نومبر ۲۰۲۳

نسلیں وہی لو ٹاتی ہیں جو وہ اپنے بڑوں سے پاتی ہیں ۔اگر فکر مندی اس بات سے ہوکر میرا بچہ جھڑک کر بات کرتا ہے تو خود کا جائزہ لیں کہ آپ اپنے شوہر سے یا شوہر بیوی سے یا دونوں اپنے بزرگوں سے جھڑک کر بات کرتے ہیں۔اگر فکرمندی بچے کے جھوٹ سے ہوتو تنہائی میں اپنے جھوٹ کا جائزہ لیں کہ ہم کتناجھوٹ بولتے ہیں ۔مسئلہ اگر بچے کے تساہل و کسلمندی کا ہوتو یقین کریں یہ بھی آپ ہی سے منتقل ہوا ہے۔ لاپرواہی بھی والدین کے دین ہے، ساری خوبیاں جو آپ کو اپنی اوالاد میں دیکھ کر خوشی ہوتی ہے، وہ آپ میں ہیں۔بچے اس کا مظہر ہیں اور ہر وہ شکایت جو آپ کو اپنے بچوں سے ہے، وہ آپ کے ماحول میں موجود ہے، اس میں بچے کا کوئی قصور نہیں ۔
دراصل بچہ خاندان کے ماحول کا تیار کیا گیا پروڈکٹ ہوتاہے، اس لیے بچوں کو ماحول فراہم کرنے کے لیے اپنی عادتوں کو بدلنا ، اپنی حرکات و سکنات پر توجہ دینا اور تربیت کے لیے شعوری کوشش کرنا لازم ہے ۔گھر میں ایک دوسرے کا احترام کیا بھی جائے ،حتی ٰکہ بچوں کے احترام اور عزت نفس کا بھرپور خیال رکھا جائے، تاکہ بچے میں خود اعتمادی پیدا ہو ۔بچوں کے سامنے انفاق کرنا انھیں بھی مادیت سے دور رکھے گا ،ان کے سامنے مستقل اللہ کی قدرت و عظمت پر گفتگو کی جائےگی،تو ان کے دلوں میں اللہ کی محبت جاگزیں ہو جائےگی۔

گنبد ہی کی مانند ہے یہ کار جہاں بھی
ہوتی ہے یہاں اپنی ہی آواز کی تکرار

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. امّ ہانیہ

    بیشک درست کہا ۔والدین کو اپنی تربیت آپ کرنا بےحد ضروری ہے وگرنہ وہ اگلی کونسل بگڑے ہوئے والدین دینگے ۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ۲۰۲۳