ٹیکنالوجی کے اس دور میں آپ کو بڑے تو کیا بچوں کے ہاتھ میں بھی موبائل نظر آتا ہے۔ پہلے گھروں میں داخل ہوں تو بچوں کو تہذیب کے ساتھ مہمان کا استقبال کرنے اور انھیں پانی پیش کرنے کی تربیت دی جاتی تھی ۔بچوں سے پوچھے گئے سوالات اور ان سے گفتگو کرنا مہمان فرض سمجھتے تھے اور اسی سے گھر کے سکون اورہشاش بشاش فیملی کا اندازہ لگایا جاتا تھا ،اسی لیے بچوں کو مہمان کے سامنے آنے ،ان کااستقبال کرنے اورانھیںسلام کرنے کاسلیقہ سکھایا جاتا تھا ۔اس سے یہ بھی فائدہ تھا کہ بچے بہت توجہ سے مہمان کو دیکھتے اور خود بھی نشست و برخاست کا ڈھنگ سیکھتے تھے ۔
یہ باتیں اب قصہ پارینہ ہوئیں ۔بچوں کے ہاتھ میں موبائل ہوتا ہے، والدین لاکھ آوازیں دیں، بچے طوعاً و کرہاً آتے ہیں اور مہمان کو دیکھے بغیر سلام ٹھونک کر نکل لیتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ بڑی عجلت میں ہیں ۔یہ کہانی ایک دو گھر کی نہیں ،گھر گھر کی ہے ۔کیا امیر کیا غریب کیا متوسط؟ بچوں کا موبائل کے تئیں اوبسپشن ہے روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے ۔
ماہرین کے نزدیک بچے سات سال کی عمر تک اپنے ارتقائی اور انتہائی نازک دور سے گزرتے ہیں، اس دوران ان کے حسی اعضا ءپرورش پاتے ہیں ،وہ باریک بینی سے چیزوں کو دیکھتے ہیں، ان کا مشاہدہ کرتے ہیں، ان پر سوچتے ہیں۔ ہر بچے کے دیکھنے سمجھنے، معلومات کو جوڑنے، تخلیقی اعتبار سے غور وفکر کرنےکا زاویہ مختلف ہوتا ہے ،اس کا انحصار بچے میں ودیعت کردہ صلاحیت پر منحصر ہوتا ہے۔ جیسے اگر بچہ آوڈیو ویژول(Audio visual)ہو تو وہ سننے کے ساتھ آنکھوں سے دیکھ کر باتوں کو یاداشت کا حصہ بنتا ہے۔ اس کی عمر ، تجربہ ،
ماحول اور اس میں ودیعت کردہ صلاحیت کے اعتبار سے طے ہوتا ہےکہ وہ کتنی تیزی سے اس کو سمجھے گا؟(Way of persiverence) چیزوں کو سمجھنے دیکھنے کی صلاحیت ہر ایک کی مختلف ہوتی ہے ۔اسی طرح قوت شامہ ، محسوسات ، اور طبعی ارتقاء اس عمر میں بہت تیزی کے ساتھ ہوتی ہے ۔
اس عمر میں مطلب 1 سے 7 سال کی عمر میں بچوں کو انسانوں کے درمیان رکھنا، انسانی رویے کی سمجھ بوجھ پیدا کرنا، انھیں شامل (Engage) ہونا سکھانا ؛سب سے اہم ہے۔ اگر وہ اس عمر میں انسان کے بجائے مشینوں سے یا تکنیکی آلات سے الجھے رہیں تو اس طرح کے Interpersonal skills وہ سیکھ نہیں پاتے ہیں، رویے میں تبدیلی واقع ہوتی ہے، وہ سماج میں زندگی گزارنے کی تکنیک سے عاری ہوتے ہیں ،اور یہ سمجھ بھی نہیں پاتے کہ وہ کہاں غلط ہیں ِ،سماج انھیں کیوں قبول نہیں کرپارہا ؟
اسی لیے ماہرین کا خیال ہے کہ بچوں سات سال سے کم عمر میں موبائل کے استعمال سے روکنا چاہیے۔ چونکہ بچے بڑوں کی نقالی کرتے ہیں، ہر چیز بچے بڑوں کو دیکھ کر ہی کرتے ہیں، اس لیے لازم ہے کہ بچےبڑوں کو موبائل استعمال کرتے ہوئے دیکھیں گے تو خود بھی اس کی جانب مائل ہوں گے، تاہم بڑے بچوں کے مقابلے چھوٹے بچوں کی ماؤں کو زیادہ ڈسپلنڈانداز میں کام کرنے چاہئیں ۔
ویڈیو گیمز کھیلنے کی عادی بچوں سے کیایہ عادت چھڑوائی جاسکتی ہے؟
