أكتوبر ۲۰۲۳

 بچوں کی تربیت کرتے ہوئے ان کی ذہانت اور ذہنی نشوونما کا خیال رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے، بچے کی اصل شخصیت اس سے ابھر کر سامنے آتی ہے۔ ہر بچہ کسی نہ کسی مخصوص صلاحیت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے یہ پوٹینشیل کی صورت اس کے اندر موجود ہوتا ہے، اس پوٹینشیل نامی ذہانت کو بروئے کار لانا والدین کی ذمہ داری میں شامل ہوتا ہے،کیونکہ بچے کا ذہن ناپختہ ہوتا ہے، اس لیےوہ اس کے استعمال کی اہمیت اور اس کے طریقوں سے متعلق الجھن اور کنفیوژن کا شکار ہوتا ہے۔ اس الجھن کو ان کی جسمانی حرکات سے بآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے، ہر بچہ پیدائشی طور سے دوسروں سے مختلف ہوتا ہے ،اس لیےیہ ماں باپ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے انفرادی رجحان اور مسائل پہ گہری نظر رکھیں، اس کو مخصوص توقعات کی عینک سے دیکھنے کے بجائے انھیں ویسے ہی دیکھیں جیسے کہ وہ ہیں، اور انھیں وہ بننے دیں جو کہ وہ بننا چاہتے ہیں ۔اس طرح نہ صرف بچے کی ذہنی صلاحیتوں کو صحیح رخ پہ لایا جا سکتا ہے بلکہ مسائل کا بروقت سد باب بھی کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔
چھوٹے بچوں کی ذہنی نشوونما بہت تیزی سے ہو رہی ہوتی ہے ۔اس دوران والدین اور ارد گرد رہنے والے لوگوں کے رویے اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔بچے بالواسطہ اور بلاواسطہ ان سے سیکھتے ہیں ،ان کے رویوں کو دیکھتے ہوئے ان کی طرح خود پیش آنے کی کوشش کرتے ہیں، اس لیے ضروری ہےکہ اسے بچوں کی نفسیات سے متعلق بنیادی باتوں کا علم ہو۔ بچپن میں نہ صرف بچوں کے ذہنی رویوں کی بنیاد پڑتی ہے بلکہ ان کے اندر اعتقاد کی بنیاد بھی یہیں سے پڑتی ہے۔
سائنسی ایجادات کی دنیا میں تھامس ایڈیسن کا نام کسی کے لیے بھی محتاج تعارف نہیں۔ سب سے زیادہ ایجاد و دریافت کا سہرا تھامس ایڈیسن کے سر باندھا جاتا ہے۔ ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ ایسے تاریخی کارنامے انجام دینا اعلیٰ ذہنی صلاحیت کے بغیر ممکن نہیں۔ہم میں سے بیش ترلوگ اس واقعے سے بھی واقف ہوں گے، جس میں اس کے ٹیچر نے اس کے ناقص ذہن کی بات کرتے ہوئے اسے اسکول سے نکال دیا تھا ۔اسی بچے نے آگے چل کر وہ کارنامہ انجام دیا جو کہ اس کی جماعت کے لائق فائق ساتھی بھی نہیں انجام دے سکے ،جس کے بالمقابل اسے رد کیا گیا تھا۔
جنھیں اس واقعے کا علم نہیں ،ان کے لیے اس کا ذکر کر دیتی ہوں۔تھامس ایڈیسن بچپن میں اپنے بخار کے باعث سماعت سے محروم ہو گیا تھا۔ جب وہ چھوٹا تھا، ایک دن وہ اسکول سے آیا۔ ایک سر بہ مہر لفافہ اپنی والدہ کو دیا اور کہا کہ استاد نے آپ کے لیے دیا ہے۔ ماں نے کھول کر پڑھا، اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، پھر اس نے بآواز بلند وہ خط پڑھا:
