جون ۲۰۲۳

’’کچھ سنا تم نے رمشا کے بارے میں؟‘‘

’’ ہاں بھئی! اب تک تو سارے کالج کو خبرمل گئی ہے ۔‘‘

’’ہاں،اسلم نے باقاعدہ بریک اپ کا پوسٹ ڈالا ہے فیس بک پر۔‘‘

’’توبہ ! کیسی بے عزتی ہوئی ہے اف! ویسے کالج کا بڑا مشہور کپل تھا یہ۔ افسوس ہوا سن کر۔ ‘‘

’’ارےچھوڑو افسوس،یہ تو ہونا ہی تھا۔ “آف پیریڈ میں اس تازہ واقعے پر تبادلہ خیال کرتی ہوئی کلاس کی لڑکیاں اس بات سے بے خبر تھیں کہ رمشا آخری بنچ پر بیٹھی سب سن رہی ہے۔ کسی کی آواز میں طنز تھا تو کسی کی آواز میں بے زاری۔

رمشا سے خود ایسی کی تذلیل برداشت نہیں ہوئی ،اور اس نے گھبرا کر آنکھیں میچ لیں۔ اور کر تی بھی کیا۔ اپنی خطاؤں کا صلہ کاٹ رہی تھی۔ اس کی سہیلیاں بھی اس سے کترا کر چلی گئی تھیں، اور اب وہ سب سے الگ تھلگ کالج میں لڑکیوں کی جانچتی نگاہوں اور طنزیہ فقروں کے درمیان ضبط کیے بیٹھی تھی۔

٭ ٭ ٭

رمشا، ڈاکٹر رمیس کی اکلوتی اولاد تھی۔ شہر کے مشہور سرجن کی ذہین بیٹی۔ گھر میں دولت کی ریل پیل تھی، غرض اللہ نے اسے سبھی نعمتوں سے نوازا تھا۔ اس پر والدین کا بے پناہ پیار، جس کے سہارے وہ اپنی ساری ضدیں منواتی آئی تھی۔ خوبصورتی اسے اپنی ماں سے ورثے میں ملی تھی۔ خاندان اور کالج دونوں ہی جگہ اس کی خوبصورتی کی ستائش ہوتی۔ خاص طور پر کالج کی لڑکیاں اس کے میک اپ اور ڈریسنگ سینس سے بہت متاثر ہوتی تھیں۔ان تمام نعمتوں کے امتزاج نے اسے کسی قدر مغرور اور لا پرواہ بنا دیا تھا۔

٭ ٭ ٭

’’السلام علیکم رمشا! کیسی ہو ؟‘‘رمشا نے ستا ہوا چہرہ اٹھایا۔ اس کی کلاس فیلو مریم اس کے برابر میں بیٹھی مسکرا کر پوچھ رہی تھی۔ اس نے’’ ٹھیک ہوں‘‘ کہہ کر دوبارہ سر ڈیسک پر جھکا لیا۔

’’پریشان لگ رہی ہو۔‘‘

’’تمھیںنہیں پتہ کیا ہوا میرے ساتھ؟‘‘ رمشا کی آواز بھرا گئی۔

’’کوئی بات نہیں،دل چھوٹا مت کرو۔‘‘مریم نے اس کا ہاتھ تھام کر دلاسہ دیا۔ رمشا جو بہت ضبط کیے بیٹھی تھی اب بے اختیار رو پڑی۔

’’ایسا کیوں ہوا مریم؟ میرے ساتھ کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے ؟‘‘ اس کی آواز میں بے پناہ دکھ تھا۔

’’اچھا خیر، چپ کر جاؤ، ایسے نہیں روتے۔‘‘ مریم اس کے آنسو خشک کرتے ہوئے پیار سے سمجھا رہی تھی، لیکن رمشا نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہیں۔

’’اسلم نے میرا تماشہ بنا دیا ہے۔ ایک چھوٹے سے جھگڑے پر کوئی ایسے کرتا ہےَ؟فیس بک پر پوسٹ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور میری دوستوں کو دیکھو! مجھے ایسےاوائڈ کر رہی ہیں جیسے پہچانتی ہی نہیں۔ تمھیںبتاؤں؟ اسلم سے دوستی بھی انھوں نےہی کرائی تھی۔ اب دیکھو خود کی بد نامی کے ڈر سے کیسے اجنبی بن گئی ہیں؟‘‘وہ بدستور روتے ہوئےکہے جارہی تھی۔ اسے غصہ تھا،دکھ تھا۔ آخر دل کا غبار نکالنا بھی ضروری تھا۔

