نومبر ۲۰۲۳

 ایامِ طفولیت میں کسے کہانیوں اور نظموں کا شوق نہیں ہوگا؟ہر ایک کا بچپن ان حسین یادوں سے بھرا ہوا ہے ،جس قدر نظمیں یاد ہوتیں اُسی قدر اساتذہ و والدین سے شاباشی ملا کرتی۔ اردو کی کہانیاں اور نظمیں اپنی سبق آموزی اور دل میں گھرکر جانے کےلیے اپنی مثال آپ ہیں۔ اب حال یہ ہے کہ نمبرات حاصل کرنے کی دوڑ اور موبائل اسکرین نے یہ بیش بہا اثاثے اور ان سے ملتے قیمتی نتائج درسی کتاب کے صفحات اور بچوں کے معصوم ذہن سے ختم کردیے ہیں۔
اسکول میں ادب کہ ان شہ پاروں کہ ذریعہ جو تربیتی انجکشن لگائے جاتے ،اس کا اثر دل و دماغ پر اس قدر ہوتا کہ رات میں جب ننھی آنکھیں موندی جاتی تو خوابوں میں تخیل اپنا رقص دکھانا شروع کرتا ،اور کہانی کہ کردار آنکھوں کے سامنے دکھائی دیتے۔ کبھی بندر بانٹ، کبھی پیاسا کوا ، صُراحی میں گردن دیے ضیافت سے لطف اندوز ہوتا سارس، شیر اور چوہے کی دوستی۔ نظموں کی دھن کان کے قریب سنائی دیتی ۔ لکڑی کی کاٹھی، چندا ماما، چاند کی پریاں دماغ کی سرزمین پر اترتیں۔ وہیں پنجرے میں بند پرندے کی فریاد، دلی سے لائے گئے ابا میاں کے تحفے اور مٹھائیاں ننھے سے ذہن میں سوچوں کا محور ہوا کرتی تھیں۔ علامہ اقبال کی نظم’’ہمدردی‘‘ پڑھائی جاتی توجگنودیکھنے ، پکڑنے اور اس جیسا بننے کی دل میں چاہ پیدا ہوتی۔معاملات دنیا سے بے فکر ذہن بڑے آرام سے تخیل کی دنیا میں بسیرا کیا کرتے تھے اور بڑی ہی خاموشی اور نفاست سے ان کو دنیا میں برتنے اور اثر انداز ہونے کے لیے تیار کیا جاتا تھا۔

علامہ اقبال کے ننھے جگنوؤں کو روشنی سے آراستہ کیا جاتا تاکہ بھٹکے اور اداس بلبل کو وہ راستہ دکھانے کا کام کیا کریں۔ لیکن یہ جگنو ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ اپنے مقصدِ وجود کو بھلائے بیٹھے ہیں۔ شجر پر اداس اور گمراہ بلبل کی تعداد بڑھتی جاری ہے ۔کسی جگنو کی راہ تکتے، روشنی کی تلاش میں سرگرداں بلبل منتظر ہیں اپنے مسیحا کے ۔جگنو نے ہمیں نصیحت کی تھی کہ:

ہیں وہی لوگ جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے

مظلوم و بے کس لوگوں سے ہمدردی، گم شدہ راہوں کی تلاش میں پریشان لوگوں کی مدد کا جذبہ، مقصد وجود و مقصد حیات سے نا آشنا لوگوں کی رہبری ،
جہاں میں آئینِ حق کو قول و عمل سے لوگوں کو متوجہ کرانے کا ذمہ،نئے زمانے کےبڑھتے ہوئے نت نئے مسائل کو سُلجھانے کی جستجو، پریشان حال، ضعیف جذبات، مرجھائے ہوئے چہروں پر زندگی کی رمق پیدا کرنے کا عزم؛ یہی جگنو کے کرنے کے کام ہیں، جو رب تعالیٰ نے ایمان عقل و شعور ، حکمت و دانائی کی روشنی ، جذبات کی حدت، حق و باطل میں فرق دکھانے والی بصیرت اور صحیح راستے کی رہنمائی بخشی ہے۔
ان ہی روشن میناروں کے ذریعے انسانیت کے کام آنا ہے۔وہی قومیں دنیا میں حکومت کرتی ہیں جن کے اندر انسانیت کو سمجھنے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کا جذبہ اَتم درجہ میں پایا جاتا ہے۔ جو درد مندی ، اخوت، بھائی چارگی، صلح رحمی جیسے صفات سے بہرہ ور ہوتی ہیں ۔ مذہب، رنگ ونسل، جغرافیائی و ذہنی حدود و قیود سے بالا تر ہوکر مسیحاکاکردار ادا کرتی ہیں۔انسانیت کے کام آنا انسانی فطرت ہے۔
جو فطرت کے خلاف کام‌کرتا ہے، لوگوں سے اعراض برتتا ہے، سماج سے کٹ کرزندگی گزارتا ہے، جانتے بوجھتے انسانیت کی مشکلات کو نظر انداز کرتا ہے؛ اس کے وجود میں انفرادی حیثیت سے ہو یا اجتماعی حیثیت سے تنزلی،پریشانی، تناؤ، بے چینی پھیل جاتی ہے، اور وجودِ افلاکی سے ناکارہ وجود بن کر رہ جاتا ہے۔ اپنے فارسی کلام کے ذریعے علامہ اقبال نے انسان کو اس کے حقیقی مقام یعنی اس جہان اور انسانیت کے رکھوالے کے طور پر آواز دی ہے کہ:

ناموسِ ازَل را تو امینی، تو امینی
دارائے جہاں را تو یَساری تو یَمینی
اے بندۂ خاکی تو زمانی تو زمینی
صہبائے یقیں در کش و از دیرِ گماں خیز
از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں خیز
از خوابِ گِراں خیز

(ازل کی ناموس کا تو ہی امانت دار ہے، جہان کے رکھوالے کا تو ہی دایاں اور بایاں (خلیفہ) ہے، اے مٹی کے انسان تو ہی زمان ہے اور تو ہی مکان ہے (یعنی ان کاحکمران ہے) تو یقین کے پیمانے سے شراب پی اور وہم و گمان و بے یقینی کے بت کدے سے اٹھ کھڑا ہو،گہری نیند سے اٹھ کھڑا ہو، بہت گہری نیند سے اٹھ کھڑا ہو)

٭ ٭ ٭


جو فطرت کے خلاف کام‌کرتا ہے، لوگوں سے اعراض برتتا ہے، سماج سے کٹ کرزندگی گزارتا ہے، جانتے بوجھتے انسانیت کی مشکلات کو نظر انداز کرتا ہے؛ اس کے وجود میں انفرادی حیثیت سے ہو یا اجتماعی حیثیت سے تنزلی،پریشانی، تناؤ، بے چینی پھیل جاتی ہے، اور وجودِ افلاکی سے ناکارہ وجود بن کر رہ جاتا ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ۲۰۲۳