اس کی تین صورتیں ہیں :
(1) کیا بچے اتنے عادی ہیں کہ وہ اچھائی برائی کی تمیز کھوچکے ہیں؟ اسکول میں ان کا دل نہیں لگتا؟ اسکول سے آتے ہی وہ سب سے پہلے ویڈیو گیم پر توجہ دیتے ہیں، انھیں کھانے پینے یا اپنے اطراف کی فکر نہیں ہوتی ۔گھر میں خوشی غمی، مہمان کا موقع دیکھے بغیر روم بند کرکےویڈیو گیم کھیلنے کو ترجیح دیتے ہیں؟دوست احباب سے زیادہ تنہائی کو پسند کرتے ہیں؟
(2) یہ نوٹ کریں کہ کیابچہ کھیلنے کے ابتدائی مرحلے میں ہے، طے شدہ وقت کی پابندی پہلے کرتا تھا، اب بالکل نہیں کرتا ۔تعلیمی نتائج ابھی بھی کمزور آرہے ہیں، والدین پر جھنجلاہٹ کا شکار ہونے لگا ہے؟
(3) ابھی موبائل یا ڈیوائس ہاتھ میں نہیں ہے، لیکن اپنے دوستوں کا ذکر آپ سے کرتا رہتا ہے، رشک کرتا ہے کہ سب دوستوں کے پاس ہے، لیکن اسے استعمال کی اجازت نہیں۔ برہمی درج کرواتا رہتا ہے ،کسی کام کی تکمیل کے لیے ڈیوائس کے گفٹ کی شرط لگاتا ہے ۔ابھی صرف والدین کے موبائیل کو موقع ملتے ہی استعمال کرتا ہے ؟
تینوں حالتوں میں سے ہر ایک کے لیے والدین کو الگ الگ علاج کرنا ہوگا ۔
سب سے پہلی قسم کے بچوں کے لیے کچھ ویڈیو گیم کا تعارف آپ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ جو بچے پہلے سے عادی ہوچکے ہیںان پر فوراً پابندی لگا کر سختی برتنا مسئلے کا حل نہیں ہے، اور نہ ہی والدین کو اضطراب کا شکار ہونا چاہیے کہ اب بچے برباد ہوچکے، کچھ نہیں ہوسکتا ۔
آئیے! ویڈیو گیم کے میکانزم کو سمجھتے ہیں تاکہ بحیثیت والدین اپنے بچوں کو کچھ مخصوص گیمز کی اجازت دے سکیں ۔
ویڈیو گیم کے آئیڈیاز کا آغاز 1947 ءمیں کیا گیا تھا ۔جب ایک امریکی ماشینکسار اور مہندس جیکوب برنزیکی (Jacques Barnard) نے کیمبرج یونیورسٹی کے ویڈیو کمپیوٹنگ گروپ کے تحت ایک کھیل تیار کیا، جس کو’’ نوچ اور کریس‘ (Noughts and Crosses) کہا جاتا تھا۔ یہ کھیل ایک چکرباز اور کھلاڑی کے درمیان کھیلا جاتا تھا جس میں کھلاڑی کو جیتنے کے لیے ایک ایکس یا ایک صفر بنانا ہوتا تھا۔ اس کھیل کو ایک کمپیوٹر پر پلے کرنے کے لیے بنایا گیا تھا اور یہ ویڈیو گیم کی دنیا کا پہلا آئیڈیا تھا جو کمپیوٹر پر کھیلا جا سکتا تھا۔
اس کے بعد، دنیا بھر میں مختلف لوگوں نے ویڈیو گیم کے مختلف آئیڈیاز دیے اور ویڈیو گیم کی صنعت کوآگے بڑھایا۔ ویڈیو گیم کی تاریخ میں مختلف اہم مواقع ہیں جو نئے آئیڈیاز کی پیداوار کو یقینی بناتے ہیں، جیسے ٹیٹرس کی طرح سادہ پژل کھیلوں سے لے کر ماریو کارٹ کی طرح پاپولر گیمز کی تخلیق تک۔ ویڈیو گیم کی صنعت نے تعداداور ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کی ہے، اور اب یہ ایک بڑی اور پروفیٹ انڈسٹری بن گئی ہے جو دنیا بھر میں مختلف پلیٹ فارموں پر ویڈیو گیمز کی تخلیق کرتی ہے۔
بچوں کی شخصیت پر ویڈیو گیمز کےمثبت اور منفی اثرات
