نومبر ۲۰۲۳

ہر دور میں ایسی شخصیتیں پیدا ہوتی رہی ہیں جو اپنی اگلی نسلوں کے لیے مشعل راہ بنیں، انھوں نے اپنے عزم و ہمت سے راہ میں آنے والی ہر مشکل کا سامنا کر کے معاشرے کو ایک نئی سوچ دی، اس وقت میرے پیش نظر ایک ایسی کتاب پہ تبصرہ کرنا ہے، جس کی مصنفہ نے اپنی غیر معمولی جدوجہد اور انتھک محنت سے ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے جو بہتوں کے لیے موضوع فکر ثابت ہوئی، ان کا نام ڈاکٹر قمر رحمان ہے۔
ان کی تصنیف کا نام ’’افق‘‘ہے جو کہ ان کی سوانح عمری ہے، اس میں قوس قزح کی طرح ان کی زندگی کے سبھی رنگ شامل ہیں جو لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتے ہیں، انھوں نے اپنی اس کتاب میں اپنی زندگی کے نشیب و فراز کو بہت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے بارہا یہ محسوس ہوا کہ ڈاکٹر قمر رحمان ہمارے معاشرے کا وہ سنگ میل ہیں جنھوں نے بے شمار لوگوں کی زندگی کو مہمیز دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ڈاکٹر قمر رحمان ایک سائنٹسٹ ہیں، ان کی پیدائش ایک ایسے دور میں ہوئی جب کہ تعلیم نسواں کے حوالے سے مسلم معاشرے کا عمومی نظریہ انتہائی تنگ نظری کا شکار تھا، اس دور کی عورتوں کی تمام تر صلاحیتیں روایتوں کے بھینٹ چڑھا دی جاتی تھیں، ایسے دور میں ایک لڑکی کا کہنہ روایات کی زنجیروں کو توڑتے ہوئے اپنے آنچل کو پرچم بنانا اور اس کو اس بلندی تک پہنچانا تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرنے سے کم نہیں ہے، کسی ایسی شخصیت کا ہمارے معاشرے کا حصہ ہونا ہم سب کے لئے باعثِ فخر ہے۔ 
ڈاکٹر قمر رحمان کی پیدائش آزادی سے ایک سال پہلے شاہ جہاں پور کے ایک مشہور علمی خانوادے میں ہوئی۔ ان کے آباء و اجداد خلیل سالار زئی کی اولاد میں سے تھے، جو شاہ جہاں کے دور میں افغانستان سے ہندوستان آئے تھے۔ قمر رحمان کی تربیت اس عہد میں ان ہاتھوں سے ہوئی جو کہ تہذیب و ثقافت کے قدردان تھے، ان کے خاندان میں بھی عورتوں کے پردے کا رواج تھا لیکن لڑکیوں کی تعلیم کو بھی ضروری خیال کرتے تھے، پردے کی دنیا سے باہر نکل کر روایتی تعلیم سے آگے جا کر مزید علمی افق پہ کمند ڈالنے کی خواہش رکھنے والی قمر رحمان میڈیکل میں جانے کی خواہش رکھتی تھیں، ان کی والدہ نے اس پہ اعتراض ظاہر کیا کہ ڈاکٹر بننے کی صورت میں مردوں سے بھی واسطہ پڑے گا جو کہ پردے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے، اس لیے یہ مناسب نہیں، پھر انھوں نے اپنی جولانی طبع کی تسکین کی خاطر سائنس لے لیا۔

وہ کبھی پامال راستوں کی مسافر نہیں بن سکیں، خود اپنے شوق کو پہچانا اور اس کو وسیع افق پر مائل بہ پرواز کرنے کے لیےہر ممکن جدوجہد کی، اس علمی سفر کا آغاز شاہ جہاں پور سے ہوا جو کہ دستاویزی اعتبار سے اگرچہ علی گڑھ اور لکھنؤ میں جا کر مکمل ہوا، لیکن سیکھنے او رسکھانے کی آرزو و جستجو نے انھیں ہر علم پسند ملک تک پہنچا دیا، انھوں نے اس کی راہ میں کسی سرحد کو رکاوٹ کی صورت حائل نہیں ہونے دیا۔