جون ۲۰۲۳

’’شہلا گڑیا! ذرا یہ کپڑے الماری میں رکھ دو ۔‘‘ امی نے شہلا کو آواز دی۔
’’ابھی رکھتی ہوں ۔‘‘ شہلا نے حسب عادت جواب دیا اور اپنی کہانی میں مگن ہوگئی ۔ کہانی تھی ہی اتنی دلچسپ۔ دس منٹ میں کہانی ختم ہوئی تو شہلا امی کا کام بھول چکی تھی۔
’’شہلا بیٹی ! نماز پڑھ لی۔‘‘
’’ابھی پڑھتی ہوں۔‘‘شہلا حسب عادت بول اٹھی ۔
’’ذرا یہ دیکھ لوں۔‘‘سوچتی ہوئی شہلا کی نظریں موبائل اسکرین پر تھیں۔
’’ بیٹا! اسکول کے جوتے پالش کرلو ۔‘‘امی نے رات یاد دہانی کروائی۔
’’ابھی کرتی ہوں۔‘‘پھر وہی بھول کا سلسلہ۔ اور صبح اسکول کے لیے دیر سے آنکھ کھلی۔ جوتے پالش کیے بغیر ہی پہنے گئے ، ڈانٹ کے ساتھ ۔ اور یہ ایک دن کی بات نہیں،شہلا کا روز کا معمول تھا۔
’’ابھی کرتی ہوں۔‘‘
’’ابھی اٹھاتی ہوں۔‘‘
’’ابھی رکھتی ہوں۔‘‘یہ جملے بطور عادت اس کے منہ سے پھسل پڑتے۔ کام دھرا کا دھرا رہتا۔ امی کی ڈانٹ ،غصہ اور خفگی کے باوجود اس کی عادت کم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی جا رہی تھی ، اور آج تو غضب ہو گیا۔امی نے دودھ چولھے پر رکھا اور چھوٹے اسد کو کھانا کھلا نے بیٹھ گئیں ، پھر شہلا کو آواز دی۔’’شہلا!دودھ چولھے پر ہے، ذرا دیکھ لو ۔‘‘
’’ ابھی دیکھتی ہوں۔‘‘جواب بڑی سعادت مندی سے دیا گیا مگر عمل؟ پھر کیا تھا۔ دودھ بے چارا کچھ ابل گیا، کچھ جل گیا۔ امی کا تو غصے کے مارے برا حال ہو گیا۔ اتنی ڈانٹ پڑی کہ شہلا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ قصور تھا، لہٰذا سر جھکائے سنتی رہی۔ امی کا غصہ رات گئے تک نہ اترا تھا۔ بچوں کو سلانے کے بعد امی نے سارا معاملہ ابو کے سامنے رکھ دیا۔
’’چھٹی جماعت میں آگئی ہے۔ اتناسا کام نہیں کرسکتی۔‘‘ امی کی بات میں وزن تھا۔
’’ اور بات آج کی نہیں ، ہر کام میں یہ ہی ہوتا ہے۔ ابھی اٹھاتی ہوں، ابھی کرتی ہوں، ابھی اٹھاتی ہوں اور اس کے بعد کام وہیں کا وہیں ۔‘‘ابو مسکراکرسنتے رہے۔
’’ آپ تو بس اپنی اولاد کے کارناموں پر خوش ہوتے رہیے۔‘‘ امی، ابو کی مسکراہٹ سے اور جل گئیں۔
’’ ارے بھئی! ناراض کیوں ہو رہی ہو؟ ایک ترکیب ہے میرے پاس ۔‘‘امی کی ناراضی دیکھ کر ابو جلدی سے بول اٹھے۔
’’ کیا ؟ ‘‘امی نے پوچھا،پھر ترکیب سن کر مسکرائیں۔
’’ہاں ہے تو اچھی ۔‘‘
امی! ناشتہ…‘‘شہلانے اسکول کے لیے تیا رہوتے ہوئے آواز لگائی۔
’’ابھی لا رہی ہوں۔‘‘امی نہ جانے کن کن کاموں میں مصروف تھیں۔
’’ امی ! وین آجائے گی ۔‘‘ شہلا پھر بولی۔اتنے میں امی ناشتہ لے آئیں۔شہلا نے جلدی جلدی منہ چلایا اور اللہ حافظ کہہ کر اسکول چل دی۔ڈھنگ سے ناشتہ نہ کرنے کی وجہ سے اسکول میں طبیعت اکتائی اکتائی رہی ۔ چھٹی ہوئی تو جان میں جان آئی۔ گھر پہنچنے تک بھوک نے برا حال کر دیا تھا۔
’’ امی! کھانا…‘‘شہلا نے دروازے ہی سے ہانک لگائی ، اور منہ ہاتھ دھو کر یونیفارم بدلے بغیر کھانا کھانے بیٹھ گئی۔ آج امی نے بھی یونیفارم تبدیل کرنے پر اصر ار نہیں کیا۔نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے سالن قمیص پر گر گیا۔
’’اوہ!‘‘ امی نے صرف اتنا کہا۔
’’ سوری امی ! دھو دیں گی ناں؟‘‘شہلا کو یونیفارم تبدیل نہ کرنے کا اب احساس ہوا تھا۔
’’ہاں امی ! میرے موزے بھی بہت گندے ہوگئے ہیں۔‘‘
’’ابھی دھو دوں گی ۔‘‘
’’اور امی ! میرے انگلش کے ٹیسٹ پر دستخط بھی کرنے ہیں۔‘‘
’’اچھا۔ ‘‘امی بولیں۔
’’اور امی ! میرے بیگ کا ہینڈل نکل گیا ہے۔‘‘
’’ ابھی موچی کے پاس بھجواتی ہوں۔‘‘

