جون ۲۰۲۳
زمرہ : النور

عن ابی ھریرۃ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: «إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ النَّاسُ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ أَعْمَالِهِمُ الصَّلَاةُ»، قَالَ: ’’ يَقُولُ رَبُّنَا جَلَّ وَعَزَّ لِمَلَائِكَتِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ: انْظُرُوا فِي صَلَاةِ عَبْدِي أَتَمَّهَا أَمْ نَقَصَهَا؟ فَإِنْ كَانَتْ تَامَّةً كُتِبَتْ لَهُ تَامَّةً، وَإِنْ كَانَ انْتَقَصَ مِنْهَا شَيْئًا، قَالَ: انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ؟ فَإِنْ كَانَ لَهُ تَطَوُّعٌ، قَالَ: أَتِمُّوا لِعَبْدِي فَرِيضَتَهُ مِنْ تَطَوُّعِهِ، ثُمَّ تُؤْخَذُ الْأَعْمَالُ عَلَى ذَاكُم

(ابوہریرہ ؓسے مروی ہے،رسول اللہ ﷺنے فرمایا: بے شک قیامت کےدن بندوں کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائےگا،چنانچہ اللہ رب العزت اپنے فرشتوں سے فرمائے گا،حالانکہ وہ سب کچھ خوب جاننے والاہے:میرے بندے کی نمازوں کو دیکھو،مکمل ادا کی ہیں یا ناقص؟اگر نمازیں مکمل ہوئیں تو نامۂ اعمال میں مکمل لکھ دی جائیںگی،اگران میں کچھ نقص ہوا،تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا:دیکھومیرے بندے نے نوافل اداکیے تھےیا نہیں؟اگر نوافل ہوں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا:میرے بندے کے فرائض کی کمی کو اس کے نوافل سے پوراکردو،پھر بقیہ اعمال کاحساب بھی اسی اسلوب سے ہوگا۔)(ابوداؤد: 864،جامع ترمذی: 413)

نماز اسلام کا دوسرا رکن اور انتہائی اہم فریضہ ہے ۔کلمۂ توحید کے اقرار کے بعد سب سے پہلا فریضہ جوایک مسلمان پر عائدہوتا ہے وہ نمازہی ہے۔قرآن واحادیث میں اس کی فرضیت کے بیّن دلائل ہیں۔ اللہ تعالی کا حکم ہے :

 وَاَقِيۡمُوا الصَّلٰوةَ وَلَا تَكُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَۙ ۞ (الروم،آیت: 31)

(نماز قائم کرو، اور نہ ہو جاؤ ان مشرکین میں سے۔)

وَاَقِيۡمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَارۡكَعُوۡا مَعَ الرّٰكِعِيۡنَ ۞
(البقرہ،آیت: 43)

(نماز قائم کرو ، زکوٰة دو، اور جو لوگ میرے آگے جُھک رہے ہیں اُن کے ساتھ تم بھی جُھک جاؤ۔)
نماز اللہ سے قربت کا آسان اور قریب ترین راستہ ہے ۔

