جون ۲۰۲۳

رشتوں کی طرح لفظوں میں بھی تاثیر ، ذائقہ اور احساس ہوتا ہے۔ اگر یہ زندگی سے نکل جائیں تو حیات نامکمل اور کھوکھلی ہو جاتی ہے۔ کوئی اس خلا کو پر نہیں کر سکتا۔ کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں جو آپ کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں۔ ایک ایسا جاندار لفظ ہے جو بیٹی کو اعتماد و اعتبار کے مضبوط حصار میں جکڑ لیتا ہے، وہ ہے:’’ باپ ۔‘‘

ابا جان ، والد صاحب ، ابو جان ، بابا جانی کیسے سحر انگیز لفظ ہیں ناں کہ کہتے ہی آنکھوں کے سامنے خودبخود ایک تصویر سی بن جاتی ہے۔ہمت،شفقت،چاہت، قربانی یکجا لکھوں تو بابا جانی ۔

اللہ تعالیٰ نے جہاں ماں کے قدموں تلے جنت رکھی، وہیں باپ کو جنت کا دروازہ قرار دیا۔ یہ وہ مضبوط دروازہ ہے جو بیٹی پر آنے والی مصیبتوں و مشکلات کے مخالف ڈھال بن جاتا ہے۔ یہ وہ آہنی چٹان ہے جو بیٹی کی اول و آخر امید بن جاتا ہے۔ یہ وہ پہاڑ ہے جو بظاہر سخت جان نظر آتا ہے مگر اندرون نرم و نازک۔ یہ بیٹی کے سر پر چھت کی مانند ہے اور کڑی دھوپ میں شجر سایہ دار۔ اس دروازے کو کھولا جاتا ہے خلوص و محبت اور اطاعت و فرمانبرداری کی کنجی سے۔

والد ایک باغبان کی صورت ہے۔ جب چمن میں ننھی کلی آنکھیں کھولتی ہے تو اس کی مسرت قابلِ دید ہوتی ہے۔ اس کلی کی حفاظت و نگہداشت میں وہ اپنا آپ فراموش کر بیٹھتا ہے۔ جب یہ معصوم کلی وقت کے ساتھ کِھل کر خوبصورت پھول بن جاتی ہے ،تو اس کے پہرے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مانو وہ اس پھول کو دیکھ دیکھ کر جی رہا ہو۔ بد خواہوں اور شر پسندوں سے پھول کو بچانے کی خاطر اپنے راحت و سکون کو تیاگ دیتا ہے۔ یہ کہلاتا ہے پاسبانِ دختر۔

بیٹی کے کرب و اضطراب پر مائیں اپنے جذبات کا برملا اظہار کرتی ہیں،مگر والد یہ کرنے سے قاصر ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر اپنے احساسات کو آشکار کرنے لگے تو اس صنفِ نازک کو کون سمیٹے گا۔ والد کا اپنی بیٹی کی کامیابیوں پر اظہارِ مسرت کا انداز بھی نرالا ہے۔ وہ ہستی زبان سے تعریف کے پُل تو نہیں باندھتی مگر اس کے انگ انگ سے شادمانی چھلکتی ہے۔ اس کے زرِحلال سے خریدی مٹھائی سے انسیت و شفقت کی مٹھاس آتی ہے۔

والد وہ عظیم ہستی ہے جس کی پاکیزہ تعلیم و تادیب بیٹی پر کامیابی و کامرانی کے روشن در وا کرتی ہے۔ یہ اس اعلیٰ تربیت ہی کا تقاضا ہے کہ بیٹیاں اپنے بابا کے آن و مان کی جی جان سے حفاظت کرتی ہیں۔ جانِ پدر کے نین میں چمکتے جگنو پانے کی خواہش میں باپ دامے درمے قدمے سخنے قربانیاں دیتا ہے۔ اپنے جذبات، خواہشات ، آرزوؤں اور تمناؤں پر قفل لگا دیتا ہے۔ جگنوؤں کو مٹھی میں کرنے کی لگن میں اپنے سیاہ حلقے دار آنکھیں، سفید بال اور جھری زدہ محنت کش ہاتھوں کونظرانداز ڈال دیتا ہے۔ اپنے وجود کو گُھلا کر وہ سیڑھیاں بناتا ہے جو بیٹی کے خوابوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ یہی زینے صالح والد کو جنت الفردوس کا حقدار بناتے ہیں۔

