نومبر ۲۰۲۳

’’صحافت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور لفظ صحف سے نکلا ہے۔جس کے معنی اخبار یا جریدے کے ہیں۔اردو میں صحیفہ کے لغوی معنی وہ چیز ہے جس پر لکھا جائے،یعنی جریدہ یا اخبار۔انگریزی میں اسے’’ جرنلزم‘‘کہا جاتا ہے، جو لفظ جرنل سے بنا ہے۔اس کے لفظی معنی ہیں روزانہ کا حساب یا بہی کھاتا یا روز نامچہ۔ڈاکٹر عبدالسلام خورشید فن صحافت میں لکھتے ہیں:
’’صحیفہ سے مراد ایسا مطبوعہ مواد جو مقررہ وقفے کے بعد شائع ہوتا ہے،چنانچہ تمام اخبارات و رسائل صحیفے ہیں اور جو لوگ اس کی ترتیب و تحسین اور تحریر سے وابستہ ہیں،انھیں صحافی کہا جاتا ہے اور ان کے پیشے کو صحافت کہا گیا۔‘‘
صحافت کے تعلق سے وہ لکھتے ہیں:
’’صحافت ایک عظیم مشن ہے،اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو تازہ ترین خبروں سے آگاہ کیا جائے۔عصر حاضر کے واقعات کی تشریح کی جائے اور ان کا پس منظر واضح کیا جائے،تاکہ رائے عامہ کی تشکیل کا راستہ صاف ہو۔صحافت رائے عامہ کی ترجمان اور عکاس ہوتی ہے اور رائے عامہ کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتی ہے،عوام کی خدمت اس کا مقدس فریضہ ہے۔‘‘
( ڈاکٹر عبدالسلام خورشید،فن صحافت صفحہ نمبر:16)
‏Robert Niles کے مطابق:

“Journalism is a form of writing that tells people about things that really happened, but that they might not have known about already.”

صحافت کی اس تشریح کے بعد اس بات کا اندازہ اچھی طرح لگایا جا سکتا ہے کہ فن صحافت ایک ذمہ دارانہ کام ہے اور صحافی معاشرے کا ایک ذمہ دار شخص ہوتا ہے،جو عوام الناس تک ان باتوں کو خبروں کی شکل میں پہنچاتا ہے، جس پر عوام اعتماد اور بھروسہ کرتی ہے۔محمد علی جنا ح نے ایک موقع پر صحافیوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
’’صحافت ایک بڑی قوت ہے جو فائدہ بھی پہنچا سکتی ہے اور نقصان بھی،اگر یہ ٹھیک نہج پر ہو تو رائے عامہ کی رہنمائی بھی کر سکتی ہے۔‘‘
ایک دوسری تقریر میں انھوں نے کہا:
’’صحافت قوم کی ترقی و بہبود کے لیے اشد ضروری ہے،کیونکہ اس کے ذریعے زندگی کے تمام شعبوں میں سرگرمیاں بڑھانے کے لیے قوم کو رہنمائی اور رائے عامہ کی تشکیل کی جا سکتی ہے۔‘‘
صحافت کی اس نازک اور اہم ترین ذمہ داری کے سبب صحافی معاشرے کا ایک اہم طبقہ قرار پایا،اور اس کے ذریعے دی گئی اطلاعات اور خبریں عوام الناس کی رہنمائی ذہن سازی میں اہم رول ادا کرنے والی ثابت ہوئیں۔صحافت کی اس اہمیت کے پیش نظر ترقی یافتہ ممالک نے عوام کے اندر تہذیبی بیداری،ان کی رہنمائی و قومی یکجہتی پر کام کیا۔اور اس کا سماجی اور سیاسی فائدہ حاصل کیا اور اس وقت ذرائع ابلاغ کے ایک بڑے حصے پر ترقی یافتہ سامراجی ممالک قابض ہو چکے ہیں،یوں کہیں کہ یہ ذرائع صیہونی طاقتوں کے زیر نگیں پرورش پا کر انسانیت کے دشمن بنے ہوئے ہیں،پورا عالم اسلام ان کی بالا دستیوں کا اسیر بنا ہوا ہے۔
بقول سید عبدالسلام زینی:
’’ترقی پسند ممالک نے پسماندہ اور غریب قوموں کو ذہنی غلامی میں مبتلا کر کے ان کا استحصال کیا اور ان کی تہذیبی اور قومی روایات نظریۂ زندگی اور اقتدار حیات کو خود ان کی اپنی نظر میں بے وقعت بنا کر رکھ دیا اور اس طرح اس خطرناک ہتھیار سے وہ کام لیا جو بڑی سے بڑی فوجی قوت کے استعمال سے بھی ممکن نہ تھا۔‘‘ (اسلامی صحافت،صفحہ:32)
تو گویا ذرائع ابلاغ کو ذریعہ بنا کر عوام الناس کی ذہن سازی اور ان کی ذہنی و فکری تبدیلی کے ذریعے لڑی جانے والی سرد جنگ نے وہ کام کیا جو بڑی بڑی طاقت و قوت سے نہیں کیا جا سکتا۔چنانچہ مغربی مفکرین نے صحافت کے جو مقاصد بیان کیے ہیں،اسے درج ذیل اقتباس سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔
’’ اس صحافت کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو تازہ ترین خبروں سے آگاہ کیا جائے،عصر حاضر کے واقعات کی تشریح کی جائے،اور ان کا پس منظر واضح کیا جائے،تاکہ رائے عامہ کی تشکیل کا راستہ صاف ہو۔ صحافت رائے عامہ کے ترجمان اور عکاس بھی ہوتی ہے، رائے عامہ کی رہنمائی کے فرائض بھی انجام دیتی ہے، عوام کی خدمت اس کا مقدس ترین فریضہ ہے،اس لیے صحافت معاشرے کے ایک اہم ادارے کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘(فن صحافت،از:ڈاکٹر عبدالسلام خورشید)
کسی بھی جمہوری ملک کی کامیابی و ترقی کا انحصار میڈیا کے اس اہم رول اور صحافیوں کی اہم ذمہ داریوں پر منحصر ہوتا ہے،بشرطیکہ وہ یہ طے کر لیں کہ انھیں کس طرح کی رائے عامہ تشکیل کرنی ہے۔دوسرے لفظوں میں میڈیا کے مثبت رول پر ملک و ملت کی تعمیر و ترقی کا انحصار ہے۔اسلامی نقطۂ نظر سے بھی صحافت کا مقصد لوگوں تک صحیح خبروں کو پہنچانا اور حقیقت سے پردہ اٹھانا ہے،تاکہ معاشرے میں خیر و شر میں تمیز کی صفت پیدا ہو اور معاشرہ غلط بنیادوں پر ذہنی و فکری ارتقاء کی طرف گامزن ہونے کے بجائے ایک صالح اور مثبت تبدیلی کی طرف رواں دواں ہو،بھلائی اور سچائی پر مبنی معاشرہ وجود میں آئے اور اخوت،محبت،انسانی ہمدردی و بھائی چارہ کی فضا بیدار ہو۔اگرچہ موجودہ دور اور یہ صدی ترقی کی تمام منزلیں عبور کر چکی ہے،ٹیکنالوجی کے ذریعے خبروں کی ترسیل و اشاعت نے پوری دنیا کو ایک چھوٹے سے ’’گلوبل ولیج‘‘ کی شکل میں تبدیل کر دیا ہے،ہر لمحہ ہر آن خبروں کی ترسیل میڈیا و سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات کی فراہمی کا کام انجام پذیر ہوتا رہتا ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ یہ خبریں اور میڈیا کے تمام ذرائع عوام کو کس رخ پر لے جا رہے ہیں؟ اس پر کس کی اجارہ داری ہے؟ کس کے ہاتھوں میں اس کی لگام ہے؟ اور کس نے اس کی باگ ڈور سنبھال رکھی ہے؟کیا یہ ذمہ دار غیر جانبدار ایماندار صحافت کی ترجمانی اور عکاسی کرتی ہے؟کیا اس کے ذریعے کوئی بڑی مثبت تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے؟صحافی صحیح رخ پر گامزن ہو کر ملک کے باشندگان کو تعمیری کاموں پر لے جانے کی ذمہ داری ادا کرے تو ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ایک صالح انقلاب لایا جا سکتا ہے۔