جون ۲۰۲۳

آپ شام کی چائے لے کر بیٹھی ہوں، اور اپنی بیٹی کے بازار سے آنے کا انتظار کر رہی ہوں۔ ’’رات کے کھانے میں کیا بنانا ہے؟‘‘ آپ کے دماغ میں چل رہا ہو۔ٹک ٹک کرتی گھڑی 5 سے 6 بجے اور پھر 6 سے 7 بجا دے لیکن دروازے پر ابھی تک آپ کی بچی نے دستک نہ دی ہو۔ آپ اس کا نمبر ڈائل کریں اور نمبر نہ لگا رہا ہو۔ گھڑی کی سوئی اب 10 پر جا چکی ہے۔ آپ گھبراہٹ سے بے حال ہو کر بار بار کھڑکی سے باہر دیکھ رہی ہوں اور پھر گیارہ بجے آپ کی بچی گھر آجائے۔ آپ کی ساری فکر، گھبراہٹ فوراً سے دور ہو جائے گی۔

آپ کی بچی تو گھر پہنچ گئی، پر نہ جانے کتنے ہی بچیاں ہیں جنھوں نے گھر کو دوبارہ نہ دیکھا ،ان کے ماں باپ زندگی بھر ان کی دستک کا دروازے پر انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ اور جب انھوں نے واپسی چاہی تو گھر کے دروازے ان پر بند کر دیے گئے۔

یہ کسی من گھڑت کہانی کا حصہ نہیں، ہمارے سماج کی تلخ حقیقت ہے۔ ہمارا دستور ہر شہری کو باعزت زندگی جینے کا حق دیتا ہے، لیکن کچھ مفاد پرست لوگ اس حق کو چھین لیتے ہیں، اور چند روپیوں کی خاطر انسانی جسم کو اشیاء کی مانند بیچ دیا جاتا ہے۔ زمانۂ قدیم میں غلام اور لونڈی کی شکل میں انسانی حقوق کو پامال کیا گیا۔ دور جدید میں یہ جرم ہیومن ٹریفکنگ یعنی انسانی اسمگلنگ کی صورت میں تبدیل ہو گیا۔ Equality Now کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 20.9 ملین بچوں کو تجارت، جنسی غلامی ، جبری مشقت اور بندھوا مزدوری میں خریدا اور فروخت کیا جاتا ہے۔ جنسی استحصال کے لیےاسمگل کیے جانے والے متاثرین میں 98 فیصد خواتین اور لڑکیاں ہیں۔

لا پتہ ہونے والی خواتین کی یہ بحث حالیہ دنوں میں آئی متنازع فلم :’’دی کیرالہ اسٹوری‘‘کے بعد چھڑی ہے۔ اس فلم میں خصوصاً مسلمانوں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے ان پر ہندو لڑکیوں کو اسلام قبول کروانے، انہیں دہشت گرد تنظیم داعش سے ملوانے اور پھر ان خواتین کے دردناک انجام کو فلمایا گیا ہے۔ ان خواتین کی تعداد فلم کے ٹیزر میں 32,000 بتائی گئی ،جبکہ تحقیق کے بعد فلم میکرز نے اسے 3 کردیا۔ اس فلم کے پوسٹر میں فلم کو سچی کہانی پر مبنی بتایا جا رہا تھا۔ اس فرضی کہانی کے متعلق کئی سارے لوگوں کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ جس میں سے قابل ذکر ریاستی خواتین کمیشن کی چئیر پر سن روپالی چاکنکر کے نے مہاراشٹر سے لاپتہ لڑکیوں کا مسئلہ اٹھایا۔ بی جے پی لیڈر چترا واگھ نے اس پر بتایا کہ ہر سال مہاراشٹر سے قریب 4 ہزار لڑکیاں اور 64 ہزار خواتین لاپتہ ہو جاتی ہیں۔

کووڈ 2022 ءمیں ریاست سے 3 ہزار 937 لڑکیاں اور 60 ہزار 435 خواتین لا پتہ ہوئی ہیں۔ ملک بھر میں لڑکیوں اور خواتین کے لاپتہ ہونے کی شرح میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہیومن ٹریفکنگ ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے۔ لاپتہ ہونے والی خواتین کے پس منظر پر اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں زیادہ تعداد پسماندہ طبقے کی خواتین کا ہے، جن کا کوئی مضبوط سہارا نہیں ہوتا، یا پھر وہ یتیم بچیاں جوہیومن ویلفیئر کے زیر نگرانی ہوتی ہیں۔

