جون ۲۰۲۳

نوخيز پودے کو پروان چڑھانے ميں يوں تو زمين ،پاني، ہوا،کھاد اور ديگر چيزيں مددگار ہوتي ہيں، ليکن اصل کردار مالي کا ہوتا ہے ، جو ہر وقت اس کي نگہداشت کرتا ہے،اسے کھاد پاني فراہم کرتا ہے اوراس کے ارد گرد جھاڑ جھنکاڑ صاف کرکے اسے پروان چڑھنے کے ليے پاکيزہ ماحول فراہم کرتا ہے۔ ٹھيک اسي طرح بچوں کي شخصيت پر مختلف عوامل اثر انداز ہوتے ہيں۔ اس کي تشکيل ميں ماں باپ ،گھر، خاندان، پڑوس ،دوست احباب، سہيلياں، مکتب، اسکول،ارد گرد کا ماحول ؛سب کا حصہ ہوتا ہے،ليکن سب سے اہم کردار ماں باپ نبھاتے ہيں، جو ان کي صحيح خطوط پرپرورش اور نگہداشت کرتے ہيں،انہيں صاف ستھرا اور پاکيزہ ماحول فراہم کرتے ہيںاورانھيںمکروہاتِ زمانہ سے بچاتے ہيں۔

 بچوں کي تربيت کے معاملے ميں ماں باپ کي مثال گاڑي کے دو پہيوں کي سي ہے۔ اگر دونوں صحيح طريقے سے کام کريں تبھي زندگي کي گاڑي ہموار راستے پر کاميابي کے ساتھ سفر کرکے منزل تک پہنچ سکتي ہے۔ اگر کسي ايک کي طرف سے کوتاہي ہو تو بچوں کي تربيت صحيح خطوط پر نہيں ہوسکتي ۔ چھوٹے بچوں کي تربيت عموماً ماں کي ذمے داري سمجھي جاتي ہے۔ اس ليے کہ پيدائش کے بعد سے کافي عرصے تک بچے زيادہ وقت ماں کے ساتھ گزارتے ہيں، جب کہ باپ کا زيادہ وقت گھر سے باہر روزي کمانے اور سماجي کام انجام دينے ميں گزرتا ہے ۔ اس کے باوجود ان کي تربيت ميں باپ کے کردار کو نظر انداز نہيں کيا جا سکتا۔ بچوں کي تربيت ميںماں اور باپ دونوں کا کردار اہميت رکھتا ہے۔الگ الگ پہلوؤں سے دونوں کي خدمات مثالي ، اہم اور کليدي ہيں۔ اگر ايک طرف ماں کي اہميت کو کم نہيں کياجا سکتا تو دوسري طرف باپ کي اہميت کو بھي نظر انداز کرنا ممکن نہيں ہے۔

بچوں کے سلسلے ميں باپ پرکيا ذمے دارياں عائد ہوتي ہيں اور اسے کيا کردار انجام دينا چاہيے؟اس تعلق سے آئندہ سطور ميں چند نکات پيش کيے جا رہے ہیں:

(1) نیک’ ماں‘ کا انتخاب

اولاد کے نیک اور دین دار ہونے کی صرف خواہش رکھنا کافی نہیں ہے ، بلکہ اس کے لیے عملی اقدام کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کا آغاز اسی وقت ہونا چاہیے جب کوئی نوجوان نکاح کا ارادہ کرے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
’’عورت سے نکاح کیا جاتا ہے، اس کے مال دار ہونے کی وجہ سے، اس کی خوب صورتی کی وجہ سے، اس کے حسب و نسب کی وجہ سے اور اس کی دین داری کی وجہ سے۔ تم دین دار عورت کا انتخاب کرو ۔‘‘
( بخاری : 5090،مسلم: 1466 )
اس حدیث میں دوسری صفات کو پیش نظر رکھنے کی نفی نہیں کی گئی ہے ، بلکہ دین داری کو ترجیح دینے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ماں بچے کی پہلی تعلیم گاہ ہوتی ہے۔ عورت میں دیگر صفات بدرجۂ اتم پائی جائیں،لیکن دین داری نہ ہو، یا معیار ِ مطلوب سے کم ہو تو بچوں کی درست طریقے سے تربیت نہیں ہوسکتی ۔

