أكتوبر ۲۰۲۳

آنکھوں کو آنکھ یا چشم کے علاوہ دوسرے لفاظ سے بھی جاناجاتا ہے ۔جیسے : نگاہ ، بینائی ، بصارت ، نظر ،دید، وغیرہ ۔آنکھیں دنیا کے تقریباً تمام
مخلوقات کے پاس ہوتی ہیں ،لیکن کیچوے بیچارے بصارت سے محروم ہیں ۔ آنکھیں انسان کی ناک کی دونوںجانب بالکل اوپری حصے پر ہوتی ہیں ۔ تمام جانداروں کی آنکھیں دو ہوتی ہیں۔ آنکھوں کے ذریعے ہم ہر چیز کو دیکھ پاتے ہیں ،یہ ہمیں بصارت فراہم کرتی ہیں ۔
سائنسی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے توجب روشنی ریٹینا سے ٹکراتی ہے (آنکھ کے پچھلے حصے میں ٹشو کی ایک ہلکی حساس تہہ)، خصوصی خلیے جنہیں فوٹو ریسیپٹرز کہتے ہیں، روشنی کو برقی سگنلز میں بدل دیتے ہیں۔ یہ برقی سگنل ریٹینا سے آپٹک اعصاب کے ذریعے دماغ تک سفر کرتے ہیں،پھر دماغ سگنلز کو ان تصاویر میں بدل دیتا ہے جو آپ دیکھتے ہیں۔
آنکھوں کا حلیہ بیان کیا جائے تو آنکھیں ایک معصوم شخصیت ہوتی ہیں ، آنکھوں پر پلکیں ہوتی ہیں، پلکوں سے مراد آنکھوں کے اوپر اور نیچے دونوں جانب چھوٹے چھوٹے بال ہوتے ہیں، اوپری حصے پر بھنویں ہوتی ہیں ،وہبھی بالوں کی ہلکی سی لکیر کی مانند ہوتی ہیں ۔
آنکھیں بہت سی قسم کی ہوتی ہیں ، جیسے: چھوٹی آنکھیں ، بڑی آنکھیں ، ان میں بھوری آنکھیں اور گھارولی، لمبی اور موٹی آنکھیں وغیرہ ۔اسی کے ساتھ ساتھ غزال آنکھیں ، معصوم آنکھیں ، طوفان آنکھیں ،ان جان آنکھیں ،
بےتاب آنکھیں، مظلوم آنکھیں ، سیاہ آنکھیں ،روشن آنکھیں ، خاموش آنکھیں،بھیگی آنکھیں ، رسوا آنکھیں ،تلوار آنکھیں ،کمال آنکھیں ،جلال آنکھیں ، مثال آنکھیں ، خواب آنکھیں ، سوال آنکھیں ،تلاش آنکھیں ،
اس کے علاوہ آنکھ قاتل ،آنکھ دشمن ،آنکھ نم ،آنکھ اور نظر ،آنکھ اور بصر ،
آنکھ نظر،آنکھ کی فکر ،آنکھ کی جھلک، آنکھ کی ہوس،آنکھ کی حیا ،آنکھ کی وفا ،آنکھ کی سزا ،آنکھ کی ندا ،آنکھ کی قفس، آنکھ کی بینائی ،آنکھ کی نمی ، آنکھ کی ٹھنڈک،آنکھ کی مستی ،آنکھ کی پتلی،، آنکھ کی عینک ،آنکھ کی کمی ،آنکھ کے اندھیرے ،آنکھ کے عاشق ،آنکھ کے آنسو ،آنکھ کے موتی ،آنکھ کے اشک،آنکھ کے موتی ،آنکھ کے میک اپ ،آنکھ کے پردے ، آنکھ کے تارے ، آنکھ کے پیارے ،آنکھ کا نور ،آنکھ کا ادب ،آنکھ کا خواب ،آنکھ کا خیال ،
آنکھ کا جلال،آنکھ کا کمال،آنکھ کا احتساب ،آنکھ کا نور ، آنکھ کا چین ، آنکھ کا قمر ، آنکھ کا چاند ۔
نظر بھی آنکھ کا متبادل ہوتا ہے ، جیسے :شکستہ نظر ، معصوم نظر ،نیچی نظر ،
کمزور نظر ، کنواری نظر،شکستہ نظر ، بری نظر ، قریب نظر ،بعید نظر، نظر سے یارانہ ، نظر سے کاٹنا ، نظر سے نظر ملانا ، نظر لگنا ، نظر کی کمی ،نظر کی آگ وغیرہ۔آنکھیں صرف دیکھتی نہیں بلکہ ، بولتی ہیں ،
کبھی اشارۃً ، کبھی غصیلے لہجے میں ،کبھی محبت سے،کبھی ہوس ، کبھی ان آنکھوں کی نمی سے دکھ درد اور غم بولتے ہیں تو کبھی یہی آنکھوں سے خواب اور امید کی کرنیں دکھائی دیتی ہیں ،کبھی آنکھوں میں کامیابی کی چمک ہوتی ہے تو کبھی یہ شکستہ حال نظر آتی ہیں ،کبھی غصہ کی چادر اوڑھ کر محبت اور پیار کا اظہار کرتی ہیں تو کبھی ان ہی آنسوؤں کے بہتے موتیوں کو سمیٹنا مشکل ہوتا ہے ۔یہ درد کا احساس دلاتی ہیں ، یہ خواب دکھاتی ہیں ،یہ عقاب سے ملاتی ہیں۔
آنکھوں کی اہمیت کا اندازہ لگاتے ہوئے بہت سے محاورے کہے گئے،جیسے: آنکھ بچانا،آنکھ چرانا، آنکھ پھڑکنا، آنکھ بدلنا،آنکھیں مٹکانا،آنکھوں کا تارا ہونا وغیرہ۔یہی آنکھیں ہیں تو خواب ہیں ،انکھیں ہیں تو بینائی ہے ۔ آنکھوں سے مشاہدہ،آنکھوں سے بصیرت ہے، آنکھوں سے توجہ ہےاور آنکھوں کا اپنا ہی لہجہ ہے۔ یہی آنکھیں ہیں جو نابینا کا درد سمجھ سکتی ہیں، آنکھوں سے ادب کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، کسی استاد ، والدین، مولانا اور بزرگ کے سامنے مخاطب نے نگاہ نیچی رکھی تھی یا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بے ادبی کی مثال قائم کی تھی۔
آنکھیں بہت حسین احساس ہوتی ہیں ، ان میں کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں حسین احساس کے بجائے خوف و دہشت کا خطرہ ہوتا ہے، جن کے اندرجنات وشیاطین کو دیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔
آنکھوں کی اہمیت کا اندازہ لگاتے ہوئے شعراء حضرات بھی اپنے قلم کو روک نہیں پائے ، اور وہی عاشق ،عشق اور محبت کے فلسفے کو اشعار کے ذریعے بیان کیا :

ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن
زباں میں آنکھ نہیں آنکھ میں زبان نہیں

( جگر مراد آبادی )

کبھی کبھی تو چھلک پڑتی ہیں یوں ہی آنکھیں
اداس ہونے کا کوئی سبب نہیں ہوتا

( بشیر بدر)

دیکھی ہیں بڑے غور سے میں نے وہ نگاہیں
آنکھوں میں مروت کا کہیں نام نہیں ہے
آنکھ قاتل لب قاتل ترا تل تک قاتل
ایک میری جان کے لیے سینکڑوں قاتل
قاتل آئینہ ہے کہ آئینے کے مقابل
قاتل مجھ کو ڈر ہے کہیں لڑ جائیں نہ قاتل قاتل

 ساتھ ہی آنکھ سے متعلق انقلابی اشعار بھی کہے گئے ۔آنکھیں طلب گار اور امید بھری بھی ہوتی ہیں ، تمام مسلمانوں کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی گنہ گار آنکھوں کو گنبدِ خضریٰ اور کعبہ شریف کا دیدار مقدر ہو ،آمین ۔
علامہ اقبال کہتے ہیں :

رونقیں زندگی کی بہت دیکھ لیں
اب میں آنکھوں کو اپنی کروں گا بھی کیا؟
اب نہ کچھ دیدنی ہے، نہ کچھ گفتنی
مجھ کو آقا کی بس اک نظر چاہیے

یہ آنکھیں کم نظری کا شکار ہوجائیں تو آنکھوں پر قریب اوردور کی عینک لگ جاتی ہے ، اور یہی عینک ان آنکھوں کا سہارا ہوتی ہے۔یہ آنکھیں بے وفا بھی ہوتی ہیں ، بے حیا بھی ہوتی ہیں ، بے مروت اور بے کار بھی ہوتی ہیں ۔ آنکھیں ہمیشہ سچ نہیں دیکھ پاتیں ،آنکھیں مجرم ہوتی ہیں ،اور پھر رب العالمین سے جرم کا اور گناہوں کا اقرار کرنے کے بعد ، یہی آنکھیں شرمندہ بھی ہوتی ہیں ۔آنکھیں بند کریں تو اندھیرے چھا جاتے ہیں ، لیکن وہیں خیال اور خواب ہمیں رنگین گلستان میں پہنچا دیتے ہیں،اور یہی آنکھیں مکمل نیند کی آغوش میں چلی جائیں تو موت کہلاتی ہیں ۔ یہی آنکھیں آج آشوبِ چشم میں مبتلا ہوگئی ہیں ،اور تکلیف کا باعث بنی ہوئی ہیں ،اور یہی معتبر آنکھیں جن کے ذریعے آپ نے میرے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو پڑھ کر عزت بخشی ، ناچیز ایمن فردوس کی نرگسی آنکھیں آپ کی مشکور ہیں !

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے