نومبر ۲۰۲۳
زمرہ : ٹی ٹائم

قاتل

6 ستمبر 1970ء کو سید ابوالاعلی مودودیؒ کو قتل کرنے کے ارادے سے ایک نوجوان ان کی رہائش گاہ مرکز میں آیا،لیکن سید صاحب کے پُرانوار چہرے کو دیکھ کر اور دل میں اترجانے والی باتیں سن کر نقد دل ہار بیٹھا۔
اس نوجوان کا نام زاہد اقبال تھا اور جوہر آباد ضلع سرگو دھا کا رہنے والا تھا۔جب اس نے معافی مانگی تو سید صاحب نے اس سے پوچھا:’’تم نے دوپہر کا کھانا نہیں کھا یا ہو گا؟‘‘
پھر اسے کھانا کھلایا گیا۔

دسترخوان

علامہ اقبال کی صاحبزادی منیرہ اقبال کا یوٹیوب پر ایک انٹرویو دیکھا۔ایک بات جو قابل ذکرمحسوس ہوئی وہ یہ کہ بقول ان کے:
’’ان کی جرمن میڈ نے ایک کام یہ کیا کہ گھر والوں کو ایک دسترخوان پر اکٹھا کیا۔ماقبل جو جس وقت آتا کھانا کھا کر اپنے کمرے میں چلا جاتا۔نئی میڈ نے سب کو وقت کا پابند کیا۔اگر کسی وجہ سے کسی کو تاخیر ہوتی تو اس کا انتظار کیا جاتا۔دسترخوان سے کوئی بوجوہ بغیر اطلاع غیر حاضر ہوتا تو اس کا محاسبہ ہوتا۔‘‘
یہ بظاہر ایک چھوٹی سی بات ہے ،مگر چھوٹی بات نہیں ہے۔جن گھروں میں لوگ روزانہ دسترخوان پر اکٹھے ہوتے ہیں، ان گھروں کے ماحول مختلف ہوتے ہیں۔وہاں الگ ہی اقدار پروان چڑھتی ہیں۔
دسترخوان پیٹ بھرنے کی جگہ کا نام نہیں یہ ثقافت کا نام ہے۔پیٹ تو چلتے پھرتے چنے پھانک کر بھی بھرا جاسکتا ہے۔دسترخوان ایک خاندانی قدر ہے۔جن گھروں میں اعلیٰ خاندانی روایات ہوتی ہیں وہاں دسترخوان(ڈائننگ ٹیبل) کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

– افشاں نوید

کلاس

پروفیسر Anne L’Huillier پڑھا رہی تھیں جب انہیں طبیعیات میں نوبل پرائز کی خبر موصول ہوئی۔ نوبل پرائز والوں کو اپنی کال مختصر کرنی پڑی،کیونکہ پروفیسر صاحبہ اپنی کلاس میں واپس جانا چاہتی تھیں۔ وہ اپنی کلاس میں واپس گئیں اور انھوں نے کلاس مکمل کی۔

راضی برضا

مولانا محمد علی جوہر کو انگریز وںنے بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا اور دو سال کی سزا سنائی۔
اس دوران ان کی چہیتی بیٹی آمنہ بیمار ہوگئیں اور بستر مرگ پر آگئیں۔انگریزوں نے مولانا محمد علی جوہر کو پیغام دیا کہ آپ معافی نامہ لکھ دیں تو آپ کو رہا کردیا جائے گا ۔
بیٹی کی محبت اور اس کی بیماری نے بےچین تو کیا لیکن بی اماں کا بیٹا محمد علی استعمار سے بھلا کیا معافی مانگتا ؟بس اپنے جذبات کو اشعار میں ڈھال کر بیٹی کو بھیج دیا :

میں ہوں مجبور پر اللہ تو مجبور نہیں
تجھ سے میں دور سہی، وہ تو مگر دور نہیں
تیری صحت ہمیں مطلوب ہے لیکن اس کو
نہیں منظور تو پھر ہم کو بھی منظور نہیں
تیری قدرت سے خدایا تیری رحمت نہیں کم
آمنہ بھی جو شفا پائے تو کچھ دور نہیں

غلطی سے

شوکت تھانوی کی جب پہلی غزل چھپی تو انھوں نے رسالہ کھول کر میز پر رکھ دیا، تاکہ آنے جانے والے کی نظر پڑتی رہے ،مگر شامت اعمال سب سے پہلے اس پران کے والد صاحب کی نظر پڑی، انھوں نے غزل پڑھتے ہی ایسا شور مچایا گویا کہ چور پکڑ لیا ہو ۔
والدہ صاحبہ کو بلا کر انھوں نے کہا کہ آپ کے صاحبزادے فرماتے ہیں:

ہمیشہ غیر کی عزت تیری محفل میں ہوتی ہے
ترے کوچے میں جاکر ہم ذلیل و خوار ہوتے ہیں

میں پوچھتا ہوں یہ وہاں جاتا ہی کیوں ہے؟کس سے پوچھ کر جاتا ہے؟
والدہ بیچاری خوفزدہ آواز میں بولیں :
’’غلطی سے چلا گیا ہوگا۔‘‘