’’ تمھارا بیٹا ایک جینیئس ہے۔ یہ اسکول اس کے لیے بہت چھوٹا ہے، یہاں زیادہ اچھے استاد نہیں کہ اسے پڑھا سکیں، سو آپ اسے خود ہی پڑھائیں۔‘‘
اس کے بعد اس کو پڑھانے کی ذمہ داری اس کی والدہ نے لے لی۔ سالوں بعد جب تھامس ایڈیسن ایک سائنس دان کے طور پر مشہور ہو گیا ۔اس وقت اس کی والدہ وفات پا چکی تھی۔ وہ خاندان کے پرانے کاغذات میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا کہ اسے وہی خط ملا، اس نے خط کھول کر پڑھا تو وہ کچھ یوں تھا:
’’آپ کا بیٹا انتہائی کند ذہن اور ذہنی طور سے ناکارہ ہے، ہم اب اسے مزید اپنے اسکول میں نہیں رکھ سکتے۔‘‘
اس دن ایڈیسن نے اپنی ڈائری میں لکھا :
’’ تھامس ایلوا ایڈیسن ایک ذہنی ناکارہ بچہ تھا، پر ایک عظیم ماں نے اسے صدی کا سب سے عظیم سائنس دان بنا دیا ۔‘‘
سچ ہے ماں نسلوں کو سنوار دیتی ہے۔ وہ بچہ جو کہ ٹیچرز اور اپنے ہم جماعت طلبہ کے لیےناکارہ اور کند ذہن تھا، ایک ماں کی دور رس نگاہ نے اسے پتھر سے ہیرا بنا دیا۔ اگر خدانخواستہ اس کی ماں ٹیچرز کے کہنے پر اسے مورد الزام ٹھہراتی اور لعن طعن کر کے ماتم کرتی تو دنیا ایک عظیم سائنس داں سے محروم رہ جاتی۔
اس واقعے پر غور کرتے ہوئے سب سے زیادہ جس بات کا شدت کے ساتھ احساس ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ والدین کو بچے کی انفرادی ذہنی صلاحیت کو پروان چڑھانے کی ذمہ داری اساتذہ پہ ڈال کر مطمئن نہیں ہو جانا چاہیے، کیونکہ ایک استاد کے لیےکلاس میں موجود تیس یا اس سے زائد بچوں کی نفسیات کو فی الحقیقت بیک وقت سمجھنا ازحد مشکل ہے، چالیس سے پینتالیس منٹ کے دورانیے کو اگر ان سب میں تقسیم کر دیا جائے تو ہر کسی کے حصے میں صرف چند منٹ ہی آتے ہیں ،اور دوسری بات یہ بھی کہ ضروری نہیں کہ استاد کے اندر وہ صلاحیت ہو جو کہ بچوں کے عمل، ردعمل کے پس پشت کارفرما نفسیات کو سمجھنے میں مدد کر سکے، تیسری اور کڑوی بات یہ بھی ہے کہ اب تدریس مشن سے زیادہ پروفیشن بن چکا ہے، جس میں اساتذہ خود کو محض مخصوص نصاب پڑھانے اور متعینہ ٹائم ان کے ساتھ گزارنے کا خود کو پابند سمجھتے ہیں۔ اس کے بالمقابل والدین (بشرطیکہ وہ باشعور ہوں )کے لیے یہ قدرے آسان ہے کہ وہ اپنے ہر بچے کو انفرادی توجہ دیں اور ان کے رویوں کو سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ معاملہ کریں۔
اگر والدین بچوں کو ایک نعمت کہتے ہیں اور ان کے ہونے سے اپنی زندگی میں مکمل ہونے کے احساس کو محسوس کرتے ہیں ،تو پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اس نعمت کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری بھی قبول کی جائے۔بچے کا ذہن انتہائی نازک ہوتا ہے ،ان کے بچپن میں جو بھی نقش اس پرڈال دیے جائیں وہ اکثر و بیشتر ساری زندگی باقی رہتے ہیں اور اگر مٹانے کی کوشش بھی کی جائے تب بھی نشان تو باقی رہ ہی جاتے ہیں۔ اس لیے شروع سے ہی اس بات کا خیال رکھیں اور ان میں پنپنے والے مسائل کا بروقت سدباب کرنے کے لیے خود کو پیرنٹنگ کے نئے اسکلز سے لیس کرتے رہیں۔ یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ہمہ جہت ذہنی نشوونما کو یقینی بنائیں۔
