جون ۲۰۲۳
زمرہ : ادراك

صحیح بخاری کی اس روایت کو ہم نے بارہا سنا ہےکہ ایک کتا کنویں کی منڈیر کے گرد چکر لگا رہا تھا، اور قریب تھا کہ پیاس کی شدت سے مر جائے کہ اسے بنی اسرائیل کی ایک عورت نے دیکھ لیا ،اس نے اپنا موزہ اتارا اور اس سے کنویں سے پانی نکال کر اسے پلا دیا۔ اسے اس کے اس عمل کی وجہ سے اس کی مغفرت کردی گئی۔
اچھائی اور برائی انسان کی فطرت ہے ۔ہر شخص اچھائی برائی کا شعور رکھتا ہے،چاہے وہ اہل ایمان ہو یا نہ ہو، برائی سرتاپا روحانی اضطراب کا سبب ہے ،جبکہ اچھائی روح کے اطمینان کا نام ہے، اسی لیے ہر انسان میں یہ دونوں صفات نظر آتی ہیں ۔اچھائی دراصل اس ذمہ داری کا نام ہے جو انسان Responsible بناتی ہے، ذمہ داری کو سمجھنا مکمل پریکٹس اور مسلسل سیلف کنٹرول کی کوشش سے تعلق رکھتا ہے ۔مثلا ًکسی جانور کو پیاسا دیکھ کر ایک شخص پانی پلاتا ہے جبکہ دوسرا وہاں سے گزر جاتا ہے، اس کا تعلق احساس ذمہ داری سےہے کہ کس نے اپنی ذات کو اپنے نفس کے سامنے جوابدہ بنایا ۔
اسی طرح نہی عن المنکر بھی ہے کہ برائی سے روکنے کے لیے آپ کا دماغ مختلف تدابیر پرکتنا غور کرتا ہے ؟انسان کو اچھائی کی ترغیب دینے (Motivate) کے لیے اللہ نے اسی اچھائی کو نیکی بنادیا ہے۔ جب انسان اپنی اندورنی اچھائی ،شرافت اور احساس جوابدہی کو نیکی سمجھ کر انجام دیتا ہے تویہ چیز اس میں بے لوثی پیدا کرتی ہے ۔

فطری اچھائی کو ابھارنے کے لیے انفرادی خوبیوں کے ساتھ اجتماعی ماحول کی ضرورت پیش آتی ہے، اسی لیے عبادات میں جہاں اللہ سے تعلق کی بنیاد انفرادی ہے ،وہیں اجتماعی ماحول کی اہمیت بھی ہے، اسی لیے پنج وقتہ نماز ، نماز جمعہ اور حج جیسی عبادت کا تعلق اجتماعیت سے ہے ۔
بہرکیف ،صحابہ ٔکرامؓ کے زمانے میں اجتماعی ماحول کی اہمیت پورے سسٹم کو ظلم و زیادتی سے روکنے اورعدل و انصاف قائم کرنے پر آمادہ کرتی ہے ۔نیکی پر قائم رہنے کے لیے جو عوامل انسان کی شخصیت کی تعمیر میں کارگر ہوسکتے ہیں،ان میں ایک اپنے نفس کی خبر گیری، دوسرا اجتماعی ماحول اور تیسرا انسان کی فعالیت ہے۔

