جون ۲۰۲۳
زمرہ : النور

أَعُوذُ بِاللٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الۡبَيۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَيۡهِ سَبِيۡلًا ‌ؕ وَمَنۡ كَفَرَ فَاِنَّ اللٰهَ غَنِىٌّ عَنِ الۡعٰلَمِيۡنَ ۞(آل عمران،آیت: 97)

(لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیر وی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہو جا نا چاہیے کہ اللہ تما م دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔)
خدا اپنے بندوں پر احکام مسلط کرتا ہے تا کہ وہ انہیں خدا کے کفر سے نکال کر ایمان ، اطاعت اور اخلاص کی طرف لے جائے اور ہدایت کرتا ہے کہ اس کا مقصد صراط مستقيم ، انبیاء و رسولوں کا راستہ اور شہداء و صالحین کا راستہ ہے ۔وہ احکام و عبادات جو بندوں کو ایمان و اطاعت اور قُرب الہی کا ذریعہ بنتے ہیں ان میں سے ایک اہم حکم حج بیت اللہ کا ہے ۔حج عالم اسلام کے اتحاد کا ذریعہ ہے ۔یہ ایک ایسی عبادت ہے جو پوری دنیا کے مسلمان ایک جگہ جمع ہو کر ادا کرتے ہیں ۔

وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ (الحج،آیت: 27)

(اور لوگوں کو حج کے لیے اذن عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں ۔)
یہ ایک فرض عبادت ہے ،ہر اس مسلمان کے لیے جو بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہے اور جو شخص استطاعت نہ رکھتا ہو، اس کوچاہیے کہ وہ بیت اللہ کو دیکھنے کی تمنا اور حج کرنے کا ارادہ ضرور رکھے۔

اَلۡحَجُّ اَشۡهُرٌ مَّعۡلُوۡمٰتٌ ‌ۚ فَمَنۡ فَرَضَ فِيۡهِنَّ الۡحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوۡقَۙ وَلَا جِدَالَ فِى الۡحَجِّ ؕ وَمَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَيۡرٍ يَّعۡلَمۡهُ اللّٰهُ ‌ؕ وَتَزَوَّدُوۡا فَاِنَّ خَيۡرَ الزَّادِ التَّقۡوٰى ۚ وَاتَّقُوۡنِ يٰٓاُولِى الۡاَلۡبَابِ ۞ (البقرہ،آیت: 197)

(حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیّت کرے، اُسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل ، کوئی بدعملی،کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو ۔ اور جو نیک کام تم کرو گے ، وہ اللہ کے علم میں ہوگا۔ سفرِحج کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جاوٴ۔ اور سب سے بہتر زادِراہ پرہیزگاری ہے ۔ پس اے ہوشمندو ! میری نافرمانی سے پرہیزکرو۔)
حج کے مہینے تو سب کو معلوم ہیں تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرے اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران شہوانی فعل ،کوئی بد عملی نہ ہو ۔
جن مقررہ مہینوں میں اللّٰہ ربّ العزّت نے حج کا حکم دیا ہے وہ شوال کی چاند رات سے لے کر ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کی شام تک دو مہینے دس روز حج کے مہینے کہلاتے ہیں ۔ان مہینوں سے پہلے احرام باندھنا اور حج شروع کرنا جائز نہیں ہے ۔حج مختلف عبادات کا مجموعہ ہے اور یہ عبادات ہی دراصل مناسک حج کہلاتے ہیں ،جن میں حج کرنے کے طور طریقے اور اعمال و افعال ہوتے ہیں ۔ان مناسک کا ادا کرنا بہت ضروری ہے ورنہ حج مقبول نہیں ہوگا۔

مراحل حج:

(1) احرام

ادائیگی حج کا سب سے پہلا مرحلہ احرام باندھنا ہے ۔احرام حج کا لباس ہے ،جو دو سفید چادروں پر مشتمل ہوتا ہے ۔احرام صرف مردوں کے لیے ہے ،جبکہ عورتوں کے لیے اسلامی لباس ہی احرام ہوتا ہے ۔جس مقام پر احرام باندھا جاتا ہے اُسے’’میقات‘‘ کہتے ہیں ۔