ہندوستان ، نیپال اور گھانا میں انسانی اسمگلنگ کی ایک اور شکل ہے جسے رسمِ غلامی کہا جاتا ہے، اس میں نوجوان لڑکیوں کو خاندان کے افراد کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے جنسی غلاموں کے طور پر فراہم کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ ہیومن ٹریفکنگ کی تین کیٹیگری بتاتا ہے۔ جس میں پہلے نمبر پر جنسی اسمگلنگ، دوسرے پر مزدوروں کی اسمگلنگ اور تیسرے پر انسانی اعضاء کی اسمگلنگ ہے۔ آخر اتنے بڑے پیمانے پر اسمگلنگ کے پیچھے کیا وجوہات ہو سکتی ہیں۔اسمگلرز کے لیے سب سے بڑا شکار مشکل حالات میں رہنے والے افراد ہیں، جو اپنی خستہ حالی کو دور کرنے کے لیے مواقع کی تلاش میں ہوتے ہیں ۔ درج ذیل زمرے انسانی اسمگلنگ کا سبب نہیں بنتے ہیں، لیکن وہ خطرے کی کیفیت پیدا کرتے ہیں اور اسمگلروں کے لیے حملہ کرنے کے مثالی مواقع پیدا کرتے ہیں۔ جس میں پہلے نمبر پر غربت ہے، آزادی کے 70 سے زائد سال گزر جانے کے باوجود ہندوستان کی ایک بڑی آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اس سے چھٹکارا پانے کے لیے ایک غریب کوشش کرتا ہے اور پھر ان ٹریفکرز کے ہاتھ لگ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بے روزگاری، نقل مکانی، خاندان کا ساتھ نہ دینا، تعلیم اور تجربہ کی کمی بڑی وجوہات ہیں ۔ اگر کسی متاثر کو بچا بھی لیے جائے تو ٹریفکنگ کے اثر سے اس کو نکالنا دوسرا چیلنج ہوتا ہے۔ اس طرح کے متاثرین ذہنی صدمے کا شکار ہوتے ہیں۔ امریکی محکمۂ خارجہ وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے:

’’چونکہ اسمگلر اپنے متاثرین سے غیر انسانی سلوک برتتے ہیں ،لہٰذا متاثرین کی قوت، مرئیت، اور وقار کا فطری احساس اکثر نہ کے برابر ہو جاتا ہے۔‘‘

انسانی اسمگلنگ کے متاثرین اپنے اسمگلنگ کے تجربے کے دوران اور بعد میں تباہ کن نفسیاتی اثرات کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ بہت سے زندہ بچ جانے والوں کو بعد از صدمے کے تناؤ، رشتوں میں دشواری، ڈپریشن، یادداشت میں کمی،اضطراب، خوف، جرم، شرم، اور ذہنی صدمے کی دیگر شدید شکلوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔بہت سے متاثرین کو جسمانی چوٹیں بھی آتی ہیں۔ جن لوگوں کا جنسی استحصال کیا گیا ہے وہ اکثر ان کے اسمگلروں اور گاہکوں کے ذریعہ بدسلوکی کا شکار ہوتے ہیں۔ جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں، مثلاً:انفیکشنز، ذیابیطس، کینسر، اوران کے علاوہ دیگر بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی ایسے متاثرین میں زیادہ ہوتا ہے۔ مناسب طبی نگہداشت کی کمی ان حالات کے پھیلنے اور بگڑنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے- بعض بیماریاں اکثر کسی فرد کی صحت کو مستقل طور پر متاثر کرتی ہیں۔ جبری مشقت کے متاثرین سے خطرناک حالات میں لمبے وقت تک کام لیا جاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، بہت سے لوگ سنگین انفیکشن، سانس کے مسائل، چوٹوں، خرابیوں اور تھکن کا شکار ہوتے ہیں۔

