نومبر ۲۰۲۳

مسند احمد میں ہی ایک اور روایت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بیان کی ہے کہ نبی علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے تعویذ باندھا، اللہ اس کا مقصد پورا نہ کرے اور جس نے کوڑی گلے میں لٹکائی اللہ اس کو آرام نہ دے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ جس نے تعویذ باندھا اس نے شرک کیا۔
رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ میرے بعد اے رویفع! ہو سکتا ہے کہ تم زیادہ عرصہ زندہ رہو، تم لوگوں سے کہہ دینا کہ جس کسی نے ڈاڑھی میں گرہیں ڈال دیں یا گھوڑے کے گلے میں تانت ڈالا یا جس نے استنجاء کیا جانور کی لید یا ہڈی سے تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے برَی ہے۔(سنن نسائی،جلد سوم،باب:داڑھی کو موڑ کر چھوٹا کرنا)
حضرت ابوبشیر انصاری خبر دیتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض سفروں میں سے کسی سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔
راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نمائندہ بھیجا ۔حضرت عبد اللہ بن ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ لوگ اپنے اپنے سونے کی جگہوں پر تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی آدمی کسی اونٹ کی گردن میں کوئی تانت کا قلادہ یا ہار نہ ڈالے، سوائے اس کے کہ اسے کاٹ دیا جائے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ اس طرح نظر لگنے کی وجہ سے کرتے تھے۔حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرے گردن میں دھاگہ پڑا ہوا دیکھا توپوچھا یہ کیاہے ؟ میں نے کہا یہ دھاگہ ہے جس پر میرے لئے منتر پڑھا گیا ہے (یعنی منتروں کے ذریعہ اس دھاگے کا گنڈہ بنوا کر میں نے اپنے گلے میں ڈال لیا ہے ) زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (یہ سن کر )
اس دھاگے کو (میری گردن سے ) نکال لیا اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور پھر کہا کہ اے عبد اللہ کے گھر والو ! تم شرک سے بے پرواہ ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بلا شبہ منتر منکے ،
اورٹوٹکے شرک ہیں ۔ میں نے کہا آپ یہ بات کس طرح کہہ رہے ہیں (یعنی آپ گویا منتر سے اجتناب کرنے اور توکل کو اختیار کرنے کی تلقین کررہے ہیں جب کہ مجھ کو منتر سے بہت فائدہ ہواہے ) چنانچہ میری آنکھ (درد کے سبب) نکلی پڑی تھی اور میں فلاں یہودی کے یہاں آیا جایا کرتی تھی، اس یہودی نے جب منتر پڑھ کر آنکھ کو دم کیا توآنکھ کو آرام مل گیا ۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ (یہ تمہاری نادانی وغفلت ہے ) اور وہ درد اس کا اچھا ہوجانا منتر کے سبب سے نہیں تھا بلکہ (حقیقت میں ) وہ شیطان کا کام تھا ،شیطان تمھاری آنکھ کو کونچتا تھا (جس سے تمہیں درد محسوس ہوتا تھا) پھر جب منتر پڑھاگیا تو (چونکہ وہ ایک شیطان کا کام تھا اس لئے) شیطان نے کونچنا چھوڑ دیا ، تمہارے لیے وہ دعا بالکل کافی تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے کہ :

 اذھب الباس رب الناس واشف انت الشافی لاشفا ء الا شفائک شفاء لا یغادر سقما (ابو داؤد )

( اے لوگوں کے پروردگار توہماری بیماری کو کھودے اور شفا عطا فرما ، توہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے علاوہ شفا نہیں ہے ، ایسی شفا جو بیماری کو باقی نہ چھوڑے ۔)
ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے کہ انھوں نے ایک شخص کے ہاتھ میں گنڈا دم کیا ہوا دھاگہ بندھا ہوا دیکھا جو اس نے بخار دور کرنے کے لیے باندھا تھا ،تو آپ نے اس دھاگے کو کاٹ دیا اور قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی:

وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ(سورہ یوسف: 106)

(ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ۔)
حضرت عیسی ابن حمزہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت عبداللہ بن عکیم کے پاس گیا تو دیکھا کہ ان کا بدن سرخی کی بیماری میں مبتلا تھا ۔میں نے کہا کہ آپ تعویذ کیوں نہیں باندھ لیتے؟ انہوں نے کہا کہ میں اس کام سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ۔کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص کوئی چیز لٹکاتا ہے یا (باندھتا ہے ) تواسی چیز کے سپر د کردیا جاتا ہے۔ (ابو داؤد )
تعویذا ور گنڈے کے ناجائز ہونے کے سلسلے میں مذکورہ بالا تمام دلائل موجود ہونے کے بعد بھی آج کچھ تعویذ ساز کچھ ضعيف احادیث کا سہارا لے کر تعویذ سازی کو جائز قرار دیتے ہیں اور اس بات کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ شرک سے پاک کلمات سے علاج کیا جا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں معاشرے میں شرک کی راہیں ہموار ہوتی ہیں، کیونکہ یہ تعویذ ساز دوران علاج سب سے پہلے مریض کو تعویذ نہ کھولنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ لہٰذا ،یہ پتہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ آیا یہ تعویذ جائز کلمات پر مبنی ہیں یا شرکیہ کلمات سے بھرے ہیں۔ نیز یہ تعویذ ساز شیطان یا جنات کی مدد حاصل کرکے بعض اوقات خود کو عالم الغيب ہونے کا بےجا ثبوت دیتے ہیں۔ اسی طرح بعض دفعہ یہ تعویذ ساز ایک دوسرے پر بے بنیاد الزامات بھی لگاتے ہیں اور خاندان میں تفریق کا سبب بنتے ہیں، جب یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ فلاں نے آپ کے اوپر جادو کیا ہے؟ یا فلاں آپ کی جان کے درپے ہے وغیرہ وغیرہ۔
مذکورہ بالا تمام دلائل کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اول تو تعویذ پہننا ہی ناجائز ہے اور اگر اسے منطقی طور پر جائز بھی مان لیا جائے تو بقول امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہ برائی کے ذرائع کا سد باب کیا جائے ،تاکہ برائی پنپنے نہ پائے ۔لہٰذا ایک مسلم کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی مرض کا علاج کرنے سے پہلے اس کی مکمل طبی جانچ کی جائے اور اگر خدانخواستہ معاملہ جادو ٹونہ یا نظر بد وغیرہ کاہو تو خالص قرآنی آیات اور سنن ماثورہ کے ذریعے دم کرکے اس کا علاج کیا جائے، تو اس طرح معاشرے سے ذہنی و نفسیاتی امراض کا خاتمہ ممکن ہے۔ اور شرک و بدعت کے دروازے بند کیےجاسکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ طریقے کو اپنانے اور اپنے مسائل قرآن و سنت کی روشنی میں حل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

٭ ٭ ٭


ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اول تو تعویذ پہننا ہی ناجائز ہے اور اگر اسے منطقی طور پر جائز بھی مان لیا جائے تو بقول امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہ برائی کے ذرائع کا سد باب کیا جائے ،تاکہ برائی پنپنے نہ پائے ۔لہٰذا ایک مسلم کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی مرض کا علاج کرنے سے پہلے اس کی مکمل طبی جانچ کی جائے اور اگر خدانخواستہ معاملہ جادو ٹونہ یا نظر بد وغیرہ کاہو تو خالص قرآنی آیات اور سنن ماثورہ کے ذریعے دم کرکے اس کا علاج کیا جائے، تو اس طرح معاشرے سے ذہنی و نفسیاتی امراض کا خاتمہ ممکن ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ۲۰۲۳