جون ۲۰۲۳

پچھلے آرٹیکل میں ہم نے دیکھا کہ بچپن میں والدین کی جانب سے ہونے والی لاپرواہی بچوں کی عمر بھر کی کمزوری بن سکتی ہے ۔اس آرٹیکل میں بھی یہی مقصود ہے کہ بچپن میں بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت کے لیے کی جانے والی کوشش پر بھی ہماری نگاہ ہو کہ کہیں ہم نادانستگی میں ان کے حق میں کچھ غلط نہ کررہے ہوں ۔آپ کے مشاہدے میںایسےلوگ آتے ہیں جو ہمیشہ Alertرہتےہیں، کسی سماجی گروہ سے جوائن ہوں تو فوراً عدم تحفظ کا شکار نظر آتے ہیں، گویا ان کو ہر دم کسی کے نقصان پہنچانے کا خطرہ ہو یا کوئی ان سے یا وہ کسی سے ہمیشہ لڑنے والی پوزیشن میں ہوتے ہیں ۔

چھوٹی سے بات گراں گزرتی ہے، کسی نے کوئی بات کی تو وہ اسے اپنی ذات پر لیتے ہیں اور دوسرے سے متعلق فوراً منفی خیالات کا شکار ہوجاتے ہیں،کوشش یہ ہوتی ہے انھیں سخت جواب دیں،Freez ہوجانے جیسی کیفیت ہوتی ہے، مطلب دماغ کام نہیں کرتا، اچانک افتاد پر وہ بالکل جم جاتے ہیں، ان کے دماغ سے کسی ردعمل کا سگنل نہیں ملتا ،ہونقوں کی طرح دیکھنے لگتے ہیں ،بظاہر وہ موجود ہیں لیکن ان کا دماغ جم جاتا ہے ۔اس کیفیت کے نکلنے کے بعد وہ بات سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں ۔

Collapse یا کسی کی بات پر بالکل حوصلہ مفقود ہوجانا اور شولڈر ڈاؤن کرکے وہ بالکل مخدوش دلی کیفیت کے ساتھ قنوطیت کا شکار ہوجاتے ہیں یا کبھی کبھی اس ٹروما میں غش بھی آجاتا ہے ۔یہ مذکورہ بالا ٹرومائی کیفیات ہیں،اسے سائیکلوجیکل ٹروما بھی کہتے ہیں ۔Psychological Trauma مطلب نفسیاتی طور پر نارمل ردعمل نہ دیتے ہوئے کسی حادثے میں ردعمل کا موقع ہو یا ڈبیٹ کا موقع ہو، یا نارمل سوشل سرگرمی اس میں جذباتی ہوکر اوورری ایکٹ کرنا ٹرومیٹک Traumatic کنڈیشن کہلاتی ہے۔اس میں کبھی کبھی قنوطیت کی انتہا خود اذیتی اور خود سوزی تک پہنچ جاتی ہے ۔

بچوں کے ٹروما کی وجوہات

اس کی وجوہات کیا ہیں ؟ اس پر غور کریں تو یہ باتیں واضح ہوتی ہیں :
بچپن میں والدین کو بچوں سے بہت قریب اور دوستانہ تعلقات استوار کرنا چاہیے، تاکہ بچے بروقت اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر والدین سے بات کرسکیں ۔ عموماً بچے والدین سے باتیں چھپانے لگتے ہیں ۔بچوں میں باتیں والدین سے چھپانے کی عادت کب پیدا ہوتی ہے؟جب وہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان کے والدین دوسروں کے متعلق ججمنٹل ہیں ۔وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کی شخصیت کے منفی پہلو کو بار بار دہراتے ہیں ۔چچا ، تایا ، پھوپھی ، خالہ،ماموں سے متعلق کوئی منفی رائے جو والدین بنالیتے ہیں، اس کا اظہار گاہے بہ گاہے گھر میں ہوتا ہے ۔بچے کو سگنل ملتا ہے کہ اپنی ذات سے ہونے والی غلطی کو چھپایا جائے، ورنہ والدین بچے کےمتعلق بھی رائے غلط رکھیں گے ،وہیں سے وہ Manipulated رویہ والدین کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔
اس کے برعکس والدین اوپن مائنڈیڈ ہوں، کسی رشتے کی غلطی اور منفی رویہ پر رائے بنانے کے بجائے یہ کہیں کہ یہ تو عام انسانی رویہ ہے، کوئی بات نہیں۔ اور ان کی خوبیوں کو بچوں کے سامنے پیش کرنے لگیں تو بچوں کا اعتماد والدین پر بڑھتا ہے،وہ اپنے معاملات ان کے سامنے رکھنے سے خائف نہیں ہوتے ۔ایک تو یہ نقصان ہے منفی باتوں کا، دوسرا اثر زیادہ تکلیف دہ ہے کہ جب بچہ رشتہ داروں سے متعلق اپنے والدین سے سنی گئی باتوں کے مطابق پرسپشن بنالیتا ہے، تووہ اپنے رشتے داروں سے بہت شفاف رویہ روا نہیں رکھ پاتا ہے ،اس کی معصومیت متاثر ہوتی ہے ،جس کا سگنل اس رشتےدار کو محسوس ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں بڑوں کا رویہ بھی بچوں کے ساتھ تضحیک آمیز ہوتا ہے ۔رشتے داروں کی آپسی دشمنی کی وجہ سے بچے انتہائی تکلیف دہ نفرت آمیز رویے سے گزرتے ہیں ۔
بچوں میں بچپن کا تناؤ منفی واقعات سے پیدا ہوسکتا ہے،جیسے کہ بچوں پر زیادتی، تضحیک آمیز رویہ یا ان کا اپنے دوسرے کزن سے تقابل ، ان سے تکلیف دہ لمحات کا ذکر کرنا ، تکلیف دہ نتائج کا ذکر کرنا ،اس کے علاوہ جو واقعات دیر پا اثرات بچے کی شخصیت پر مرتب کرتےہیں ان میں :لاپتہ کاری، حادثات، طبعی آفات، جسمانی زخموں یا شدید بیماریوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔بڑوں کے مقابلے میں بچے تناؤ کے نتیجے میں زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور بڑی عمر کے افراد کی بنسبت زیادہ لمبے عرصے تک نقصان دہ تاثرات کا خطرہ ہوتا ہے۔

