جون ۲۰۲۳

 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم
ِاِنَّ اَوَّلَ بَيۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَـلَّذِىۡ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّهُدًى لِّلۡعٰلَمِيۡنَ‌‌ۚ﴿۹۶﴾ فِيۡهِ اٰيٰتٌ ۢ بَيِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبۡرٰهِيۡمَۚ  وَمَنۡ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا ‌ؕ وَلِلٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الۡبَيۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَيۡهِ سَبِيۡلًا ‌ؕ وَمَنۡ كَفَرَ فَاِنَّ اللٰهَ غَنِىٌّ عَنِ الۡعٰلَمِيۡنَ ﴿۹۷﴾ (آل عمران)

(بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی، وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا تھا۔ اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں، ابراہیم کا مقامِ عبادت ہے۔)
ہمیں حج کے موقع پر ابراہیمؑ کے واقعۂ قربانی کی یاد میں عید الاضحی کا تحفہ دیا گیا، جس میں صاحب حیثیت مسلمانوں پر جانوروں کی قربانی کرنا واجب قرار دیا گیا۔ حج ،اللہ کی فرض کی ہوئی عبادتوں میں سے ایک عظیم عبادت ہے، اور یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ اللہ کے تمام ہی احکام و عبادات صرف آخرت کی فلاح ہی کا ذریعہ نہیں بلکہ انسانی، تمدنی، قومی، اجتماعی اور معاشی زندگی کے لیے بیش بہا برکات و ثمرات کا ذریعہ بھی ہے، خواہ وہ نماز، زکوۃ، روزہ، حج ہو یا ہماری زندگی کے دیگر احکام، لیکن چونکہ میرا موضوع حج کے برکات و ثمرات سے متعلق ہے، لہٰذا میں صرف حج کے برکات و ثمرات اور فضائل ہی سے متعلق تذکرہ کروں گی،اور بتاؤں گی کہ حج پوری امت مسلمہ کے لیے کتنا بڑا ایمانی، اخلاقی اور تمدنی و معاشی ترقی کا ذریعہ اوربرکات و ثمرات کا بیش بہا خزانہ ہے۔
موجودہ دور ہی کے لیے نہیں بلکہ کہ جس وقت سے خانہ کعبہ تعمیر ہوا اور حج کا فریضہ لوگوں پر عائد ہوا، حج کے واضح برکات و ثمرات لوگوں پر کھلتے چلے گئے۔حج کے معنی زیارت کا ارادہ کرنا ہے، شریعت کی زبان میں حج کی عبادت کو حج اس لیے کہا گیا ہے کہ اس میں آدمی خانہ کعبہ کی زیارت کا ارادہ کرتا۔ حج اسلام کے پانچ فرض ارکان میں سے ایک ہے۔ اسلام کا ایک تکمیلی رکن ہے ،جو ہر اس مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے ،جو مکہ تک آنے جانے کی قدرت رکھتا ہو ،اگر کوئی مسلمان قدرت رکھنے کے باوجود حج نہ کرے تو جانو اس نے کفران نعمت کیا۔
سورہ آل عمران،آیت: 97 میں ارشاد خداوندی ہے :
’’اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو کوئی اس گھر تک آنے کی قدرت رکھتا ہو وہ حج کے لیے آئے۔ پھر کوئی کفر کرے (یعنی قدرت کے باوجود نہ آئے) تو اللہ سارے جہاں والوں سے بے نیاز ہے۔‘‘
فرمان نبیؐ ہے:
’’ جسے کسی بیماری یا کسی واقعی ضرورت یا کسی ظالم حکمراں نے روک نہ رکھا ہو، اور اس کے باوجود وہ حج نہ کرے تو چاہے وہ یہودی ہوکر مرے چاہے نصرانی۔‘‘ (ابو امامہ ،بیہقی)
حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اس شخص کو یہودی یا نصرانی مرنا چاہیے، یہ الفاظ آپؐ نے تین بار دہرائے،اس کےلیےجو سفر کی استطاعت رکھنے کے باوجود بغیر حج کے مرگیا۔اس کے برعکس حج کا فریضہ ادا کرنے والوں کو خوشخبری سنائی گئی۔
فرمایا رسول اکرمؐنے :
’’جس شخص نے اللہ کو خوش کرنے کے لیے حج کیا ،اور حج میں تمام بے شرمی کی باتوں سے الگ رہا اور کسی سے جھگڑا نہ کیا اور نہ کوئی برا کام کیا، جب وہ حج سے واپس ہوگا تو گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہوگا ،جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے وقت تھا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
آپؐنے یہ بھی فرمایا :
’’حج کا بدلہ جنت ہے، حج و عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں۔ اگر وہ دعا کریں تو اللہ ان کی دعا قبول فرمائے ،اور اگر وہ مغفرت چاہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔‘‘
آپؐنے یہ بھی فرمایا :
’’حج و عمرہ پے در پے کیا کرو، کیونکہ یہ دونوں محتاجی اور گناہوں کو ایسا دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل کچیل کو دور کر دیتی ہے،اور مقبول حج کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ (بخاری و مسلم)
حج کا مقصد کیا ہے اور وہ مسلمانوں پر کیوں فرض کیا گیا تو معلوم ہو کہ صرف حج ہی نہیں، تمام ارکان و عبادات کا مقصد مسلمانوں کی تربیت کرنا اور تازندگی انہیں اللہ کا فرمانبردار بنانا ہے۔ نیز ان سے وہ کام لینا ہے جس کے لیے انھیں پیدا کیا گیا ،یعنی اللہ کے دین کی تبلیغ اور اللہ کی خلافت و نیابت اور دنیا میں اللہ کے قوانین کے نفاذ کی جدوجہد۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اسلام کا پہلا رکن ایمان ہے، یعنی اللہ اور اس کے رسولوں، کتابوں اور آخرت کے دن پر ایمان لانا اور زبان سے اس کااقرار کرنا۔ اقرار کرنے کا مقصد ہے کہ اپنے آپ کو پوری طرح اللہ اور رسولؐکی غلامی میں دے دیا جائے ،اور ہر اس کام کے کرنے کا عزم کیا جائے جس کا اللہ اور رسولؐنے حکم دیا ہے، اور ہر اس کام سے بچا جائے جس سے بچنے کی اللہ و رسولؐنے تاکید کی ہے۔ اللہ کی پوری طرح بندگی و اطاعت کا عزم کیے بغیر ایمان معتبر نہیں۔
اسی طرح نماز کا یہ مقصد ہے کہ ہمیں دن میں بار بار یاد دہانی ہوتی رہے کہ ہم وہ نہیں ہیں کہ جو چاہیں کریں ،بلکہ اللہ کے نہایت عاجز بندے ہیں۔ وہی ہمارا مالک آقا پروردگار اور شہنشاہ ہے، اسی کی ہمیں پوری زندگی اطاعت کرنی ہے، اور اسی کے آگے اپنی حاجتیں طلب کرنی ہیں۔روزہ ہم میں اللہ کے لیے اپنی جائز خواہشات قربان کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے، یعنی اس بات کی تربیت کرتا ہے کہ اگر اللہ کی راہ میں بھوکا پیاسا رہنا پڑے یا اپنی جائز خواہشات قربان کرنا پڑے، تو ہم اس سے بھی دریغ نہ کریں گے، کیونکہ ہم اللہ کے ہیں اور اسی کے لیے ہمیں ہر چیز قربان کرتے رہنا ہے۔