ڈاکٹر قمر رحمان کی پوری زندگی سیکھنے سکھانے سے عبارت ہے۔ڈاکٹر قمر رحمان ہندوستان کی دس خواتین سائنٹسٹ کی فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز رکھتی ہیں، یہ انڈیا کی پہلی سائنٹسٹ رہیں ہیں جنھیں چھ سو سالہ قدیم معتبر یونیورسٹی روسٹاک یونیورسٹی جرمنی نے ڈاکٹر کی اعزازی ڈگری سے سرفراز کیا۔ یہ وہ پلیٹ فارم ہے جہاں سائنسی دنیا کی سب سے قد آور شخصیت آئن اسٹائن کو اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ انھیں وگیان وبھوشن اور یش بھارتی ایوارڈ نامی اعلی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
ان کی سپروژن میں 45 طلبہ نے اپنی پی ایچ ڈی کی ریسرچ مکمل کی، ڈاکٹر قمر رحمان ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایڈوائزری پینل میں شامل ہونے کا شرف رکھتی ہیں، وہ جرمنی کی مایۂ ناز یونیورسٹی روسٹاک یونیورسٹی اور لکھنؤ میں واقع امیٹی یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں۔ انھوں نے صرف خواب نہیں دیکھے بلکہ اسے جاگتی آنکھوں سے اس خواب کو ہر لمحہ تعمیر بھی کیا ہے، ان کی آنکھیں ہمیشہ ایک امید کے ساتھ روشن رہیں، ان کے ہونٹوں کی مسکراہٹ ان کی زندہ دلی کا ثبوت دیتی ہیں:
وہ خواب، خواب نہیں ہے جو صرف دیکھا جائےہے
خواب وہ کہ بدل دے جو زندگی کا نصاب
بےشک ڈاکٹر قمر رحمان نے اپنے عزم و ہمت سے  انتہائی نامساعد حالات میں عورتوں کی زندگی کا ایک نیا نصاب لکھنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے پیچھے تعلیم نسواں کے علمبرداروں کا ایک قافلہ چلا آ رہا ہے۔ڈاکٹر قمر رحمان لکھنؤ کی تہذیب و ثقافت کی دلدادہ ہیں، یوں لگتا ہے وہ لکھنؤ میں نہیں لکھنؤ ان میں رہتا ہے، لکھنوی تہذیب ان کی سرشت میں اتری ہوئی ہے۔ انھوں نے دنیا کے بیش تر ملکوں کا سفر کیا ہے ہر جگہ انھوں نے لکھنؤ کی تہذیب و ثقافت کی بہترین ترجمانی کی ہے،اور ہر جگہ انھوں نے لکھنوی ادب و آداب کے پرستار بھی ڈھونڈ نکالے ہیں۔
اپنے اس احساس کی عکاسی کرنے کی غرض سے اس شعر کا برمحل استعمال ان کی محبت و عقیدت کی بہت خوبصورتی کے ساتھ ترجمانی کرتا ہے:
ایک دن تاریخ کے اوراق میں کھو جاؤں گی
رفتہ رفتہ میں بھی اپنا لکھنؤ ہو جاؤں گی
ڈاکٹر قمر رحمان کی کتاب ’’افق‘‘ایک آپ بیتی بھی ہے اور سفر نامہ بھی۔ اس میں ایک عہد کی داستان ہے جو کہ تین چوتھائی صدی پہ محیط ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے ہم ہندوستانی تہذیب کے عکس کو متحرک شکل میں دیکھ سکتے ہیں، وہ تہذیب جب معاشرے کا اصل مذہب انسانیت تھا، اخلاقیات اس کا شعار، محبت ایک فرض جس کی ادائیگی کے لیےہر کوئی حساس تھا۔ قمر رحمان خود ان ہی اعلیٰ اقدار کا پرتو ہیں۔
