نومبر ۲۰۲۳

علیزے نجف:

آپ شعبۂ میڈیکل میں بطور Child Specialist کام کر رہی ہیں اور آپ نے پیرنٹنگ پہ بےشمار لیکچرز بھی دیئے ہیں جو کہ ماؤں کے لیے کافی معاون ثابت ہوئے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ بچوں کی تعلیم و تربیت کے ضمن میں کس قدر آگاہی پیدا ہوئی؟ مزید اس فیلڈ میں بیداری پیدا کرنے کے لیےآپ نے کیا منصوبے بنائے ہیں؟

ڈاکٹر کنو ل قیصر:

بےشک اللہ تعالیٰ کی یہ پلاننگ تھی میرے لیے کہ میں ایک چائلڈ اسپیشلسٹ بنوں اور پھر بچوں کی نفسیات کی بھی سمجھ رکھتی ہوں۔ ’’ہمارے بچے‘‘پلیٹ فارم کے تحت بچوں پر کام بھی کر رہی ہوں، جس میں 2 سال سے لے کر 19 سال تک کے بچوں کو پڑھاتے ہیں، اور ان کو بہت کچھ سکھاتے ہیں۔جیسے: قرآن ، نماز، حدیث، دعائیں اور اس کے ساتھ ہم انھیں Life skills بھی سکھاتے ہیں کہ کیسے ہم اپنے آپ کو بامعنی بنا سکتے ہیں؟ بحیثیت مسلمان ہمارا نظریۂ حیات کیا ہو اور دنیا میں جو کچھ رہا ہے اس صورت حال میں ہم کیسے آگے بڑھیں؟
یہ ساری چیزیں بچوں کو سکھانے کی ضرورت ہے اور اس معاملے میں قابل غور پہلو یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ بچوں کے چیلنجز بھی بڑھتے جا رہے ہیں، مائیں بہت Distracted ہیں اور ماؤں کا بچوں کے اوپر سے ہولڈ کم ہوتا جا رہا ہے، کہیں بچوں سے غفلت برتنے لگی ہیں، کہیں وہ بچوں کی مارپیٹ میں مصروف ہوگئی ہیں، اس کی وجہ سے ان کے آپسی تعلقات بہت خراب ہوتے جا رہے ہیں، اور ماؤں کو بالکل سمجھ نہیں آتی کہ ہمیںبچوں کو کیسے ہینڈل کرنا ہے؟ اور ایسا تب تک ہے جب تک بچہ ٹین ایج میں نہیں پہنچا ہے، جب بچہ ٹین ایج میں پہنچ جاتا ہےتو وہ دنیا سے متاثر ہو رہا ہوتا ہے، اب اس کے پاس فون آ گیا ہے اور وہ سوشل میڈیا سے جڑ گیا ہے۔وہ کالج، یونیورسٹی جا رہا ہے، اس وقت دنیا میں صرف ’’میں میں‘‘ کی تکرار ہے۔ میرا جو دل چاہتا ہے وہ میں کروں ور وہ بھی ایسی ہی باتیں کرنا شروع کر دیتا ہے کہ مجھے ایسی ہی سب چیزیں چاہئیں،یہ بےشک ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
میں مستقبل کے لیےبس یہ دیکھتی ہوں کہ ان کو ان کی اصل سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے؟ جیسے بچوں کو یہ اونر شپ دی جائے کہ ہم کیسے اپنے اصل سے تعلق جوڑیں اور pure form میں قرآن مجید کو پڑھیں، کیونکہ میں نے ہمیشہ دیکھا ہے ،میں جہاں قرآن پڑھاتی ہوں اگر اسٹوڈنٹ ایک مرتبہ قرآن کو پڑھتے ہیں پھر ان کا دل چاہنے لگتا ہے قرآن پڑھنے کو میں ایک ایڈکشن سینٹر میں جاتی ہوں، وہاں پہ بہت پڑھے لکھے افراد ہوتے ہیں جو اپنے نشے کی بیماری کی وجہ سے آتے ہیں، جب وہاں پر میں انھیں قرآن پڑھاتی ہوں اور جب میں ان سے بات کرتی ہوں تو وہ اتنا حیران ہوتے ہیں اور کہتے ہیں میں نے یہ باتیں کبھی نہیں سوچی تھیں۔
آج ہی میری کلاس تھی اور میں انھیں سورۃ الملک پڑھا رہی تھی تو میں نے ان سے احسن عمل کی بات کی تھی، جس کا ذکر آیت نمبر 2 میں ہوا ہے۔ اللہ نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ ہم احسن عمل کر سکیں تو اس حوالے سے میں نے یہ کہا کہ دیکھیں یہ جو ایڈکشن کا پروسس ہے آپ یہاں اس سینٹر پہ ہیں اور آپ سوچیں کہ چلو ہم یہاں تھوڑی دیر کے لیے Pretend کر لیتے ہیں، واپس گھر جا کے ہم وہی کریں گے جو اب تک کرتے آئے ہیں۔احسن عمل یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو بہتر بنا لیں، اللہ کی خاطر ہم سوچیں کہ ہمیں نشہ چھوڑنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنا خوب صورت جسم دیا ہے، بہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے اور اگر ہم کئی زاویے سے زندگی کو دیکھیں تو بےشمار نعمتیں ہمیں نظر آئیں گی جو اللہ نے ہمیں دی ہیں۔
اس طرح بات کرنے سے ان کے دل میں موٹیویشن آتی ہے۔ا س لیے مجھے لگتا ہے کہ آج کل کے جو چیلنجز ہیں ناں؟ ہمیں اس کو سمجھ کے بچوں کو اس کے مطابق رہنمائی دینی چاہیے،آج کل Easy money کا کانسیپٹ ہے Easy life style کا کانسیپٹ ہے، بچوں میں اسکلز ختم ہوتی جا رہی ہیں، اس لیے میں کہتی ہوں کہ Back to basics کی طرف توجہ دینا سب سے زیادہ ضروری ہے اس کے ذریعے دیگر چیلنجز کا کامیابی کے ساتھ سامنا کیا جا سکتا ہے۔