اسلام کی تلوار

یہ بالکل غلط ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ تلوار کی طاقت سے کوئی مذہب نہیں پھیلتا۔ بھارت میں اسلام پھیلنے کی وجہ اونچی جاتیوں کے ہندوؤں کا نیچی جاتی کے ہندوؤں پر مظالم تھے۔ اسلام کی آغوش میں آتے ہی تمام ناپاکیاں اور نا برابریاں دُھل جاتی تھیں۔ وہ مسجد میں امام کے پیچھے کھڑا ہو کر نماز پڑھ سکتا تھا۔ بڑے بڑے سید زادے کے ساتھ ایک دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا تناول کر سکتا تھا۔ وہاں کوئی نہیں پوچھتا کہ فلاں شخص کیسا اور کس طبقے کا مسلمان ہے، وہاں تو سبھی مسلمان ہیں۔
اس لیے نیچوں (ہندوؤں کے نچلے طبقے) نے اس نئے مذہب کا خوشی سے استقبال کیا اور گاؤں کے گاؤں مسلمان ہو گئے۔ ان کی نظروں میں اسلام ایک فاتح دشمن نہیں، ایک فراخ دل مذ ہب تھا۔ اسلام تلوار کے زور سے نہیں بلکہ اپنے خصائل کے ظہور کی طاقت پر پھیلا ۔اس لیے پھیلا کہ اس کے یہاں سبھی انسانوں کے حقوق برابر ہیں۔

– پریم چند

روٹی

جب میں چودہ سال کا تھا تو میں نے کھانے کے لیے روٹی کاایک ٹکڑا چرایا، جس کی وجہ سے انھوں نے مجھے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا اور چھ مہینے تک مجھے مفت روٹی دیتے رہے۔بس یہی انسانوں کی عدالت ہے ۔

– وکٹر ہیوگو

راز

محمد علی کے بعد دوسرے عالمی باکسنگ لیجنڈ نو مسلم مائک ٹائسن (ملک عبدالعزیز) سے ایک ٹی وی انٹرویو میں اینکر نے پوچھا کہ سنا ہے آپ بلا ناغہ صبح سویرے چار بجے اٹھ کر دوڑتے ہیں؟
مائک ٹائسن نے کہا : ’’نہیں ، بلکہ چار بجے تو میں دوڑ رہا ہوتا ہوں۔‘‘
اینکر : ’’مگر ایسا کیوں کرتے ہیں آپ ؟ حالانکہ ورلڈ چیمپین تو آپ ہیں ہی۔‘‘
مائک ٹائسن : ’’اس لیے کہ جب سویرے چار بجے میں دوڑ رہا ہوتا ہوں تو میرے حریف بستر میں پڑے سو رہے اور اپنا وزن بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ اگر مجھے پتہ چلے کہ وہ بھی چار بجے اٹھ کے دوڑ رہے ہیں تو میں رات کے دو بجے دوڑنا شروع کر دوں گا اور اگر وہ دو بجے دوڑنا شروع کر دیں تو میں سونا ہی چھوڑ دوں گا۔ یہی فرق ہے ان میں اور مجھ میں۔ ہمیشہ ٹاپ پر رہنا میری ذمہ داری ہے نہ کہ اُن کی۔‘‘

– انگریزی سے ترجمہ:خالد قیوم تنولی

اثر

اردوکے مشہور افسانہ نگار غلام عباس نے ایک واقعہ لکھاتھا کہ وہ اور ان کے ایک دوست کوئی فلم دیکھنے گئے تھے۔ فلم شروع ہونے میں دیر تھی، اس لیے وہ باہر کھڑے تھے۔ ایک فقیرن اپنے لاغر بچے کو لیے ہوئے ان کے سامنے آئی اور اپنا دست سوال دراز کیا۔ ان کے دوست نے اسے دھتکاردیا اور وہ آگے بڑھ گئی۔
فلم شروع ہوئی، فلم کی ہیروئن پر افتاد پڑی اور وہ اپنے بچے کے ساتھ گھر سے نکل گئی۔ اس منظر نے عباس کے دوست کو اتنا متاثر کیا کہ وہ زارو قطار رونے لگے۔ نقل اصل سے زیادہ پراثر ثابت ہوئی،اوریہ کوئی واحد مثال نہیں ہے۔

– اداریہ :‘‘ماہنامہ آج کل’’(فلم نمبر)

پچیس لفظوں کی کہانی
جسم

بیوہ تھی، کام کی تلاش میں نکلی۔ ہر جگہ جسم در کارتھا۔
’’حرام زندگی سے حرام موت بہتر ہے!‘‘
نوٹ لکھا، اور پنکھے سے جھول گئی۔

– احمد بن نذر

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ۲۰۲۳