چائلڈلیبر ڈےدنیا بھر میں 12جون کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کرنا اور بچوں کو تعلیم کے حصول کے مساوی حقوق دلانا ہے۔ بچوں سے مشقت نہ لینے کا دن منانے کا آغاز 1974 ءسے ہوا تھا۔ اس دن سے عوام میں بچوں کے حقوق کے متعلق شعور بیدار کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے 170 ممالک میں ہرسال 12 جون کو بچوں سے پرمشقت کام لینےکے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا اہتمام اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشنز ایمرجنسی فنڈز کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہر سال مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں سمیت بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے زیر اہتمام سیمینارز، مذاکرے اور ریلیوں کا انعقاد بھی ہوتا ہے۔
سن 2015 ءمیں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن‘ کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 5 سے 17 سال کی عمر کے 5.7 ملین بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ عالمی سطح پر ایسے بچوں کی تعداد 168 ملین ہے۔بھارت میں بے تحاشا مسائل موجود ہیں، اور ان ہی مسائل میں ایک بہت بڑا مسئلہ چائلڈ لیبر کا بھی ہے۔ چائلڈ لیبر سے مراد کم عمر اور نابالغ بچوں سے مزدوری کروا نا ہے۔ بھارت میں بہت بڑے پیمانے پر کم عمر اور نابالغ بچوں سے محنت مزدوری کروائی جاتی ہے۔ چائلڈ لیبر شہراور دیہات؛ دونوں میں پائے جاتے ہیں۔بھارت میں کام کرنے والے بچوں میں سے نصف زراعت کے شعبے میں مشقت کرتے ہیں اور ایک چوتھائی بچے کپڑوں پر کڑھائی، کارپٹ کی بنائی، ماچس کی تیلیاں بنانے، ریستورانوں میں کام کرنے اور لوگوں کے گھروں میں ملازم کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔
2011 ءکی مردم شُماری کےاعداد و شمار کے مطابق، ہندوستان میں بچہ مزدوروں کی تعداد 10.1 ملین ہے ،جن میں 5.6 ملین لڑکے اور 4.5 ملین لڑکیاں ہیں۔ مجموعی طور پر 152 ملین بچے، 64 ملین لڑکیاں اور 88 ملین لڑکے، عالمی سطح پر چائلڈ لیبر کا شکار ہیں، جو کہ دنیا بھر کے تمام بچوں میں سے تقریباً دس میں سے ایک ہے۔بھارت کی ریاستیں جہاں چائلڈ لیبر موجود ہے وہ بہار، اتر پردیش، راجستھان، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر ہیں۔ یہ وہ ریاستیں ہیں جہاں ملک کی کل چائلڈ لیبر آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ کام کرتا ہے۔اتر پردیش میں بچہ مزدوروں کی سب سے زیادہ تعداد ہے، بھارت کے 20% سے زیادہ بچہ مزدور صرف اسی ریاست کے رہائشی ہیں۔
(سیو دی چلڈرن، 2016)
ان بچوں میں سے زیادہ تر مزدور ریشم کی صنعت میں کام کرتے ہیں جو اس خطے میں رائج ہے۔اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے خدشات کے باوجود بھارت کی پارلیمنٹ نے 2016 ءمیں ایک ایسا متنازعہ بل منظور کر لیا ہے، جس کے تحت بچوں کو خاندانی کاروبار میں کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔اس بل میں کی جانے والی دو ترامیم پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بہبود اطفال ،یونیسیف اور دیگر تنظیموں نے اعتراض کیا ہے۔ ان ترامیم کے ذریعے اب فیملی بزنس میں بچوں سے کام کروایا جا سکے گا اور نوجوانوں کے لیے ایسے کئی کاموں پر سے پابندی ہٹا دی گئی ہے جو پہلے ان کے لیے ممنوع تھے۔اس نئے قانون کے تحت 14 سال سے کم عمر بچوں پر کسی بھی طرح کی مزدوری یا کام پر عائد پابندی میں توسیع کر دی گئی ہے۔ ماضی میں یہ پابندی صرف 18 انتہائی خطرناک شعبوں اور 65 دیگر کاموں جیسے کہ سیمنٹ بنانے، کان کنی وغیرہ پر عائد تھی۔ موجودہ بل کے مسودے کے تحت وہ افراد جو بچوں کو ملازمت پر رکھیں گے انہیں دو سال تک کی قید اور 50 ہزار روپے تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے بل کی ان شقوں کا خیر مقدم کیا ہے۔