(2) اللہ تعالیٰ سے دعا کااہتمام

انسانی زندگی میں دعا کی بہت اہمیت ہے۔ اس کے ذریعے انسان کی اپنی شدید خواہش اور تمنّاکا اظہار ہوتا ہے ،اور اللہ تعالیٰ کے ذریعے اس کی مقبولیت کی امید ہوتی ہے۔ اہل ِ ایمان کو سکھایا گیا ہے کہ وہ دنیا اور آخرت کے معاملات میں سے جس چیز کی چاہیں ،دعا کریں۔ وہ اپنے لیے دعا کریں اور اپنے قریبی متعلقین کے لیے بھی۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے اولاد کے لیے دعا کی تلقین کی ہے اور بارگاہ ِ الٰہی میں اس کے مقبول ہونے کی توقع ظاہر کی ہے۔آپ کا ارشاد ہے:
’’ تین لوگوں کی دعائیں یقینی طور پر رد نہیں کی جاتیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور باپ کی دعا اپنی اولاد کے لیے۔‘‘(ابن ماجہ: 3862)
اہلِ ایمان کو یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے۔قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت یعقوبؑ، حضرت زکریاؑ اور دیگر پیغمبروں کی دعائیں اپنی اولاد کے لیے مذکور ہیں۔

(3) حلال روزی کی فراہمی

اگر بچوں کو نیک بنانے کی خواہش ہے تو ان کے لیے حلال روزی فراہم کرنے کا اہتمام کریں۔ اسلامی نظام ِ معاشرت میںکمانے کی ذمے داری باپ پر ڈالی گئی ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کماکر لائے ، تاکہ اس کے بیوی بچے آرام دہ اور پُر تعیّش زندگی گزار سکیں۔ اس کوشش میں بسا اوقات وہ حلال اور حرام کے درمیان تمیز نہیں کر پاتا۔ حرام کھانے کے بعد کسی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی۔ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ ایک مسافر غبار آلود،پراگندہ حال،آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے ،ہاتھ اٹھاکر، دعائیں کرتا ہے:اے میرے رب! اے میرے رب! لیکن اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام۔ پھر اس کی دعا کیوں کر قبول ہوسکتی ہے؟!‘‘( مسلم: 1015 )

(4) بیوی سے خوش گوار تعلقات رکھنے کی کوشش

بچوں کی صحیح نہج اورعمدہ خطوط پر تربیت کے لیے ضروری ہے کہ گھر کا ماحول پُرسکون اور خوش گوار ہو۔ مرد کے تعلقات تمام اہل ِ خانہ ، خاص طور پر بیوی سے خوش گوار ہوں۔ زوجین کے درمیان الفت و محبت ہو اور دونوں مل کر بچوں کی پرورش کریں۔اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:
’’تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہوں۔‘‘
(ترمذی : 3895 )
جن گھروں میں ماں باپ کے درمیان تکرار ، لڑائی جھگڑا، گالم گلوج اور مارپیٹ ہوتی رہتی ہے ان میں بچوں پر بہت بُرے اور بھیانک اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ زوجین خود اپنا سکون غارت کرتے ہیں ۔ ہمہ وقت ذہنی اذیّت میں مبتلا رہتے ہیں۔ بچوں کی طرف پوری توجہ نہیں دے پاتے ۔اس کے نتیجے میں بچے خود رَو پودوں کے مثل بڑھتے ہیں۔ان میں چِڑچِڑا پن پیدا ہوجاتا ہے اور ان کا وجود گھر ،محلے اور سماج کے لیے وبال ِ جان بن جاتا ہے۔