’’ہاں بہن! میں جانتی ہوں سب۔‘‘

’’ایک منٹ!تم یہاں کیسے؟ آئی مین میرے ساتھ؟‘‘ رمشانے کہتے کہتے شرمندہ ہو کر نظریں جھکا لیں۔

مریم اس کا اشارہ سمجھ چکی تھی۔ آج جب اس کی پکی سہیلیاں بھی اس سے کترارہی تھیں ،ایسے میں مریم جس سے رمشا کی کوئی ایسی بات چیت بھی نہیں تھی، اس کے ساتھ بیٹھی دلاسہ دے رہی تھی۔ تعجب تو ہونا تھا۔

’’کیوں؟ میں تمھارے ساتھ نہیں بیٹھ سکتی؟مجھے اپنا دوست نہیں مانتی ہو؟‘‘مریم نے مسکرا کر مصنوعی غصہ دکھایا تو وہ بھی مسکرا دی۔

’’چلو !کینٹین چلتے ہیں۔ آج میرے ساتھ لنچ کرو۔‘‘ مریم بہت اپنائیت سے بولی تو وہ منع نہیں کرسکی اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ ہولی۔

٭ ٭ ٭

مریم کالج کی ان چند لڑکیوں میں سے تھی، جو باقاعدہ حجاب کا اہتمام کرتی تھی۔ نرم سی مسکراہٹ لیے حجاب میں لپٹا اسکا چہرہ ہمیشہ ترو تازہ لگتا تھا۔ اس کا کوئی سہیلیوں کا گروپ تو نہ تھا، مگر کلاس کی ہر لڑکی سے اس کی ٹھیک ٹھاک سی سلام دعا تھی۔ کچھ تھا اس میں کہ سبھی اس کی تکریم کرتے تھے اور اس کی خوش مزاجی کے جواب میں اسے بھی ہمیشہ عزت اور مسکراہٹیں ملتیں۔ مریم سے رمشا کی یہ پہلی طویل ملاقات تھی۔ ویسے بھی رمشا آج سے پہلے کلاس میں کم اور اپنی سہیلیوں کے جھرمٹ میں زیادہ پائی جاتی تھی۔ رمشااس کےہمراہ کینٹین میں آ تو گئی تھی، لیکن کچھ کھانے کا دل نہیں تھا۔ وہ بیک وقت شرمندگی،پچھتاوا،جھجک اور دکھ؛ ان سارے احساسات سے گھری ہوئی تھی۔

’’پھر کہاں کھو گئیں؟‘‘مریم نے اس کا کندھا ہلایا تو خیالات کا تسلسل ٹوٹا۔

’’مریم! تم نے مجھے جج نہیں کرنا؟جیسے سب کر رہے ہیں۔ کوئی طعنہ ؟کوئی نصیحت؟‘‘مریم کو اس کے لہجے میں شرمندگی اور تلخی دونوں محسوس ہوئی تھی۔

’’کیسا طعنہ بھئی؟ میں تو بہت خوش ہوں تمہارے لیے ۔‘‘

’’وہاٹ!‘‘

’’آئی مین غلطیاں تو سب سے ہو جاتی ہیں ،لیکن میں خوش ہوں کہ تمھیں ایک موقع ملا ہے کہ اب اصلاح کرو،سمجھو اللہ نے تمھارے لیے راستے کھول دیے ہیں۔‘‘رمشا نے گھورا تو مریم نے سنبھل کر بات مکمل کی۔

’’میرے لیے، میں تو بہت گنہگار ہوں۔ میں نے سب کو ہرٹ کیا،اپنے پیرینٹس کو بھی دھوکا دیا۔‘‘ تھمے ہوئے آنسو پھر سے بہہ نکلے ،لیکن اب کی دفعہ ان میں نہ اسلم کی بے اعتنائی کا دکھ تھا، نہ ہی سہیلوں کی بے پروائی کا غصہ۔ یہ تو خالص ندامت کے آنسو تھے۔ مریم کے دل میں ایک سکون سا اترا تھا۔ ’’رمشا! میں جانتی ہوں برائیوں سے بچ کے رہنا آسان نہیں ہے۔ خاص طور پر اس ماحول میں جہاں قدم قدم پر فتنے کھڑے ہیں، اور بے حیائی ایسی عام ہو گئی ہے کہ اسے معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا، لیکن ہم اپنے طور پر پوری کوشش کریں اور دعا کریں تو لازماً اللہ ہمارے لیے آسانیاں فرمائے گا۔‘‘