 حقیقت تو یہ ہے کہ ہم بیٹیوں میں اپنے بابا کے اس پسینے کی ننھی بوند کا تک حق ادا کرنے کی سکت و استطاعت نہیں ہے ،جو راہِ حلال میں ٹپکا ہو۔ کوئی لختِ جگر نہیں چاہتی کہ وہ اپنے والد کی آنکھوں میں اشک دیکھے۔ ان چشمہائے نم سے نظر ملانے کے لیےبڑے جگر کی ضرورت ہوتی ہے۔مجھے سخت حیرت ہوتی ہے ان مشرکین و کفارِ عرب پر۔ وہ پتھر دل انسان آخر کس طرح اپنی پریوں کو زندہ درگور کرتے تھے ؟ کیا ان کا ضمیر انہیں ملامت نہیں کرتا تھا ؟ کیا پھول سی بچیوں کو دیکھ ان کا دل نہیں پگھلتا تھا ؟ افسوس صد افسوس !کہ وہ بیٹیوں کے لمس سے نا آشنا رہے۔
ظہورِ اسلام نے بیٹیوں کو بلند مقام و مرتبہ عنایت فرمایا۔ ان کو رحمت و جنت کا ضامن قرار دیا۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا : ’’ جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا پھر دو دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں ، وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کے حقوق کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے تو اس کے لیے جنت ہے۔‘‘
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولﷺ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملاتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’ جس نے دو بیٹیوں کی ان کے بالغ ہوجانے تک پرورش کی ، قیامت کے دن وہ اور میں اس طرح آئیں گے۔‘‘
والد کی بے پایا محبت و شفقت کو دیکھ کر بے ساختہ دل کہہ اٹھتا ہے :

فَبِاَیِّ آلَاءِرَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ

(تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟)

٭ ٭ ٭

حقیقت تو یہ ہے کہ ہم بیٹیوں میں اپنے بابا کے اس پسینے کی ننھی بوند کا تک حق ادا کرنے کی سکت و استطاعت نہیں ہے ،جو راہِ حلال میں ٹپکا ہو۔ کوئی لختِ جگر نہیں چاہتی کہ وہ اپنے والد کی آنکھوں میں اشک دیکھے۔ ان چشمہائے نم سے نظر ملانے کے لیےبڑے جگر کی ضرورت ہوتی ہے۔مجھے سخت حیرت ہوتی ہے ان مشرکین و کفارِ عرب پر۔ وہ پتھر دل انسان آخر کس طرح اپنی پریوں کو زندہ درگور کرتے تھے ؟ کیا ان کا ضمیر انہیں ملامت نہیں کرتا تھا ؟ کیا پھول سی بچیوں کو دیکھ ان کا دل نہیں پگھلتا تھا ؟ افسوس صد افسوس !کہ وہ بیٹیوں کے لمس سے نا آشنا رہے۔

Comments From Facebook

2 Comments

  1. Sumaiya Aamir Khan

    ان کے ہونے سے بخت ہوتے ہیں
    باپ گھر کے درخت ہوتے ہیں

    ماشاء اللہ تبارک و تعالیٰ بہت خوب بہترین تحریر اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ???

    Reply
  2. خان سعدیہ ندرت

    والد ایک ایسا انسان جس کے آنگن میں بیٹیاں راج کرتی ہیں ✨
    ما شاءاللہ بہترین تحریر ?

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۳