جون ۲۰۲۳

زمرہ کیس اسٹڈی کے تحت رفیعہ نوشین صاحبہ کا پیش کردہ عنوان :’’پاکیزگی کی آڑ میں‘‘کو جب بغور پڑھا تو سب سے پہلا نکتہ ذہن میں جو آیا، وہ یہ تھا کہ اگر ایک انسان کسی کی نظافت سے متاثر ہوکر اس کی جانب راغب ہوتا ہے تو یہ تو ایک بہت ہی پسندیدہ عمل ہے، لیکن ساتھ ہی دوسرا نکتہ یہ بھی تھا کہ ایک انسان جو اپنا جسم تو صاف رکھتا ہو، لیکن عقیدہ اس کا گدلا ہو، اعتقادات میں میل کچیل ہو تو جسم کی صفائی بظاہر تو اس کو خوبصورت دکھائے گی ،لیکن’’عقیدے‘‘ میں خرابی وہ بنیادی شے ہے جس سے اس انسان کے اطراف لوگ ٹھہرنا پسند نہیں کرتے۔

زیر نظر کیس میں اغلب کو متعدد دفعہ اس کی اہلیہ کی جانب سے توجہ دلانے کے بعد بھی اپنے رویے کو درست نہ کرنا ایک المیہ ہے، انسان فطرتاً خوش مزاج و نظیف واقع ہوا ہے۔ کچھ لوگوں کی طبیعت میں سستی، کاہلی غالب آجاتی ہے، جس کی وجہ سے اس کے اطراف واکناف میں رہنے والے لوگ مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔اغلب کی اس سستی سے تنگ آکر اس کی بیوی کو دوٹوک انداز میں اس سے بات کرنا زیادہ مناسب عمل تھا، لیکن اس نے وہ قدم اٹھایا جس نے اس کو معاشرے کی نظر میں اور رذیل ترین بنادیا۔

اصل بات یہ ہے کہ ہم مسلمانوں نے دین کو محض چند عبادات کا مجموعہ بناکر رکھ دیا ہے۔کچھ فرائض ادا کرلیں، شادی بیاہ اور میت پرکچھ احکام کو روبہ عمل لےآئیں تو ہم نے سمجھ لیاگویاہم مکمل اسلام پرعمل پیرا ہیں ۔دین تو عبادت بھی ہے دین تو معیشت بھی ، معاشیات، سیاست، عائلی قوانین بھی ہے۔ایک مکمل نظام زندگی ہے۔

جنت کی خوشیاں دینا، جہنم کی وعیدوں سے خوف دلانا مقدم ہے، لیکن ایک انسان کو دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کو اسلامی قوانین کے مطابق برتنا سکھانا بہت اہم ہے۔

یہ دینی جماعتوں اور مدارس کی اولین ذمہ داری ہے کہ اس کے متعلق لوگوں کو بیدار کریں، اور عملی سطح پر کچھ اسپیشل کورسزمتعارف کروائیں جہاں ان کو اس بات کی تعلیم دی جائے کہ لوگوں کے درمیان ان کا Conduct کیسا ہو ، گاہےبگاہے مختلف موقعوں ومرحلوں پہ اسکی تربیت ہوتی رہے۔

دین کو مکمل نظام زندگی کے طور پہ پیش کیا جائے ۔صفائی ستھرائی کے متعلق پروگرامس میں ، مہمات کے تحت بات کرتے ہوئے انسانی رویوں کو درست کیا جائے، ذہن سازی کی جائے۔پاکیزگی نفس جہاں بہت ضروری ہے وہیں پاکیزگی جسم کی افادیت پہ لوگوں کو motivate کیا جائےکہ ایک صاف ستھرا مومن اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، کیونکہ خود اللہ تعالی جمیل ہے۔

آخری بات یہ کہ مرد ہو یا عورت جب وہ ایک بندھن میں باندھ دیے گئے ہوں تو دونوں کو ایک دوسرے کے لیےاپنی کچھ عادتوں کو تبدیل کرنے کی خو ڈالنی چاہیے، تاکہ وہ اچھے انداز میں ساتھ زندگی بسر کرسکیں اور اپنى Companionship کا لطف اٹھائیں۔ساتھ ہی یہ بات بھی بڑی قابل غور ہے کہ رویے کو بہتر کرنے کی ایک مستقل کوشش کرنے کے بعد بھی ناکامی اگر ہاتھ آئے توکوئی غیر مسلم اسلام قبول کرکے دائرہ ٔدین میں داخل ہونا چاہے، اور آپ اس کو اپنانا بھی چاہیں تو صحیح طریقے سے علیحدگی ہونے کے بعد اپنایا جائے۔یہ طرز عمل موزوں ہے،اور شوہروں پربھی یہ لازم آتا ہے کہ کفالت کی ذمہ داریاں بحسن و خوبی ادا کریں۔ کسی ناگہانی صورت حال میں کسی کے سپرد کرنا پڑجائے تو مسلسل خبرگیری کرتے رہیں اور اپنے خاندانی ادارے کو مستحکم بنائیں۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۳