جون ۲۰۲۳

سوال :
میرے والد تین بھائی تھے۔میرے دو حقیقی بھائی ہیں۔ایک چچا کے دو لڑکے ہیں۔ دوسرے چچا کا نکاح نہیں ہوا تھا۔ حال میں ان کا انتقال ہوگیا ہے ۔ان کی وراثت تقسیم ہوتے وقت یہ مسئلہ بتایا گیا کہ اگر کسی شخص کے ورثہ میں ماں باپ، بیوی ، اولاد اور بھائی بہن نہ ہوں، صرف بھتیجے بھتیجیاں ہوں تو صرف بھتیجے مستحق ِوراثت ہوتے ہیں، بھتیجیاں محروم رہتی ہیں۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ اگر بھتیجے مستحق ہیں تو بھتیجیاں کیوں نہیں؟ کیا یہ بات درست ہے؟ اگر ہاں تو اس کی وجہ کیا ہے؟

جواب:
شریعت میں وراثت کے استحقاق کی بنیاد قرابت کو بنایا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 لِّلرِّجَالِ نَصیِبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوالِدٰنِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَآءنَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالأَقْرَبُونَ (سورۃالنساء،آیت : 7)

(مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو۔)
ورثہ کی تین قسمیں کی گئی ہیں:
اول: اصحاب الفرائض ، یعنی وہ ورثہ جن کے حصے قرآن مجید میں بیان کر دیے گئے ہیں۔ سب سے پہلے ان میں وراثت تقسیم ہوگی۔ ان کی کل تعداد بارہ(12) ہے۔
چار(4) مرد: (باپ، داد، اخیافی (ماں شریک) بھائی اور شوہر) اور آٹھ(8) عورتیں: (بیوی، ماں، بیٹی، پوتی، سگی بہن، علّاتی (باپ شریک) بہن، اخیافی بہن، دادی/ نانی) ہیں۔
دوم: عصبہ ، یعنی وہ ورثہ جن کے حصے مقرر نہیں۔ یہ لوگ اصحاب الفرائض سے بچا ہوا مال ِ وراثت پاتے ہیں اور اصحاب الفرائض میں سے کوئی نہ ہو تو کل مالِ وراثت کے مالک بنتے ہیں۔ یہ نسب کے اعتبارسے قریبی رشتے دار ہیں۔ عصبہ کی تین قسمیں کی گئی ہیں:
(1)عصبہ بنفسہ
یہ وہ رشتے دار ہیں جن کے اور میّت کے درمیان کسی عورت کا واسطہ نہ ہو۔ یہ صرف مرد ہیں، مثلاً بیٹا، پوتا، باپ، دادا، بھائی، بھتیجہ، چچا، چچازاد بھائی وغیرہ۔
(2) عصبہ بغیرہ:یہ وہ اصحاب الفرائض عورتیں ہیں جو اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر عصبہ بنتی ہیں، مثلاً بیٹی بیٹا کے ساتھ، پوتی پوتا کے ساتھ، سگی بہن سگے بھائی کے ساتھ اور علّاتی بہن علّاتی بھائی کے ساتھ۔
(3) عصبہ مع غیرہ: یہ وہ عورتیں ہیں جو دوسری عورتوں کے ساتھ مل کر عصبہ بنتی ہیں۔ مثلاً سگی بہن بیٹی یا پوتی کے ساتھ ، علّاتی بہن بیٹی یا پوتی کے ساتھ۔
سوم:ذوی الارحام، یہ لوگ اس وقت وراثت میں حصہ پاتے ہیں جب میت کے رشتے داروں میں اصحاب الفرائض اور عصبہ نہ ہوں۔ اس میں چار طرح کے لوگ آتے ہیں:
(1) وہ وارثین جو میت کی طرف منسوب ہوتے ہیں: نواسا، نواسی۔
(2) وہ وارثین جن کی طرف میت منسوب ہوتا ہے: نانا، پر نانا۔
(3) وہ وارثین جو میت کے ماں باپ کی طرف منسوب ہوتے ہیں: بھتیجی، بھانجا، بھانجی۔
(4) وہ وارثین جو میت کے دادا،دادی/نانا، نانی کی طرف منسوب ہوتے ہیں: پھوپھی، خالہ، ماموں۔
مالِ وراثت اصحاب الفرائض میں تقسیم ہونے کے بعد اگر کچھ بچے تو عصبہ میں تقسیم ہونے کی دلیل اللہ کے رسول ﷺ کا یہ ارشاد ہے:

اَلحِقُوا الفَرَائِضَ بِأھلِھَا، فَمَا بَقِیَ فَلِا ٔولیٰ رَجُلٍ ذَکَرٍ (بخاری : 6737)

(میراث کے مقرر حصے ان کے حق داروں کو دو۔ اگر کچھ باقی بچے تو وہ قرابت میں مقدّم مرد کا ہوگا۔)
فقہاء نے بھتیجیوں کا شمار بھتیجوں ذوی الارحام میں کیا ہے۔ چوں کہ کل مالِ وراثت عصبہ ہونے کی حیثیت سے بھتیجوں میں تقسیم ہوجائے گا، ذوی الارحام کے لیے کچھ نہیں بچے گا،اس لیے بھتیجیاں، جو ذو ی الارحام میں ہیں، محروم رہیں گی۔

ویڈیو :

Comments From Facebook

2 Comments

  1. محمد یونس رانجھا ایڈووکیٹ

    مولوی صاحب پرانے علماء کی طرح آپ بھی خطا کھا رہے ہیں، حدیث کے الفاظ یہ ہیں اگر ذویالفرائض میں سے کوئی ہو گا یعنی اگر اس مرحوم چچا کی زوجہ یا والدہ یا والد ہو گا تو انکا حصہ نکال کر بقیہ قریب ترین مقدم مرد کا ہو گا اور چچا کی نرینہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں مقدم مرد بھتیجے ہوں گے۔اور بھتیجی ذویالحرحام کے ذمرے میں آئے گی اور محروم گی ۔ اگر چچا کے اصحاب الفرائض میں سے کوئی نہ ہو گا تو وراثت عصبا کو جائے گی ۔بھتیجے عصبہ بنفسہ کے طور پر وارث ہونگے جبکہ بھتیجی یا بھتیجییاں اپنے بھائیوں کے ساتھ عصبہ بغیرہ کے طور وراثت کی حقدار ہوں گی۔

    Reply
    • محمد یونس رانجھا ایڈووکیٹ ضلع سرگودھا شہر کوٹمومن پنجاب پاکستان

      آپ کے جواب کا انتظار رہے گا ، میں اجکل اس نقطہ پر عدالت میں بحث کر رہا ہوں ، اس لیے جناب کے تعاون کی ضرورت ہے ۔ جنرل رول وہی ہے جو آپ نے بیان کیا مگر جو میں نے کمنٹ کیا یہ exception ہے ۔ بھتیجی اس ایک صورت میں وارث ہو سکتی ہے ۔

      Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۳