ بہین علاقہ میں تین سال تک اپنی نا بالغ بیٹی کی عصمت دری کرنے اور اس کو حاملہ کرنے کے معاملے میں عدالت نے لڑکی کے والد کو سزائے موت سنائی ہے، اس کے علاوہ اس پر15 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا ہے، باپ بیٹی کے تعلقات کے اس مقدمہ کی سماعت ایڈیشنل جج پرشانت رانا کی عدالت میں ہوئی ہے۔ لڑکی اس وقت این جی او کے ساتھ ہے،اس نے ایک بچی کو جنم دیا، جسے ضرورت مندوں کو گود لینے کے لیے دیا گیا تھا، واضح رہے کہ اس بارے میں ایک17 سالہ لڑکی نے پلول کے خواتین پولیس تھانہ میں شکایت درج کروائی تھی کہ اس کی ماں کا چار سال قبل انتقال ہو گیا تھا، اس کی ماں کی موت کے ایک سال بعد سے اس کے باپ نے اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر دی تھی۔

بچوں کی شادی کے خلاف کارروائی، کامیاب یا ناکام؟

انڈین ریاست آسام کے رہائشی خالد الرشید بولنے سے پہلے ہی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی 23 سالہ بیٹی کلثوم نے 4 فروری کو اپنی جان لے لی۔چار بچوں میں سب سے بڑی کلثوم کی 14 برس کی عمر میں شادی کر دی گئی تھی۔ 2020 ءمیں کووڈ کے سبب شوہر کی وفات کے بعد وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ اپنے والدین کے گھر رہنے آ گئی۔خالد نے بتایا کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، لیکن جب اس نے پچھلے ہفتے کم عمری کی شادیوں کے خلاف حکومتی کارروائی کے تحت گرفتاریوں کے بارے میں سنا تو گھبرا کر خود کشی کر لی۔
جمعے کو کلثوم نے اپنے والد سے میرج سرٹیفیکیٹ کے بارے میں پوچھا تھا۔وہ بتاتے ہیں: ’’میں نے اس سے کہا کہ اس کا شوہر اب زندہ نہیں ہے، اسے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ لیکن کلثوم کو ڈر تھا کہ پولیس اس کے والدین کو گرفتار کر لے گی۔خالد کہتے ہیں: ’’اس نے ہمیں بچانے کی خاطر خود اپنی جان لے لی۔‘‘
آسام میں سینکڑوں خواتین اپنے رشتہ داروں کی گرفتاریوں کے بعد سے احتجاج کر رہی ہیں۔گرفتار کیے گئے افراد میں نابالغ لڑکیوں کے شوہر، ان کے رشتے دار، شادی کرانے والے قاضی، پنڈت اور ان کے معاونین شامل ہیں۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ نا بالغ بچوں اور بچیوں کی شادی کے خلاف یہ مہم جاری رہے گی۔اطلاعات کے مطابق پولیس کے پاس ایسے کم از کم 8100 افراد کے خلاف شکایت درج ہے۔انڈیا میں شادی کے لیے قانونی طور پر لڑکی کی عمر 18 اور لڑکے کی 21 برس ہونا لازمی ہے۔
ریاستی حکومت نے دو برس کے دوران ہونے والی شادیوں اور حاملہ عورتوں کے اعداد وشمار جمع کرنے کے بعد یہ مہم شروع کی ہے۔ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کم عمری کی شادیوں کے غیر قانونی عمل کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتی ہے،لیکن خاتون جیسی ہزاروں عورتیں جن کے شوہر پولیس حراست میں ہیں، بے یار و مددگار محسوس کر رہی ہیں۔شادی سے قبل خاتون کی زندگی آسان نہیں تھی، لیکن شادی کے بعد زندگی میں کئی مثبت تبدیلیاں آئی تھیں۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ۲۰۲۳