علیزے نجف:

ایک لڑکی خود مختلف ادوار و مدارج سے گزر کر ماں بنتی ہے، اس نے جو کچھ اپنی ذاتی زندگی میں سیکھا ہوتا ہے، کیا اسے بہترین ماں بنانے کے لیےوہ ساری صلاحیتیں کافی ہوتی ہیں یا مزید اسے بہتر بنانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، ایک عام ماں کس طرح اس تقاضے کو پورا کر سکتی ہے؟

ڈاکٹر کنو ل قیصر:

 لڑکی ہو یا لڑکا، دونوں کو ہی کچھ بیسک چیزیں تو شروع سے ہی سیکھنی چاہئیں، جیسے انھیں قرآن مجید کا علم ہونا چاہیے، ان کے اندر تقویٰ ہونا چاہیے، انھیں اللہ کی رضا حاصل کرنے کی ترغیب دینی چاہیے، ان کے نزدیک سنت کے علم کی اہمیت ہونی چاہیےیا سنت کے مطابق زندگی گزارنی آنی چاہیےاور پھر اس کے ساتھ ساتھ ان تمام کاموں کو کرنے کے لیے کیا کیا اسکلز ضروری ہیں، وہ سیکھنے چاہئیں، اور اپنے اوپر فوکس کرنا چاہیے۔
مطلب اپنی ذات پر کام کرنا چاہیے جیسے کوئی بھی مشکل ہے تو اس میں میں کیا کر سکتی ہوں؟ جس سے بہتری آ سکتی ہے۔ میرا عمل اور ردعمل کب کیسا ہونا چاہیے؟جب ہم یہ سیکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہوئے شادی شدہ زندگی سے متعلق انھیںآگاہی دینی چاہیے، شادی شدہ زندگی کے چیلنجز کے بارے میں بتانا چاہیے کہ وہاں پر ایک لڑکی کے لیے کن اسکلزکی ضرورت پڑتی ہے یا پڑ سکتی ہے، اب آپ دیکھیں !دنیا میں جتنے کورسز ہوتے ہیں، جتنے اداروں کو آپ جوائن کرتے ہیں اس کا انٹرویو یا انٹرنس دینا پڑتا ہے، اس کی ٹریننگ ہوتی ہے، پھر آپ کو اس ادارے میں داخلہ دیا جاتا ہے تو ہم ایک لڑکی کو پڑھتے پڑھتے یا پڑھائی سے فراغت کے فوراً بعد بنا اسے شادی شدہ زندگی کے چیلنجز کو سامنا کرنے کا ہنر سکھائے بغیر سسرال رخصت کر دیا جاتا ہے اور زیادہ تر گھروں میں یہی کہا جاتا ہے کہ اگلے گھر جاؤ گی تو پتہ چلے گا، کام کرو گی تو سمجھ آئے گی، یہ تم نے مذاق بنایا ہوا ہے اور باتیں سناتے سناتے ڈراتے ڈراتے اسے ڈولی میں بٹھا دیتے ہیں۔
وہ گھر پہنچتی ہے، جہاں اس کی شادی ہوتی ہے، وہاں اسے سمجھ نہیں آتی کہ اسے کرنا کیا ہے، شوہر سے تعلق کیسے ہونے چاہئیں، میکے و سسرال کے درمیان بیلنس کیسے بنایا جائے اور اسی میں پھر پریگننسی ہو گئی، بچہ ہو گیا، اب اس کو پالنے کے طریقے کیا ہیں؟اس کو تو نہیں سمجھ آتی کہ مجھے راتوں کو جاگنا پڑے گا۔ مجھے سیلف کیئر کرنی پڑے گی ۔یہ باتیں نہیں سمجھ آتیں تو ایسے میںطریقہ یہ ہونا چاہیےکہ شادی سے پہلے بھی کورسز ہوں جن میں ان کو سکھایا جائے اور شادی کے بعد بھی کورسز ہوں۔اکثر اگر کسی علاقے میں کوئی کورس رکھا جاتا ہے تو میں نے دیکھا ہے کہ اس میں لوگ کہتے ہیں کہ آج کل یہ نیا فیشن نیا ٹرینڈ شروع ہو گیا ہے، پیسے کمانے کا پیسے بنانے کا، ہم نے تو کبھی نہیں ایسی کورس کیے، تو میں کہتی ہوں کہ پھر آپ نے غلطیاں بھی زیادہ کیں، اور دوسری بات یہ کہ اب ماحول بدل گیا ہے اور بدلتا ہی جا رہا ہے، بہت ساری بچیوں کو ضرورت ہے کہ انھیں مکمل گائڈ لائن دی جائے، چیلنجز بہت بڑے بڑے آنا شروع ہو گئے ہیں، اسی لیے آپ دیکھیے! طلاقیں بھی بڑھتی چلی جا رہی ہیں کہ ایک عام ماں اگر اچھی طرح سے سیکھ لیتی ہے تو بہت اچھے طریقے سے وہ کام کر سکتی ہے، اور اپنے بچے شوہر و سسرال کا خیال رکھ سکتی ہے ۔بس اس کو اپنے آپ کو Equipped کرنا ہے، اس کے لیے ماں باپ کو بھی اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔

علیزے نجف:

زمانے کی اس برق رفتار تبدیلی نے جہاں بہت ساری آسانیاں پیدا کی ہیں، وہیں کچھ ایسی مشکلات بھی جنم لینے لگی ہیں ،جو کہ پہلے شاذ و نادر ہی ہوا کرتی تھیں ۔مثلاً آف لائن رشتوں کا ڈیجیٹل دنیا میں کھو کر قریبی رشتوں سے عدم توجہی اور ان کے درمیان گفت و شنید کا فقدان وغیرہ وغیرہ۔ میرا سوال یہ ہے کہ برق رفتار دنیا میں ہم ذاتی زندگی کی رفتار کو کیسے معتدل بنا سکتے ہیں؟

ڈاکٹر کنو ل قیصر:

