نومبر ۲۰۲۳
زمرہ : النور

حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَی قَالَا أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ حَدَّثَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَسُبُّ ابْنُ آدَمَ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِيَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ(صحیح مسلم: 5862)

(ابوطاہر احمد بن عمرو بن سرح حرملہ بن یحییٰ ابن وہب، یونس ابن شہاب ابوسلمہ بن عبدالرحمن ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا اللہ عز وجل فرماتے ہیںکہ ابن آدم زمانے کو گالی دیتا ہے، حالانکہ میں زمانہ ہوں ،دن اور رات میرے قبضہ میں ہیں۔)

قال اللہ عزوجل یؤذینی ابن آدم یسب الدھر ، وأنا الدھر بیدی الأمر أقلب اللیل و النھار (صحیح البخاری : 4826)

(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے ،حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں ، میرے ہی ہاتھ میں سب کچھ ہے ۔ میں رات اور دن کو بدلتا رہتا ہوں ۔)
زمانۂ جاہلیت میں جب مشرکین عرب کو کوئی دکھ، غم ، شدت و بلا پہنچتی تو وہ کہتے :’’یا خیبۃ الدھر!‘‘ (ہائے زمانے کی بربادی !) وہ ان کاموں کو زمانے کی طرف منسوب کرتے اور زمانے کو برا بھلا کہتے اور گالیاں دیتے، حالانکہ ان افعال کا خالق اللہ جل جلالہ ہے تو گویا انھوں نے اللہ تعالیٰ کو گالی دی۔
امام ابن جریر طبری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے سورہ جاثیہ کی تفسیر میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

کان اھل الجاھلیه يقومون إنما يه‍لكنا الليل والنه‍ار وهو الذي يه‍لكنا يميتنا ويحينا فقال الله في كتابه وقالوا ما هي الا حياتنا الدنيا نموت و نحيا وما يه‍لكنا الا الده‍ر.
(تفسير ابن كثير،جلد: 4،صفحہ: 109)

(اہل جاہلیت کہتے تھے کہ ہمیں رات اور دن ہلاک کرتا ہے ، وہی ہمیں مارتا اور زندہ کرتا ہے ۔)
تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا :
’’انھوں نے کہا ہماری زندگی صرف اور صرف دنیا کی زندگی ہے، ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے ۔دراصل انھیں اس کی خبر نہیں ،یہ تو صرف اٹکل سے کام لیتے ہیں۔‘‘
اس آیت کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ زمانے کو برا بھلا کہنا اور اپنی مشکلات اور دکھوں کو زمانے کی طرف منسوب کرکے اسے برا بھلا کہنا مشرکین عرب اور دہرپرستوں کا کام ہے۔ دراصل زمانے کو برا بھلا کہنا اللہ تعالیٰ کو برا بھلا کہنا ہے۔امام خطابی رحمۃاللہ علیہ ’’ انا الدھر‘‘ کا معنی بیان کرتے ہیں :

أنا صاحب الده‍ر , ومدبر الأمور التي ينسبونه‍ا إلى الده‍ر ، فمن سبّ الده‍ر عن أجل أنه فاعل ه‍ذه الأمور ؛ عاد سبه إلى ربه الذي هو فاعله‍ا(فتح الباری،جلد: 16،صفحہ: 575)

(میں زمانے والا اور کاموں کی تدبیر کرنے والا ہوں ، جن کاموں کو یہ زمانے کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔جس نے زمانے کو اس بنا پر برا بھلا کہا کہ وہ ان امور کا بنانے والا ہے تو اس کی گالی اس رب کی طرف لوٹنے والی ہے جو ان امور کا بنانے والا ہے ۔)
عام طور پر لوگوںمیں اس طرح کےجملے کثرت سے استعمال ہونے لگے ہیں:’’بہت برا زمانہ آگیا ہے۔‘‘ ،’’یہ کیا گھٹیا زمانہ ہے!‘‘ ،’’ وقت کا ستیاناس ہو!‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔جب کہ ایسا کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ کائنات کا نظم اللہ اپنی حکمت وقدرت سے چلا رہا ہے، انسان کی زندگی میں بہت سے مسائل دراصل زندگی کے امتحان کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس لیے درپیش مسائل سے دل برداشتہ ہونے، اور زمانے کو برا بھلا کہنے کے بجائے انسان کو اپنی وسعت کے مطابق صبر اور تحمل سے اس مسئلے سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اللہ پر توکل کرنا چاہے،لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ سماج کے اشرار کو نظر انداز کردیا گیا ہو، بلکہ بہت سے مسائل و مصائب انسان کی اپنی غلط کاریوں کا نتیجہ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے زندگی اجیرن بن جاتی ہے اور حالات تکلیف دیتے ہیں۔
اسی حقیقت کو واضح کرتےہوئے بعض روایتوں میں اس کو اجاگر کیا گیا کہ گزرتے زمانے کے ساتھ اشرار بڑھ جائیں گے ۔ مثلاً ایک حدیث میں آیا ہےکہ:

لا یأتی علیکم زمان إلا والذي بعده أشر منه.(بخاری : 1068)

(تم پر جو زمانہ بھی آئے گا، اس کے بعد والا زمانہ اس سے زیادہ شر والا ہوگا۔)
اس لیے زمانے کو برا بھلا کہنا صحیح نہیں ہے ،کیونکہ دور یا زمانہ تو ہمیشہ سے ایک ہی ہے ۔ البتہ لوگ اپنی بداعمالیوں کو بھول کر زمانے کی طرف منسوب کرنے لگتے ہیں ۔ انسان اگر اس طرح کے جملے محض خبر دینے کے لیے کہے تو پھر اس صورت میں ایسے جملے بولنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔قرآن کریم میں سیدنا لوط علیہ السّلام کا قول ہے:

وقال ھذا یوم عصیب(سورہ ہود،آیت : 77)

(اور لوط علیہ السّلام نے کہا کہ یہ دن بہت شدید ہے ۔)
یعنی سخت دن ہے ۔فلاں دن میں ایسے ایسے معاملات ہوئے تھے ۔ اس مفہوم میں یہ جملے کہے جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔مندرجہ بالا روایت ہماری یہ تربیت کرتی ہے کہ ہم برا بھلا کہنے، سے بچیں اور اپنے اعمال کی شامتوں سے بچنے کی کوشش کریں۔۔ عیب جوئی معیوب ہے وہیں تزکیۂ نفس مطلوب ہے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ۲۰۲۳