بڑھتی اسمگلنگ کی وجوہات

انسانی اسمگلنگ دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی مجرمانہ صنعت ہے، یہ منشیات کی اسمگلنگ کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر ہے۔ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے مطابق،ا سمگلر ہر سال 150 بلین ڈالر کماتے ہیں۔ اس میں سے 99 بلین ڈالر صرف جنسی اسمگلنگ کے ذریعے کمائے جاتے ہیں، جبکہ باقی 51 بلین ڈالر مزدوروں کی اسمگلنگ سے حاصل ہوتے ہیں۔ اسمگلر جتنا زیادہ دوسروں کے استحصال میں حصہ لیتے ہیں، اتنا ہی زیادہ پیسہ وہ اپنے لیے کماتے ہیں۔اسمگلنگ میں قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اسمگلنگ سے معاشرے کے بنیادی ڈھانچے کو خطرہ پہنچتا ہے، کیونکہ اس میں نہ صرف مجرم بلکہ قانون نافذ کرنے والے بھی شامل ہوتے ہیں۔
یہ دیکھا گیا ہے کہ خواتین، جو اسمگلنگ سے بچا لی جاتی ہیں، انہیں عام سماجی زندگی میں ایڈجسٹ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ دوبارہ اسمگل کیے جانے کے خوف سے وہ آزادانہ طور پر معاشرے میں واپس آنے سے ڈرتی ہیں۔ یہ خوف ان فیصلوں اورانتخابات کو متاثر کرتا ہے جو وہ اپنے مستقبل کے بارے میں کرتی ہیں۔اسمگلنگ کے شکار بعض اوقات مجرم بننے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک عورت جو کبھی شکار ہوتی تھی، اب اسمگلر کا کردار ادا کر رہی ہے، کیونکہ معاشرے اسے قبول نہیں کرتا۔ متاثرین جو معاشرے میں دوبارہ شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، بعض اوقات انھیں اپنے خاندان اور برادری سے تعاون نہیں ملتا۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ اتنا سنگین مسئلہ ملک کو درپیش ہونے کے باوجود نہ ہماری حکومت اس پر بات کرتی ہے نہ ہماری عوام فکر مند ہوتی ہے۔ فلم میکرز سچی کہانیوں کو فلمانے کے بجائے ایسے من گھڑت کہانیوں پر کام کر رہے ہیں جس سے ایک مخصوص کمیونٹی لوگوں کے بیچ چرچے میں آ جاتی ہے، نفرت کا ماحول بن جاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے جرنلسٹ بلاتحقیق اس کو پروموٹ کرتے ہیں۔ حد تب پار ہو جاتی ہے جب ہمارے وزیراعظم سلگتے ہوئے منی پور کو نظر انداز کرکے اپنے الیکشن ریلی میں ایک فلم کا نام لیتے ہیں اور اسے پروموٹ کرتے ہیں۔ کیرلا ہندوستان کا نہ صرف سب سے زیادہ تعلیم یافتہ صوبہ ہے بلکہ سیاحت میں بھی پہلے نمبر پر آتا ہے۔ حقیقی مسائل کو چھوڑ کر سیاست کے نام پر اس صوبے کو بد نام کرنا انتہائی شرمناک ہے۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ اتنا سنگین مسئلہ ملک کو درپیش ہونے کے باوجود نہ ہماری حکومت اس پر بات کرتی ہے نہ ہماری عوام فکر مند ہوتی ہے۔ فلم میکرز سچی کہانیوں کو فلمانے کے بجائے ایسے من گھڑت کہانیوں پر کام کر رہے ہیں جس سے ایک مخصوص کمیونٹی لوگوں کے بیچ چرچے میں آ جاتی ہے، نفرت کا ماحول بن جاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے جرنلسٹ بلاتحقیق اس کو پروموٹ کرتے ہیں۔ حد تب پار ہو جاتی ہے جب ہمارے وزیراعظم سلگتے ہوئے منی پور کو نظر انداز کرکے اپنے الیکشن ریلی میں ایک فلم کا نام لیتے ہیں اور اسے پروموٹ کرتے ہیں۔ کیرلا ہندوستان کا نہ صرف سب سے زیادہ تعلیم یافتہ صوبہ ہے بلکہ سیاحت میں بھی پہلے نمبر پر آتا ہے۔ حقیقی مسائل کو چھوڑ کر سیاست کے نام پر اس صوبے کو بد نام کرنا انتہائی شرمناک ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۳