ہمارے پاس ایسے دن ہونے چاہئیں جن میں کہ انٹرنیٹ بند ہو، فون ہم سائڈ پہ رکھ دیں، ہم فیملی ٹائم سیٹ کریں، کچھ ایسے مشاغل ترتیب دیں جن میں سبھی شامل ہوں۔ کچھ Vacations لیں، اپنے رشتوں کو اہمیت دیں، ان کو احساس دلائیں کہ آپ ہمارے لیے کتنے ضروری ہیں؟ ہم آپ کے لیےیہ احساسات رکھتے ہیں، آپ دیکھیں کہ دنیا میں اس وقت ایسے Movement چلنا شروع ہو چکے ہیں جس میں لوگوں نے کنسرن شو کیا ہے، لوگ اس بات کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ رشتوں کا ہونا زندگی کو خوبصورت بناتا ہے۔ وہ واپس سے اپنی پرانے اقدار کو بہتر انداز میں اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ہم جو ایشیائی ممالک کے لوگ ہیں ناں، جو سوچ ہماری پچاس سال آگے کی ہونی چاہیے ہم اس میں پچاس سال پیچھے ہی رہتے ہیں۔جب ہمارے ہاتھوں سے چیزیں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں تو پھر ہم پریشان ہوتے ہیں، بچوں کو سکھانے کی ضرورت ہے اور ان کو ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کی اہمیت سے واقف کروانے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ شروع سے فیملی گیدرنگ کی اہمیت کو سمجھیں اور ان سے خود ہو جڑا ہوا محسوس کریں، لوگ اپنے رشتوں اور اپنے پیاروں سے کٹنے کے بجائے ان سے جڑنا سیکھیں۔ اس دور میں رہتے ہوئے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے، بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے، ان سارے مسئلے و مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے، پھر ایسے مواقع لانے کی ضرورت ہے،جن میں بچے یعنی آج کل کی نسل اپنے رشتوں کے ساتھ انگیج ہو سکے۔

علیزے نجف:

ایک بچے کی تعلیم و تربیت میں ماں باپ کے ساتھ گھر کے ماحول کا بھی گہرا اثر ہوتا ہے، مختصر افراد پہ مبنی خاندان کے ماحول کو کسی نہ کسی حد تک بہتر بنانے کے خاطر خواہ کوششیں کی جا سکتی ہیں، لیکن ایک لڑکی کے لیے سسرال کے جوائنٹ فیملی سسٹم میں اس حوالے سے بہتری لانے کی کوشش جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ آپ کے خیال میں وہ کیا طریقہ ہائے کار ہو سکتے ہیں جو بچوں کو سازگار ماحول فراہم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں؟

ڈاکٹر کنو ل قیصر:

دیکھیے! یہ جو میکہ سسرال کی جنگ ہوتی ہے نا اس میں بنیادی طور پہ Insecurities ہوتی ہیں ساس میں کبھی میکے میں، کبھی لڑکی میں کبھی لڑکے میں ،تو بنیادی بات یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ کسی بھی موقع پہ گھر کا ماحول جنگ کا میدان نہ بنے تو اس کے لیےضروری ہے کہ ہم سب حقوق و فرائض کی اہمیت کو سمجھیں، حقوق مانگنے کے بجائے جو اپنی طرف کے فرائض ہیں اسے پورا کریں اور وہ اپنے آپ کو اتنا Equipped کریں کہ آپ توقعات کے بےبنیاد تصور سے آزاد ہو جائیں، لینے کے بجائے دینے والے بن کر جئیں۔ ہم اکثر چاہ رہے ہوتے ہیں کہ دوسرے انسان ہی سب کچھ کریں، میں تو بالکل درست ہوں ،ہم اکثر اوقات اپنے آپ کا جائزہ لیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ میری نیت تو صاف ہے، لیکن جب دوسرے انسان کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کے ایکشن پر فوکس کرتے ہیں ،وہ انسان بے چارہ قسمیں بھی کھاتا رہے کہ میری نیت اچھی ہے ،لیکن ہم نہیں مانتے ،ہم کہتے ہیں کہ اس نے جان بوجھ کے ایسا کیا ہے، تو یہاں پہ یہ چیز ضروری ہے کہ ہم لوگوں کو اس طرح سے ہی سمجھیں، جیسے کہ ہم اپنے آپ کو سمجھتے ہیں۔
اچھا اکثر پھر لوگ کہتے ہیں کہ میں ظلم سہہ سہہ کر بیمار ہو گئی ہوں تو یہ بھی ہمیں نہیں کرنا ہے ،ہمیں نہ ظلم کرنا ہے اور نہ ہی کسی کو اپنے اوپر ظلم کرنے کا حق دینا ہے، اس کے لیےآپ کی تربیت ہونی چاہیے کہ اسے Resolve کیسے کریں ؟جب اس پر کام نہیں کیا جاتا تبھی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

علیزے نجف:

ہمارے یہاں جس انٹیلیجنس کو سب سے زیادہ سراہا جاتا ہے، وہ ہے انٹلکچول انٹیلیجنس۔ یہی وجہ ہے کہ بچے ماں باپ کو خوش کر نے کے لیے اس کے سوا تمام تقاضوں کو نظر انداز کرنے لگ جاتے ہیں، یہی بچے جب عملی میدان میں اترتے ہیں تو اکثر رشتوں کو نبھانے میں ناکام ہو جاتے ہیں، کیو نکہ ان کے اندر ایموشنل انٹیلیجنس کا بالکل شعور نہیں ہوتا۔ میرا سوال یہ ہے کہ بچوں کی ایموشنل انٹیلیجنس بہتر بنانے کے لیے ماں باپ کو کس طرح کے اقدام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے؟

ڈاکٹر کنو ل قیصر:

بالکل صحیح بات کہی آپ نے،آئی کیو سے زیادہ ای کیو کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی ہمیں پریکٹیکل لائف میں آسانیاں دیتی ہیں ،دراصل دونوں میں توازن ہونا چاہیے۔ای کیو کے لیے ان Steps کو فالو کرنا چاہیےجو ہمیں ایکسپرٹ بناتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پہلے ہمیں جذبات کو سمجھنا چاہیے، ان سے جذبات کے بارے میں بات کرنی چاہیے، تاکہ انھیں معلوم ہو سکے کہ جذبات کی ہماری زندگی میں کیا اہمیت ہے، جیسے ہماری سوسائٹی میں عام طور سے کہا جاتا ہے کہ بچے ایک جگہ ٹکتے نہیں ہیں بھاگ دوڑ میں لگے رہتے ہیں، ان سے کیسے اس طرح کی بات کی جائے؟آپ کو یہ ماننے کی ضرورت ہے کہ بچے کو کسی سے جیلسی بھی ہو سکتی ہے، نفرت بھی ہو سکتی ہے، اسے غصہ بھی آ سکتا ہے لیکن ایسے میں سوال یہ ہے کہ کرنا کیا ہے ؟تو پہلے یہ کہ ان جذبات کو سمجھنا پھر یہ دیکھنا کہ ان کو کیسے مینیج کرنا سکھایا جائے ؟پھر دوسرے انسان کو سمجھنا، دوسرے انسان کو جذبات کو بھی سمجھنا ،یہ سوچنا کہ غصہ اس کا مزاج ہے یا یہ اس کی عادت ہے، اگرچہ سب کو برا لگ رہا ہے اور پھر یہ دیکھنا کہ ہم کیا کیا کر سکتے ہیں کہ جس سے کہ تعلقات میں بہتری آ جائے؟ یہ وہ طریقے ہیں جو کہ بھائی بہن کو سکھانے چاہئیں جسے ہم Emotional regulation کہتے ہیں ، جذبات کا زندگی میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے،لیکن ہم اس کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ ہمیں اس پرکام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

علیزے نجف:

انسانی زندگی میں شادی کا ادارہ ہمیشہ سے ہی اہمیت کا حامل رہا ہے، لیکن بدقسمتی سے شادی ایک روایتی بندھن بن کے رہ گیا ہے۔ شادی کا مقصد نسل انسانی کی افزائش کے ساتھ ساتھ ایک بہترین معاشرے کی تشکیل بھی تھا ،جو کہ باہمی تعاون کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ بحیثیت کاؤنسلر آپ شادی کو کس زاویے سے دیکھتی ہیں اور اس رشتے کو بامعنی بنانے کے لیے کیا مشورہ دینا چاہیں گی ؟

ڈاکٹر کنو ل قیصر:

دیکھیے! قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے:
ھن لباس لّکم وانتم لباس لّھنّ
ان کو ایک دوسرے کا لباس بن کر رہنا ہوگا، ان کو شادی کا مقصد کو سمجھنا ہوگا۔جو شادی کے حوالے سے ہم نے فلموں میں کہانیاں دیکھ لیں، موویز دیکھ لیں، کچھ رومانٹک سا سین دیکھ لیا پھر ہم نے فرض کر لیا کہ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا، یا ہم نے کوئی افیئر چلا لیا اور یہ سوچ لیا کہ اس میں ہمارے ساتھ فلموں جیسا ہوگا تو یہ حقیقت میں نہیں ہوتا، شادی شدہ زندگی میں Give and take ہوتا ہے کمپرومائزز ہوتے ہیں، صرف ایک طرف سے نہیں دونوں طرف سے ہوتے ہیں، ہزبینڈ بھی کمپرومائز کرتا ہے وائف بھی کرتی ہے اور شادی شدہ زندگی میں ہم اپنی Strength کو استعمال کرتے ہیں اور جب ہمیں اپنی کمزوریاں نظر آتی ہیں تو اسے بہتر بناتے ہیں ۔
جب تک ہم اس طرح سے کام نہیں کریں گے کہ تو شادی شدہ رشتہ نہیں چل سکتا۔ایک زمانہ تھا جب کہا جاتا تھا کہ تمھارا وہاں سے جنازہ ہی نکلنا چاہیے۔ لڑکا لڑکی سے کہا جاتا تھا کہ جیسے بھی کرو یہ رشتہ نبھانا ہے۔ اب وہ دور ختم ہو چکا ہے، اب سب کچھ اس کے الٹ ہو چکا ہے، اب ماں باپ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے تمھیں چائے پانی بھی نہیں پوچھا تو چھوڑ کر آ جانا، خواہ طلاق تک کی نوبت آ جائے ۔یہ دونوں ہی صورت حال انتہا پسندی پر مبنی ہیں، درمیان میں رہنا چاہیے، Abuse نہ سہنا چاہیےاور نہ ہی کرنا چاہیے، اچھی شادی شدہ زندگی کی بنیاد تقوی ٰپر ہوتی ہے، تقویٰ ہوگا تو معاملات اچھے ہوں گے ،نہیں تو نہیں ہوں گے۔

علیزے نجف:

آپ نے میڈیکل کے ساتھ ساتھ نفسیاتی شعبے میں بھی کافی کام کیا ہے۔ یوں دونوں ہی طرح کے Patient کی نفسیات کو آپ کو قریب سے سمجھنے کا موقع ملا ہے ۔میرا سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے لوگ نفسیاتی صحت کو وہ اہمیت نہیں دیتے جو کہ جسمانی صحت کو دیتے ہیں۔ نتیجۃً رشتے تباہ ہو رہے ہیں اور لوگ ذہنی آسودگی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں آپ کے خیال میں ایسا کیوں ہے اور اس ضمن میں آگاہی کیسے پیدا کی جا سکتی ہے؟

ڈاکٹر کنو ل قیصر:

 اصل میں ہمارا ماحول ایسا ہےکہ جس میں یہ سمجھا جاتا ہےکہ اگر آپ کی جسمانی صحت خراب ہے تو کوئی بات نہیں، آپ اس کے لیےاناؤنس بھی کر سکتے ہیں بتا بھی سکتے ہیں، ہیلپ بھی لے سکتے ہیں ۔اس طرح کر کے مسئلے کو حل بھی کر سکتے ہیں لیکن جب ہمیں نفسیاتی طور پہ کوئی مسئلہ ہو تو اس کو یا تو ایمان کی کمی سمجھا جاتا ہے یا پھر ہم کو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ہمارے کمزور ہونے کی نشانی ہے یا ہمارے پاگل ہونے کی نشانی ہے۔ اس Taboo کو بریک کرنا پڑے گا، لوگوں کو یہ بتانا پڑے گا کہ کاؤنسلنگ دراصل آپ کی Skills کو پالش کرنے کے لیے ہے، واقعی وہ لوگ جب تھیراپی میں جاتے ہیں اور وہ حیران ہو جاتے ہیں ۔انھیں ایسے ہی رزلٹ ملتے ہیں ایسے ہی نتائج ملتے ہیں اور پھر وہ خود بھی پشیماں ہوتے ہیں کہ ہم نے کیوں خود کو لمبے عرصے تک اس مشکل و اذیت کے ساتھ رہنے دیا مجھے تو پہلے ہی یہ قدم اٹھانا چاہیے تھا۔
یہ بھی ایک سچ ہے کہ ایک عام انسان کو میڈیکل کی جو بیماریاں لاحق ہوتی ہیں، اس کے لیے وہ کوئی دوائی کھاتے ہیں اور ان کو آرام مل جاتا ہے، لیکن یہ جو نفسیاتی بیماریاں ہوتی ہیں ناں، ان کے لیےآپ کو دوا لینے کے ساتھ ساتھ بہت سے کام کرنے پڑتے ہیں وہ، Skills جو ایکسپرٹ یا کوچ بتاتے ہیں اس پر آپ کو عمل کرنا پڑتا ہے ،اور برابر خود کے رویوں پہ نظر رکھنی ہوتی ہے۔ پھر نتائج برآمد ہوتے ہیں، یہ کام اس انسان کو بہت مشکل لگ رہا ہوتا ہے جو آل ریڈی بہت سارے مسئلوں میں الجھا ہوا ہوتا ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ مسائل پرکام کر کے ہی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔

علیزے نجف:

’’الہدیٰ ‘‘سے وابستگی سے یہ صاف ظاہر ہے کہ آپ کا مذہبی رجحان کیسا ہے؟ ایک انسان کے لیے آپ مذہب کو اتنا ضروری کیوں خیال کرتی ہیں؟ مذہب سے بے بہرہ انسان کو مذہب کی طرف کیسے راغب کیا جا سکتا ہے؟

ڈاکٹر کنو ل قیصر:

میری زندگی میں جو بھی اچھی تبدیلی آئی ہے اور بہتری آئی ہے اور جو بھی آسانی ہوئی ہے ،اس میں سے کسی بھی کام کا ایک فیصد بھی کریڈٹ میں نہیں لیتی، یہ سب قرآن کی برکت سے ہے، خواہ وہ میرا پروڈکٹو ہونا ہو، میرے جو کام ہیں جو پروجیکٹس ہیں، اور یہ جو کچھ میں کر پا رہی ہوں یہ سب سوچ کی تبدیلی کا ثمر ہے ،اور مجھ میں یہ تبدیلی قرآن سے آئی ہے، یہ میری استاد ڈاکٹر فرحت ہاشمی کی صحبت صالحہ کا اثر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے میرے لیے یہ آسانی کی کہ اس نے مجھے ان سے ملایا،’’ الہدیٰ‘‘ کا رکن بنایا، میرا تعلق ایک بہت پروفیشنل فیملی سے تھا میرا طرز زندگی بہت مختلف تھا، مذہب سے ایک روایتی تعلق تھا، پھر اللہ نے مجھے مذہب اور قرآن سے قریب ہونے کے راستے دکھائے، اس کے لیے میں بہت احسان مند ہوں، میرا رب مجھ پہ بہت مہربان ہے، میں سمجھتی ہوں جب انسان کی زندگی میں واضح مقصد حیات ہو وہ زیادہ پروڈکٹو ہوتا ہے، قرآن ہمیں ہر موقع پر یہ سکھاتا ہے کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ جب ہمیں یہ بات سمجھ آ جاتی ہے تو ہمیں خود اس پرکام کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے، میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ یہ ضروری ہے کہ ہم اس بات کو جانیں کہ ہم کون ہیں اور کس کی تخلیق ہیں ؟ہمارا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟لیکن ہم ایک رٹے رٹائے طریقے سے اپنے سکول کالج میں اسلامی تعلیم کا نصاب پڑھ لیتے ہیں،ہمیں اس طریقے سے ہٹ کر اسلام کو سمجھنا چاہیے،اسلام کا جو مقصد ہے اسے جاننے کی سعی کرنی چاہیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کا جو مقصد تھا وہ جاننا بھی ہمارا ہدف ہونا چاہیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد انذار و تبشیر، قرآن اور حکمت کی تعلیم پھر اس کے بعد تزکیے کی باری آتی ہے، تزکیے کے بغیر اگر ہم دین کو پڑھتے اور سمجھتے ہیں تو ہم کام نہیں کر سکتے تزکیہ کیا ہے؟
وہ یہ کہ اپنی زندگی کے معاملات میں ہمیں یہ سمجھ آ جائے کہ ہم اپنے آپ کو گروم کر کے چلیں، اس دنیا میں ہم اللہ کی عبادت کے لیے آئے ہیں، دنیا میں جو کچھ بھی معاملات ہوتے ہیں، اس میں ہمیں ویسے ہی فیصلے کرنے ہیں جن سے ہمارا رب راضی ہو۔ اس طرح جو بھی ہم کر رہے ہوتے ہیں وہ بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں ،اور اللہ کی رضا بھی حاصل ہو جاتی ہے، زندگی میں Clarity حاصل ہو جاتی ہے، مجھے کبھی کبھی بہت ترس آتا ہے ان لوگوں پرجو قرآن نہیں پڑھ رہے یا قرآن سے الجھ رہے ہیں، یا وہ سائنسز اور باقی جو علوم ہیں ان کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، ذرا غورکیجیے کہ وہ کون سا ایسا ایریا ہے جسے اللہ نے قرآن میں کور نہیں کیا ہے؟ جس میں ہم بہترین طریقے سے اپنی پرفارمینس نہیں دے سکتے؟ بس یہ سمجھنے کی بات ہے ۔اللہ توفیق دے ان لوگوں کو کہ وہ اپنے دل کو کھولیں جو گرہیں لگی ہوئی ہیں، ان کو کاٹیں، اپنے دل میں موجود احساسات کو صحیح جگہ پر لگائیں۔قرآن، اسلام و دین کو اس طرح سے سمجھیں جیساکہ اللہ نے اس کو نازل کیا ہے۔

