نومبر ۲۰۲۳

بہت دنوں کے بعد آج طویل سفر سے حامد صاحب گھر لوٹے ہیں،گھر میں خوشی کا ماحول ہے۔ محمد زید اور ہادیہ نور بھی بہت خوش ہیں۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر امی نے کھانے کا دسترخوان لگایا۔ محمد زید اور ہادیہ نور نے بھی اپنے ابو کے ساتھ کھانا کھایا۔کھانے سے فارغ ہوکر ہادیہ نور نے ابو سے کہانی سننے کی فرمائش کر ڈالی۔ بچوں کو ابو کی زبانی کہانی سنے ایک عرصہ گزر چکا تھا۔ محمد زید بھی کہانی سنانےکی ضد کرنے لگا۔ ابو نے ایک مرتبہ بچوں کے معصوم چہروں پر نظر ڈالی اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا:
’’بچو!ہم نے ابھی کھانا کھایا ہے۔پہلے ہم سب مل کر چہل قدمی کرلیں، اس کے بعد آپ لوگوں کو چڑیا اور اس کے معصوم بچوں کی سچی کہانی سنائی جائے گی۔‘‘یہ سنتے ہی دونوں بہن بھائی خوشی سے جھوم اٹھے۔چہل قدمی کے بعد جیسے ہی حامد صاحب کمرے میں داخل ہوئےتو دیکھا بچوں کی امی پہلے سے ہی کہانی سننے کے لیے منتظر بیٹھی تھیں۔
حامد صاحب نے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ لگتا ہے آج آپ بھی کہانی سننے کے لیے بےتاب ہیں۔ محمد زید اور ہادیہ نور نے شور مچانا شروع کردیا۔
’’ابو جان! ابو جان! کہانی سنائیں… کہانی سنائیں۔‘‘
امی نے دونوں بہن بھائی کو انگلی کے اشارے سے خاموش رہنےکو کہا۔دونوں بچے امی کے ایک ہی اشارے پر خاموش ہوگئے۔
کمرے میں کچھ دیر تک سنّاٹا سا چھایا رہا ۔حامد صاحب نے کہانی کچھ ا س طرح شروع کی:
اب سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے ملک عرب کے ریگستانی راستوں سے ہوتا ہوا مسافروں کا ایک قافلہ اپنی منزل کی طرف تیزی سے بڑھ رہا تھا۔یہ اس زمانہ کی بات ہے جب لوگ گھوڑے، اونٹ اور خچر وغیرہ پر دور دراز کے سفر طے کیا کرتے تھے۔ اس زمانہ میں آج کی طرح ہوائی جہاز، ریل گاڑیاں اور بس، موٹر گاڑیاں وغیرہ نہیں ہوا کرتی تھیں۔
بچو!اس قافلے کو چلتے ہوئے کئی روز گزر چکے تھے۔ دوپہر کا وقت تھا، دھوپ کی تیزی کی وجہ سے گرمی بھی خوب ہورہی تھی۔ قافلے والوں کے گھوڑے اور اونٹ تھک چکے تھے اور ان پر سوار مسافروں پر بھی تھکن کے آثار نمایاں نظر آرہے تھے۔ قافلے کے تمام مسافر بہت ہی نیک اور پیارے انسان تھے، اس لیے تمام مسافر اپنی سواریوں پر بیٹھ کر قرآن کریم کی تلاوت اور اللّٰه کا ذکر کرتے ہوئے چل رہے تھے۔ اس قافلے کے امیر بہت ہی باوقار، نرم دل اور بلند مرتبہ شخصيت کے حامل تھے۔ امیرِ قافلہ نےجب اپنے ساتھیوں اور جانوروں پر تھکاوٹ اور سستی کے آثار محسوس کیےتو قافلے کو پڑاؤ کاحکم دے دیا۔