ڈاکٹر قمر رحمان کی شخصیت دو متضاد صفات کا حسین امتزاج ہے، ان کے ایک پہلو میں ادب اپنی روشنی بکھیرتا رہا ،دوسرے پہلو میں سائنس حقائق سے جڑے تجسس اپنے سوالات کے ساتھ موجود رہے، انھیں اردو ادب بالخصوص اردو کی شعری روایت سے بلا کا عشق ہے، انھیں فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، جاوید اختر، مظفر علی، عصمت چغتائی جیسے نابغۂ روزگار شخصیات سے بنفس نفیس ملاقاتوں اور گہرے مراسم کا شرف حاصل رہا۔ بات کرتے ہوئے وہ آج بھی پہلے کی طرح روانی کے ساتھ اشعار میں اپنا مافی الذہن بیان کرنے کاملکہ رکھتی ہیں۔ وہیں دوسری طرف وہ سائنس کی دنیا میں تحقیقات سے والہانہ لگاؤ رکھتی ہیں، انھوں نے کبھی اپنے عورت ہونے کی وجہ سے خود کو لیب میں جانے سے نہیں روکا، بلکہ ان کی جستجو اور لگن کو دیکھتے ہوئے ان کے استاد پروفیسر پی ایس کرشنن نے ان کو تحقیق کرنے کی اجازت دے دی، انھوں نے اپنی انتھک جدوجہد اور غیر معمولی تحقیقی صلاحیتوں سے یہ ثابت کر دیا کہ عورت اپنے عزم و ہمت سے ہر میدان کو سر کر سکتی ہے۔
انھوں نے اپنی تحقیقات کے ذریعے لوگوں کو یہ بتایا کہ Asbestos کا استعمال انسانی جانوں کے لیے کس قدر مضر ہے؟ اس کے یوں بےمحابہ استعمال کرنے پر پابندی لگائی جانی چاہیے، تاکہ انسانی جانوں کے اتلاف کو روکا جا سکے، اس کے لیے انھوں نے ملکی و غیر ملکی سطح پر متعدد کانفرنسز کیں اور حکومت کے سامنے یہ مطالبہ رکھا کہ Asbestos کے استعمال پہ پابندی لگائی جائے، اگر چہ پابندی تو نہیں لگائی جا سکی لیکن اس کے استعمال کو حدود و شرائط سے مشروط کر دیا گیا۔Asbestos کے ذرے سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں جا کر بیماری پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے قبل از وقت اموات میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کا شکار زیادہ تر غریب طبقے کے لوگ ہو رہے ہیں، قمر رحمان نے ان لوگوں کے درد اور مسائل کو کم کرنے کے لیے حتی المقدور کوشش کی ہے۔ انھوں نے نینو پارٹیکل کے مضر اثرات پر بہت ریسرچ کی ہے، اس سے ہونے والے نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کیا ہے، اس موضوع پر انھوں نے متعدد لیکچرز بھی دیے ہیں، جس کی سچائی کا اعلیٰ سطح پر اعتراف بھی کیا گیا۔
ڈاکٹر قمر رحمان نے’’ افق‘‘ میں اپنی زندگی سے جڑے ہر اہم واقعے کو انتہائی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ بےشک انھیں اپنے خاندان کی طرف سے غیر معمولی تعاون حاصل رہا تھا، لیکن یہ سچ ہے کہ موجودہ مقام تک پہنچنے میں ان کے اپنے عزم و جنون کا بھی بنیادی کردار رہا ہے۔
ان کی زندگی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ شادی زندگی کا ایک حصہ ہے پوری زندگی نہیں، اگر کسی وجہ سے یہ پہلو متاثر ہوتا ہے تو ہمیں باقی ماندہ زندگی کو کیسے متاثر ہونے سے بچانا ہے اور کس طرح اسے بامقصد بنانا ہے؟ یہ ہم ان سے سیکھ سکتے ہیں۔
انھوں نے سنگل پیرنٹ بن کر اپنی بیٹی کو پالا پوسا اور معاشرے میں باعزت مقام تک پہنچایا، ان کی زندگی بیک وقت کئی طرح کے چیلنجز کا شکار رہی، انھیں لوگوں کی طرف سے ہر طرح کے جملوں کا سامنا بھی کرنا پڑا، پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان کی کامیابیوں نے ان لوگوں کی زبانوں پہ قفل چڑھا دیئے، وہ ان سے مراسم کو بحال کرنے اور ان سے مشورے لینے کے لیے بہانے ڈھونڈنے لگے۔