نفسیاتی تناؤ کے اثرات

نفسیاتی دباؤ کے اثرات جذباتی نشوونما ، اکتسابی قوت ، اور یادداشت پر زیادہ پڑتے ہیں۔ جذباتی نشونما نہیں ہو پاتی ہے۔ جذباتی ذہانت کا رول انسان کی سماجی فعالیت سے لے کراس کی مکمل شخصیت کی تعمیر میں بہت اہم ہوتا ہے ۔بچپن میں بچوں کے تئیں والدین کی لاپرواہی بچے کی جذباتی ذہانت کو ساری عمر کے لیے متاثر کرتی ہے ۔ جذباتی ذہانت سے مراد یہ اہم نکات ہیں:
(1) بچے کی خود آگاہی: وہ کس قدر اپنی صلاحیتوں کا ادراک رکھتا ہے، وہ خود پرکتنا اعتماد کرتا ہے ؟
(2)سیلف ریگولیشن: اپنی ذات پر کنٹرول، اپنے رویے کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت کتنی ہے؟ آپ محسوس کرتے ہیں کہ بعض افراد اپنے رویے پر قابو نہیں رکھ پاتے ہیں، کسی کی بات پر الجھنے لگتے ہیں ،چھوٹی سی بات کو لڑائی تک پہنچادیتے ہیں، وہ سمجھ بھی نہیں پاتے کہ یہ بے قابو رویہ ایک ٹرومک کیفیت ہے، جو بچپن کے جذباتی نشوونما میں کجی رہ جانے کا اثر ہے ۔
(3) موٹیویشن:یہ نہایت اہم چیز ہے۔بچے کی کسی کام کی تئیں اپنی ذاتی تحریک ،جو اس کو ایموشنلی طور پر اسٹیبل رکھتی ہے ۔بچپن کے واقعات بچے کے یادداشت کو بھی متاثر کرتے ہیں ۔کمزور جذباتیت زندگی میں پیش آنے والے حادثات کا مقابلہ کرنے میں مانع ہوتی ہے اورقوت فیصلہ کو متاثر کرتی ہے ۔

