کیا یہ قانون تمام الہامی کتابوں میں بیان ہوا ہے؟
رسولوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی قانون تھا کہ ان کی بات جب نہیں مانی جاتی تو ان کی قوم کو دنیا میں عذاب دیا جاتا تھا اور ماننے والوں کو بچا لیا جاتا تھا ۔ جیسے قومِ عاد و ثمود اور قومِ نوح وغیرہ کے ساتھ ہوا۔ یہ گویا آخرت میں ہونے والی سزا و جزا کا ایک زندہ ثبوت تھا،جو اس قوم کی اگلی نسلوں کے لیےاور باقی اقوام کے لیےایک حجت اور دلیل بن جاتا تھا ، مگر وقت گزرنے کے ساتھ قوم سارے اسباق بھول جاتی ۔ پھر ایک نیا رسول آتا اور نئے سرے سے یہ کہانی دہرائی جاتی،لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس قانون میں تبدیلی کردی ،اوروہ یہ کہ ان کی اولاد میں سے ایک قوم دنیا میں مستقل طور پر رہے گی جسے دنیا کے وسط میں بسایا جائے گا ۔ ان کے بارے میں اللہ تعالی نے یہ قانون جاری کردیا کہ جب یہ نیکی اختیار کرتے تو ان کو دوسری اقوام پر غلبہ حاصل ہوجاتا ،اور جب نافرمانی کرتے تو وہ ذلت و رسوائی اٹھاتے۔ یوں ان کی سزاو جزا باقی دنیا کے لیے خدا کے ہونے اور آخرت کے برحق ہونے کا ایک ثبوت بن گئی ۔ جہاں ذکر ہوتا ہے خدا کے قانونِ سزاو جزا کا تو اس قوم کا ذکر یقینی ہے جسے قرآنِ مجید نے متعدد دفعہ مثال بنا کر مسلمانوں کے سامنے پیش کیا، یعنی بنی اسرائیل ۔
ہم جانتے ہیں کہ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے تمام امتوں میں فضیلت دے رکھی تھی ،اور یہی برتری بجائے ان کے خیر امت بننے کے۔ ان کےغروراور سرکشی کی وجہ بن گئی ۔ بنی اسرائیل خود کو خدا کی محبوب و لاڈلی قوم سمجھتے اور اللہ کے حکموں کی بآسانی نافرمانی کرتےیہ سوچ کر کہ ہم لاڈلی قوم ہیں ،خدا ہمیں معاف فرمائے گا اور اگر سزا دےگا بھی تو چند دن جہنم میں رکھ کر دوبارہ جنتوں میں داخل کردے گا ۔ اس طرح وہ اپنے دین کے باغی ہوگئے اور اللہ تعالیٰ ایسی باغی اقوام کو چونکہ ان کے جرائم کی پاداش میں معزول کردیتے ہیں اور ان کی جگہ نئی قوم کو لے آتے ہیں جو اللہ کے حکموں کی اطاعت کرے ۔ چنانچہ بنی اسرائیل کی پوری تاریخ میں یہی ہوتا رہا ۔ خاص طور پر دو مواقع پر ان میں ایک عظیم انحراف پیدا ہوا ،جس پر ان کو عظیم سزائیں دی گئیں ۔ ایک بخت نصر کے ہاتھوں ،دوسری عیسی علیہ السلام کے بعد رومیوں کے ہاتھوں ۔
خدا کا یہ قانونِ سزا و جزا کیا ہے؟
توریت میں انتہائی تفصیل سے اس قانون کو بیان کیا گیا ۔ زبور میں اس کی یاد دہانی کروائی گئی اور انجیل میں اس کی بنیاد پر یہود کو سخت تنبیہات کی گئیں،اور قرآنِ مجید، قرآنِ مجید تمام پچھلی کتابوں کی تصدیق کے ساتھ اس قانون کو پیش کرتا ہے ۔ بنی اسرائیل کی سرکشی کے بعد اس قوم کو معزول کردیاگیا ۔ بنی اسرائیل کی معزولی کے بعد اللہ تعالی نے خیر امت کا منصب حضرت ابراہیم ؑکے بیٹے اسماعیلؑ کی اولاد میں منتقل کیا ۔ جن کے درمیان قرآن مجید نازل ہوا ۔
قرآن کے ابتدائی حصے میں جہاں بیک وقت مسلمانوں اور یہودیوں دونوں سے خطاب ہے ،وہاں ساری گفتگو اسی قانون یعنی خدا کے سزا و جزا کے قانون کے پس منظر میں کی گئی ہے ۔ یہ بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کو تمام دنیا والوں پر فضیلت دی گئی تھی ۔ یہ فضیلت کسی نسلی وابستگی کی بنا پر نہیں دی گئی، بلکہ ایمان و اخلاق کے اس عہد کی پاسداری سے مشروط تھی، جس کا تفصیلی ذکر تورات میں ہوا ہے ، لیکن یہ قوم اپنے ایمان و اخلاق کے عہد کو توڑ کر مسلسل نافرمانیوں کی بنا پر خدا کے غضب کی مستحق ہو چکی تھی ۔ سورۃ التین میں بنی اسرائیل کے عروج و زوال کی پوری تاریخ کی قسم کھا کر یہ بتا گیا ہے کہ سزاوجزا ایک تاریخی مسلمہ ہے، جس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآنِ مجید جو کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی امت پر نازل ہوا،پھر اس کتاب میں بنی اسرائیل و یہود و نصاریٰ کا اتنا ذکر کیوں ہے؟ کیا کبھی ہم نے اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی کہ اللہ تعالیٰ ان قوموں کا اس قدر تفصیلی ذکر ہم سے کیوں کرہے ہیں؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ صراحت سے یہ قانون بیان کررہے ہیں کہ جو لوگ ایمان لائیں گے اور عملِ صالح کریں گے ان کو ہم زمین کی خلافت کا غلبہ دیں گے ، اور جو ایمان و عملِ صالح سے روگردانی کریں گے ،ہم انہیں رسوا کریں گے ۔ اس سے زیادہ صریح الفاظ میں یہ بات کیسے سمجھائی جائے کہ دنیا پر غلبہ ایمان اور عملِ صالح کا نتیجہ ہے ۔ کسی اور جد و جہد کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔ایمان، اخلاق، عملِ صالح یہی اصل مطالبہ ہے اور اسی پر ہمارا عروج و زوال منحصر ہے ۔
آج امتِ مسلمہ جو بنی اسرائیل کے بعد امامت کے عہدے پر فائز کی گئی، سارے عالم میں تشویشناک صورتحال کا سامنا کر رہی ہے ۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیےقرآن ہمیں پچھلی امتوں سے سبق حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔ مسلمانوں نے بھی اپنی تاریخ میں دو مرتبہ بد ترین انحراف کیا ۔ چنانچہ یہود کی طرح ان کو بھی سزا دی گئی ۔پہلے فساد کے موقع پر جیسے بخت نصر یہودیوں پر مشرق سے حملہ آور ہوا تھا ،تاتاری بھی مشرق سے اٹھے اور مسلمانوں کو برباد کردیا ۔
پھر دوسرے فساد کے موقع پر جیسے مغرب سے رومیوں نے یہودیوں پر حملہ کیا تھا اسی طرح پچھلے دو سو برسوں سے مسلمان مغربی طاقتوں سے پٹِ رہے ہیں ۔ چنانچہ اس صورتحال سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے ۔ ایمان اخلاق اور عملِ صالح کی دعوت کو پوری طرح قبول کیا جائے اور غیر مسلموں تک اسلام کی دعوت پہنچائی جائے ۔ یہ یہودکی بڑی بد قسمتی تھی کہ وہ عروج و زوال کے اس قانون کو تاریخی عوامل کا نتیجہ سمجھتے ہیں ۔
جب کسی قوم پر فکری اور اخلاقی زوال طاری ہوتا ہے اور دنیا کی محبت ان پر غالب آجاتی ہے، تو اسے واضح حقائق بھی نظر نہیں آتے ۔ جہاں کوئی قوم ایمان و اخلاق میں پست جگہ کھڑی ہوگی ،اس پر ذلت و غلامی مسلط کی جائے گی ۔ اس کے برعکس اگر کوئی قوم ایمان و اخلاق میں بہتر جگہ پر آئے گی ،تو غلبہ و دنیاوی اقتدار اس کا منتظر ہوگا۔ بد قسمتی سے یہود و مسلمان دونوں نے اس قانون کو نہیں سمجھا ۔ وہ دوسری قوموں کے اپنے اوپر غلبے کو دوسروں کی سازش اور ان کے ظلم کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں،جبکہ دراصل وہ خدا کی سزا کا ظہور ہوتا ہے ،اوراس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ خدا ہے اور وہ دنیا کا نظام چلا رہا ہے ۔
اللہ تعالی آج بھی قوموں کے ساتھ زندہ معاملات کررہے ہیں ۔ یہودیوں کی طرح مسلمان بھی آج ایک بڑے نازک عہدے پر فائز ہیں ۔ ایک ایسے اہم عہدے پر جس کے جرائم کی سزا دنیا میں ملتی ہے، اور جن کی نیکیوں کا بدلہ بھی دنیا میں دیا جاتا ہے ۔ آج تک سزا و جزا کا یہ قانونِ الٰہی جاری ہے جس کے مطابق اللہ تعالی پچھلے چار ہزار برسوں سے حضرت ابراہیم ؑ،ان کی اولاد اور متعلقین کے ساتھ معاملہ کر رہے ہیں ۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ یہود کی طرح مسلمانوں نے بھی خدا کی نافرمانی کی روش اختیار کرلی ہے ۔ وہ ایمان و اخلاق اور عملِ صالح کو چھوڑ کر دنیا پرستی، غفلت، تعصبات اور فرقہ واریت کا شکار ہوچکے ہیں ۔ نتیجے کے طور پر اس قانون کی زد میں آکر یہود کی طرح مغلوبیت کی سزا کا شکار ہیں ۔ اس وقت اللہ نے ایک تیسری قوم یعنی مسیحیوں کو یہود پر بھی غلبہ دے دیا ہے اور مسلمان بھی ان کے غلبے کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ جب تک یہود اسلام قبول نہیں کرتے اور مسلمان نبی آخر زماں کی لائی ہوئی ایمان و اخلاق کی دعوت قبول نہیں کرتے، یہی مغلوبیت ان کا مقدر ہے ۔ یہ کتنا بھی زور لگا لیں، یہ کتنا بھی شور مچا لیں، یہ کچھ بھی کر لیں، اللہ کا قانون نہیں بدلے گا ۔ خوف بد امنی اور معاشی تنگی ان کا مقدر رہے گی ۔ اللہ امتِ مسلمہ کو نورِ بصیرت عنایت کرے،آمین ۔
٭ ٭ ٭
0 Comments