(5) بچوں کےلیے کچھ وقت فارغ کرنا

باپ کے لیے مناسب نہیں کہ وہ خود کو گھر سے باہر اس قدر مصروف رکھے کہ بچے اس کی صورت دیکھنے اور اس سے بات کرنے کو ترس جائیں۔ وہ گھر سے اس وقت نکل جائے جب بچے ابھی سو رہے ہوں، اور دیر رات اس وقت گھر آئے جب وہ سو چکے ہوں۔ اسے چاہیے کہ وہ روزانہ کچھ وقت اور ہفتے میں چھٹی کے دن زیادہ وقت بچوں کے ساتھ گزارے۔ بہت سے باپ گھر میں رہتے ہوئے بھی بچوں پر دھیان نہیں دیتے، اور انھیں ماں کے حوالے کیے رہتے ہیں۔یہ درست رویّہ نہیں ہے۔ضروری ہے کہ باپ بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزارے اور اس وقت بچوں کی خواہش کے مطابق کام کرے۔انھیں گود میں لے، ان سے پیار کرے،ان سے میٹھی میٹھی باتیں کرے، انہیں قصّے کہانیاں اور لطیفے سنائے، ان کے ساتھ کھیلے۔
خلاصہ یہ کہ وہ بچوں کے ساتھ خود بھی بچہ بن جائے۔ یہ رویّہ بچوں کو اس سے قریب کردے گا اور وہ اس سے بہت مانوس ہوجائیں گے۔اگر باپ بچوں کو وقت نہ دے تو اس کا نقصان یہ ہوگا کہ وہ صرف ماں کے رابطے میں رہیں گے اور باپ کو نظر انداز کردیںگے۔ اس کا بھی امکان ہے کہ وہ محلے کے بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے لگیں اور ان سے بُری عادتیں سیکھ لیں۔جن گھروں میں باپ اپنے بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزارتے ہیں ان میں بچے پُراعتماد ہوتے ہیں، ذہنی مسائل کا کم شکار ہوتے ہیںاور پڑھنے لکھنے اور سماجی رویّوں میں بہتر ہوتے ہیں۔
سیرت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اپنے نواسوں،نواسیوں، اپنی ازواج کے بچوں اور دیگر بچوں کے ساتھ بہت پیار و محبت کا معاملہ کرتے تھے۔ آپ ان کا بوسہ لیتے، انھیںگود میں اٹھا لیتے،اپنے کندھے پر بٹھا لیتے،بیٹھے ہوتے تو انھیںاپنی چادر میں سمیٹ لیتے ،ان کے لیے گھوڑا بن جاتے اور وہ آپ کی پیٹھ پر سواری کرتے ۔ان کے ساتھ کھیلتے ، ان کے کھلونوں کی تعریف کرتے۔ ایک موقع پر ایک صحابیؓ نے آپ ؐ کو کسی بچے کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا تو کہا:
’’ میرے دس بچے ہیں۔ میں نے کبھی ان میں سے کسی کا بوسہ نہیں لیا۔‘‘آپﷺ نے فرمایا:’’ اگر اللہ نے تمہارے دل سے محبت و شفقت نکال دی ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔‘‘(بخاری: 5998 )

(6)بچوں کے لیے مزاج میں نرمی اور شفقت رکھنا

یہ خیال درست نہیں کہ بچوں کی بہتر تربیت کے لیے باپ کو سخت ہونا چاہیے اور بچوں سے محبت کا کم اظہار کرنا چاہیے، یا ان کے ساتھ گھل مل کر نہیں رہنا چاہیے ۔عموماً بچوں کے ذہنوں میں باپ کی تصویر ایسی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ اس سے ڈریں اور خوف کھائیں۔ بہت سے لوگوں کا رویّہ اپنے بچوں کے ساتھ واقعی اسی طرح کا ہوتا ہے۔ باپ جب تک گھر سے باہر رہے ، بچے اطمینان محسوس کرتے ہیںا ور خوش و خرّم رہتے ہیں۔ جوں ہی وہ گھر میں داخل ہوا ، بچے ایک کونے میں دُبک جاتے ہیں، گھر میں سنّاٹا چھا جاتا ہے اور سب کے چہروں پر ہوائیاں اُڑنے لگتی ہیں۔یہ صورت حال بچوں کی تربیت کے لیے درست نہیں ہے۔ باپ کو بچوں کے لیے نرم مزاج اور شفیق ہونا چاہیے۔ تبھی وہ اس سے مانوس ہوں گے اور اپنے معاملات و مسائل پر اس سے کھل کر گفتگو کر سکیں گے۔ اگر باپ کے مزاج میں سختی اور درشتی ہوگی تو بچے اس سے دوٗر رہیں گے اور اس کے لیے اجنبی بنے رہیں گے۔اس کے بجائے وہ اپنے لیے دوسرے ہم دم و ہم راز تلاش کرلیں گے ، جو ممکن ہے،اچھے کردار کے حامل نہ ہوں ، چنانچہ اسے غلط راہوں پر ڈال دیں۔

(7) سایہ دار درخت بناجائے

سایہ دار درخت خود تو شدیددھوپ میں کھڑا رہتا ہے ، لیکن دوسروں کو سایہ فراہم کرتا ہے۔وہ مختلف موسموں میں گرمی ، سردی ،بارش برداشت کرتا ہے، لیکن دوسرے اس سے راحت اور سکون حاصل کرتے ہیں۔ باپ کو بھی اپنے اہل ِ خانہ کے درمیان یہی کردار ادا کرنا چاہیے ۔ وہ گھر کا محافظ اور نگراں ہوتا ہے۔ گھر میں اس کی موجودگی اس کے بیوی بچوں کوتحفّظ کا احساس دلانے والی ہو۔یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب وہ گھر کے معاملات میں دل چسپی لے۔اہل خانہ سے ان کے حالات دریافت کرے۔ وہ اگر کسی الجھن میںمبتلا ہوں تو پوری توجہ سے ان کی بات سنے اور اسے حل کرنے میں ان کی مدد کرے۔کوئی پریشانی دوٗر نہ بھی ہو پائے تو انھیںیہ احساس رہے گا کہ انھیں ایک مضبوط سہارا حاصل ہے۔

(8) جدید ٹکنالوجی سے واقفیت

آج کل موبائل ایک بہت بڑے فتنے کی صورت میں ہمارے سامنے آیا ہے۔اس کے بہت سے فائدے ہیں ، لیکن ساتھ ہی اس کے نقصانات بھی کم نہیں ہیں۔ خاص طور سے بچوں کے لیے اس کی خطرناکی بڑھ کر ہے۔ ملٹی میڈیا والے موبائل میں عریانی ، فحاشی اور بے حیائی کا سیلاب موجزن ہے۔ چھوٹے بچے ، جو کچے ذہن کے ہوتے ہیں، بہت آسانی سے اس کی گرفت میں آجاتے ہیں۔ بچوں کو موبائل سے بالکلیہ دوٗر رکھنا آج کے دور میں ناممکن نظر آتا ہے ، لیکن اس پر کسی قدر پابندی ضرور عائد کی جا سکتی ہے ۔ بچوں کے لیے موبائل استعمال کرنے کا ایک وقت مقرر کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے والدین ، خصوصاًباپ کو جدید ٹکنالوجی سے کسی قدر واقف ہونا بہت ضروری ہے۔ وہ نگرانی رکھے کہ بچے موبائل بہت زیادہ نہ دیکھیں۔ وہ موبائل میں کیا دیکھ رہے ہیں؟ اس سے بھی آگاہ رہے۔ بہت سے دینی ،اخلاقی اور معلوماتی ایپس اور چینلس ہیں ، ان میں بچوں کی دل چسپی پیدا کرے۔ لازم ہے کہ باپ ضروری حد تک جدید ٹکنالوجی سے اپ ڈیٹ رہے ، تاکہ بچے اسے بے خبر پاکر من مانیاں نہ کرسکیں۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

audio link
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۳