خیر، یہ انسانی فطرت ہمیشہ ہر دور میں پائی جاتی رہی ہے ۔انسان فقط اپنی وسیع النظری اور واضح مقصد پر اپنی توجہ مرکوز کر کے ہی ان تلخیوں کو شکست دے سکتا ہے۔
ڈاکٹر قمر رحمان کی کتاب جو کہ دلچسپ سفر نامہ بھی ہے، انھوں نے جرمنی، کینیڈ، امریکہ، فرانس، پیرس، اٹلی، آسٹریا، نیدر لینڈ، اسکاٹ لینڈ، ناروے، سوئزر لینڈ، ڈنمارک، بلیجیم، اسپین، فن لینڈ، کروشیا، یونان، ساؤتھ افریقہ، ایران، دبئی، سنگاپور، بنگلہ دیش، پاکستان، کے متعدد شہروں کا سفر کر کے ان کی یادداشتوں کو کتاب کی صورت میں محفوظ کیا ہے، ان کا ہر سفر علم و فکر کا منبع رہا،  انھوں نے ان تمام ملکوں میں سائنس کے تحت ہونے والی کانفرنسز میں شرکت کی، اور لکچرز دیئے، جنھیں عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی۔ یہ ایک سچ ہے کہ یورپی ممالک علم پسندی میں ہندوستان سے کہیں زیادہ آگے ہیں، جرمنی میں ایک موقع پرڈاکٹر قمر رحمان کو اس عقیدت و محبت کے ساتھ سراہا گیا کہ ان کے اندر بےاختیار یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش مجھے میرے ملک ہندوستان میں بھی اتنی عزت ملتی!
ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ انھیں ہندوستان میں ان کی کوششوں کے مطابق نمایاں مقام نہیں مل سکا، یہ حسرت درحقیقت یہ بتا رہی ہے کہ ہمیں علم پسندی کے میدان میں مزید آگے آنے اور تعصب و تنگ نظری کی زنجیروں کو توڑنے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر قمر رحمان کی کتاب’’ افق‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جو بیک وقت اپنے اندر کئی خصائص لیےہوئے ہے، وہ لڑکیوں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ وہ بھی ستاروں پہ کمندیں ڈال سکتی ہیں، اپنے عزم سے آسمان کی بلندیوں پر پرواز کر سکتی ہیں، وہیں دوسری طرف وہ لوگوں کو بلا تفریق جنس یہ بتا رہی ہے کہ زندگی اپنے تمام تر چیلنجز کے ساتھ کامیابی کے ساتھ گزاری جا سکتی ہے، کوئی بھی ایک حادثہ زندگی میں کامیابی کے راستے کو مسدود نہیں کر سکتا، تیسری طرف یہ کتاب ہمیں ملکوں ملکوں کی سیر کراتے ہوئے وہاں کی تہذیب و ثقافت سے متعارف کرا رہی ہے، یہ ایک ایسی ڈاکیومنٹری ہے جو حوصلوں مہمیز دے رہی ہے، مہم جو فطرت کو دعوت دید دے رہی ہے، نظریات کی تشکیل میں معاون ہے۔
یہ اردو ادب کا ایک بہترین شاہکار بھی ہے جو سائنسی مزاج کے حامل انسان کے ہاتھوں سے لکھی گئی ہے۔چند سطور میں پیش کیا جانے والا یہ تجزیہ پڑھنے والے ذہن کو متجسس کرنے کی غرض سے پیش کیا گیا، یہ ایک مختصر تعارف ہے اس علمی بحر کے اگر مزید موتیوں کو پانے کی آرزو ہے تو یہ کتاب آپ کو خود پڑھنی ہوگی۔ڈاکٹر قمر رحمان کی یہ کتاب اردو ادب میں کسی سائنسدان کی پہلی شاہکار تخلیق ہونے کا شرف رکھتی ہے، جو کہ اردو ادب کے لیےکسی بڑے اعزاز سے کم نہیں۔یہ کتاب ذہن سازی، تفریح اور علم پسند فطرت کی تسکین میں یقینا ًمعاون ثابت ہوگی۔ 

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ۲۰۲۳