علیزے نجف:

بےشک مذہب انسانی زندگی میں آکسیجن کا کردار ادا کرتا ہے، جو روحانی صحت کی تشکیل کرتا ہے اور روحانیت جس کے بغیر انسان کا وجود مکمل نہیں۔ لوگ مذہب کی پیروی کسی نہ کسی حد تک کر ہی لیتے ہیں، لیکن روحانی آسودگی سے محظوظ نہیں ہو پاتے۔ ایسا شاید اس وجہ سے ہے کہ وہ مذہب کو مقلدانہ نفسیات کے ساتھ اختیار کرتے ہیں، میرا بنیادی سوال یہ ہے کہ ایک عام انسان مقلدانہ نفسیات سے باہر کیسے نکل سکتا ہے دوسرے بچوں کو اس نفسیات سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟ اس بارے میں آپ کیا رہنمائی دینا چاہیں گی؟

ڈاکٹر کنو ل قیصر:

اگر ہم قرآن مجید کو جس طرح اللہ نے نازل کیا ہے، اس طرح پڑھیں جس طرح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پریکٹس کیا تھا، اس طرح سمجھیں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں صحابہ و صحابیات ؓنے سیکھا، اس طرح سے سیکھیں تو ہمارے لیے آسودگی کو پانا بہت آسان ہو جاتا ہے، یہ کیفیت انسان کے اندر تب پیدا ہوتی ہے جب وہ تمام زاویے سے اس کو نہیں سمجھتا جو زندگی میں چیلنجز ہیں ان کو بھی Understand نہیں کرتا۔ وسعت نظری کے ساتھ قرآن مجید کو پڑھے بغیر کبھی بھی قرآن کی لذت کو صحیح معنوں میں نہیں پایا جا سکتا۔ غور و فکر کی صورت میں انسان تقلیدی فکر سے
نجات حاصل کر سکتا ہے۔

علیزے نجف:

ہمارے یہاں بچوں کی صحت کے حوالے سے نانیاں دادیاں بےشمار ٹوٹکے اپنائے ہوئے ہوتی ہیں، جب گھر کی بیٹی یا بہو پہلی بار ماں بنتی ہے تو انھیں وہی سارے ٹوٹکے اپنانے کی ہدایت کرتی ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ بچے کی صحت کے لیے ان ٹوٹکوں پر منحصر ہونا کیسا ہے؟ وقت کی تبدیلی کے ساتھ کیا یہ ضروری نہیں ہو گیا کہ بچے کو باقاعدہ ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق ہی دوائیں دی جائیں، ایسے میں ان بزرگوں کے ساتھ مفاہمت کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟

ڈاکٹر کنو ل قیصر:

زندگی کے ہر معاملے میں ہمیں تجربہ کار لوگ بھی چاہیے ہوتے ہیں اور اہل علم کی بھی ضرورت ہوتی ہے ،دونوں کے درمیان توازن ہونا چاہیے، کئی دفعہ ہمیں علم یہ بتاتا ہے کہ ہمیں اس پر کیا کام کرنا ہے؟ کئی دفعہ کچھ لوگوں کے تجربات ہوتے ہیں ،جو ہماری رہنمائی کرتے ہیں، علم وقت کے ساتھ بدل بھی جاتا ہے اور تجربات کئی دفعہ سالوں سال سے چل رہے ہوتے ہیں تو ان دونوں کے درمیان کا کوئی راستہ ہونا چاہیے، یعنی میرے پاس جب مریض آتے ہیں تو کئی دفعہ جو گھر والے ٹوٹکے بتا رہے ہوتے ہیں، ان میں سے بہت سے ٹوٹکے بہت مفید ہوتے ہیں ،اور کر لینے چاہئیں اور کئی دفعہ کچھ ایسے ٹوٹکے ہوتے ہیں جو بالکل ٹھیک نہیں ہوتے، تو اسی لیے تھوڑا سا میڈیکل ایجوکیشن کو بھی دیکھنا چاہیےاور اس کے Reason کو بھی دیکھنا چاہیے کہ یہ جو ٹوٹکہ بتایا جا رہا ہے اس کے کیا فائدے ہیں اور کیا نقصانات ہیں ؟اس کے مطابق ہم فیصلہ کر تے ہیں اب ٹوٹکہ یہ ہے کہ بچہ پیدا ہوا ہے تو اس کا سر سیدھا ہونا چاہیے اس کے لیے مختلف تدبیریں لگائی جاتی ہیں تو میں اس کے جواب میں یہ کہتی ہوں کہ سر کے اندر جو ہے اس کو سیدھا کر لیں ،اگر باہر سے ذرا سا سر ٹیڑھا رہ بھی گیا تو کوئی نقصان نہیں ،لیکن اگر سوچ ٹیڑھی رہ گئی تو زندگی میں بڑا مسئلہ ہوگا، اسی طرح اگر ٹوٹکہ یہ دیا جاتا ہے کہ تم اچھی طرح کھاؤ کیونکہ تم بچے کو دودھ پلا رہی ہو تو اس میں بالکل کوئی حرج نہیں، اس کو اختیار کرنا چاہیے، یا نانیاں یہ کہتی ہیں کہ بچے کو نہلاؤ، بچے کی مالش کرو، اس طرح بچے کو Wrape کرو یا پیمپر کے استعمال کے بجائے نیچرل جو چیزیں ہیں وہ اختیار کر کے اس کی طہارت کا خیال رکھو ،تو اس میں کوئی حرج نہیں ،کیو نکہ بہت سے ٹوٹکے بہت بہترین ہوتے ہیں جو ہمیں سکھائے یا بتائے جاتے ہیں۔