والدین ،بچوں کی فرمائش پربچوں کو ویڈیو گیمز کو اجازت بھی دیتے ہیں اور پریشان بھی رہتے ہیں ۔بعض والدین نتائج کے خوف سے اپنی دماغی صحت متاثر کرلیتے ہیں ۔انھیں جان لینا چاہیے کہ اس سلسلے میں بڑا نقصان مایوس کن سوچ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اعتدال کی روش پیدا کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے اور متبادل ویڈیو گیم کی اجازت دے کر بچوں کے رویے کو معتدل بنایا جاسکتا ہے ۔
مثبت اثرات
تعلیمی فوائد
کچھ ویڈیو گیمز تعلیمی مواد پر مشتمل ہوتے ہیں ،جن میںبچوں کو مخصوص مضامین سکھائے جاتے ہیں، جیسے کہ ریاضی، علوم، اور زبانی مہارتیں۔
تنظیم اور ترتیب
ویڈیو گیمز کھیلنے کے لیے بچوں کو منظم رہنے کی عادت بنانے میں مدد ملتی ہے، جیسے کہ منصوبہ بندی کرنا اور وقت کا صحیح استعمال کرنا۔ وقت طے کرکے کھیلنے دیا جائے تو عملی زندگی میں بھی ترتیب و تنظیم کا اطلاق کرنا بھی سکھایا جاسکتا ہے۔
مشکل ٹاسک کو حل کرنے کی صلاحیت
ویڈیو گیمز مختلف چیلنجز اور پژلز پیش کرتے ہیں، جو بچوں کی مشکلات حل کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہر گیم کم وقت میں چاق و چوبند رہ کر ایکشن لینے کی ترغیب دلاتا ہے، تھوڑا سا ذہنی دباؤ بھی بنتا ہے اور انہماک بھی درکار ہے، فیصلہ لینے سے پہلے اچھی طرح سوچنے کی ترغیب بھی ہے ۔اگر بچوں کو گیم میں صرف دو گھنٹے اجازت ملے اوروہ دماغی تھکن کو دور کرنے کے لیےاس کو بطورعلاج استعمال کریں تو اس کے اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
سمجھ بوجھ
ویڈیو گیمز کھیلنے سے بچوں کی ذہانت اور تحلیلی سوچ میں بہتری آتی ہے، کیونکہ ان کو مختلف سوچنے کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔
انفرادی مہارتوں کی تربیت
ویڈیو گیمز کے کھیلنے سے بچوں کے انفرادی مہارتوں، جیسے کہ دست چلانے کی مہارت اور آنکھوں کی مطابقتی کارروائی میں بہتری آتی ہے۔ بیک وقت سوچنا، ہاتھ کی حرکت اور تمام حسیات سے متوجہ ہونا سیکھتا ہے، غلط ایکشن آئندہ کے لیے سبق بنتا ہے ۔
ٹیم ورک
ملٹی پلئیر آن لائن گیمز بچوں کے درمیان ورچول تعلقات کو بڑھا سکتے ہیں۔ جب وہ ایک ورچول ماحول میں ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔وہاں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی تہذیب سے آشنا ہوتے ہیں۔ دنیا کے بزنس مین اور نوبل پرائز مین اپنے کاموں کی تھکن سے ذہن کو تبدیلی کا احساس دلانے کے لیے ویڈیو گیم کا سہارا لیتے ہیں ۔
ایک تحقیق میں وکلاء نے بھی کسی کیس کی پیچیدہ گتھی سلجھانے کے لیے دماغ کو دوسرے کام میں مصروف رکھنے کے لیے ملٹی پلئیر گیم کا سہارا لیا ہے ۔
منفی اثرات
جسمانی سلامتی کے اثرات
زیادہ وقت ویڈیو گیمز کھیلنے سے جسمانی فعالیت متاثر ہوتی ہے ، جو چربی پیدا کرنے جیسے صحت کے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔
نیند کی پریشانی
ویڈیو گیمز کھیلنے کا زیادہ وقت اکثر بچوں کی نیند کی سائیکل (Sleeping cycle) کو متاثر کرتا ہے، جو نیند کی کوالٹی پر برا اثر ڈال سکتا ہے۔
رویے میں تبدیلی
ویڈیو گیمز میں غیر اخلاقی یا زیادہ جذباتی ،ہیجان انگیز یا جنسی مواد کا سامنا کرنا، بچوں کو اکثر جھنجلاہٹ اور تشدد پسند بنا سکتا ہے۔
تعلیمی کارکردگی میں کمی