نفس کی خبر گیری

نفس کو نیکی کا عادی بنانے کے لیے اس کی تنبیہ اور خبر گیری ازحد ضروری ہے۔ اسلامی اسکالر بدیع الزماں سعید نورسی نے کلیات رسائل نور میں بیان کیا ہے کہ ایک عمر ، جسم اور منصب میں بڑے آدمی نے ایک دن مجھ سے کہا: ’’نماز پڑھنا کام تو بہت اچھا ہے، لیکن روزانہ پانچ وقتوں میں پانچ دفعہ ادا کرنا بہت زیادہ ہے، جس کی وجہ سے انسان اکتاسا جا تا ہے۔‘‘
اس بات پر ایک لمبا عرصہ گزر گیا، پھر ایک دن اچانک میں نے اپنے ’’من‘‘ کی آواز پر کان دھراتو سنا کہ وہ بالکل وہی الفاظ دہرارہا ہے۔ میں نے تھوڑی دیر کے لیے غور کیا تو پتا چلا کہ میرے من نے بھی سستی اور کسلمندی کی راہ سے شیطان سے وہی سبق حاصل کر لیا ہے، تب مجھے یقین ہو گیا کہ اس آدمی نے جب یہ کلمات کہے تھے تو گویا اس نے تمام نفسہائے امارہ کی زبان سے مستعار لیے تھے، یا یوں کہیےکہ تمام نفسہائے امارہ نے اس کی زبان سے یہ الفاظ کہلوائے تھے۔
تو میں نے کہاکہ میرانفس جو کہ میرے پہلو میں ہے، جب حالت یہ ہے کہ یہ برائی پرا کسا تارہتا ہے، تو یہ بات ضروری ہے کہ میں آغاز اسی سے کروں،کیونکہ کہتے ہیں کہ جو خود اپنی اصلاح نہ کر سکے ،وہ دوسروں کی اصلاح کسی بھی صورت نہیں کر سکتا ہے ،اس لیے میں نے اپنے من یانفس امارہ کومخاطب کر کے کہاکہ اے میرے نفس ! جہل مرکب کی دلدل میں سرتا پا ڈوبے ہوئے اور کا ہلی کے بستر پر غفلت کی نیند میں مدہوشی کی حالت میں پڑے ہوئے تم نے یہ جو بڑا بول بولا ہے ناں، اس کے مقابلے میں تمھیںسناتا ہوں۔عمر کو دوام نہیں، نماز اس سفر کازاد راہ ہے، حوائج ضروریہ کی یکسانیت سے تو کبھی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔روح کی تازگی کیا نماز کے علاوہ کسی چیز میں ہے؟ اپنے نفس کی تنبیہ اور اسے اچھائی تلقین ہی اپنی ذات کی تربیت کا آغاز ہے ۔

صحبت صالح

 فرمایا :

اَلْمَرْءُعَلٰی دِیْنِ خَلِیْلِہٖ فَلْیَنْظُرْ اَحَدُکُمْ مَنْ یُخَالِلُ

(انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، یعنی دوست کے اخلاق کا اثر انسان پر ہوتا ہے، اس لیے دوست بناتے وقت غورو خوض کرلینا چاہیے۔)
(ابو داؤد، کتاب الادب)
انسان اپنے آپ میں گروہ پسند واقع ہوا ہے۔ وہ جہاں ہوتا ہے، اپنا گروہ بنالیتا ہے ۔ہم خواتین دراصل اپنے اپنے ہم مزاج خواتین کے ساتھ گروہ بنالیتی ہیں ۔رشتے دار خواتین کا گروہ ، دوستوں کا گروہ ، شادی بیاہ کے موقع پر ملاقاتیوں کا رفتہ رفتہ گروہ بن جاتا ہے، اسی طرح ملازمت پیشہ خواتین کا گروہ بن جاتا ہے ، اب سوشل میڈیا گروپس بھی اس کی جدید شکل ہے۔اس طرح کے گروہ بھی مزاج میں یکسانیت رکھتے ہیں، بلکہ شخصیت میں گروہی مزاج کا اہم رول ہوتا ہے۔ خواتین کے درمیان کوئی خاتون بچوں کے تعلیمی نتائج پر تقابل مزاج رکھتی ہوتو یہ تمام خواتین کو متاثر کرتی ہے ، بننے سجنے سنورنے کا مزاج ہوتو میک اپ کی خرید و فروخت اور مختلف برانڈ کا غیر محسوس تبادلہ ہوتا ہے ، مادہ پرستی کی دوڑ میں سبقت لے جانے کا مزاج ملازمت پیشہ خواتین کا حصہ بنتا ہے ۔اسی طرح شادی بیاہ اور شاپنگ کا کلچر رواج پاتا ہے ۔