٭ ٭ ٭

اگلی صبح پر ہنگامہ صبح بن کر نمودار ہوئی۔ سورج تو مشرق ہی سے نکلاتھا، مگر شہلا کے چودہ طبق روشن کر گیا۔یو نیفارم پر تیل کا دھبہ اپنی جگہ موجود تھا۔
’’ امی! آپ نے دھویا نہیں ۔‘‘
’’ارے یہ رہ گیا۔‘‘ امی عام لہجے میں بولیں۔
’’لاؤ ا سے ابھی دھو دوں۔‘‘امی نے اس کے ہاتھ سے قمیص لی اور بیسن پر رگڑ کر دھویا ، پھر اسے استری سے سکھانے لگیں۔ شہلا نے جوتے پالش کرنے کے لیے اٹھائے تو موزے یاد آئے۔
’’امی ! موزے کدھر ہیں ؟‘‘
’’اف ! دوبارہ یاد کیوں نہیں دلایا تھا۔‘‘ امی جھنجھلاکر بولیں۔
’’اب میں کیا پہنوں ؟‘‘ شہلا کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔
’’پرانے موزوں کے تھیلے میں سے ڈھونڈ لو۔ کچھ نہ کچھ تو مل جائے گا۔‘‘امی استری کرتے ہوئے بولیں۔
’’امی! اس میں تو سب بے ڈھنگے ہیں۔‘‘شہلا تھیلا لیے بیٹھی تھی۔
’’سفید والا، اور وہ پیلے کے نیچے والا لے لو۔‘‘ امی نے دور ہی سے اشارہ کیا۔
’’امی !یہ تو چھوٹا بڑا ہے، اور اس میں سوراخ بھی ہے۔بھئی آج گزارا کر لو، اب کیا کر سکتے ہیں ؟‘‘ امی سخت لہجے میں بولیں۔اس بھاگم دوڑ میں تیاری اور ناشتہ کیا گیا۔ وین آنے میں پانچ منٹ تھے۔
’’اچھا امی خدا حافظ!‘‘کہہ کر شہلا نے بیگ اٹھایا، پھر بیگ دیکھ کر اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
’’یہ کیا؟ امی یہ جڑوا یا نہیں تھا ؟‘‘ شہلا ابھی تک بے یقینی کی کیفیت میں تھی۔
’’امی! میں نے آپ کو بتایا تھا۔‘‘ شہلا کی آوازخاصی بلند اور تیز ہوگئی تھی۔اس کے اس طرح زور سے بولنے پر ابو نے قرآن پڑھتے ہوئے اسے خشمگیں نگاہوں سے دیکھا۔
’’افوہ! اتنے کام ہوتے ہیں۔ میں بھی بھول سکتی ہوں۔‘‘ امی ایک پرانا بیگ لیے کھڑی تھیں۔
’’ لو اس میں رکھ لو آج تو ۔‘‘ جلدی جلدی شہلا نے امی کی مدد سے اس میں کتابیں ڈالیں۔
’’ اتنا خراب بیگ، دو سال پرانا !‘‘وہ یہ صرف دل میں سوچ کر رہ گئی، کچھ کہنے کا وقت ہی نہیں بچا تھا۔ وین کے ہارن پر گیٹ کی جانب بھاگ کھڑی ہوئی۔
دوسرا پیریڈ انگریزی کا تھا۔ کل مس نے سختی سے ٹیسٹ پر سائن کروا کر لانے کے لیے کہا تھا۔ شہلا مطمئن تھی کہ امی نے سائن کر دیا ہوگا، لیکن جب کا پی کھولی تو پیروں سے زمین کھسک گئی۔سائن کا پیپر موجود نہ تھی۔
’’شہلا !آپ نے ٹیسٹ میں اچھے نمبر لیے ہیںپھر سائن کیوں نہیں کروایا؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’ وہ مس ہم نے ہم نے امی سے کہا تھا۔‘‘ شہلا کے لہجے میں ہکلاہٹ آگئی تھی۔
’’پھر آپ نے چیک کیوں نہیں کیا ؟‘‘مس کے سوال کا کوئی جواب نہ تھا، لہذا پورا پیریڈ کھڑا ہونا پڑا۔ شرمندگی الگ رہی۔
’’امی نے تو کہا تھا، ابھی کرتی ہوں !‘‘ شہلا سوچتی رہ گئی۔

٭ ٭ ٭

’’شہلا! آپ بھی تو یہ کرتی ہیں ۔ ‘‘ ابو اسے سمجھا رہے تھے ۔
’’ کام وقت پر نہ ہو تو اپنی قدر و قیمت کھو بیٹھتا ہے۔یہ بچپن کی عادتیں مشکل سے چھوٹتی ہیں ، اچھی ہوں یا بری۔ اس لیے آپ کو چاہیے کہ اچھی عادتیں اپنا لیں تا کہ وہ ہمیشہ قائم رہیں۔ اور بری عادتوں کوابھی سے چھوڑ دیں!‘‘ابونرم لیکن دوٹوک لہجے میں اسے سمجھا رہے تھے۔
’’ آج کے بعد آپ کو ہر کام وقت پر کرناہے۔ وعدہ؟‘‘
’’وعده … ان شاء اللہ!‘‘ شہلا بولی۔
’’شہلا! گڑیا بستر بچھا دو۔‘‘
’’جی، ابھی کرتی ہوں۔‘‘شہلا حسب عادت بولی پھر فوراً ہی چونک پڑی۔ کتاب ہاتھ سے رکھی اور بستر بچھانے لگی۔امی اس کی فرمانبرداری پر مسکرائیں اور سجدہ شکر بجالائیں۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۳