دوسرے یہ کہ روزے کے ذریعےغریبوں، یتیموں، بیکسوں کی لاچاری اور بھوک پیاس کا احساس دلانا بھی مقصود ہے، تاکہ ہمارے دلوں میں ان کے لیے ہمدردی پیدا ہو اور ہم ان کی مدد کرنے ہمیشہ تیار رہیں اور اپنے اندر تقویٰ کی صفت پیدا کریں،اور زکوٰۃ بار بار ہم کو متوجہ کرتی ہے کہ جو مال ہم نے کمایاہے وہ اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے، اور اسے اللہ کی مرضی کے مطابق خرچ کیا جانا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ اللہ کے لاچار و غریب بندے، جن کا حق اللہ تعالیٰ نے ہمارے مال میں مقرر کیا ہے ،وہ اس سے محروم نہ رہیں۔ اسی طرح حج بھی ایک بڑی جامع عبادت ہے، اس سے اپنی جان، مال، وقت ہر چیز اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ حج دلوں پر اللہ کی محبت اور اس کی عظمت و کبریائی کا ایک ایسا نقش بٹھاتا ہے کہ اگر یہ نقش بیٹھ جائے اور دین کی راہ میں جذبۂ قربانی پیدا ہوجائے تو تا زندگی اس کا اثر دل سے محو نہیں ہو سکتا۔

حج دراصل تمام ارکان عبادات کا مجموعہ ہے وہ ایمان بھی ہے ۔حج کے موقع پر ہر لمحہ ہر گھڑی اللہ اور رسولؐپر ایمان اجاگر رہتا ہے،اور بندہ اللہ کی یاد اور اس کی بزرگی کا دل میں ہر وقت اعتراف کرتا رہتا ہے،اور زبان سے بھی ورد کرتا ہے۔ وہ نماز بھی ہے ،کیونکہ نماز کا مقصد اللہ کا ذکر اور اس کے بندے اور غلام ہونے کی یاددہانی ہے۔ حج کے ہر لمحہ میں یہ سعادت ملتی رہتی ہے۔وہ روزہ بھی ہے۔ روزے میں صرف دن میں تعلق زن و شو سے منع کیا گیا ہے،جب کہ حج کے دوران راتوں میں بھی یہ ممنوع ہے۔ حتیٰ کہ حج میں نفسانی خواہشات اور زیب و زینت پر بھی پابندی ہے۔ وہ زکوۃ بھی ہے ،زکوٰۃ مالی عبادت ہے کہ اللہ کی دی ہوئی دولت کو اللہ کے حکم کے مطابق غریبوں اور اللہ کے دین کے لیے خرچ کی جائے، حج کرنے والوں کو بھی یہ سعادت ملتی ہے کہ قربانی کرنا اور اس کا گوشت غریبوں میں تقسیم کروانا حج میں ضروری ہے۔
نیز یہ بات بھی ظاہر و باہر ہے کہ دولت خرچ کیے بغیر حج کیا ہی نہیں جا سکتا۔حج اور مناسک حج کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کس طرح ہماری تربیت کرنا چاہتا ہے۔مناسکِ حج یعنی احرام، بوسۂ حجر اسود، سعی صفا و مروہ، منیٰ، عرفات، مزدلفہ میں قیام، رمی جمار اور قربانی کے پیچھے کون سےمقاصد کارفرما ہیں اور اللہ تعالیٰ ان مناسک کے ذریعہ اپنے بندوں میں کیا چیز پیدا کرنا چاہتا ہے؟ سب سے پہلے احرام ہی کو لیجیے! یہ احرام کا لباس لباس نہیں، بلکہ ایک طرف فقیری کے احساس کا دوسری طرف خدا کاری کے جذبے کا منہ بولتا نشان ہے۔ گویا ایک فقیر اپنی جھولی میں کسی داتا کے دربار میں‌اور ایک جانباز سپاہی اپنے وردی پہن کر اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنے چلا جارہا ہے، وہ اللہ کے در کا بھکاری ہے، اس کی رضا حاصل کرنے کا بھوکا دنیا سے ہر بندھن کاٹ چکا ہے۔وہ اللہ کا فقیر بھی ہے اور کفن بردوش سپاہی بھی۔ دوسرے یہ کہ یہ احرام کا لباس اسلامی برادری اسلامی قومیت اور اسلام میں مساوات کا بہترین مظہر ہے کہ تمام چھوٹے بڑے، امیر غریب، بادشاہ وزیر اور عام سپاہی، گورنر چپراسی، کالے گورے، عربی عجمی، سب ایک ساتھ ایک لباس میں اور ایک ہی نعرہ لبیک لبیک کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں،جسے اندھے بھی دیکھ لیتے ہیں اور بہرے بھی سن لیتے ہیں کہ اسلام کا رشتہ سارے مادے رشتوں سے مضبوط اور بہت مضبوط ہے، اور اچھی طرح جان جاتے ہیں کہ انسان کو انسان سے جوڑنے والا رشتہ صرف اسلام ہی ہے۔ پھر یہ نعرہ کیا ہے لبیک لبیک؟ (حاضر ہوں میں حاضر ہوں۔) یہ اپنے آپ کو مالک کے حوالے کردینے کی ایک بے مثل خواہش کا اظہار ہے، اور اعلان ہے کہ غلام اپنے آقا کے حکموں پر کان لگائے اس کے حضور چلا آرہا ہے، اور یہ گروہ در گروہ اس کعبہ کے معمار حضرت ابراہیمؑ کی اس منادی پر حاضر ہو رہے ہیں، جو اس نے اپنے آقا رب العزت کے حکم سے لگائی تھی اور پھر جب کوئی حاجی حجر اسود پر اپنے دونوں ہاتھ رکھتا ہے، تو گویا وہ اللہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بندگی و غلامی کا عہد تازہ کر رہا ہے، اور اقرار کر رہا ہے کہ اس عہد سے وہ کبھی نہ پھرےگا، پھر بوسہ دیتا ہے تو گویا اپنے آقا اور محبوب کے عشق میں گرفتار اور سرشار ہے اور اللہ کے عشق اور اس کی محبت ہی اس کا آخری مقصود ہے۔پھر اللہ کی محبت میں سرشار اور اللہ کی رضا کی خاطر اپنے آپ کو قربان کر دینے کا والہانہ جذبہ اس کے اندر امڈ آیا ہے۔ اس کے اظہار میں کعبہ کے اردگرد چکر لگا رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پروانہ شمع پر فدا ہو رہا ہے، یعنی اللہ کا بندہ اپنے آقا و مولیٰ کے دربار میں آ کر اس کی محبت و رضا پانے کے لیےبے تاب ہے، اور خودفراموشی و سر مستی کا مجسم بن جاتا ہے۔
ہر ایک سے بے نیاز ہر طرف سے یکسو ہو کر بس اپنے محبوب کے اشاروں پر جان نثار کرنے کے لیے بے تاب ہے کہ بس وہ مل جائے یعنی اس کی محبت اور رضا حاصل ہوجائے ،پھر یہ کہ طواف کا لے گورے، عربی عجمی غرض مختلف رنگ و نسل اور علاقے کے لاکھوں لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا یہ سمندر جب ایک سا لباس پہنے ایک ہی سے جذبہ اور مقصد لیے کعبہ کے ارد گرد گھومتا ہے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ جس طرح اللہ ایک ہے ،دین ایک ہے تو ہم اہل ایمان مسلمان بھی ہزار اختلافات کے باوجود ایک ہی ہیں، ہم سب کا ایک ہی محور و مقصد ہے، ایک ہی مرکز سے ہم وابستہ ہیں اور ہماری تمام وفاداریاں، جانثاریاں اسی ایک ذات یعنی اللہ رب العزت کے لئے ہے۔ یہ طواف عملاً اس کا ثبوت دیتا ہے۔ جب حاجی صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتا ہے تو گویا اس عزم کا اظہار کرتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کا راستہ ہی ہمارا راستہ ہے جس طرح انھوں نے اللہ کی ہر قسم کی آزمائشوں میں کامیاب ہو کر اللہ کے دین کو غالب کیا۔ اسی طرح ہم بھی دین کو سربلند کرنے کی کوشش میں اپنی ساری کوششیں، صلاحیتیں، قابلیتیں اور جان و مال ،وقت ہر چیز کھپائیں گے۔