وہیں صالح خواتین کی صحبت زندگی کے بنیادی اور کارآمد اصول بنانے کی عادت ڈالتی ہے ؛کفایت شعاری ، سنجیدگی ، بچوں کی تربیت ،صالحیت کے فروغ کی دعوت اور اسلامی طرز وطریق سے آشنائی کا سبب بنتی ہے ۔وہ قرض سے محفوظ رہنے، صلہ رحمی کو پروان چڑھانے ،قطع رحمی سے اجتناب کے طریقے سکھاتی ہیں ، اپنے فرائض کے تئیں ذمہ داری کا احساس پیدا کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد بار نیک، صالح لوگوں کی صحبت رکھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ مومنوں کومخاطب کرکے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 اتَّقُوا اللٰهَ وَكُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِيۡنَ ۞

(اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔)

(سورۃالتوبہ، آیت: 119 )

برائی پر متنبہ کرنے اور ہر لمحہ انسان کو آخرت کی منزل پیش نظر رکھنے کی تلقین کرنے والے گروہ کے ساتھ رہنا اور ایسا گروپ بنانے کی کوشش کرنا یہ؛ صالحیت کی اجتماعی کوششوں میں شامل ہے ۔

ایک عربی شاعر نے اس مضمون کو اپنے اشعار میں یوں بیان کیا ہے:

عن المرءلاتسئل و ابصر قرینہ
فان القرین بمالمقارن مقتدی
اذاکنت فی قوم فصاحب خیارھم
ولا تصحب الاروی فتردی مع الردی

( اگر تم کوکسی شخص کے متعلق تحقیق مقصود ہو تو اس شخص کی تحقیق نہ کرو، بلکہ اس کے ہم نشینوں کو دیکھو ،کیونکہ دوست اپنے ہم نشینوں کا متبع ہوتا ہے، جیسے ہم نشین ہوں گے ویسا ہی وہ شخص ہوگا۔ جب تم کسی قوم میں ہو تو اس قوم کے اچھوں کی صحبت اختیار کرو، ناکارہ لوگوں کی صحبت میں نہ بیٹھو، ورنہ تم ہلاک ہو جاؤ گے۔)

عموماً ہم مادہ پرست دور میں بے حیائی، فحاشی اور ترقی کے نام پر اپنی اولاد کی ذمہ داریوں سے غافل اور لاپرواہ خواتین کو دیکھ رہے ہیں، ان کے نفس سے زیادہ ان کے سماجی گروہ اور گروہ کے مزاج کے سانچے میں ڈھلی ترجیحات کا مسئلہ ہے، جو ان کو اپنے حقیقی کردار سے فرار اختیار کرنا سکھاتے ہیں۔خواتین کو اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے شعوری کوشش کرنی چاہیے، تاکہ وہ ہر اس جگہ سے دور ہوجائیں جہاں انہیں منفی باتوں کا ماحول میسر ہو ۔