محبوب امیر اور مشفق راہنما کاحکم سنتے ہی سبھی مسافروں نے سواریوں کی لگامیں کھینچ لیں اور ایک محفوظ و ہموارجگہ پر پڑاؤ ڈال دیا۔ قافلے کے تمام مسافر اپنا سامان ایک طرف رکھنے لگے۔جس سے سامان کا ایک اونچا سا ڈھیر لگ گیا۔جانوروں کو چارا ڈال کر، آرام کے لیے چھوڑ دیا گیا۔تمام مسافر پڑاؤ کی جگہ آرام کرنے کے دوران آپس میں پیار و محبت بھری باتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ان کے ایک ساتھی نے بتایا کہ نماز کا وقت ہونے والا ہے ،ہم سب تھوڑی ہی دیر بعد نماز اداکریں گے۔اسی درمیان قافلے کے امیر نے اپنے مسافر ساتھیوں سے کہا کہ میں کچھ ضرورت کے تحت جنگل کے اندر جا رہا ہوں اور کچھ ہی دیر میں آجاؤں گا۔
پیارے بچو!کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ مسافر اور اس قافلہ کے امیر کون تھے؟اس قافلے کے امیر ہمارے آخری نبی حضرت محمدﷺ تھے، اور قافلے کے تمام مسافر آپﷺ کے ساتھی صحابہ ٔکرامؓ تھے۔ جی ہاں بچو! آپ نے بالکل درست سنا۔ یہ مقدس مسافر ہمارے پیارے اور آخری نبی سیدنا حضرت محمدﷺ جنھیں اللّٰه رحمٰن نے رحمت عالم بنایا ہے اور وہ تمام مسافر آپﷺ کے پیارے نیک دل صحابہ ٔکرامؓ تھے۔اب آپ خود اندازا لگا سکتے ہیں کہ یہ کیسے پاکباز انسانوں کا قافلہ تھا۔
توآیئے !اب کہانی کی جانب پھر سے آتے ہیں۔قافلے کے امیر یعنی ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کسی ضرورت سے قافلہ کے پڑاؤ سے تھوڑی دورچلے گئے۔صحابہ ٔکرامؓ اپنی باتوں اور کاموں میں مصررف ہوگئے۔اسی دوران اچانک صحابہؓ نےایک خوبصورت سے پرندے کو کودیکھا۔ غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ یہ ایک معصوم سی خوبصورت چڑیا تھی۔ یہ تتلی کی طرح اڑتی ہوئی اچانک ادھر آنکلی جدھر قافلے کا پڑاؤ تھا۔پھر کیا تھا؟ صحابہ ٔکرامؓ نے اس خوبصورت چڑیا کا پیچھا کیا اور اس کے گھونسلے تک جاپہنچے۔ گھونسلہ میں اس کے کمزور سے دو ننھے منے معصوم بچے سہمے سہمے،ڈرے ڈرے اور خوفزدہ سے ماں کی آمد کے منتظر بیٹھے تھے۔
صحابہ ٔکرامؓ نے جب یہ نظارہ دیکھا تو بہت حیران اورخوش ہوئے۔اتنے میں اچانک ایک صحابی ؓنے آگے بڑھ کر اس چڑیا کے دونوں معصوم بچوں کو اٹھالیا۔ بچےہاتھوں میں آتے ہی سہم گئے۔ وہ خوفزدہ ہوکر دبک کربیٹھ گئے۔ وہ بہت کمزور اور معصوم تھے، چھوٹے چھوٹےپاؤں، ننھی ننھی سی چونچیں، کمزرو سے پر تھے ان کے،وہ زورلگاتے ہوئے ان صحابیؓ کے ہاتھو ںپر چونچ مارکر آزاد ہونا چاہ رہے تھے۔ نہیں ،یہ نہیں ہوسکتا تھا ،کیونکہ وہ انسان کے مضبوط وتوانا قوت والے جنگجو ہاتھوں کی گرفت میں تھے۔بھلا یہ ننھی چڑیا کے ننھے منے معصوم قیدی بچے ان ہاتھوں کو نہ تو کوئی نقصان پہنچا سکتے تھے اور نہ ہی اس قید سے آزاد ہو کر کھلی ہوا میں اڑ سکتے تھے۔
صحابۂ کرامؓ ان خوبصورت اور معصوم بچوں کو پیار کر رہے تھے۔ وہ ان کی ننھی ننھی زبانوں سے نکلنے والی آوازیں ’’چوں…چوں…چوں ‘‘سن کر بہت خوش ہو رہے تھے۔ خوشی سے ان کو دیکھتے ہوئے ان پر تبصرے کر رہےتھے۔