دوسری جانب بل میں کچھ ایسی شقیں بھی ہیں، جنھیں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بل کی ایک شق کے تحت اسکول کے اوقات کے بعد اور چھٹیوں کے دوران بچے اپنے خاندان کے کاروبار میں کام کر سکیں گے۔ اس کے علاوہ بچوں کو کھیل اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں بھی کام کرنے کی اجازت ہو گی ،اگر اس سے ان کی پڑھائی متاثر نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ 15 سے 18 سال کے بچے کان کنی اور انتہائی خطرناک صنعتی شعبوں کے علاوہ دیگر کام کرسکیں گے۔
اس حوالے سے بھارت کی حکومت کا موقف ہے کہ انھوں نے بچوں کی تعلیمی ضروریات اور بھارت کی معاشی حالات کے پیش نظر اس قانون میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ غربت کے باعث بھارت میں بہت سے والدین زراعت یا کاریگری کے کام میں بچوں پر انحصار کرتے ہیں۔بھارت کی وزیر برائے انسانی حقوق نے اس بل کے حوالے سے پارلیمنٹ میں کہا:’’ ہمارا مقصد ہے کہ ہم اس قانون پر عملی طور پر عمل در آمد بھی کر سکیں، اس لیے کچھ حوالوں سے اس بل میں چھوٹ دی گئی ہے۔‘‘
یونیسیف نے اس بل میں بچوں کے اپنے خاندان کے لیے کام کرنے کی شق کو ختم کرنے کا کہا ہے۔ ایک بیان میں یونیسف نے کہا ہے:’’ اس قانون کو مضبوط کرنے اور بچوں کو ایک قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کے خاندانی کاروبار میں کام کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔ ایسا کرنے سے بچوں کو استحصال سے بچا جا سکے گا۔‘‘
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت چائلڈ لیبر کے حوالے سے موجود قوانین کی وسیع پیمانے پر تشہیرکرے ،تا کہ عوام الناس کو یہ باور کروایا جائے کہ بچوں کو ملازم رکھ کر وہ غیر قانونی عمل کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس طرح کی ہیلپ لائن قائم کر نے کی بھی ضرورت ہے ،جہاں باشعور شہری چائلڈ لیبر خصوصاً گھریلو بچہ مزدوروں کی موجودگی کی اطلاع دے کر حکومتی اداروں کی معاونت کر سکیں۔بچوں کا مشقت میں داخلہ روکنے کے لیے مزدوروں کے لیے مقرر کردہ کم از کم تنخواہ کی ادائیگی یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوںگے۔
عورتوں کی معاشی با اختیاری بھی بچوں کا چائلڈ لیبر میں داخلہ روکنے کے لیے معاون و مددگار ہو سکتی ہے۔سوشل پروٹیکشن پروگرامز کو مزیدمربوط اور ٹارگٹڈ انداز میں آگے بڑھانا ہو گا تاکہ کمزور طبقات کی بحالی کو یقینی بنایا جا سکے۔ لیبر انسپکشن کے سسٹم کو مزید مضبوط بنانا ہو گا ،تاکہ چائلڈ لیبر کے حوالے سے موجود قوانین پر مؤثر عمل درآمد ہو سکے، واضح رہے کہ اس ضمن میں لوکل باڈیز اور مقامی افراد نگرانی کے عمل میں حکومت کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے حکومتوں کو طویل مدتی منصوبوں کی جانب پیش قدمی کرنا ہوگی،سول سوسائٹی اور حکومتی اداروں کو اسٹریٹیجک پلان بنانا ہوگا اور مل کر ایک ہی سمت میں آگے بڑھنا ہو گا۔
٭ ٭ ٭
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت چائلڈ لیبر کے حوالے سے موجود قوانین کی وسیع پیمانے پر تشہیرکرے ،تا کہ عوام الناس کو یہ باور کروایا جائے کہ بچوں کو ملازم رکھ کر وہ غیر قانونی عمل کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس طرح کی ہیلپ لائن قائم کر نے کی بھی ضرورت ہے ،جہاں باشعور شہری چائلڈ لیبر خصوصاً گھریلو بچہ مزدوروں کی موجودگی کی اطلاع دے کر حکومتی اداروں کی معاونت کر سکیں۔
بچوں کا مشقت میں داخلہ روکنے کے لیے مزدوروں کے لیے مقرر کردہ کم از کم تنخواہ کی ادائیگی یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوںگے۔
0 Comments