فلسطین کی ویڈیوز اور تصاویر نے اعصاب کو شل کرکے رکھ دیا ہے، کہیں ماؤں کی لاشوں کے سامنے معصوم بچے کھڑے ہوکر رحم طلب نظروں سے دیکھ رہے ہیں، تو کہیں چیختی چنگھاڑتی مائیں بچوں کی لاشوں کے ٹکڑے جمع کررہی ہیں ۔انسانی نفسیات پر ظلم کی اس داستان سے زیادہ بھیانک آزمائش بھی کوئی ہوسکتی ہے؟ کلیجہ منہ کو آتا ہے، اپنے قریب کھیلنے والے بچوں کو دیکھ کر فلسطین کے معصوموں کا چہرہ نگاہ میں گھوم جاتا ہے ۔
اچانک ہنستے کھیلتے خاندانوں کے بچے پڑنے والی افتاد پر ٹروما کا شکار نظر آتے ہیں ۔ ہم لوگ، جو بچوں کو ڈانٹنے سختی برتنے سے بھی والدین کو پیرنٹنگ کے سیشنز کے درمیان روکتے ہیں ،ان تصاویر کو دیکھتے ہوئے دیر تک سوچتے ہیں ،ان معصوموں پر اس کے کتنے دوررس اور تادیر قائم رہنے والے اثرات پڑیں گے؟ ساری دنیا اس ظلم کو دیکھ رہی ہے ،لیکن انسانی حقوق کے یہ ادارے جنگ بندی کو نتیجہ خیز بنانے پر متوجہ نہیں ،جبکہ
( PTSD(Post troumic stress disorderماضی میں پہنچنے والے صدمے کے اثرات سے بچے کی پوری شخصیت متاثر ہوتی ہے اور ان کی نفسیات پر عرصۂ دراز تک اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بعد PTSD ( مابعد صدمہ ذہن پر دباؤ کے اثرات )پر باضابطہ اسٹڈی کی گئی تھی جبکہ یہ تصورکوئی نیا نہیں ہے،بلکہ1760 ءمیں ہی اس پر تحقیق ہو چکی تھی۔
جب کسی انسان کی زندگی میں جنسی حملہ، ملکوں کے درمیان جنگ چھڑی ہو یا سڑک حادثے میں عزیز کو کھونے، بچوں کا استحصال،گھریلو تشدد، یا دوسرے طرز کے خطرات جیسے صدمات سے گزرتے ہیں تو پوری زندگی ایک ٹامک کیفیت میں گزارتے ہیں ۔
بظاہر وہ ایک نارمل زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، لیکن گاہے بہ گاہے واقع ہونے والی علامات میں پریشان کن خیالات، جذبات یا خواب جو واقعات سے جڑے ہیں، ذہنی یا جسمانی تناؤ سے لے کر صدمہ جیسی علامات، وہ کاوشیں جو صدمے سے جڑی علامات سے بچا ؤکےلیےہوں، انسان کے سوچنے اور محسوس کرنے میں فرق آ سکتا ہےاور لڑنے بات بات پر جھنجھلانے ،سخت ری ایکشن دینے یا کاموں سے فرار اختیار کرنے اورمسائل سے بھاگنے جیسے رد عمل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ علامات واقعات کے ایک مہینے سے زیادہ چلتی ہیں۔کم سن بچوں میں ذہنی تناؤ دکھانے کے امکانات کافی کم ہیں، لیکن حادثے کے بعد بچوں کا ابھرنا تو آسان ہوتاہے لیکن ان کی شخصیت میں واضح تبدیلی آجاتی ہے۔
سخت ردعمل کے بر عکس وہ اپنی یادوں کو کھیل کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں۔ مابعد صدمہ تناؤ کی بدنظمی سے متاثرہ افراد خود کشی اور جان بوجھ کرخود کو نقصان پہنچانے کے زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں ۔
مڈل ایسٹ کے ایک سائیکاٹرسٹ محمد اے ایس التوانی نے فلسطین کے جنگ زدہ بچوں پر ایک سروے رپورٹ پیش کی ہے،یہ رپورٹ 8فروری 2023 ءکو Springer open نے پبلش کی ہے ۔
فلسطین کی سیاسی کشاکش نے وہاں کے معصوم بچوں کو PTSD کا شکار بنادیا ہے۔ برسہا برس سے رفیوجی کیمپ میں زندگی گزارنے والے بچے کس تکلیف سے گزر کر بڑے ہوتے ہیں ،ہم دیکھ کر اندازا کرسکتے ہیں نہ حالات جان کر۔
