نومبر ۲۰۲۳

میں اپنے ہی گھر میں خوف کے عالم میں ہوتی تھی ۔مجھے نہیں یاد شعور کے کس حصے نے مجھ پر یہ راز آشکار کیا کہ ایک صنفِ نازک کو اپنی حفاظت اپنے ہی گھر میں اپنے ہی رشتوں سے کرنے کی ضرورت ہے ۔ میری آنکھیں لیکچر کے دوران بھیگنے لگیں ۔
یہ بہت تلخ حقیقت ہے کہ آپ خود کو معاشرے میں بے نقاب کریں۔صرف اس لیے کہ آپ کے اس عمل سے دوسروں کی حفاظت ہوسکے ۔ یوم اطفال کی کانفرنس میں مجھے مدعو کیا گیا تھا ، جس کا مقصد لڑکپن کے دور میں ہونے والے اہم مسئلوں پر توجہ دلانا تھا اور مجھے لگتا ہے ۔ اس دور میں ،بلکہ اس کے بعد کی عمر میں بھی لڑکیوں حتی کے لڑکوں کو جس مسئلہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان میں سب سے اہم جنسی استحصال کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے ان کی زندگی خوف اور ڈپریشن کی نذر ہوجاتی ہے لیکن خوف ، شرم اور غیرت کے وجہ سے بچے خاموش رہتے ہیں، یا انھیں یہ بتایا ہی نہیں جاتا کہ جیسے باہر والوں سے خود کی حفاظت کرنا ہے، ویسے ہی گھر میں بھی کچھ ایسے رشتے موجود ہوسکتے ہیں جو انسان کی شکل میں حیوان ہیں ، جو رشتوں کی آڑ میں ایک گھناؤنا فعل انجام دے رہے ہوتے ہیں ۔
میں بچوں کے پروان چڑھتے ذہن میں رشتوں سے متعلق کوئی زہر نہیں انڈیلنا چاہتی تھی ،لیکن ہمارے معاشرے کی یہ تلخ حقیقت ہے کہ بچے آج اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں ۔لہٰذا میں نے ایک لڑکی کو اسٹیچ پر آنے لیے کہا ۔ بچی ہچکچاتی ہوئے آئی ۔ بچی کو اسٹیج کے درمیان میں نے کھڑا کیا اور تمام بچوں کو یہ بتایا کہ مخصوص اعضا ءہمارے ایسے ہیں جہاں کوئی بھی فرد چھوئے تو آپ کو اس پر احتجاج کرنا ہے، اپنی والدہ سے کھلے الفاظ میں کہنا ہے، آپ کی امی آپ پر بہت بھروسہ کرتی ہیں ۔ یہ الفاظ میں نے اتنی مشکل سے ادا کیے کہ کئی مرتبہ میری زبان لڑکھڑائی ،میری آنکھوں سےآنسو بہہ جانے کےلیے بےتاب تھے، لیکن نہیں ،اگر میں ہار مان گئی تو میری قوم کے بچے بزدل ہوں گےاور خود کی حفاظت کبھی نہیں کرسکیں گے ۔
میں نے انھیں کچھ ایسے اسٹیپس بتائے جن سے ایک بچہ ایسے غیر مناسب حالات سے خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے ۔ سب سے پہلے اگر کوئی ایسا شخص جو آپ کے قریبی رشتہ دار میں شمار ہوتا ہے، لیکن وہ آپ کے ساتھ غیر اخلاقی طریقے سے پیش آتا ہے ،آپ کے مخصوص اعضا ءکو چھوتا ہے تو آپ کو اپنی امی یا ابو سے کہنا ہے ، یہ ممکن نہ ہو تو آپ کو بالکل بھی ڈرنا نہیں ہے بلکہ ان‌ کے پاس جانے سے اس طرح منع کرنا ہے کہ فلاں انکل میرے ساتھ ایسے پیش آتے ہیں ، مجھے برا لگتا ہے۔ یہ بات آپ کو سب کے سامنے کہنی ہے ،تاکہ آئندہ ایسی حرکتوں سے باز آئے ۔ ممکن ہو تو ایسے رشتہ داروں کے سامنے بالکل نہ آئیں ، ممکن ہو تو جو بھی وزنی شے ہاتھ میں آئے اسے سر پر دے ماریں۔ہنگامی حالت میں آپ اپنے مضبوط دانتوں کا استعمال کرکے کہیں پر بھی کاٹ سکتی ہیں، تاکہ جب تک نشان ثبت رہے تب تک اسے احساس ہوتا رہے۔
اس کے بعد میں نے بچوں میں ڈائری تقسیم کی جو میری جانب سے بچوں کو یہ باور کرانا تھا کہ آپ اپنی زندگی کے مصنف خود ہو ۔ جب تک آپ خود کےلیے اسٹینڈ نہیں لوگے تب تک دنیا کا اعلیٰ منصف بھی آپ کو انصاف نہیں دلا سکتا ۔ یہ بچے ابھی نہ بھی سمجھیں تو عمر کے کسی حصے میں ضرور سمجھ جائیں گے۔میرے لیکچر کا وقت پورا ہوچکا تھا ۔
شکریہ کے ساتھ نیچے اتر ہی رہی تھی کہ میری پانچ سالہ بیٹی سہمی ہوئی میرے پیروں سے آکر لپٹ گئی ۔ میں نے اسے گود میں اٹھایا اور گلے سے لگایا اس کی سانسیں بہت تیزی سے رواں تھی ۔ میں اپنی نشست پر جاکر بیٹھی اور اپنے کزن کو کال کیا جس کی نگرانی میں میری بیٹی کو میں نے چھوڑا تھا۔ کزن آیا تو اس کے گالوں پر دانت کے واضح نشان بنے تھے ۔ دانتوں کے نشان دیکھ کر میری روح کانپ گئی ۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ۲۰۲۳