’’تم ٹھیک کہتی ہو۔ اب سوچ رہی ہوں تو احساس ہو رہا ہے کہ اس ماحول کے زیر اثر میں کیسی بے وقوفیاں کرنے چلی تھی۔ اللہ نے میری آنکھیں کھول دیں۔ میری طرح نہ جانے کتنی لڑکیاں ایسی غلطیوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہیں۔‘‘

’’ہاں رمشا!بہت سی بہنوں کو رہنمائی اور مدد کی ضرورت ہے۔ ہمیں حیا کا ماحول عام کرنا ہوگا۔ ایسی فضا بنانی ہوگی کہ اسلام پر چلنا اور برائی سے بچنا آسان ہو سکے۔‘‘ مریم نے مسکرا کر حوصلہ مند بات کی۔

’’بالکل۔ اور اللہ مجھ جیسی ہر رمشا کو تم جیسی مریم دے، جو طعنے تشنے دے کر ان پر توبہ کے دروازے بند نہیں کرتی ،بلکہ ہاتھ تھام کر صحیح راہ پر لے جاتی ہے۔‘‘اس نے تشکر آمیز لہجے میں کہا تو مریم بے اختیار ہنس دی۔ان کی گہری دوستی کی یہ حسین شروعات تھی۔

٭ ٭ ٭

رمشا جلدی جلدی تیار ہورہی تھی۔ آج اس کی عزیز ترین دوست کا نکاح تھا،جس میں شرکت کے لیے وہ اپنی امی کے ہمراہ جا رہی تھی۔

’’مما!چلیں،میں ریڈی ہوں۔‘‘وہ کمرے سے نکلتے ہوئے بولی تو عزرا بھی چلنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں، لیکن بیٹی پر نظر پڑتے ہی وہ ٹھٹھک گئیں۔

’’رمشا !آج بھی یہ عبایا اور حجاب پہن کر جاؤ گی؟ وہاں تو فنکشن ہے ناںاور تم اتنا اچھا تیار ہوئی ہو۔‘‘

’’جی مما!پردہ تو کرنا ہے ناں۔ فکر نہ کریں، وہاں لیڈیز میں عبایا نکال دوں گی۔‘‘

’’چلو ٹھیک ہے۔‘‘ بیٹی کی بات سن کر وہ بھی مسکرا دیں،لیکن مریم کے گھر پہنچ کر تو عزرا بیگم کیا خود رمشا بھی حیران ہو گئی۔ با حجاب دلہن انھوں نے پہلی دفعہ جو دیکھی تھی۔ کمرے میں خواتین اور لڑکیوں کی چہل پہل کے درمیان مریم دلہن بنی بیٹھی تھی، لیکن روایتی دلہنوں سے یکسر مختلف۔Ivory رنگ کا سادہ مگر خوبصورت سا نفیس جوڑا ،اور چہرے کے گرد بندھا سلک کا اسکارف، جس پر سرخ رنگ کے دوپٹے کا آنچل لیے ہوئے مسکراتی ہوئی مریم بلا کی حسین لگ رہی تھی۔ رمشا فوراً اس کے پاس آ گئی۔

’’السلام علیکم دلہن صاحبہ!ماشاء اللہ آج تو بڑی جچ رہی ہو۔‘‘ مریم سے گلے مل کر وہ پیار سے بولی۔

’’وعلیکم السلام !‘‘ مریم شرما گئی تھی۔

’’ویسے آج بھی تم نے حجاب لیا ہوا ہے، اور اتنا سمپل تیار ہوئی ہو، کوئی بھاری جویلری بھی نہیں پہنی ۔‘‘ اسکارف سے ڈھکے ہوئے مریم کے گلے کی طرف اشارہ کرتی ہوئی رمشا نے استفسار کیا۔

’’حیا ہی عورت کا سب سے قیمتی زیور ہے۔ کیوں صحیح کہا ناں؟ ‘‘ مریم نے مسکرا کر کہا۔

’’بالکل درست کہا۔ مسلمہ کا اعلی معیار : با حیا، با کردار ۔ اور جب اس خوبی سے کردار کی آرائش کر لی جائے تو پھر کسی میک اپ اور جویلری کی کیا ضرورت ؟‘‘ رمشا نے بہت پیار سے کہا تو وہ بھی اثبات میں سر ہلا کر ہنس دی۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. مبشرہ

    عمدہ تحریر صائمہ
    اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۳