جون ۲۰۲۳

 سابق امریکی صدر جانسن نے کہا تھا کہ امریکہ کے مستقبل کےلیےعلم بنیاد ہے۔یقیناً ملک، قوم اور فرد کی بھی ترقی کی ایک اہم بنیاد علمی ترقی ہے،اور ایک مسلمان کے تو عقیدے کا حصہ ہے کہ حصول علم ایک فریضہ ہے۔
طلب العلم فريضة على كل مسلم و مسلمة (ابن ماجہ)
لہٰذا ،نئے تعلیمی سال کا آغاز آئیے مقصد علم کے پورے شعور کے ساتھ کریں۔ تعلیم کو محض رواج یا صرف برائے ذریعۂ معاش کے بجائے تعلیم برائے فلاح دنیا و آخرت سمجھیں ۔
تعطیلات قریب الختم ہیں۔ تعطیلات کا بچوں نے خوب لطف لیا ۔پہلے سے کی گئ منصوبہ بندی یا ارادے کے مطابق سیروتفریح ، ملاقاتیں ،موج و مستی کی گئی۔اب اسکول شروع ہونے والے ہیں ، کیا ہم نے اس کی بھی کچھ منصوبہ بندی کی ہے؟ ہر پروگرام سے قبل اس کے متعلق پلاننگ کی جاتی ہے،چاہے شادی بیاہ ہویا اس میں شرکت کا ارادہ ہو، کہیں گھومنے کا خیال ہو یا ملاقاتوں کا پروگرام ہو، اس سے خوب لطف لینے کا باضابطہ پلان بنایا جاتا ہے، تو بچے کی تعلیم و تربیت جیسے اہم امور میں ہم کیسے غفلت برت سکتے ہیں؟
آیئے اس کی قبل از وقت پلاننگ کرلیں !

بہتر اسکول کا انتخاب

 بچے کے لیے ایسے اسکول کا انتخاب کریں جہاں خوشگوار اور حوصلہ بخش ماحول میں بچہ کی ہمہ گیر تربیت کا بہترین نظم ہو ۔صرف نصابی کتب کو پڑھانا تعلیم نہیں کہلاتا۔ تعلیم یعنی تدریس ( بعض مضامین کا درس دینا یا سکھانا ) ،تادیب (ادب واخلاق سے آراستہ کرنا )، تدریب ( فنون آرٹ و دیگر skills کو پہچان کر مہارت پیدا کرونا )اور تربیت ( شخصیت کے مختلف اوصاف اور صلاحیتوں کو پہچان کر اس کو پروان چڑھانا ) ہے۔
تعلیم کے ان سارے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر جہاں پڑھایا جائے، وہ اسکو ل بچے کے لیے بہتر ہے۔

بچوں میں اسکول کے تئیں دلچسپی پیدا کرنا

 بچے ابھی اسکول میں پہلی دفعہ داخلہ لینے والے ہوں ،یا جو پہلے سے اسکول جایا کرتے ہوں۔ ہر دو قسم کے بچوں میں اسکول سے دلچسپی پیدا کرنا، ان کو اسکول کھلنے کا پر شوق منتظر بنانا، بہت ضروری ہے۔ مائیں گھر کے اور معاشرہ کےدیگر بچوں کی مدد سے یہ کام کرسکتی ہیں۔ سابق میں اسکول جانے والے جن بچوں کو اسکول کے تئیں لگاؤ ہے ،ان کے احسا سات اور ان کے خوشگوار تجربات بچوں کو سنائے جائیں۔ اسکول جانے کے فائدے وقتاً فوقتاً بتلائیں جائیں ۔غیر محسوس طریقہ سے بچوں میں اسکول کا خوشگوار تجسس پیدا کریں۔
بہت چھوٹے بچوں کوا گر کوئی مجبوری نہ ہو تو اسکول بھیجنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔3-2سال کی عمر میں جب بچہ کو ماں سے کچھ دیر کے لیے بھی دور رہنا شاق گزرتا ہے۔ کھانے پینے ،بات کرنے ،حاجات ضروریہ ودیگر کئی ضرورتوں کےلیے ماں کا محتاج ہوتا ہے اور ماں کا ہی سپورٹ چاہتا ہے۔ اس وقت اجنبی اسکول، خادمہ یا ٹیچر کے حوالے کر دینا اس کو نفسیاتی طور پر مجروح اور اسکول سے بیزار کرنے کا سبب بن سکتا ہے ۔اسکول جانے کی مناسب عمر کے بعد ہی بچوں کواسکول میں داخلہ دلوایاجائے۔

