غزہ پر اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد لگ بھگ6000 ہو گئی ہے جبکہ 1000 سے زیادہ لوگ لاپتہ ہیں۔ مصر سے تیسرا امدادی قافلہ غزہ پہنچ گیا ہے، جبکہ امدادی ادارے جنگ بندی اور مزید مدد بھیجنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ ہم واضح کر چکے ہیں کہ حماس کو امداد شروع ہونے والے سلسلے میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
انٹونی بلنکن کا مزید کہنا تھا کہ فلسطینی شہری حماس کی پُرتشدد کارروائیوں کے ذمہ دار نہیں ہیں اور انھیں حماس کی مذموم کارروائیوں کا خمیازہ نہیں بھگتنا چاہیے۔
اسرائیلی فوج نے غزہ میں یرغمال بنائے جانے والے افراد سے متعلق تازہ اعداد و شمار جاری کیے ہیں، انتظامیہ کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ یرغمالیوں کی تعداد 203 ہے۔ دھیرے دھیرے یرغمالیوں کو رہا کیا جارہا ہے۔
85 سالہ يوشويد لیفشتس ان دو خواتین یرغمالیوں میں شامل ہیں جنھیں گذشتہ روز حماس کی جانب سے رہا کیا گیا ہے۔ حماس کی قید کے دوران اُن پر کیا بیتی، عمر رسیدہ يوشويد اس کی تفصیل اپنی بیٹی کے ہمراہ تل ابیب میں کی جانے والی پریس کانفرنس میں بتا رہی تھیں:
’’مجھے اغواکرنے والے جنگجو موٹر سائیکل پر بٹھا کر لے گئے۔ ہمیں غزہ میں زیر زمین ایک سرنگ میں رکھا گیا جہاں ہم زمین پر بچھائے گئے گدوں پر سوتے تھے۔ وہاں گارڈز اور طبی عملہ موجود ہوتا تھا جبکہ ایک ڈاکٹر بھی ہر دوسرے، تیسرے دن یرغمالیوں کے چیک اپ کے لیے آتا تھا۔‘‘
موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے عام لوگوں اور کئی مسلمانوں کی سوچ بھی یہ بنتی جارہی ہے کہ فلسطینیوں کی طرف سے متشدد کارروائی اس جنگ کی وجہ اور کثیر ہلاکت کا سبب ہے، جب فلسطینیوں نے اپنی زمینیں خود اسرائیلیوں کو بیچ دیں تو اب کس بات کی جنگ لڑ رہے ہیں؟ اس طرح کے کئی سوالات آس پاس سے سنائی دیتے ہیں ۔ ان کے جوابات تاریخ کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے کہ آخر یہ تناظر کب سے سے شروع ہوا اور اس کی اصل وجہ کون لوگ تھے؟
2 نومبر 1917 ءکو برطانوی وزیر خارجہ اورتھر جیمس بیل فارڈ نے برطانوی یہودیوں کے سربراہ لارڈ راتھ چائلڈ کو ایک خط لکھا۔ 67 لفظوں کا یہ خط یہودیوں کے لیے یقین دہانی تھا کہ برطانوی حکومت فلسطین میں انھیں ایک زایونسٹ یہودی ریاست قائم کرنے میں بھرپور مدد کرے گی۔ اس خط میں اس خطہ پر قبضے کی بات کی گئی ہے جہاں 90 فیصد فلسطینی عرب رہتے تھے۔ پہلی جنگ عظیم اور سلطنت عثمانیہ کے زوال کے نتیجے میں فلسطین 1917 ءمیں برطانیہ کے قبضے میں آگیا، League of Nations نے 1922 ءمیں جیسے ہی برطانیہ کے قبضے کو قبول کیا تو برطانوی حکومت کی مدد سے دنیا بھر کے یہودی خصوصی طور پر زائونسٹ یہودی فلسطین میں آکر بسنے لگے۔ صیہونی حملوں کی وجہ سے 1947 تک یہودی آبادی خطے میں 33 فیصد ہو گئی لیکن ان کے پاس محض چھ فی صد زمینیں تھیں۔1948ءمیں ہوئے نکبہ(جس کے معنی سانحہ کے ہیں،جو کہ فلسطینیوں کی ملک بدری اور نسل کشی کی ایک دردناک کہانی ہے) کے نتیجے میں تقریباً 500 سے 600 شہر اور دیہات تباہ کر دیے گئے ہیں، قریب 15 لاکھ سے زیادہ فلسطینی ہلاک کیے گئے اور ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھر وںسے بے دخل کر دیا گیا۔ اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کے زمین پر قبضہ کر لیا اور اسی سال یہودیوں نے اسرائیل کا بحیثیت ملک اعلان کیا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک بڑی تعداد یہودیوں کی وہ بھی ہے، جو اس نکبہ سے پہلے اور اس نکبہ کے بعد بھی اسرائیل میں نہیں رکی۔ ان میں سے ایک نامور یہودی گیبر ماٹے ہیں جو کہ جرمنی کے ہالوکاسٹ کے سروائیور بھی ہیں، ان کا بھی یہ خواب تھا کہ یہودیوں کا اپنا ملک ہو اور اپنی فوج ہو تاکہ نازی کیمپ کی تاریخ نہ دہرائی جائے لیکن جب وہ فلسطین پہنچے تو انہیں پتہ چلا کہ اس خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے انھیںبھی مقامی فلسطینیوں کے ساتھ وہی کچھ کرنا پڑے گا جو کہ جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ ہوا، کیونکہ مقامی آبادی کو ختم کیے بغیر یہودیوں کا اپنا ملک بنانا تقریبا ًناممکن تھا۔
اس تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ غزہ کے باشندوں کا ردعمل بالکل قدرتی ہے۔ غزہ کے قریب 20 لاکھ مکیں دنیا کے سب سے بڑے کنسنٹریشن کیمپ میں رہ رہے ہیں۔ چھوٹے بچےسے جب ایک صحافی نے پوچھا کہ وہ بڑاہو کر کیا بننا چاہتا ہے؟ تو اس بچے کا جواب تھا کہ غزہ میں بچے بڑے نہیں ہوتے!
غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے پاس قریب 6020km² کا علاقہ ہے، جبکہ اسرائیل کے پاس 22070km² کا علاقہ ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے اسرائیل کس طرح فلسطینی خطہ پر قابض ہے۔ فلسطینیوں کے حق میں عرب ممالک کتنا ساتھ دے رہےہیں، پوری دنیا دیکھ سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں فلسطینیوں کے ساتھ آگے کیا معاملہ پیش آتا ہے قابلِ فکر ہے!
٭ ٭ ٭
ایک نامور یہودی گیبر ماٹے ہیں جو کہ جرمنی کے ہالوکاسٹ کے سروائیور بھی ہیں، ان کا بھی یہ خواب تھا کہ یہودیوں کا اپنا ملک ہو اور اپنی فوج ہو تاکہ نازی کیمپ کی تاریخ نہ دہرائی جائے لیکن جب وہ فلسطین پہنچے تو انہیں پتہ چلا کہ اس خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے انھیںبھی مقامی فلسطینیوں کے ساتھ وہی کچھ کرنا پڑے گا جو کہ جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ ہوا، کیونکہ مقامی آبادی کو ختم کیے بغیر یہودیوں کا اپنا ملک بنانا تقریبا ًناممکن تھا۔
0 Comments