نومبر ۲۰۲۳

شہادت حق، یہ کتابچہ مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ کی ایک تقریر ہے جس کو کتابی شکل دی گئی ہے۔ اس کتاب میں مولانا نے مختلف عناوین کے تحت یہ بتایا ہے کہ دراصل شہادت حق کیا ہے؟
امت مسلمہ کا فرض اور مقصد وجود۔‌اس ہیڈنگ کے تحت مولانا نے یہ بات بتائی ہے کہ ہم اپنے آپ کو صرف مسلمان کہہ کر خدا کے یہاں نہیں چھوٹ سکتے ہیں ،بلکہ مسلمان ہونے کے دعوے کے ساتھ ہی ہم پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ،جن کا شعور لازمی ہم کو ہونا چاہیے ۔لہٰذا عبادات اور معاملات میں اسلام کے قوانین پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ تمام دنیا کے سامنے اس حق کی گواہی دینے کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے، جس پر ہم خود ایمان لائے ہیں ۔
قرآن مجید میں سورہ بقرہ آیت نمبر: 143 میں اللہ تعالی نے امت مسلمہ کا عین مقصد، حق کی گواہی دینا ہی بتایا ہے، جسے اگر پورا نہ کیا جائے تو زندگی اکارت ہو جائے گی۔

 شہادت حق

 شہادت حق کی ذمہ داری سے مراد دراصل یہ ہے کہ جو حق ہمارے پاس آیا ہے، اور انسان کے لیے فلاح اور نجات کی جو راہ دکھائی گئی ہے ،ہم دنیا کے سامنے اس کے حق اور صداقت کی گواہی دیں، اسی شہادت کے لیے انبیاء کو بھیجا گیا۔ پھر یہ ذمہ داری انبیاء کی امتوں پر ڈالی گئی۔ اب خاتم النبیین ﷺ کے بعد یہ فرض امت مسلمہ پر بحیثیت مجموعی اسی طرح عائد ہے ،جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی زندگی میں شخصی حیثیت سے عائد تھا۔

ادائیگی شہادت کا طریقہ

 شہادت کے ادا کرنے کا طریقہ بتاتے ہوئے مولانا بیان کرتے ہیں کہ شہادت دو طرح کی ہوتی ہے، نمبر ایک قولی شہادت نمبر دو عملی شہادت۔ قولی شہادت یعنی ہم زبان اور قلم کے ذریعے اس حق کو واضح کریں ،جو انبیاء کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔ سمجھانے کے جتنےطریقے ہیں،دعوت و تبلیغ اور نشر و اشاعت کے جتنے بھی ذرائع ہیں؛ سب سے کام لے کر ہم دنیا کو دین کی تعلیم سے روشناس کریں، اور حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا دلائل سے ثابت کریں۔ عملی شہادت کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ان اصولوں کا مظاہرہ کریں جن کو ہم حق کہتے ہیں۔ صرف ہماری زبان ہی لا الہ الا اللہ کا ورد نہ کرےبلکہ ہمارا عمل بھی اس کی گواہی دے،ہمارے اخلاق اور معاملات، ہمارا معاشرہ، رہن سہن، تہذیب و تمدن، غرض ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ہر گوشہ اوروں کے لیے مشعل راہ اور قابل تقلید ہو۔ یہ عملی شہادت جب قولی شہادت سے مل جاتی ہے تب ہی وہ ذمہ داری ادا ہوتی ہے جو امت مسلمہ پر ڈالی گئی ہے۔ لیکن اس قولی اور عملی شہادت کو ادا کرنے کی بجائے ہم حق کو چھپانے اور جھوٹ کی گواہی دینے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، جیسا کہ ہم سے پہلے یہودیوں نے کیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اج ہم مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں اور دنیا میں بطور عذاب ذلت اور رسوائی جھیل رہے ہیں۔
مسلمان ہو کر نا مسلمان بنے رہنا اور حق کانمائندہ بننے کے بجائے باطل کا نمائندہ بننا ،یہ دراصل وہ جرم ہے جو دنیا میں بھی ہمیں پنپنے نہیں دے گا اور آخرت میں تو جو سزا ہوگی وہ ہوگی ہی۔

 نصب العین

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں عملاًاس دین کو قائم کریں اور قولاً وعملاًاس کی سچی گواہی دیں۔ یہی دراصل جماعت اسلامی کے قیام کی واحد غرض ہے۔

 اجتماعیت

اسلام کے تمام ارکان چونکہ انفرادیت سے نہیں پورے ہو سکتے،اس کے لیے اجتماعیت کا ہونا ضروری ہے، کیونکہ دین کا ایک چھوٹا سا حصہ انفرادیت سے تعلق رکھتا ہے، پورے دین کو قائم کرنے کے لیے اور صحیح شہادت کے لیے ضروری ہے کہ جو مسلمان بھی اس کا شعور رکھتےہوں، وہ متحد ہو کر ایک جماعت کے تحت آجائیں ۔
ایک الزام یہ ہے کہ جماعت اسلامی، اسلام میں ایک نئے فرقے کی بنیاد ڈال رہی ہے، مولانا کہتے ہیں جن باتوں سے تفرقہ برپا ہوتا ہے، وہ چار ہیں۔ ایک یہ کہ اصل دین پر کسی ایسی چیز کا اضافہ کیا جائے جو دین میں نہ ہو، دوسرے یہ کہ دین کے کسی خاص مسئلے کو لے کر وہ اہمیت دی جائے جو کتاب و سنت سے ثابت نہ ہو اور گروہ بندی کر لی جائے، تیسرے یہ کہ اجتہادی و استنباطی مسائل میں غلو کیا جائے، چوتھی یہ کہ نبی کے بعد کسی خاص شخصیت کے معاملے میں غلو کیا جائے۔مولانا کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے اپنی جماعت کی بنیاد ان چاروں میں سے کسی پر نہیں رکھی، بلکہ جماعت اسلامی اصل اور بے کم و کاست اسلام کو لے کر اٹھی ہے اور یہ مسلمانوں کو یہی دعوت دیتی ہے کہ آؤ ہم سب مل کر عملاً اپنے دین کو قائم کریں اور دنیا کے سامنے اس کی شہادت دیں۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ۲۰۲۳