نومبر ۲۰۲۳
زمرہ : النور

اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یا أیہا الذین آمنو قوا أنفسکم وَ اَہْلِیْکُمْ نَاراًوَّ قُوْدُھَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلٰئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا اَمَرَہُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ ما یؤمَرُون (التحریم: 6)

(اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچائو جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے جس پر درشت مزاج اور سخت گیر ملائکہ مامور ہوں گے، اللہ ان کو جو حکم دے گا اس کی تعمیل میں وہ اس کی نافرمانی نہیں کریں گے اور وہ وہی کریں گے جس کا ان کو حکم ملے گا ۔)

سورہ تحریم کا موضوع

اس میں اہل ایمان کو اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ پوری شدت کے ساتھ اپنا اور اپنے متعلقین کا محاسبہ کرتے رہیں۔
سورہ کا آغاز اہل بیت کی اصلاح اور تطہیر سے ہوتا ہے، تاکہ قیامت کے دن ان کو رسول اللہﷺ کی صحبت اور معیت حاصل رہے،پھر محاسبہ کا یہ دائرہ وسیع ہو کر اہل ایمان تک، پھر کفار اور منافقین تک پہنچتا ہے تاکہ خدا کے سخت گیر ملائکہ کی پکڑ سے پہلے وہ خود اپنا احتساب کر لیں، اعمال کا جائزہ لیتے رہیں۔
یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ احتساب کی سخت گیری قساوت قلب اور سنگ دلی کا مظہر نہیں، بلکہ عین رحمت و محبت کا مظہر ہے۔ اپنے اہل و عیال پر گہری نظر رکھنا، خلاف شریعت کا موں پر سختی سے محاسبہ کرنا، ہدایت کی راہیں ہموار کرنا، مفاسد اخلاق و سائل سے دور رکھنا والدین کا فریضہ ہے، اس سے غفلت اور چشم پوشی جائز نہیں ہے ۔
’’قوا أنفسکم و أہلیکم ناراً‘‘ : اس ارشاد باری کے ذریعہ تمام اہل ایمان کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچانا، اس کی فکر کرنا لازم ہے۔ جب پیغمبرﷺ اور ان کی ازواج بھی اللہ تعالی کے احتساب سے نہیں بچ سکتیں تو اور لوگوں کا کیا ذکر۔
ایک مؤمن کی ذمہ داری اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے باب میں بہت بڑی اور بھا ری ہے، ہم میں سے ہر شخص اپنی رعیت کی مسئولیت رکھتا ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:

کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیّتہ (متفق علیہ)

یعنی اگر اہل ایمان کی بے توجہی اور غفلت کے نتیجے میں ان کے اہل و عیال جہنم کے مستحق بنے تو وہ بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔
’’و قودھا الناس و الحجارۃ‘‘:عذاب دوزخ کی شدت اور ہولناکی کا تذکرہ ہے،جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ وہ انسان جنھوں نے اپنا اور اپنے گھر والوں کا تزکیہ نہیں کیا۔ صراط مستقیم پر چلنے اور چلانے کی فکر نہیں کی ۔ پتھر سے مراد وہ پتھر ہو سکتے ہیں جو اس دنیا میں کفر و شرک کی علامت کے طور پر پوجے گئے۔
دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ وہاں پر انسان پتھروں کی طرح بے وقعت ہوں گے، آگ کی یہ شدّت کہ پتھروں سے دہکائی جا ئے گی۔ جس میں تکلیف کی شدت بھی ہوگی اور ذلت و تحقیر بھی،اور فرشتے جو ڈیوٹی پر مقرر ہوں گے، نہایت تندخو اور سخت گیر ہوں گے ۔
اس میں تعریض ہے ان اہل ایمان پر جو بچو ں سے محبت کی وجہ سے خلاف شرع کاموں میں سختی نہیں کرتے،نمازوں سے غفلت پر کوئی نکیر نہیں، حجاب سے غفلت اور نا مناسب لباس زیب تن کرنے پر کوئی ملامت نہیں کرتے۔ تو یاد رکھیں کہ دوزخ پر مامور فرشتے محبت کرنے والے یا ہمدردی کرنے والے نہیں ہوں گے۔ ہر شخص کی جو سزا مقرر ہوگی اس کی تعمیل میں خدا کے احکام کو بجا لائیں گے۔
آگے کی آیات میں اللہ تعالی نے آتش دوزخ سے بچنے کا راستہ بھی بتا دیا ، وہ ہے توبۃً نصوحاً یعنی سچی خالص توبہ، جو خیر خواہی کا حق ادا کرتی ہے اور دوبارہ گناہوں کی طرف جانے سے بچاتی ہے ۔
اس کے بعد کفر و ایمان کی تمثیل کے ذریعہ واضح کر دیا کہ اللہ کے یہاں کوئی نسبت کام آنے والی نہیں ہے،خواہ وہ نبی اور رسول کے گھر والے ہوں، ہر شخص کو اپنے عمل کی جزا ء و سزا ملے گی۔

حاصل درس

٭محبت ہو یا نفرت، ہر طرح کے حالات میں ہمارا رویہ اپنے گھر والوں کے ساتھ اللہ کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے، اور دنیاوی ضروریات اور خواہشات کی تکمیل کے بجائے آخرت کی کامیابی کی فکر رہے۔
٭مسلم سوسائٹی کا قیام ضروری ہے۔ جہاں پر جاہلی رسومات، بدعات و خرافات کے دبائو سے تحفظ حاصل ہو، تواصی بالحق اور تواصی بالمرحمہ کی روح موجود ہو، اور آنے والی نسلیں اس کے سائے میں ہر طرح کی جاہلیت سے محفوظ ہو کر پروان چڑھیں۔
٭جو شخص ایک مسلم گھر کی تعمیر کا خواہاں ہو وہ سب سے پہلے ایک صالح بیوی/صالح شوہر تلاش کرے،ورنہ اسلامی سوسائٹی کی تعمیر و تشکیل میں بہت دیر لگے گی اور خاندان کی عمارت متزلزل رہے گی۔
٭بچوں کے ایمان و عقائد کی اصلاح پر خصوصی توجہ دیں اور اس کے لیے سب سے اہم کام نظام تعلیم کی اصلاح یا اس کا متبادل نظم کریں۔ ورنہ الحاد اور بے دینی کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔
بقول علامہ اقبال:

اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

ربنا اصرِف عنّا عذابَ جہنّم اِن عذابہا کان غراماً

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:


اس میں تعریض ہے ان اہل ایمان پر جو بچو ں سے محبت کی وجہ سے خلاف شرع کاموں میں سختی نہیں کرتے،نمازوں سے غفلت پر کوئی نکیر نہیں، حجاب سے غفلت اور نا مناسب لباس زیب تن کرنے پر کوئی ملامت نہیں کرتے۔ تو یاد رکھیں کہ دوزخ پر مامور فرشتے محبت کرنے والے یا ہمدردی کرنے والے نہیں ہوں گے۔ ہر شخص کی جو سزا مقرر ہوگی اس کی تعمیل میں خدا کے احکام کو بجا لائیں گے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ۲۰۲۳