دوسرے یہ سعی صفا و مروہ ہمیں حضرت ہاجر کا واقعہ یاد دلاتی ہے کہ اللہ کے حکم سے اللہ کے دین کے لیےآپ نے اپنا شوہر اپنا ملک اپنی بستی سب کچھ چھوڑا ،اور دور دراز ایسے لق و دق مقام پر جہاں نہ پانی تھا نہ چارا نہ جھاڑ تھے نہ پودے، نہ آدمی تھے نہ جانور اور چرند پرند؛ تن تنہا سکونت اختیار کیا اور ننھے اسماعیلؑ کے پانی سے تڑپنے کا واقعہ پیش آیا اور حضرتِ ہاجر چند بوند پانی کی تلاش میں پریشانی کے عالم میں صفا سے مروہ پر اور مروہ سے صفا پر دوڑ لگاتی رہیں۔ نیز یہ بھی ہمیں معلوم ہو کہ مروہ ہی وہ مقام ہے جہاں سے حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیلؑ کو ذبح کرنے کے لیے منہ کے بل لٹایا تھا، سو مروہ کی شہادت گاہ تک بار بار ہمارا دوڑ کر پہنچنا یہ بھی ذہن نشین کرنے کے لیے ہے کہ جس طرح ابراہیمؑ اپنے بیٹے کو اللہ کی خاطر قربان کرنے کو تیار ہوگئے اور شیطان کے بہکانے پر بھی ان کے پیر نہ ڈگمگائے ،اسی طرح ہم بھی اللہ کے دین کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے اور پھر کسی کی محبت ہمیں اس جدوجہد سے نہ روک سکے گی۔
پھر ذی الحجہ کی8 سے لے کر10 تاریخ تک تمام حاجیوں کا ایک امام کی قیادت میں اجتماعی طور پر کوچ کرنا اور اجتماعی قیام، آج سب کے سب مسجد حرام میں اکٹھا ہیں تو کل منیٰ کے میدان میں جمع ہیں ،اگلے دن عرفات میں خیمہ زن ہیں، رات مزدلفہ میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں، پھر صبح منیٰ آپہنچتے ہیں۔اس دوران کبھی امام کے خطبے سنتے ہیں، کبھی لبیک لبیک پکارتے ہیں،کبھی نمازوں میں عجلت کرتے ہیں، یعنی جمع کر کے پڑھتے ہیں؛ یہ ساری باتیں ایک منظم فوجی زندگی کو ظاہر کرتی ہیں اور لاکھوں لوگوں کا یہ احرام پوش اور کفن بردوش‌سپاہیوں کا ایک گروہ نظر آتا ہے۔ یہ ساری باتیں ذہن نشین کرواتی ہیں کہ امت مسلمہ کا ایک منظم اور مستحکم گروہ موجود ہے، اور جس وقت ہمیں ضرورت پیش آئے وہ اللہ کی راہ میں سر دھڑ کی بازی لگا دے گی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کےلیےمنظم اجتماعیت اور فوجی زندگی لازم ملزوم ہے، نہایت ضروری ہے۔
جمرات کے ستونوں پر کنکریاں مارنا پتھروں کی اس بے پناہ بارش کی یاد دلاتا ہے جس نے ابرہہ کے لشکر کو اپنے مقامات پر تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا۔ ان مقامات پر کنکریاں مارنا اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم اللہ کی کبریائی کا اعلان کرتے ہیں، اور اپنے اس عزم و فیصلے سے دنیا کو خبردار کرتے ہیں کہ جو کوئی اللہ کے دین پر ترچھی نگاہ ڈالے گا ہم اس کا منہ توڑ جواب دیں گے اور جو کوئی اس کے دین کی بنیاد ڈھانا چاہے گا، ہم اسے اس انجام سے دوچار کر دیں گے، جس سے ابرہہ دو چار ہوا تھا۔
پھر قربانی کی جاتی ہے تاکہ راہ خدا میں خون بہانے، جان دینے کی نیت اور عزم کا اظہار عمل سے ہو جائے۔ پھر یہ قربانی اس ذبح عظیم کی بھی یادگار ہے جسے اللہ نے حضرت اسماعیلؑ کا فدیہ قرار دیا ہے۔ اس لیے اللہ کی راہ میں جانور کو قربان کرنا دراصل اپنے آپ کو قربان کرنے کےقائم مقام ہے ۔یہ اس بات کا اقرار ہے کہ ہم نے جان و مال اللہ کی نذر کر دیا ہے، اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیا ہے اور جب وہ اسے طلب کرےگا، بنا کسی پس و پیش کے پیش کر دیں گے۔یہ اس عہد کے تجدید ہے کہ ہمارا جینا مرنا اور پوری زندگی اللہ کے لیے ہے۔