علیزے نجف:

پری میریٹل کاؤنسلنگ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟کیا ایک لڑکی جس نے اپنی زندگی کے بہت سارے سال ایک خاص قسم کے ماحول میں گزارے ہوتے ہیں، شادی سے کچھ ماہ پہلے چند پری میریٹل کاؤنسلنگ کے سیشنز لینے سے کیا اس کا مائنڈ سیٹ یکسر بدل سکتا ہے ؟یا یہ ضروری ہے کہ ماں باپ ابتدا ہی سے مثبت ماحول فراہم کریں اور بچوں کے لیے خود ایک اچھا رول ماڈل بنیں؟

ڈاکٹر کنو ل قیصر:

ہاں، یہ دونوں ہی چیزیں ضروری ہیں، یعنی بچپن سے بھی تربیت ہونی چاہیے، ہر بات میں بچوں کو بہت کچھ سکھاتے رہنا چاہیے،اس کا مطلب یہ نہیں کہ بچی کو ہر وقت ہر بات پر ایسے جملے سنائے جائیں کہ اگلے گھر جا کے کیا کرو گی؟ تمھارا کیا بنے گا؟ وغیرہ وغیرہ، اس کے بجائے جو Skill based باتیں ہوتی ہیں وہ سکھائی جائیں، دراصل جب ان کی شادی کی عمر ہو جائے تو اس کے مطابق انھیں Step forward کرتے ہوئے بتدریج سلیقہ سکھایا جا ہے ،اور جب بات پکی ہو جائے تو باقی ساری چیزیں بالکل واضح طریقے سے سکھائی جائیں، لرننگ کا جو پراسس ہوتا ہے وہ لحد سے مہد تک چلتے رہنا چاہیے، رکنا نہیں چاہیے۔

علیزے نجف:

ایک ٹرم ہے Positivity جو انسان کی ذہنی صحت کو بہتر بنانے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، لیکن کہتے ہیں ناں کہ ہر چیز کا توازن میں ہونا بہت ضروری ہوتا ہے، اس طرح جب Positivity اپنے حدود سے باہر ہو جائے تو اسے Toxic positivity کہتے ہیں Toxic positivity کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے اور اس کو کس طرح مینیج کیا جا سکتا ہے؟

ڈاکٹر کنو ل قیصر:

آپ پر طرح طرح کی کیفیات آتی ہیں، کبھی آپ خوشی محسوس کرتے ہیں کبھی آپ غم محسوس کرتے ہیں ،لیکن جب آپ اوور آل اپنے دن کو دیکھیں تو آپ کو اپنی زندگی میں غم کم نظر آئیں خوشیاں زیادہ نظر آئیں ،یعنی پازیٹیویٹی زیادہ نظر آئے تو یہ ہی مثبت و معتدل شخصیت ہوتی ہے، توازن یہی ہوتا ہے، توازن میں یہ نہیں ہوتا ہے کہ سب برابر برابر کی چیزیں ہوں ۔جو انسان ہر وقت یہ کہتا رہے کہ کوئی مسئلہ نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ Denial میں ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر چیز پازیٹیو ہے، ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ انسان کے اندر جب صبر ہو شکر ہو توکل ہو تو وہ اس طرح پرامید و پرسکون ہو کر سوچتا ہے۔یہ پازیٹیویٹی جو ہے ناں وہ ٹاکسک نہیں ہوتی یعنی آپ کہتے ہیں کہ اللہ نے ہر کام میں ہر بات میں خیر رکھی ہے، جیسے کہ ایک حدیث ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہےکہ مومن کا معاملہ خیر ہی خیر کا ہے، جب اس کو خوشی کی کوئی بات ملتی ہے تو وہ اس کا شکر ادا کرتا ہے اجر پاتا ہے اور جب اس کی زندگی میں کوئی تکلیف آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور اجر پاتا ہے، یہ خیر مومن کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ۔مومن کے لیے Win. Win والی سچویشن ہوتی ہے اس کے اندر پھر یہ ٹاکسک پازیٹیویٹی نہیں آتی، اس کو یہ پتہ ہے کہ کوئی بھی سچویشن ہو اسے پازیٹیو رہنا ہے ۔

علیزے نجف:

ایک انسان کے ساتھ کبھی کبھی یہ حادثہ پیش آتا ہے کہ اس کے خاندان میں کوئی ایک Toxic ہوتا ہے جس سے پورے گھر کا ماحول کبیدہ ہو جاتا ہے، اور اگر یہ Toxicity گھر کے با اختیار انسان میں ہو تو مسائل کافی حد تک سنگین ہو جاتے ہیں میرا سوال یہ ہے ایسے لوگوں کے ساتھ کیسے ڈیل کیا جائے جب کہ آپ چھوٹے ہوں آپ انھیں نفسیاتی ٹریٹمنٹ لینے کا بھی نہیں کہہ سکتے ہو؟

ڈاکٹر کنو ل قیصر:

 اس سلسلے میں باؤنڈری سیٹنگ سیکھنی چاہئے Healthy boundary setting کیا ہوتی ہے وہ اس طرح ہوتی ہے کہ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوتا ہے کہ ہمیں کس بات کو انٹرنلائز کرنا ہے اور کس بات کو ہم نے اپنی حد تک ہی رکھنا ہے؟ کہاں پہ لائن ڈرا کرنی ہے؟ بہت ساری سچویشنز ہوتی ہیں جن کو ہم مس ہینڈل کر رہے ہوتے ہیں، تو ایک ٹاکسک انسان آگے بڑھ جاتا ہے اگر ساری فیملی ایک پیج پہ ہو تو اس انسان کو ٹریٹمنٹ پر بھی لے جایا جا سکتا ہے اور فیملی کاؤنسلنگ کی طرف بڑھا جا سکتا ہے، میرے پاس کچھ ایسے کیسز آتے ہیں جن میں وہ بتاتے ہیں کہ ہماری فیملی کا فلاں انسان ٹاکسک ہے وہ ہمیں بلیم کرتا رہتا ہے تو میں کہتی ہوں کہ کیا وہ کاؤنسلنگ میں آنے کو تیار ہو جائے گا؟ تو وہ کہتے ہیں ہاں، اگر اسے یہ پتہ چلے کہ یہ کاؤنسلنگ اس کے لیے نہیں ،بلکہ باقی افراد کے لیے ہے ۔میں یہ کہتی ہوں کہ یہی سوچ کر لے آئیں اس کو ۔ اس سے سے کہیں کہ ہمیں ہی ضرورت ہے ،آپ چل کر ہمارے ساتھ ہمیں ہیلپ کریں، پھر یہ ہوتا ہے کہ باقاعدہ Therapies کے بعد وہ اپنے مسئلے مسائل آپس میں حل کر لیتے ہیں ۔