(2) تلبیہ

احرام باندھ لینے کے بعد بلند آواز میں جو کلمات ادا کیے جاتے ہیں انہیں تلبیہ کہتے ہیں ،یہ کلمات اس طرح ہیں:

لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ

(3) طواف قدوم

احرام باندھ لینے کے بعد مکہ مکرمہ میں آکر خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگانے کو طواف کہتے ہیں، اور طواف قدوم وہ پہلا طواف ہے جو منى ٰ کی طرف روانگی سے قبل کیا جاتا ہے ۔

(4) منیٰ میں قیام

8 ذی الحجہ کو حجاج کرام منی میں ٹھہرتے ہیں ،جو مکہ سے سات میل کے فاصلے پر واقع ہے ۔اور اِس دن کو ’’ یوم الترویہ‘‘ کہتے ہیں ۔

(5) وقوفِ عرفات

یہ حج کا اہم ترین رکن ہے، اِس کو رکن اعظم بھی کہا جاتا ہے ۔9 ذی الحجہ کو حجاج کرام منیٰ سے عرفات جاتے ہیں ۔وہاں میدانِ عرفات میں ٹھہر تے ہیں اور خطبہ سنتے ہیں ۔ جو شخص وقوفِ عرفہ نہ کرے اس کا حج نہیں ہوتا ۔

(6) مزدلفہ میں قیام

منی ٰاور عرفات کے درمیان واقع ایک مقام مزدلفہ کہلاتا ہے ۔9 ذی الحجہ کو حاجی مغرب کے وقت مزدلفہ کےلیےروانہ ہوتے ہیں ۔یہاں پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ ادا کرتے ہیں۔

(7) منیٰ کی طرف روانگی

10 ذی الحجہ کو فجر کی نماز کے بعد مزدلفہ سے منیٰ کی طرف واپسی کا سفر شروع ہوجاتا ہے ۔

(8) کنکریاں مارنا

علامتِ شیطانی سمجھے جانے والے تین ستونوں کو کنکریاں ماری جاتی ہیں ۔

(9) قربانی

رمی جمرات کے بعد حجاج کرام جانوروں کی قربانی کرتے ہیں ۔یہ قربانی حضرت اسماعیل علیہ السلام کا اپنی قربانی پر آمادہ ہونے کی یاد دلاتی
ہے ۔

(10) حلق یا قصر

حلق سے مراد مکمل بال منڈوادینا ہے، جبکہ قصر میں بالوں کو تراشا جاتا ہے۔قربانی سے فارغ ہوکر مرد اپنے بال منڈواتے ہیں اور خواتین اپنے بالوں کا کچھ حصّہ ترشواتی ہیں ۔

(11) طواف زیارت

منیٰ سے واپسی پر خانہ کعبہ کی زیارت طواف زیارت کہلاتی ہے ۔

(12) سعى

صفا و مروہ ان دو پہاڑیوں کے درمیان حجاج کرام کو سات چکر لگانے ہوتے ہیں جو سعی کہلاتے ہیں ۔

(13) منیٰ میں واپسی

تمام مناسک کی ادائیگی کے بعد حجاج کرام منی ٰمیں واپسی کرتے ہیں جہاں رمی جمرات کیا جاتا ہے ۔

(14) طواف وداع

حاجی بیت اللہ سے رخصتی کے وقت خانہ کعبہ کا آخری طواف کرتے ہیں اور مدینہ کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں ۔اس طرح حج کے تمام ارکان ادا کیے جاتے ہیں ۔
’’ پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو تو جس طرح پہلے اپنے آباء واجداد کا ذکر کرتے تھے اسی طرح اب اللہ کا ذکر کرو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ۔‘‘ (البقرہ)
اس طرح جب حج کے تمام ارکان باضابطہ اور خلوصِ نیت کے ساتھ ادا کیے جائیں ،تمام سرگرمیاں محض دین حق کی سربلندی کے لیے ہوں تو یہ حج،حج مبرور ہوتا ہے ۔اور پھر اِرشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ :
’’حج مبرور کا صلہ تو جنت سے کم ہے ہی نہیں ۔‘‘

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۳