اب ہم سنت ابراہیمی کی پیروی میں اپنے اندر وہ جذبہ وہ تڑپ پیدا کریں گے کہ اللہ کے دین کے غلبہ و اشاعت یعنی اسلام کی سربلندی کے لیےاور لوگوں تک اللہ کے دین کوپہنچانے اور اسلام کے قانون کے نفاذ کی جدوجہد میں اپنا تن من دھن سب لگا دیں گے، جس بھی قربانی کی ضرورت پیش آئے، ہم ہرگز دریغ نہیں کریں گے، انشاءاللہ۔
یہ حج مسلمانوں کے لیےمغفرت و اجر کا بہترین ذریعہ ہے، جس کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ حتیٰ کہ حجر اسود کو چھونے اور بوسہ لینے پر گناہوں کے معاف ہونے کی بشارت ہے۔ اور باب کعبہ اور حجر اسود کے درمیان ملتزم نام کا جو مبارک مقام ہے ،وہاں بھی قبول دعا کی بشارت سنائی گئی ہے۔حج اور بیت اللہ کی برکتیں دینی و دنیاوی ہر لحاظ سے بے شمار ہیں۔ حج کے موقع پر پوری دنیا سے لاکھوں انسان حج اور اس گھر کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ پورے سال ہی زائرین کی آمد کا سلسلہ شروع رہتا ہے۔
پھر بھی مکہ مکرمہ جیسی خشک اور بے آب و گیاہ وادی ہونے کے باوجود لاکھوں لوگوں کے کھانے پینے ہی کی نہیں تمام ضروریات بآسانی پوری ہوجاتی ہیں۔ قسم قسم کے پھل اور میوہ جات وافر مقدار میں وہاں دستیاب ہوتے ہیں۔ یہ بھی اس کی برکات میں سے ہے کہ اللہ نے یہاں ایک ایسا چشمہ جاری فرما دیا، جس میں ہر بیماری کی شفا کی تاثیر ہے، اور ریگستان اور خشک علاقہ ہونے کے باوجود یہ چشمہ صدیوں سے سب کو سیراب کر رہا ہے۔ نہ صرف وہاں کے رہنے والے بلکہ لاکھوں کی تعداد میں حج و عمرہ کے لیے آنے والے نہ صرف یہاں اپنی پانی کی ضروریات پوری کرتے ہیں، بلکہ اسے ساتھ بھی لے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے اور یہ چشمہ بھی صدیوں سے جاری ہے، کبھی خشک نہیں ہوتا۔
حج برکات و ثمرات کا خزانہ ہے اور اس کے برکات صرف دینی ہی نہیں بلکہ دنیاوی اور تمدنی بھی ہے، ان کا سلسلہ حضرت ابراہیمؑ کے زمانے سے شروع ہے۔ خداوند کریم نے قرآن میں کئی مقامات پر اس کی صاف صاف وضاحت کی ہے۔

٭ ٭ ٭

حج دراصل تمام ارکان عبادات کا مجموعہ ہے وہ ایمان بھی ہے ۔حج کے موقع پر ہر لمحہ ہر گھڑی اللہ اور رسولؐ پر ایمان اجاگر رہتا ہے،اور بندہ اللہ کی یاد اور اس کی بزرگی کا دل میں ہر وقت اعتراف کرتا رہتا ہے،اور زبان سے بھی ورد کرتا ہے۔ وہ نماز بھی ہے ،کیونکہ نماز کا مقصد اللہ کا ذکر اور اس کے بندے اور غلام ہونے کی یاددہانی ہے۔ حج کے ہر لمحہ میں یہ سعادت ملتی رہتی ہے۔وہ روزہ بھی ہے۔ روزے میں صرف دن میں تعلق زن و شو سے منع کیا گیا ہے،جب کہ حج کے دوران راتوں میں بھی یہ ممنوع ہے۔ حتیٰ کہ حج میں نفسانی خواہشات اور زیب و زینت پر بھی پابندی ہے۔ وہ زکوۃ بھی ہے ،زکوٰۃ مالی عبادت ہے کہ اللہ کی دی ہوئی دولت کو اللہ کے حکم کے مطابق غریبوں اور اللہ کے دین کے لیے خرچ کی جائے، حج کرنے والوں کو بھی یہ سعادت ملتی ہے کہ قربانی کرنا اور اس کا گوشت غریبوں میں تقسیم کروانا حج میں ضروری ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۳