نومبر ۲۰۲۳

سوال:

ہم دو شادی شدہ بہنیں ہیں۔ بھائی نہیں ہے۔ میں گزشتہ چھبیس برس سے اپنی بزرگ ساس اور سسر کی خدمت کررہی ہوں۔اپنی ماں کے انتقال کے بعد بزرگ والد کی بھی خدمت کرنا چاہتی ہوں،لیکن میرے شوہر اس کی اجازت نہیں دیتے۔میں چاہتی ہوں کہ میری نندیں کچھ دنوں کے لیے اپنے والد کی دیکھ بھال کر لیں تو میں اپنے میکے جاکر اپنے والد کی کچھ خدمت کرآؤں،لیکن میرے شوہر اس پر تیار نہیں ہوتے۔سب سمجھتے ہیں کہ ساس سسر کی خدمت کرنامیرا فرض ِ اوّلین ہے۔سوال یہ ہے کہ کیابیوی شوہر کے بزرگ والدین کی خدمت کی مکلّف ہے؟اور اپنے والدین کی خدمت کی اس پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟براہ ِکرم اس سلسلے میں رہ نمائی فرمائیں۔

 

جواب:

قرآن مجید میں والدین کے ساتھ حسن ِ سلوک اور رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کی تاکید کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَبِالوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً وَّ بِذِیْ القُرْبیٰ( سورۃ النساء:35)

(اور ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو اور رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔)
بنی اسرائیل کو بھی اسی کا حکم دیا گیا تھا اور اس پر ان سے پختہ عہد(میثاق) لیا گیا تھا۔( البقرۃ:83)
اللہ کے رسول ﷺ کے ارشادات میں بھی والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے ، اس کا شماربہترین اعمال میں کیا گیا ہے (بخاری:5970) اور ان کی نافرمانی کو بڑا گناہ بتایا گیا ہے۔(بخاری:6273) اسی طرح آپ ﷺ نے رشتے داروں کے ساتھ بھلا برتاؤ کرنے کی تاکید کی ہے اور اس کی فضیلت بیان کی ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
جو شخص اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ (بخاری6138، مسلم:47)
جو شخص چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اور اس کی عمر لمبی ہو اسے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔
(بخاری:5986،مسلم:2557)
والدین کے ساتھ حسن ِ سلوک اور رشتے داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ زندگی بھر کا کام ہے ۔کوئی لڑکا ہو یا لڑکی،زندگی کے کسی مرحلے میں اسے اس کام سے رخصت نہیں ہے۔ البتہ نکاح کے بعد لڑکی کے مقابلے میں لڑکے کی ذمے داری بڑھ کر ہوتی ہے۔ماں باپ عموماً اس کے ساتھ رہتے ہیں، اس لیے اسے ان کی خدمت کے مواقع زیادہ حاصل رہتے ہیں، جب کہ لڑکی اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر شوہر کے گھر آتی ہے۔پھر بھی اگر وہ کوشش کرے تواپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی متعدد صورتیں اختیار کرسکتی ہے،مثلاً وہ وقتاًفوقتاًفون کرکے ان کی خیر و عافیت دریافت کرے،کبھی کبھی ان سے ملاقات کے لیے چلی جایا کرے اور ان کے پاس رہ کر ان کی خدمت کرے،وہ تنگ دست ہوں اور اس کے پاس کشادگی ہو تو ان کی مالی مدد کرے،انھیں تحفے تحائف بھیجے، بیمار ہوں تو ان کی عیادت کرے،وغیرہ۔
نکاح کے نتیجے میں دو خاندانوں کے درمیان قریبی تعلّقات پیدا ہوجاتے ہیں۔ان کے افراد ایک دوسرے کے رشتے دار ٹھہرتے ہیں۔ بیوی کے ماں باپ سے شوہر کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے اور شوہر کے ماں باپ بیوی کے قریبی رشتے دار بن جاتے ہیں،یہاں تک کہ سسر کو بہو کے محرم کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ ضروری ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں قرآن و حدیث کی ان ہدایات و تعلیمات پر عمل کریں جو رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کے سلسلے میں دی گئی ہیں۔قانونی طور پر ساس سسر کی خدمت کرنا بہو کی ذمے داری نہیں ہے۔ بیٹے اور بیٹی کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی راحت و آسائش کی فکر کریں اور انھیں ہر ممکن سہولت اور آرام پہنچانے کی کوشش کریں،لیکن ساس سسر کی خدمت بہو کی اخلاقی ذمے داری ہے۔ یہ صلہ رحمی ہے، جس کا ہر مسلمان مرد اور عورت سے مطالبہ کیا گیا ہے۔ اگر بہو ان کی خدمت کرے گی تو ان سے محبت پائے گی،سسرال میں اسے عزّت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور وہ ہر ایک کی آنکھوں کا تارا بن جائے گی۔ کیا کوئی عورت ایسا نہیں چاہتی؟
فرائض اور حقوق میں توازن ہونا چاہیے۔اسی صورت میں تعلقات میں خوش گواری باقی رہ سکتی ہے۔ عموماً سسرال میں بہو کی ذمے داریوں پر گہری نظر رکھی جاتی ہے اور معمولی کوتاہی پر سرزنش کی جاتی ہے اور طعنے دیے جاتے ہیں، لیکن اس کے حقوق سے لاپروائی برتی جاتی ہے۔ضروری ہے کہ بہو ساس سسر اور سسرال کے دیگر افراد کی خدمت کرے تو اس کا شکریہ ادا کیا جائے،اس سے محبت کا اظہار کیا جائے اور جب وہ اپنے ماں باپ کی خدمت کی ضرورت محسوس کرے تو اسے میکے جانے دیا جائے۔عام حالات میں عورت کو یوں بھی موقع دیا جانا چاہیے کہ وہ کبھی کبھی اپنے والدین سے ملاقات کر آیا کرے ،لیکن جب وہ معذور یابیمار ہوں تو اس چیز کا خیال رکھنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ اسی صورت میں ازدواجی تعلقات میں گرم جوشی اور حقیقی الفت و محبت قائم رہ سکتی ہے۔ بیوی سے جبراً اپنے ماں باپ کی خدمت کروانا اور اسے اس کے ماں باپ کی خدمت کا بالکل موقع نہ دینا نا انصافی اور ظلم ہے، جس پر بارگاہِ الٰہی میں بازپرس ہونے کا اندیشہ ہے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ۲۰۲۳