زیادہ ویڈیو گیم کھیلنے کی وجہ سے بچوں کی تعلیمی کارکردگی پر اثر ہوسکتا ہے اور وہ مشق کرنے اور دوسری تعلیمی سرگرمیوں میں ارتقاء سے محروم رہ جاتے ہیں۔
سماجی تعلقات کا متاثر ہونا
سماجی تعلقات (Interpersonal skills) کو بری طرح متاثر کرتا ہے، بچہ تنہائی پسند بن جاتا ہے۔ ایک اچھا تاجر یا کسی کام میں مہارت پیدا کرنے سے محروم ہوجاتا ہے ۔
جذباتی ذہانت کا متاثر ہونا
جذباتی ذہانت کےفروغ کے لیے انسانوں کے درمیان نشست و برخاست اور انسانی تال میل لازم ہے، ایسے بچے خوشی اور غم کے موقع پر تاثرات کی تہذیب سے عاری ہوتے ہیں ۔
ویڈیو گیمز کو عادی بچوں پر کنٹرول کرنے کے لئے والدین کو چند اہم اقدامات اخذ کرنے چاہئیں:
تعیین وقت
والدین کو بچوں کے لیے ویڈیو گیم کھیلنے کے وقت کاتعین کرنا چاہیے۔ اس طرح،بچے ویڈیو گیمز کو منظم طور پر کھیل سکیں گے اور دوسرے اہم کاموں کے لیےبھی وقت بچا سکیں گے۔
وقت کی پابندی
ویڈیو گیم کے لیے مخصوص وقت کی پابندی کرنی چاہیے، اور اس وقت کو منظم طور پر کھیلنے کے لیےدینا چاہیے۔ یہ احساس دلاتے ہوئے کہ اتنے بجے سے اتنے بجے تک کھیلنے کا وعدہ تھا، ہم وعدہ خلافی نہیں کریں گے، آپ بھی وعدہ نبھائیے۔
مناسب کونٹینٹ
والدین کو یہ دھیان میں رکھنا چاہیے کہ بچے کےلیے کونٹینٹ مناسب اور عمر کے مطابق ہو۔
ہر ویڈیو گیم کے ڈسکرپشن میں عمر لکھی ہوتی ہے، بچوں کو ویڈیوگیم ان کی عمر کے مطابق ہی دینا چاہیے، اگر وہ لیول پار کرلیں تب بھی عمر سے بڑے گیم بچوں کو نہ دیں ،ساتھ ہی تخریب کاری پر اکسانے والے گیم بھی نہ کھیلنے دیں ۔
ویڈیو گیم کی تصدیق شدہ اور عمر کے مطابق کونٹینٹ کو ترجیح دینی چاہیے۔
ویڈیو گیم کی جگہ
بچوں کو ویڈیو گیمز موبائل پر کبھی کھیلنے نہ دیں، بلکہ ان کے لیے ایک مخصوص جگہ کاتعین کرنا چاہیے، جیسے کہ ایک ویڈیو گیم کمرہ یا لائبریری، تاکہ وہ وقت کو مدنظر رکھیں اور زندگی کےدوسرے حصے کو متاثر نہ کریں۔
سماجی تعلقات
ویڈیو گیمز کے علاوہ، والدین کو بچوں کو دنیا کے حقیقتوں سے وقت گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ وہ دوسری سوچ اور تجربے حاصل کریں۔ وہ رشتے داروں کو وقت دیں ،وہ کسی مجبور اور بے سہارا کے مسائل پر سوچ سکیں ،وہ غریب طالب علم کے تئیں رحم کے جذبات رکھتے ہوں ۔
نظر رکھنا
ویڈیو گیم کھیلنے کے دوران بچوں پروالدین کو نظر رکھنا چاہیے، تاکہ معلوم رہے کہ وہ مناسب کونٹینٹ کو دیکھ رہے ہیں اور وقت پر منظم طریقے سے کھیل رہے ہیں۔ کبھی کبھی خود بھی جوائن کرلیں، تاکہ بچہ والدین کے ساتھ صحت مند تعلقات کو جاری رکھتے ہوئے اعتماد کے ساتھ کھیل سکے ۔
تفریح
بچوں کو تفریحی فعالیتوں میں بھی والدین کی شمولیت فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ جسمانی طور پر فعال رہ سکیں۔
والدین اس طرح کی کارروائی کے ساتھ، ویڈیو گیمز کو بچوں کی زندگی کا حصہ بنا سکتے ہیں جو ان کی شخصیت پر منفی اثرات ڈالےبغیر تعلیمی اور تفریحی فائدے پیدا کر سکتے ہیں۔
اگلی قسط میں ویڈیو گیم کی اقسام پر تعارف کے ساتھ گفتگو کی جائےگی۔
(جاری)
٭ ٭ ٭
0 Comments