اقرب مایکون العبد من ربہ وھو ساجد

( بندہ اپنے پروردگارسے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے ۔)فرد و معاشرہ کی اصلاح کے لیے نماز از حد ضروری ہے، اسی سے ایک مومن اور کافر میں تمیز ہوتی ہے۔ نماز کی اہمیت کا اندازہ مذکورہ بالا حدیث سے لگایا جاسکتا ہےکہ قیامت کے دن اعمال میں سب سے پہلے نماز ہی سے متعلق سوال ہوگا ۔نماز کی ادائیگی ، اور اس کی اہمیت و فضیلت اس قدر اہم ہےکہ سفر وحضر اور میدان جنگ اور بیماری میں نماز ادا کرنا ضروری ہے ۔مذکورہ بالا حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ فرائض کے علاوہ کثرت سے نوافل کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔
احادیث مبارکہ میں فرائض کے علاوہ سنن و نوافل کی ترغیب دی گئی ہے ۔
جن نمازوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہتمام کے ساتھ ادا فرمایا انھیںسنت مؤکدہ کہا جاتا ہے ۔ان کی اہمیت کے لیےیہی بات کافی ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سنتوں کو نہایت اہتمام کے ساتھ ادا فرماتے تھے ۔
سنت مؤکدہ کے تعلق سے آپﷺ کا فرمان ہےکہ جس نے دن ا ور رات میں بارہ رکعت نماز پڑھی، اس کےلیے جنت میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے۔ ظہر کی فرض سے پہلے چار رکعت اور ظہر کی فرض کے بعد دو رکعت ،
مغرب کے بعددو رکعت، اور عشاء کے بعد دورکعت ، فجر کی نماز سے پہلے دو رکعت۔(سنن ترمذی)
اللہ کے رسولﷺ فرض نماز کے علاوہ کثرت سے نوافل کا بھی اہتمام کرتے تھے ۔اور قیام اللیل (تہجد)میں اتنا لمبا قیام کرتے تھےکہ آپ کےپاؤں میں ورم آجاتے تھے ۔
ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ اے اللہ کے رسول آپ اتنا لمبا قیام کیوں کرتے ہیں حالانکہ اللہ نے آپ کی اگلی پچھلی خطائیں معاف فرمادی ہیں تو آپﷺنے فرمایا:یا میں ا للہ کا مزید شکر گزار بندہ نہ بنوں؟(بخاری)
نفل نماز اللہ کے قرب کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ حدیث قدسی میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میرا بندہ جس قدر فرائض کی ادائیگی کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان سے زیادہ کسی اور چیزکے ذریعے حاصل نہیں کرسکتا ۔اور بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتاہےیہاںتک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں ،پھر وہ مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو میں اسے عطا کرتا ہوں اور اگر وہ دعا مانگتا ہےتو میں اسے قبول کرتا ہوں ۔(مسنداحمد: 26193)
ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اپنےروزوشب کے معمول میں نوافل کا اہتمام کریں ۔کوشش یہ رہے کہ ناغہ نہ ہونے پائے ۔اس لیے چند دن نفل نماز کی کثرت کرکے ہمت ہار جانے سے بہتر ہےکہ اتنی مقدار میں نوافل کا معمول بنایا جائے، جس پر ہمیشگی کی جاسکے ۔اسے سہولت کے ساتھ معمول بنایا جاسکے ۔
عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی ہو اگرچہ وہ مقدار میں کم ہو اورفرمایا کہ اتنے نفلی اعمال کی پابندی کرو جس کی ادائیگی کی طاقت رکھتےہو ۔(صحیح بخاری: 6465)
فرض نماز باجماعت پڑھنے کی تلقین کی گئی اور جماعت کے ثواب اور فضیلت احادیث میں تفصیل سے بیان کیے گئے لیکن نفل نماز کو گھر میں پڑھنے کی تلقین کی گئی ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب تم میں سے کوئی مسجدمیں نماز کی ادائیگی کرے تو اسے چاہیے کہ اپنے گھر کے لیے نماز میں کچھ حصہ بچا رکھے ،اللہ عزوجل اس نماز کے سبب اس کے گھر میں خیر و برکت عطا فرمائےگا ۔
دین اسلام میں نفل نماز کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے ۔یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ شریعت نے ہر نیک عمل کی ایک خاص حیثیت مقرر فرمائی ہے۔اس عمل کو اس کی مقرر کردہ حیثیت سے آگے بڑھانا غیر شرعی بات ہے،اور اسکو اس حیثیت سے نیچے گرانا بھی غیر شرعی ہے ۔ اس لیے ہر نیک عمل کو اسی کی حیثیت اور درجے پر رکھتے ہوئے عمل کرنا چاہیے اور اسی حیثیت کے ساتھ اس کی ترغیب دینی چاہیے ۔اس کی مثال یہ ہےکہ اگر کوئی عمل مستحب ہے تو مستحب کے معنی یہ ہوا کرتے ہیں کہ اس کو کرنے میں ثواب ہے اور اس کو نہ کرنے میں گناہ نہیں ۔گویا یہ کہ اس کاچھوڑنا جائز ہے۔ اب اگر کوئی شخص اسی مستحب عمل کو ضروری سمجھنا شروع کردے تو ظاہرہے یہ دین میں اپنی طرف سے زیادتی ہوگی ،کیونکہ جس عمل کو شریعت نے ضروری قرار نہیں دیا، ہم اس کو اپنی طرف سے کس بنیادپہ ضروری قرار دے سکتے ہیں؟
اس لیے مستحب عمل کو ضروری سمجھنا اور نہ کرنے والوں کو ملامت کرنا شریعت کے خلاف ہے ۔ اور ایک مستحب کام کو اس کی حیثیت سے آگے بڑھانا ہے۔خلاصہ یہ کہ نفل نماز کی اپنی ذات میں بڑی اہمیت ہے۔جو قیامت کے روزفرائض کی کمی کو پورا بھی کرے گی ۔ جس کاتقاضایہ ہےکہ ہر مومن کو چاہیےکہ اس کے معمولات میں نفل نماز کا غیر معمولی حصہ ہو ۔
لیکن اس کو فرض پر مقدم نہ کیا جائے اور نہ اس کو ضروری سمجھا جائے، اور نہ ہی نفل نہ پڑھنے والوں کو ملامت کی جائے ۔اس لیے افراط و تفریط سے بچتے ہوئے نفل نمازوں کا اہتما م ہونا چاہیے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

1 Comment

  1. Musarrat Jahan

    تبصرہM

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۳