اسکول شروع ہونے سے قبل خوب تیاری کا ماحول

کسی بھی موقع یا تقریب کی قبل از وقت تیاری کا ماحول اس میں دلچسپی کا سبب بنتا ہے۔ اسکول سے قبل بھی تیاری کا خوب ماحول بنایا جائے۔ تعطیلات کے بعد اسکول بوجھ نہ بننے دیں، بلکہ ذہن سازی کریں کہ اسکول جانا ،پڑھنا سیکھنا ایک دلچسپ سرگرمی ہے ۔نئی کتابیں، نئی کاپیاں، بیگ وغیرہ کی خریداری میں بچوں کو ساتھ لے جائیں۔ کتابوں کے کچھ دلچسپ اسباق مختصراً پڑھ کر یا پڑھوا کر اس کا ایسا تعارف دیں کہ بچوں میں تجسس اور اس کوپڑھنے سمجھنے کا شوق پیدا ہو۔ خوبصورت ٹرانس پیرینٹ کورز کا انتخاب کریں، تاکہ کتابوں کا وہ سرورق نظر آتا رہے ،جو بچوں کی نفسیات اور دلچسپیوں کو مدنظر رکھ کر بنایا جاتا ہے۔ کورزبچوں کے ذریعہ یا بچوں کی مدد سے لگوائیں۔
والدین کی توجہ اس بات کی جانب مبذول کرواناضروری ہےکہ بچےاپنےدوستوں کی تقلید میں چھوٹا بھیم ، ڈورے مون ، بی ٹی ایس ، اسپائڈر مین کے ٹیٹو والے بیگ ، پاؤچ لیتے ہیں ۔والدین بچوں کو یہاں بچپن سے مرعوبیت سے گریز کی تلقین کریں ،یہ کہہ کر کہ ہم ان چیزوں کو آئیڈیل نہیں بناتے ، آپ ان سب کے درمیان یونیک اشیاء منتخب کریں ۔اس طرح ان کی نفسیات پر بچپن سے تقلیدی مزاج کے مقابل سو بر اور یونیک کا تصور پیدا ہوگا ۔
فالور اور فالوونگ کے فرق کو سمجھنا اور سمجھانا ضروری ہے ۔تقلید کا بچپن سے پروان چڑھنے والا مزاج انہیں اس نہج پر پہنچادیتا ہے کہ وہ بڑے ہوکر اپنے مستقبل کا تعین بھی دوستوں کے کلچر کے مطابق کرتے ہیں ۔ہاں، البتہ بچوں کے پسندیدہ کلر کا ضرور لحاظ رکھیں۔اسکول کھلنے سے قبل ہی ان کے پڑھنے کی مناسب جگہ کا انتخاب کریں، جہاں روشنی و ہوا کا مناسب انتظام ہو۔ پہلی بار اسکول جانے والے بچوں کی ایک بہت ضروری تیاری حاجات ضروریہ کی ٹریننگ ہے۔ اسکول کھلنے سے قبل ان کوخود سے آبدست لینے کے لیےتیار کریں۔ ضرورت محسوس ہونے پر اجازت لےکر جانے اور فارغ ہونے کی بہت خوشگوار انداز میں ٹریننگ د یں۔