علیزے نجف:

اگر آپ کو اپنی مجموعی شخصیت کو کوئی ایک نام دینا پڑے تو آپ کیا نام دیں گی؟

ڈاکٹر کنو ل قیصر:

میں تو ایک ہی نام دوں گی اللہ کی بندی، انسان کو اپنے آپ کو ویسا ہی سمجھنا چاہیےجیسا کہ اللہ نے بنایا ہے، انسان کمی و کوتاہی والا ہوتا ہے جو خیر آتی ہے وہ اللہ کے اذن سے آتی ہے اور مشکل آتی ہے وہ انسان کی اپنی کمائی ہوتی ہے۔

علیزے نجف:

یوں تو ہر کوئی دوسروں کے ساتھ رشتے نبھانے کی اپنی سی بھرپور کوشش کرتا ہے ،لیکن خود کے ساتھ ایک تعلق بنانے کی اہمیت سے غافل ہوتا ہے، خود کے ساتھ ایک بہتر تعلق کیسے بنایا جا سکتا ہے اور ڈاکٹر کنول قیصر کا خود کے ساتھ کیسا رشتہ ہے ؟

ڈاکٹر کنو ل قیصر:

الحمدللہ میرا اپنے ساتھ بہت اچھا رشتہ ہے ،میں اپنا بہت خیال رکھتی ہوں میری سیلف ٹاک بہت اچھی ہے ،میں اپنے آپ کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہوں، میں اپنے آپ کو ٹوک بھی دیتی ہوں میں اپنے آپ پر تنقید بھی کرتی ہوں، میں اپنی ضروریات کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں، اپنے آپ کو سہارا بھی دیتی ہوں۔
میں نے دیکھا ہے کہ جتنی کلیئرٹی انسان اپنے اندر رکھتا ہے اس سے اس کی زندگی اتنی ہی آسان ہو جاتی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ میں فطرتا ًپازیٹیو انسان ہوں اور سوشل بھی ہوں ،تو جب انسان پازیٹیو ہوتا ہے تو اس کے اندر صحت مند عادتیں پروان چڑھتی ہیں، اور الحمدللہ والدین کی طرف سے بہت سے معاملات میں سپورٹ ملی ،انھوں نے خیال رکھا، اس لیے جو بھی کام سیکھے وہ اچھی طرح سے سیکھے ،اس لیےمیں Realistic parameters پر اپنے آپ کو دیکھتی ہوں ،اگر غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں تو اپنے آپ کو معاف کر دیتی ہوں اور پھر سیکھتی ہوں کہ اسے ٹھیک کیسے کرنا ہے ؟کبھی کسی غلطی پرشرمندگی ہوتی ہے تو اللہ کے سامنے جھکتی ہوں تو رو کر دعائیں مانگتی ہوں، تو بس الحمدللہ اللہ پردہ رکھتا ہے، اللہ آسانیاں بھی فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ رہنمائی بھی کرتا ہے تو انسان کو بھلا اور کیا چاہیے ؟

علیزے نجف:

اس انٹرویو کے ذریعے آپ نئی نسل کو بحیثیت ایک انسان کے کیا پیغام دینا چاہیں گی اور آپ ان کو تبدیلیوں اور اصولوں کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لیے کیا مشورہ دینا چاہیں گی؟

ڈاکٹر کنو ل قیصر:

میں ایک ہی پیغام دینا چاہوں گی کہ اپنے آپ کو قرآن کے ساتھ نتھی کر لیں، جوڑ لیں ،آپ کی زندگی میں جو Scanner ہونا چاہیے وہ قرآن مجید ہونا چاہیے، اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہونی چاہیے اور اپنے آپ کو جودنیاوی نفع بخش علوم ہیں ان میں بھی High achiever بنائیں، اور دنیا کو دکھائیں کہ مسلمان کیسا ہوتا ہے؟ ہم نے خود اپنے آپ کو پیچھے رکھا، اس کی وجہ سے لوگوں نے ازخود سوچ لیا کہ مسلمان اچھا نہیں ہوتا تو ہمیں اس تصویر کو ٹھیک کرنا ہے ،اس کو بدلنا ہے اور لوگوں کو جہاں جہاں مشکلات ہیں اس میں ان کی رہنمائی بھی کرنی ہے۔

٭ ٭ ٭


ہمارے پاس ایسے دن ہونے چاہئیں جن میں کہ انٹرنیٹ بند ہو، فون ہم سائڈ پہ رکھ دیں، ہم فیملی ٹائم سیٹ کریں، کچھ ایسے مشاغل ترتیب دیں جن میں سبھی شامل ہوں۔ کچھ Vacations لیں، اپنے رشتوں کو اہمیت دیں، ان کو احساس دلائیں کہ آپ ہمارے لیے کتنے ضروری ہیں؟ ہم آپ کے لیےیہ احساسات رکھتے ہیں، آپ دیکھیں کہ دنیا میں اس وقت ایسے Movement چلنا شروع ہو چکے ہیں جس میں لوگوں نے کنسرن شو کیا ہے، لوگ اس بات کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ رشتوں کا ہونا زندگی کو خوبصورت بناتا ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ۲۰۲۳