االتوانی نےاپنی سروے رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ 2006 ءتا 2022ءتک 607 نوجوان کا ڈیٹا حاصل کیا گیا ،جن کی عمر 10 سے 30 سال کے درمیان تھی۔
اہم نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ کم از کم 97.2 فیصد شرکاء نے سال 2006ءتک کم از کم 6 تکلیف دہ تجربات کاسامنا کیا تھا اور 2021 ءمیں 100 فی صدشرکاء کو صدمات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر نائن الیون کے حادثےمیں شریک اپنے زندگی کے حادثاتی تجربات بیان کرتے ہوئے ایک امریکی خاتون کہتی ہے کہ ہم نے حادثے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ،اور اس کے بعد آج تک کوئی چیز مجھے نہیں چونکاتی ہے ۔اس نے ان چیزوں میں بھی دلچسپی کھونا شروع کردی جو اسے کبھی پسند تھیں، جیسے کھیل۔ وہ کہتی ہیںکہ میں نے اسکول میں پرفارم کرنے کے معاملے میں اپنے آپ پر، اپنی صلاحیتوں پر شک کرنا شروع کردیا۔
نیو یارک سٹی اور پڑوسی علاقوں میں بہت سے لوگ جنھوں نے اس آفت کا مشاہدہ کیا تھا، اس کے بعد کے مہینوں میں صدمے کی علامات کا سامنا کرنا پڑا۔ لوزانو جیسے زندہ بچ جانے والوں، بحالی کے کارکنوں اور گواہوں کی صحت کا مطالعہ کرنے والے محققین کا کہنا ہے کہ اس واقعے نے ذہنی صحت کے مسائل جیسے ڈپریشن اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈرز PTSD کی شرح میں اضافہ کیا۔
اس کے بعد جب کہ لوگوں کی اکثریت سالوں میں صحت یاب ہو چکی ہےزندہ بچ جانے والوں کا ایک بڑا حصہ آج بھی ان علامات کا سامنا کر رہا ہے۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ڈائریکٹر مارک فارفیل کہتے ہیںکہ 70,000 سے زیادہ لوگوں کی دماغی ونفسیاتی صحت کا براہ راست پتہ لگانے کے نتیجے میں اندازہ ہوا کہ نیو یارک شہر میں 9/11 کی اس تباہی نے جواب دہندگان اور شہریوں؛ دونوں پر طویل مدتی اثرات مرتب کیے ہیں۔
حقوق انسانی پر کام کرنے والے ادارے اور امریکی سائیکلوجیکل ایسوسییشن نے حادثے کے شکار افراد پر ریسرچ رپورٹ تیار کرکے پوری دنیا کی توجہ اس نفسیاتی دباؤ پر کروائی تھی، لیکن اب فلسطین میں تقریباً ستر سالوں سے جنگ مسلط کی گئی ہے، پوری آبادی کو غزہ میں اوپن ائیر ڈٹینشن کیمپ کی مانند بنادیا گیا ہے، غزہ کے لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ بغیر اجازت سفر نہیں کرسکتے، انتہائی تکلیف دہ صورت حال سے گزرتے ہیں، وہاں کے انسانوں کی نفسیاتی دباؤ پرکوئی ریسرچ ان حقوق انسانی کی باتیں کرنے والوں کی جانب سے نہیں کی گئی۔
اب بھی بیس دن سے جاری اس جنگ میں بچ جانے والے بچے ایک کربناک کیفیت سے گزرتے ہوئے حقوق انسانی کے دعوے داروں سے چیخ چیخ کر اپنی بربادی ومظلومیت کی داستان سنا رہی ہے ۔ان کے لیے رفیوجی کیمپ تو بنادئیے جاتے لیکن کوئی ذہنی و جذباتی باز آبادکاری کے سینٹرز موجود نہیں ہیں ۔