خصوصاً خواتین کے گروہ میں موجود نعمتوں پر ناشکری کا مزاج ہو تو محفل میں ذکر کرتی ہیں ۔اپنےشوہر سے شاکی نظر آتی ہیں ،یا مادی چیزوں کا اظہار کرنا اور دوسرے کو خریدنے کی ترغیب دلاتی ہیں ۔بچے میں اسکولی نتائج کا اظہار اور تقابل دوسری خاتون کو اپنے بچے سے متنفر بناتا ہے ۔
طنز وتشنیع کا ماحول ، یا عام گفتگو کا غیبت کی محفل میں ڈھل جانا،یہ تمام حرکات ایک دوسرے کو بدل دیتی ہیں اور نادا میں انسان ان چیزوں کو اپنی ترجیحات کا حصہ بناکر اپنی دماغی صحت متاثر کرلیتا ہے ۔اس کے برعکس ایسی صحبتوں کا انتخاب کریں، جہاں علمی گفتگو کا ماحول ہو ، تذکیری مزاج ہو ، جہاں قرآنی اصول و ضوابط کو زندگی میں نافذ کرنے کا ذہن بنتاہو ، مطالعہ پسند شخصیات ہوں ،فرائض پر تنبیہ کرنے کی عادت ہو ، بچوں کی تربیت پر گفتگو ہو،مفاد عامہ کی عملی باتیں شیئر کی جاتی ہوں، سماجی فعالیت کو یقینی بنانے کی تگ ودو اور صلہ رحمی کی ترغیب ہو۔
خواتین کے گروہی کلچر کو بدلنے کی عملی تدابیر مشورۃً یہاں ذکر کی جاتی ہیں:
(1)آپ کا گروپ کسی اپارٹمنٹ کی خواتین کا بنا ہوا ہے،تو وہاں عموماً پکوان پر گفتگو ہوتی ہے۔ وہاں تغذیہ سے بھرپور غذا اور نقصاندہ غذا سے بچنے کی تلقین کریں ۔بیماریوں سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر کوگفتگو کا موضوع بنائیں۔
(2)رشتے داروں کا گروہ موجود ہو تووہاں ایک دوسرے کے بچوں کی خوبیوں کا کھل کر ذکر کریں، ان میں تقابل یا عیوب کو تلاش کرنے کا مزاج نہ ہو۔ یہ محسوس کروائیں کہ ہر انسان کا بچہ ہمارا اپنا ہے، سماج کےہر بچے کا مسئلہ ہمارامسئلہ ہے۔
(3) شاپنگ کی چیزیں عموماً خواتین ایک دوسرے کو دکھاتی ہیں، قصداً نہ دکھائیں ،چونکہ شاپنگ ایک متعدی مرض ہے ،جس کا نتیجہ فضول خرچی ہے۔جب ہم دوسروں کو نہیں دکھاتے ہیں ،تب اس کی اہمیت نہیں رہتی، ورنہ شاپنگ کرنا اور دوسروں کو دکھانا ایک کلچر بن جاتا ہے۔
(4) جہاں شادی بیاہ کے کپڑے دکھائے جارہے ہوں، وہاں یہ کہیں کہ ہم ان فضولیات کو پسند نہیں کرتے ،شادی میں جاتے ہی نہیں اور اگر جانا ناگزیر ہوتوسادگی سےہی جاتے ہیں۔
(5) میک اپ کی کریزی گفتگو ہوتو کہیں کہ کیمکل سے جلد کو نقصان پہنچتا ہے، ہم یہ سب استعمال نہیں کرتے۔ یہ پورے اعتماد سے کہیں ۔
(6) واٹس ایپ گروپ میں علمی گفتگو ہوتو پوسٹ شیئر کرنے کے بجائے علمی گفتگو کی دعوت دیں،اور ایک دوسرے کے احترام کے ساتھ گفتگو کریں ۔
(7) اسٹڈی سرکل بنائیں ۔کتابیں خریدنے اور انھیں پڑھنے کا مزاج بنائیں۔ کتابوں کے کلیکشن ایک دوسرے کو دکھائیں ۔مختلف رائٹرز پر بات کریں۔ فکری اور نظریاتی گفتگو کا ماحول بنائیں۔
(8) اپنے بچوں کے سامنے رشتے داروں کا اچھے الفاظ میں ذکر کریں، جیسے: سخی پھوپھی ہیں ، چچا میں باہمی تعاون کا مزاج ہے ، خالہ علم دوست ہیں، دادی سلیقہ شعار رہی ہیں اور دادا کے پاس ڈسپلن بہت ہے۔ یہ جملے آپ کے بچوں میں وسعت ذہن اور وسعت قلب و نظر پیدا کریں گے ۔
(9) شادی بیاہ کے کھانوں اور سجاوٹ کی تعریف نجی یا خاندانی محفل میں رشک کے ساتھ نہ کریں۔
(10) خواتین کے اجتماعات میں جائیں ،وہاں بھی معلومات کی ترسیل اور محفل سے اکتساب کا احتساب کریں ۔
(11) جب بھی کسی مجلس سے اٹھیں تو جائزہ لیں کہ ہم نے انھیںکیا دیا؟ اور ان سے کیا حاصل کیا؟ صحابہ و صحابیات ؓکا معمول تھاکہ گھڑی دو گھڑی کے لیے بھی ملتے تو سورۃ العصر پڑھ کر ایک دوسرے کو انسان کے خسارے سے بچنے کی تلقین کرتے ۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۳