اسکول کا خوف دور کرنا

سابقہ دنوں میں نا خوشگوار تجربات بچوں میں اسکول کا خوف پیدا کرتے ہیں۔ ٹیچرس اور انتظامیہ سے مل کر اس کا تیقن لیں کہ ان واقعات کا اعادہ نہیں ہو گا۔ بچوں کو اسکول کے مثبت پہلواور دلچسپ واقعات یاد دلائیں۔ دوستوں اور ہم جولیوں کا نیز نئے ٹیچر کا خوبصورت تصور پیدا کریں ۔پچھلے دنوں میں کسی سبجیکٹ میں کم مارکز ، اس کی وجہ سے ٹیچرس کایا والدین کا سخت رویہ بھی اسکول سے نفرت کا سبب بنتا ہے۔ اسکول کھلنے سے قبل اس سبجیکٹ کی کمزوری دور کرنے کا انتظام کریں۔اس سبجکٹ میں کمزوری کی وجہ تلاش کریں، اس کو دور کرنے کا نظم کریں ۔
انٹرنیٹ کی سہولت نے بہت ساری دلچسپ ویڈیوز فراہم کی ہیں ،ان ویڈیوز کے ذریعہ ،مشفق ٹیوٹر یا والدین خود مشفقانہ رویہ اورو دلچسپ طریقۂ تعلیم اختیار کرتے ہوئے اس مضمون کی کمزوری دور کریں۔ ٹیچرز اور والدین دونوں فیل ہونے یا کم مارکز لانے پر ڈانٹ ڈپٹ اور طنز و تضحیک کا مظاہرہ ہرگز نہ کریں۔ ہر بچہ کسی نہ کسی مضمون میں کمزور ہوتا ہی ہے،مسلسل مشق سے جلد یا بدیر وہ کمزوری دور ہوسکتی ہے۔ بچوں میں اعتماد پیدا کریں کہ انسان کی ذہنی صلاحیت اس کی ہر کمزوری کی تلافی کرسکتی ہے ،اس کا ارادہ اور عزم ہر رکاوٹ پر غالب آسکتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنس اور دیگر کامیاب لوگوں کی کمزوریاں پھر ان کی کوششیں اور اس کے ذریعہ حاصل کی گئی کامیابیوں کی مثالوں کے ذریعہ بچوں میں اعتماد پیدا کیا جاسکتا ہے۔
بچوں کی فطری صلاحیتیں پہچان کرپروان چڑھانے کا نظم
تعطیلات میں ماؤں نے بچوں کے ساتھ کافی وقت گزاراہے،جو عام دنوں میں طویل اسکولی اوقات کی وجہ سے بمشکل میسر آتاہے۔ ان دنوں میں ان مشغولیات سے بچوں کے کچھ خاص شوق ،صلاحیتوں یا رجحانات کا علم ہوا ہوگا۔ جیسے کچھ بچے فارغ وقت ملتے ہی ڈرائنگ کرافٹ وغیرہ میں مشغول ہوجاتے ہیں، (مہندی کے ڈیزاینز اتارنے لگتی ہیں۔ )کچھ بچے کھیل کے دوران اپنے کزنز اور دوستوں میں لیڈنگ رول ادا کرتےہیں، کچھ بچے انتظام وانصرام میں دلچسپی ظاہر کرتے ہیں ،کچھ کسی مخصوص کھیل میں بہترین مظاہرہ کرتے ہیں،کسی کا خوبصورت پیرائے میں کہانیاں سنانے کا کمال ظاہر ہوگیا،کسی نے اپنی سیرو تفریح کو خوبصورت انداز میں لکھ دیا؛یہ اور اس قسم
کی بہت سی صلاحیتوں کو ماؤں نے نوٹ کیا ہوگا۔ اب اسکول کے دوران صرف نصابی کتابوں کو پڑھانے (یا ر ٹوانے)اور چند مضامین میں خوب مارکز دلوانے اور کلاس میں رینک حاصل کرنے کے جنون میں خدارا ان صلاحیتوں کو دبنے نہ دیجیے!
بقول علامہ اقبال:
شکایت ہے مجھے یارب خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا
یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہے کہ تعلیم بچے کے لیے ہے، بچہ تعلیم کے لیے نہیں۔ جو بھی سکھائیں ،خوب سکھائیں ،مہارت آہی جائےگی، لیکن تنہا کتابی علم سے تعلیم کے ہمہ گیر مقاصد حاصل نہیں ہوتے۔ اس لیے اسکول میں اور اسکول کے باہر بھی مختلف ایسے مشاغل میں بھی بچوں کو شامل کریں ،جن سے بچوں کی شخصیت کے مختلف پہلو اجاگر ہوں، اور ان کی فطری صلاحیتوں کو پروان چڑھنے کا موقع ملے۔

اخلاق و آداب کی تعلیم

٭تعطیلات میں اکثر گھروں میں سونے جاگنے کے اوقات غیر منظم ہوگئے ہوں گے، معمولات کو منظم کرنے کے لیے قبل از وقت مشق ضروری ہے۔ اسکول کھلنے سے کچھ دن قبل سے ہی جلد سونے اور فجر کے بعد سونے سے پرہیز کرنے کی عادت ڈالیں۔
٭ ٹیچرز کا مذاق اڑانااور بے ادبی کرنا فیشن بنتا جارہا ہے ۔اسکول کھلنے سے قبل ہی سے استاد کی تکریم اور ان کی عزت دلوں بٹھانے کا اہتمام کریں۔ بچوں کے سامنے ٹیچرز کی کمیاں اور عیوب گنوانے سے پرہیز کریں۔ لہٰذا، بچے میں ٹیچرز کی عزت اوران کا احترام کرنے کا مزاج پیدا کریں۔
٭بچوں کو صفائی ستھرائی کا خیال رکھنے کی ترغیب دیں۔ بڑے بچوں کو اپنی کتابیں، بیگ، یونیفارم سب ترتیب سے رکھنے اور سلیقہ سے استعمال کرنے کے طریقے سکھلائیں ۔
٭کلاس روم کے آداب (کھانسنے ،چھینکنے ،تھوکنے کے آداب)سکھلائیں ۔ڈسٹ بن میں ہی کچرا ڈالنے کی تاکید کریں۔ کلاس میں اچھے بچوں کو تلاش کرکے ان کو دوست بنانے کے گر سکھلائیں ،تاکہ اچھی دوستی بچوں کے کردار پر اچھے اثرات مرتب کرے، اور بھی کئی اچھے اوصاف جیسے مدد کرنے کا جذبہ، چیزیں شیئر کرنے کی عادت ،نقل نویسی سے پرہیز، لڑائی جھگڑا، ایک دوسرے کو ستانے چھیڑنے سے پرہیز ،ڈسپلن اور نظم و نسق کا اہتمام ،بےحیائی و نا شائستہ حرکتوں سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی عادت ،خدا خوفی کو پروان چڑھانے کی ا سکول سے پہلے سے کوشش کرتی رہیں اور پیہم جاری رکھیں، تاکہ ہمارا بچہ نہ صرف ایک اچھا طالب علم بلکہ ایک با کردار مسلمان اور انسانیت کے لیے نفع بخش وجود ثابت ہو۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۳