ابو زیاد اپنی نفسیاتی کیفیت کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دھماکے کے ساتھ ہی میں نے بھی کئی سال پہلے اپنے ہنستے کھیلتے خاندان کو کھودیا تھا، اس کے بعد میں اپنی سوچنے سمجھنے کی حس کو کبھی زندہ نہیں کرپایا، جو کام سامنے ہو کرلیتا ہوں، میرا دماغ کبھی کسی بات کا منصوبہ نہیں بناتا ،ہمیشہ انہونی کا اندیشہ لگا ہوتا ہے ۔
PTSD( پوسٹ ٹرامک اسٹریس ڈس آرڈر)ایک ایسی کیفیت کا نام ہے، جس کو سمجھ لیا جائے تو دوسرے کا درد محسوس کرنا آسان ہوجائے۔زندہ لاش کی طرح زندگی گزارنے والا شخص اپنی جذباتی حسیات سے کبھی کبھی مطلق بے نیاز ہوجاتا ہے، میکانیکل زندگی گزار رہا ہوتا ہے ، Self harm (خود اذیتی )کا شکار بھی بن جاتا ہے ، کبھی کبھی دورے کی شکل میں اس کی زندگی میںدباؤ بنانے والے لمحے اس کی قوت فیصلہ کو بری طرح متاثر کرتے ہیں ۔
حالیہ جنگ میں فلسطین کے ایک لیڈر نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہماری نسلیں جس نفسیاتی کربناک صورت حال کا شکار ہیں، اسے ہم بیان کرنے سے قاصر ہیں، یہ نوجوان شادی نہیں کرسکتے ، روزگار سے محروم ہیں ، امن بھری زندگی ان کے لیے بس ایک خواب ہے، اپنے عزیزوں کے درمیاں ہنستی کھیلتی زندگی اچانک قبیح وحشت ناک خواب کی صورت ہمارے اعصاب پر سوار ہوجاتی ہے ۔دو آوازوں اور چندچیزوں سے ہی سے ہم مانوس ہیں، بم اور مشین گن کی آواز ،بارود کی بو اور عزیزوں کی لاشیں ۔
نیٹ فلیکس پر ’’فرحہ‘‘ نامی مووی میں بھی ڈائریکٹر نے فلسطینیوں پر ڈھائے گئے ظلم کی کربناک داستان سناتے ہوئے ایک معصوم بچی کی نفسیات کو واضح کیا کہ وہ کربناک صورت سے گزرنے کے بعد نفسیاتی طور پر ذاتی تحفظ کے لیے ہتھیار اٹھالیتی ہے ۔
پرامن زندگی پر اگر کسی استعماری ملک کا حق ہے تو فلسطینیوں کا بھی حق ہے کہ پوری دنیا ان کی جانب متوجہ ہو اور ان کے حقوق انسانی کے ادارے ان کے مسئلے کو حل کریں ۔اسرائیلی صہیونی جارحیت اور دہشت گردی کی کوئی انتہا نہیں ہے، ساری دنیا کے با ضمیر انسانوں کو فلسطین کے اب اٹھے ہوئے مسئلہ کو بغیر حل کے دبادینے کے بجائے اس پر عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔
امریکی سائیکلوجیکل ایسوسییشن نے دیگر ملکوں کے آفات اور جنگ زدہ علاقوں کی ریسرچ کرکے دنیا پربازآباد کاری کے سینٹرز بنوانے پر دباؤ بنایا، اب ضرورت ہے کہ عالمی دنیا فلسطینی بچوں کے لیے ایسے عالمی سینٹرز کا قیام کرے۔ان کی بنیادی ضرورتوں، تعلیم گاہوں اور نفسیاتی بازآباد کاری کے ادارے قائم کرے ۔اب فلسطین کی آزادی اور انسانی حقوق کی بحالی پوری دنیا اورپوری انسانیت کا مسئلہ ہے ۔
٭ ٭ ٭
حقوق انسانی پر کام کرنے والے ادارے اور امریکی سائیکلوجیکل ایسوسییشن نے حادثے کے شکار افراد پر ریسرچ رپورٹ تیار کرکے پوری دنیا کی توجہ اس نفسیاتی دباؤ پر کروائی تھی، لیکن اب فلسطین میں تقریباً ستر سالوں سے جنگ مسلط کی گئی ہے، پوری آبادی کو غزہ میں اوپن ائیر ڈٹینشن کیمپ کی مانند بنادیا گیا ہے، غزہ کے لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ بغیر اجازت سفر نہیں کرسکتے، انتہائی تکلیف دہ صورت حال سے گزرتے ہیں، وہاں کے انسانوں کی نفسیاتی دباؤ پرکوئی ریسرچ ان حقوق انسانی کی باتیں کرنے والوں کی جانب سے نہیں کی گئی۔
0 Comments