مثال کے طور پر ہندوستان کی آزادی میں ذمہ دارصحافت اور میڈیا نے مثبت کردار ادا کیا۔مہاتما گاندھی،پنڈت جواہر لال نہرو اور مولانا ابو الکلام آزاد وغیرہ نے ہندوستان کی آزادی کے لیے اخبارات اور رسائل کے ذریعے عوام کو بیدار کیا اور رائے عامہ کو ہموار کر کے انھیں ایک بڑے انقلاب کا حصہ بنایا۔بنا کسی تفریق رنگ و نسل کے اس انقلاب میں ہندوستان کاہر شہری شامل تھا،سب نے مل کرآزادی کی جنگ لڑی اور یہ ثبوت پیش کیا کہ عوام کی طاقت اور رائے عامہ کی ہمواری کے بغیر کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔
اسی طرح حکومتیں اپنی اسکیموں پالیسیوں اور حکومت کے بڑے فیصلوں کو بھی نافذ کرنے کے لیے عوام کے ذہن کو مسلسل تیار کرتی ہیں۔اس کے لیے بھی ذرائع ابلاغ مثلاً ٹی وی،ریڈیو ،اخبارات،اشتہارات اور بڑے بڑے ہورڈنگز کا استعمال کیا جاتا ہے،خواہ وہ ’’بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ‘‘کی تشہیر ہو،کرونا ویکسین کی پبلسٹی ہو،عوام کو صفائی ستھرائی کےلیے بیدار کرنے کی ہدایات ہوں؛بہرحال ذرائع ابلاغ کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔
سماج کی بہت سی خرابیوں میں عوام کو بیدار کر کے ان کے ذہن کو ہموار کرنے کا کام صحافت کے ذریعے کیا جا سکتا ہے،اسی طرح بہت سی برائیوں کو دور کرنے اور عوام الناس کو اس سے آگاہ و بیدار کرنے کا کام میڈیا کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ اس میں ذرائع ابلاغ کا مثبت رول ہو سکتا ہے،مثال کے طور پر کرپشن کے معاملے میں ملوث لوگوں کو بے نقاب کر کے ان پر لگام کسنے کا کام ایماندار صحافت کا حصہ رہا ہے،اور میڈیا کی طاقت میں وہ دم خم ہے کہ اس سے ڈر کر لوگ عوام کو کھلے عام لوٹنے سے بچنے پر مجبور ہوئے۔بارہا میڈیا نے سیاسی لوگوں کو بھی بے نقاب کیا اور کرپشن کے خلاف پردہ فاش کیا،اس پرقلم اٹھایا حقائق اور سچائی کو سامنے لا کر رکھا۔
جہاں آزاد اور ایماندار صحافت نے کارہائے نمایاں انجام دیا وہیں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بڑی ہی صفائی سےسیاست دانوں نے میڈیا کو خرید لیا اور انھوں نے نہ صرف اپنے سیاسی ایجنڈے اور پالیسی پروگرام کو عوام تک پہنچانے میں مدد لی،بلکہ عوام کے ذہنوں کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کے ساتھ ایک قدم اور آگے بڑھ کر اپنے مفاد کے لیے بھی اس کا استعمال شروع کر دیا اور پھر ذاتی مفاد اور پیسے کی لالچ میں میڈیا اس قدر پک گیا کہ وہ گودی میڈیا کہلانے لگا اور صحافت کی صاف و شفاف شکل دھندی نظر آنے لگی،پھر عوام کے اندر فرقہ واریت کی فضا پیدا کرنے اور کسی معمولی واقعے کو مذہبی رنگ دے کر اسے اپنے ووٹ بینک کی سیاست کا حصہ بنانے کا کام اس سے لیا جانے لگا،اور اب تو مزاج یہ بن گیا ہے کہ ایک فرقے کے خلاف دوسرے فرقے کو کھڑا کر کے ووٹ حاصل کرنے اور حکومت و اقتدار پر قبضہ کرنے کا مزاج بن گیا ہے۔ جہاں صحافت عوام الناس کی ذہن سازی اور رائے عامہ کی تبدیلی،کسی تعمیری و مثبت کام اور ایک اچھے ملک کو زندہ رکھنے کے لیے اہم کڑی کی حیثیت رکھتی تھی،جہاں اسے جمہوریت کا چوتھا ستون مانا گیا تھا وہیں آج صحافت کا معیار گر چکا ہے اور اپنی ٹی آر پی (TRP)بڑھانے کے لیے نیز ذاتی مفاد کے لیے میڈیاسب کچھ داؤ پر لگا چکا ہے ۔کسی ملک کی ترقی میں یہ عوامل کتنے نقصان دہ ہیں،اس کا اندازہ ہم اپنے ملک عزیز کی بگڑتی صورت حال سے اچھی طرح لگا سکتے ہیں۔
اس وقت بین الاقوامی سطح پر عالمی اسلاموفوبک لہر دوڑ رہی ہے۔اس کے پس پردہ پورے عالمی میڈیا کا ایک منفی اور متعصبانہ رول کھل کر سامنے آ چکا ہے،میڈیا کی آزادی اور بولنے کی طاقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میڈیا اپنی تمام حدود پھلانگ چکا ہے،پھر صحافت اور پریس کی آزادی کا اس قدر فائدہ اٹھایا گیا کہ کسی کی دل آزاری،معصوم انسانوں کی نسل کشی تک کو صحافت کے اندر پریس کی آزادی کے حوالے سے جائز قراردیا۔ عورتوں،بچوں اور مذہبی عبادت گاہوں کی پامالی پر خوشیاں منانا،ایسی آزادی کہ صحافت خود شرمندہ ہو تو صحافت کا مقصد ایک بےمعنی وجود بن کر رہ جاتا ہے۔کسی کے مذہب،ملک و ملت کے خلاف غلط پروپیگنڈہ ہی اگر میڈیا کی آزادی ہے تو پھر ایسے میں صحافت اپنی وقعت کھو دیتی ہے اور خبروں کی سچائی و ایمانداری مشکوک و مشتبہ ہو جاتی ہے۔
ملک ترقی کے بجائے بدحالی بدامنی اور گراوٹ کا شکار ہو جاتا ہے،اس وقت ہم ان ممالک کی حالت زار سے اچھی طرح واقف ہیں، جو بڑے بڑے ممالک کے ظلم کا شکار ہو کر تنزلی و بربادی سے دوچار ہیں،اور عالمی سطح پر انسانیت کے لیے بنائے گئے تمام قوانین کے خود رکھوالے ہی اس کی پامالی کا سبب بن رہے ہیں اور کوئی سوال کرنے والا نہیں ہے،کیونکہ صحافت کی دنیا اور میڈیا کے تمام ادارے ان کے ہاتھوں اپنی وقعت کھو چکے ہیں،ان کے غلام ہیں اور بک چکے ہیں۔
اس کے باوجود میڈیا کے ذریعے صحافت کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے ایک مثبت تبدیلی لانے کی ہم امید رکھتے ہیں۔ جس کے ذریعے عوام الناس کی ذہن سازی کی جا سکے،اور رائے عامہ کو ہموار کیا جا سکے،صحیح خبروں کی ترسیل و اشاعت ہو اور عوام کو تکثیری سماج میں ایک ساتھ مل کر رہنے کے آداب سکھائے جا سکیں۔
قرآن کی اس ایت کے مطابق:
’’حق پر باطل کا رنگ چڑھا کر اسے مشتبہ نہ کرو!‘‘کے مصداق صحافت کے معیار میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے،بشرطیکہ اسلام کی ان تعلیمات پر غور کیا جائے، جہاں یہ تاکید کی گئی:’’شہادت کو ہرگز نہ چھپاؤ، جو شہادت چھپاتا ہے اس کا دل گناہ میں آلودہ ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں۔‘‘(سورۃ البقرہ:283)
اسی طرح یہ بھی کہ:’’جو بھلائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا۔‘‘(سورۃالعصر) گھٹیا سیاست، کرپشن، چور بازاری ،عوام کی دولت کو عوام کے خلاف استعمال کر کے ملک کو غربت و پسماندگی سے باہر نکالنے کا کام صحافت کے مثبت رول کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ۲۰۲۳