اچانک اس ننھی چڑیا یعنی بچوں کی ماں نے دیکھاکہ صحابہؓ نے اس کے بچوں کوگھونسلے سےاٹھا لیا ہے۔ اسے ایسا لگا جیسے اس کا دل دھڑ کنا چھوڑتا جار ہا ہو، اس کی سانسیں پھول گئیں،جسم سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہونے لگی، اسے اپنی آنکھوں کے آگے اندھیرا محسوس ہونےلگا، اسے صحیح طرح سے کچھ دکھائی نہیں دے رہاتھا،اس کا ننھا سا دل تیزتیز دھڑک رہاتھا اور جسم بے جان ہوتا جارہا تھا،اس کے پروں سے اڑنے کی طاقت ختم ہوتی جارہی تھی، اس کی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے تھے، دل غمگین تھا، وہ دل ہی دل میں رو رہی تھی ،چیخیں مار رہی تھی اور زبان حال سے کہہ رہی تھی:ہائے! سمجھ میں نہیں آرہا کہ میں اب کیا کروں؟ ہائے میرے بچوں کو کون چھڑائے گا ؟ میرے بچوں کو کون آزادی دلوائے گا؟ کون انھیں گھونسلے تک واپس پہنچائےگا؟ وہ بہت نازک ہیں، ابھی چند دن پہلے ہی دنیا میں آئے ہیں، ابھی چند دن کی ہی تو ان کی عمر ہے، اگر ان کی جان چلی گئی، اگرکہیں وہ زخمی ہوگئے،اگران کی سانس رک گئی،اگر وہ ہاتھوں میں دب کر یاسانس گھٹ کرمر گئے تو میرا کیا بنے گا!!؟ یقیناً میں بھی جیتے جی مرجاؤں گی۔ہائے افسوس! کوئی آئے، میرے بچوں کو بچائے۔وہ اللّٰه کے دربار میں فریاد کرہی رہی تھی کہ: الہٰی میرے بچوں کی حفاظت فرمانا،ننھی چڑیا کی بے قراری و بے چینی دیکھی نہیں جارہی تھی۔
چڑیا اسی پریشانی کے عالم میں دیوانہ وار ادھر ادھر اڑ رہی تھی، اور صحابہؓ کےسروں کے آس پاس ہی منڈلارہی تھی، معصوم و بے قرار چڑیا صحابہؓ کے ہاتھوں میں پکڑے اپنے بچوں کو ایک نظر دیکھ رہی تھی۔ایک صحابی نے پیار سے ننھے معصوم بچوں کو اپنی جھولی میں ڈال لیا۔یہ دیکھ کر چڑیا تڑپ اٹھی اور بے قراری کےعالم میں اڑتی ہوئی ان صحابیؓ کے سر پر آکر بیٹھ گئی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسےایک مجبور ماں اپنے معصوم قیدی بچوں کو قید سے رہائی کی دہائی دے رہی ہو۔مجبور چڑیا اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتی تھی ؟کیونکہ وہ ایک کمزور سی ننھی سی مجبور چڑیا تھی۔
اب اسے لگنے لگا کہ اس کا ننھا سا حساس دل اپنے بچوں کی جدائی کےغم میں دھڑکنا بند کردے گا،اور وہ ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سو جائے گی۔ وہ بے قراری میں سوچ رہی تھی کہ اگر وہ مرجائے گی تو اس کے بچوں کا کیا بنے گا؟یہی فکر اسےکھائے جارہی تھی۔یہ ایک مجبور ماں کی تڑپ تھی، اپنےبچوں کے لیے، جو دنیا کی ہر ماں کےدل میں ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔وہ ماں خواہ حیوانوں کی ہو یا انسانوں یا پرندوں کی۔
صحابہ ٔکرامؓ اس چڑیا کو دیوانہ وار اپنے سروں پہ منڈلاتا دیکھ رہے تھے،اوراس کے بچوں سے لاڈ پیار کرتے ہوئے ان کواپنی طرف متوجہ کرنے کےلیے مختلف آوازیں نکال کرخوش ہورہے تھے۔ادھر ننھی چڑیا کو یہ وہم ہوگیا تھا کہ کہیں صحابہؓ اس کے بچوں کونقصان نہ پہنچادیں،اسے نہیں پتہ تھاکہ یہ نرم دل لوگ نبیﷺ کے پیارے صحابہ ؓہیں۔یہ تواس کے بچوں سے پیار کر رہے تھے۔ جبکہ وہ پریشان ہو رہی تھی کہیں ان کوکچھ ہونہ جائے۔
بچو!صحابہ ٔکرامؓ اپنےاسی مشغلہ میں مصروف تھے کہ اچانک ہمارے پیارے نبی رحمت عالمﷺ وہاں آگئے۔انھوں نے بے قرار و مجبور ننھی چڑیا کو ہوا میں اپنے ساتھیوں کے سروں پر پریشانی کے عالم میں منڈ لاتے دیکھا تو ان سے اس کی وجہ پوچھی۔صحابہؓ نے بتایا کہ ہم نےاس کے بچوں کو پکڑ رکھا ہے اورجب سے ہم نے چڑیا کے بچوں کو پکڑا ہے تبھی سے یہ ہمارے سروں کے اوپر ہی منڈالا رہی ہے۔
ہمارے پیارے نبی رحمتﷺ کایہ سنناتھا کہ ننھی چڑیا کے لیے آپﷺ بے قرار ہو اٹھے، چہرہ ٔمبارک کا رنگ بدل گیا،آپﷺ غمناک و پریشان ہوگئے، آپﷺ سے ننھی چڑیا کی بےقراری اورغم دیکھا نہ گیا۔
آپﷺ نے صحابۂ کرامؓ سے غصے کےعالم میں پوچھا:’’اس بے زبان چڑیا کے بچے پکڑ کر اللّٰه تعالیٰ کی اس ننھی سی معصوم مخلوق کو کس نے دکھ پہنچایا ہے؟‘‘
صحابہ ٔکرامؓ نے بتایا کہ فلاں صحابی نے اس کے بچوں کو گھونسلہ سےاٹھایا ہے، اب وہ ان بچوں سے لاڈ پیار کر رہے ہیں، اور کھیل رہے ہیں۔آپﷺ نے حکم دیا کہ اس کے معصوم بچوں کو فوراً قید سے آزاد کر دو۔صحابہؓ نے اسی وقت حکم کی تعمیل کی اور بچوں کو گھونسلے میں پہنچا دیا۔اب وہ ننھی چڑیا اور اس کے ننھے منے بچے نبیٔ رحمتﷺ کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے، ان کی خوشی سے بھری ہوئی چمکتی دمکتی آنکھیں بتارہی تھیں کہ وہ پیارے رسول نبی رحمت حضرت محمدﷺ کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔
پیارے بچو!ایسے تھے ہمارے پیارے نبیﷺ ۔آپﷺ انسانوں کے ساتھ ساتھ دوسری مخلوقات پرند، چرند وغیرہ کے لیے بھی رحمت بنا کر دنیا میں بھیجے گئے۔اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپﷺ چھوٹے چھوٹے پرندوں اور جانداروں کا بھی کتنا خیال رکھتے تھے۔ صحابۂ کرامؓ چڑیا اور اس کے بچوں کی خوشی کو دیکھ رہےتھے۔۔وہ خوشی خوشی اپنے گھونسلے کی جانب اڑ رہے تھے۔
بچو !دیکھا آپ نے ہمارے پیارے نبی ﷺ چڑیا کے بچوں کو گونسلے سے اٹھا لینے پر کتنے ناراض ہو ئے تھے؟آپﷺ نے ایسا کرنے سے سختی سے منع کر دیا۔ہمیں چاہیے کہ کسی بھی جان دار کو کبھی بھی کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائیں اور نہ ہی اللّٰه کی کسی مخلوق کو قید کرکے رکھیں۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ۲۰۲۳