بچے کی ذہنی صحت کو متاثر کرنے والے عوامل

بچپن میں درج ذیل واقعات بچے کی ذہنی صحت کو متاثر کرتے ہیں :
جسمانی زیادتی : والدین یا استاد کے ذریعہ پیٹا جانا یا کسی بڑے انسان کا بچوں پر تشدد کرنا، کبھی کبھی یہ تشدد بڑے بہن بھائی کے ذریعہ بھی کیا جاتا ہے، اس لیے والدین کو چاہیے کہ چھوٹے بچے کو سنبھالنے کا ضرورت سے زیادہ بوجھ اپنے بڑے بچوں پر نہ ڈالیں، جو بچے ہمیں بڑے نظر آتے ہیں وہ بھی اپنے جسمانی و ذہنی ارتقاء کے دور سے گزر رہے ہوتے ہیں ۔ان پر بوجھ بڑھ جائے تو جھنجلاہٹ میں اپنے چھوٹوں کو مارتے ہیں ۔یہ بھی درست نہیں کہ مکمل ہی تعاون کا مزاج ختم کردیا جائے، جتنا وہ تعاون خوش دلی سے کرنا چاہتے ہیں، اتنا تعاون لیا جائے، لیکن دونوں بچوں کی درمیان کی انڈراسٹینڈنگ ختم نہ ہونے پائے، اس بات کا خیال رکھا جائے۔
جنسی زیادتی : جنسی زیادتی سے بچنے کے لیے بچپن سے بچوں کو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کی لعلیم دینا اورحیا کا تصور پیش کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے بھی والدین سے بچوں کو بولنے میں جھجک نہیں ہونی چاہیے ۔
لفظی تشدد: تضحیک آمیز الفاظ کہنا یا بچے کا دوسرے بچے سے تقابل کرنا ، کسی دوسرے سامنے اشارہ کرکے بچے پر پھبتی کسنا وغیرہ بچے کے چھوٹے سے ذہن کو متاثر کرتی ہے۔ بعض لوگ عادتاً بچے کی جسمانی ساخت کو ناپسندیدہ شخص سے تقابل کرتے ہیں یا بچے کے رنگ اور عادت کو دیکھ کر اس کا دوسرے سے تقابل کرتے ہیں ۔اس پر بھی بچہ دیر تک سوچتا ہے ۔
جسمانی لاپرواہی: بروقت بچے کی جسمانی صفائی نہ کرنا ، طہارت کالحاظ نہ رکھنا اس کی قوت شامہ کو متاثر کرسکتی ہے ۔
طبی لاپرواہی : اکثر متمول خاندانوں میں بھی بچے طبی امداد اور سائیکلوجیکل کاؤنسلنگ کی لاپرواہی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔
یتیم خانہ: یتیم خانوں میں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی بھی ان کی شخصیت کو مجروح کردیتی ہے۔ ناقص غذائیت ، ایک دوسرے کے ذریعہ کیا گیا زد وکوب یا وارڈن کے ذریعہ کی گئی زیادتی بچے کو مجروح کردیتی ہے ۔
والد کی اچانک وفات : والد کی اچانک موت بھی بہت خطرناک صدمہ ہے ،جو بچے کی جذباتی نشوونما میں تکلیف کا باعث ہے، اسی لیے قران مجید نے یتیم سے متعلق احکام نازل فرمائے ہیں ۔
ماں باپ کی علیٰحدگی : یہ بچے کے ذہن کو مخدوش کرنے کا سب سے مضبوط ذریعہ ہے ۔بچے والدین سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، ان کے تحفظ کی واحد جگہ والدین ہیں۔ ہر دو کی اپنی جگہ اہمیت ہے تاہم جو والدین جذبات پر کنٹرول نہیں رکھتے ہیں، وہ اس بات سے بے خبر صرف لڑتے ہیں اور اپنے بچوں کی شخصیت کو تباہ کرتے ہیں ۔
گھریلو جھگڑے : چاہے یہ والدین کے درمیان ہوں یا ساس بہو اور دیگر رشتہ داروں کے درمیان، بچوں کو اس سے دور رکھنا لازم ہے۔ بچہ ہمیشہ پر امن دنیا دیکھنا چاہتا ہے۔ بچپن سے اس کو انسانوں سے مایوس اور متنفر کرنا اس کے لیے سوچ کے نئے دروا کرتا ہے، اور بچہ اپنے آپ میں نئی باتوں کو سیکھنے کے بجائے دیر تک اس پر سوچتا رہتا ہے ۔
مندرجہ بالا عوامل بچوں میں شدید نفسیاتی نقصان پیدا کر سکتے ہے۔ان کی Learning (اکتسابی صلاحیت) مجروح ہوتی ہے ،وہ Over thinking کا شکار ہوتےہیں،کبھی وہ گھر میں چلنے والے مسائل سے Burn out ہوجاتے ہیں،کچھ سیکھنے پڑھنے کا حوصلہ کھودیتے ہیں،انھیں برے خواب آنے لگتے ہیں، وہ مستقل خود کو گرتے ہوئے دیکھتے ہیں، ڈر اور خوف کے زیر سایہ رہتے ہیں،فلیش بیک انہیں برے رویے یاد آتے ہیں، وہ مایوس ہونے لگتے ہیں، تنہائی کے کرب سے گرزتے ہیں ،ایسے ہی بچےباہر محبتیں تلاش کرتے ہیں، لیکن تب بھی ان کے ذات کا خلا پور نہیں ہوتا۔ڈر، تشویش اور اضطرابی کیفیت ان کا سایہ کیے رہتی ہے ۔
اولاد دراصل اللہ کی نعمت اور عطیہ ہے،لہٰذا ان کی تربیت کے لیے اپنی ذات کو بدلنا ایماندار والدین کا شیوہ ہونا چاہیے ۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

2 Comments

  1. شیم

    مجھے لگتا ہے کہ مجھ میں یہ سبھی symptoms موجود ہے۔ انکا حل بھی بتا دیں۔

    Reply
    • مبشرہ فردوس

      اگلی قسط میں اس کے تدارک پر بات کی جائے گی ۔ان شاءاللہ

      Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۳