والدین اکثر تعلیمی کامیابیوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور بچے کی جذباتی، سماجی اور جسمانی بہبود کی پرورش کی اہمیت کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ والدین کو اپنے بچوں کی جذباتی و ذہنی نشوونما کو ترجیح دینی چاہیے۔بچوں کی ہمہ جہت ذہنی نشوونما پر بات کرتے ہوئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ بچے کی فطری ذہنی کارکردگی کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، ہر بچہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے ،کبھی یہ اختلاف بہت معمولی باتوں میں ہوتا ہے، کبھی پوری شخصیت میں اس کو واضح طور سے محسوس کیا جا سکتا ہے، کسی بچے کے عام بچوں سے مختلف ہونے کا قطعا ًیہ مطلب نہیں کہ وہ کم ذہنی استعداد کا حامل ہے۔ کسی بچے سے اس بات کی امید رکھنا کہ وہ ہر پہلو سے پرفیکٹ ہو، تبھی وہ جینیئس کہلائے گا،یہ بہت ہی غلط معیار ہے ،کیونکہ کھلنڈرے مزاج کا بچہ فزکس، میتھس، سائنس میں پرفیکٹ ہو ،یہ اس کے لیےضروری ہے ہی نہیں ،کیو نکہ وہ اسپورٹ مین ہے، اگر زبردستی کسی دوسری فیلڈ میں ڈالنی کی کوشش کی جائے گی تو وہ دو کشتی میں سوار کی طرح بن کر رہ جائے گا، جس کا کوئی یقینی مستقبل نہیں۔
اگر کوئی بچہ کسی ضروری معاملے میں سیکھنے کے حوالے سے سست روی کا شکار ہے ،تو مسلسل کوشش سے اس کے اندر واضح طور پردکھائی دینے والی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔میں یہاں پر ایک ایسی خاتون کا ذکر کرنا چاہتی ہوں جو اپنے بچے کی ذہنی نشوونما کے حوالے سے کافی پریشان تھیں ۔وہ کہتی ہیں کہ میں ڈاکٹر شفالی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ بہت مہربانی اور شفقت کے ساتھ مجھ سے پیش آ رہی تھیں۔ میں عجیب سی گھبراہٹ محسوس کر رہی تھی ،کیونکہ اس وقت میں اپنے بیٹے کے ساتھ ان کے کلینک آئی ہوئی تھی ۔میرا بیٹا جو کچھ عرصے سے اپنی ذہنی نشوونما کے ساتھ جدوجہد کر رہا تھا، اور میں یہ سننے کے لیے بے تاب تھی کہ ڈاکٹر شفالی اس کی ذہنی نشوونما کے بارے میں کیا کہتی ہیں۔ ٹیسٹ کے نتائج کا بغور جائزہ لینے اور میرے بیٹے کے ساتھ طویل بات چیت کرنے کے بعد، ڈاکٹر شفالی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف متوجہ ہوئیں ،اور کہا کہ آپ کے بیٹے کی مجموعی ذہنی نشوونما بہت اچھی ہو رہی ہے،لیکن آپ کے بچے کی شخصیت کے کچھ ایسے پہلو ہیں جن پر اضافی توجہ کی ضرورت ہے، صحیح مدد اور رہنمائی کے ذریعے اس کی صلاحیتوں کو خاطر خواہ انداز میں پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔جیسے جیسے وہ بولتی جا رہی تھیں، میں نے اپنے بوجھل کندھوں کو بہت ہلکا ہوتا محسوس کیا، میں کئی مہینوں سے اس وجہ سے پریشان تھی کہ میرے بیٹا ذہنی سطح پہ ضرور کسی نہ کسی بڑے چیلنج کا شکار ہے ،جس کی وجہ سے وہ عام بچوں سے ہٹ کر برتاؤ کر رہا ہے ،لیکن ڈاکٹر شفالی کے الفاظ نے مجھے یہ سمجھا دیا کہ کہ ہر بچے کا ذہن و شخصیت مختلف طریقے سے نشوونما پاتا ہے۔ ہمارے لیے سب سے اہم بات یہ تھی کہ ہم اپنے بچے کے ساتھ تھے، اس کی ذہنی نشوونما کو لے کر حساس تھے۔اگلے چند ہفتوں میں ہم نے ڈاکٹر شفالی کے ساتھ مل کر اپنے بچے کے لیے ایسے پروگرامزا ور منصوبے بنائے جس سے ہمارے بیٹے کو ان چیلنجز سے نمٹنے اور اس میں بہتری لانے میں مدد ملی۔ اس کی رہنمائی کے ساتھ ہم نے اسے مشغول کرنے کے متعدد طریقے اپنائے، اس کی تخلیقی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کی، اور اس کے اندر سیکھنے کی Urge کو بڑھانے کے نئے طریقے ڈھونڈے۔ پھر ہم نے اس کی شخصیت میں واضح تبدیلی پیدا ہوتے دیکھی اور اب اس کی نشوونما پہلے سے بہت بہتر ہو گئی۔ ڈاکٹر شفالی کی مہارت اور ہمدردی نے ہماری مشکل کو کم کرنے اور کامیابی کو حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر آپ کا بچہ عام بچوں سے مختلف حرکتیں کر رہا ہے تو اسے جبراً حکم کے ذریعے اس سے روکنے اور اپنے مطابق صحیح دکھنے والی سرگرمیوں میں مشغول کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے ان کی نفسیات کو خالی الذہن ہو کر سمجھنے کی کوشش کریں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہو اور وہ اس کو عام طریقے سے ہٹ کر پروجیکٹ کرنا چاہ رہا ہو، یا آپ کا بچہ کسی ذہنی کشمکش اور الجھن کا شکار ہو۔آپ خود اسے سمجھ نہیں پا رہے ہیں تو اس حوالے سے کسی تجربہ کار انسان سے بات کر لینی چاہیے،کیونکہ جہاں تک ممکن ہو سکے غلطی کے امکان کو کم سے کم رکھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے اور بروقت مسائل کو بھانپ کر اس کا مداوا کرنے کی بھی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔
ہر والدین بچوں کی نشوونما اور ان کے اندر اچھےعادات و اطوار پیدا کرنے کے حوالے سے فکرمند ہوتے ہیں اور انھیں وہ سب کچھ فراہم بھی کرتے ہیں،جن کی انھیں ضرورت ہوتی ہے ،تاکہ ان کی ہمہ جہت ترقی کو یقینی بنا سکیں اور ان کے بچے خوش رہیں۔ ایسے میں باشعور والدین کچھ خاص اصولوں کا دھیان رکھتے ہیں ۔ان ہی میں سے کچھ باتیں یہاں ذیل میں دی جا رہی ہیں، جن کا بچوں کی تربیت کرتے ہوئے خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
سب سے پہلے والدین بچوں کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے پر حوصلہ افزائی کریں، انھیں احساسات کو محسوس کرنا سکھائیں، فیصلہ کرتے ہوئے ان سے ان کی رائے لیں اور کبھی کبھی اپنی نگرانی میں انھیں فیصلہ کرنے کا اختیار بھی دیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کتنی چھوٹی یا معمولی باتیں ہیں ۔جب بچے فیصلہ سازی کریں تو ان سے اس فیصلے کے کرنے کی وجہ پر بھی بات کریں ،اس طرح ان کے اندر سوچنےا ور غور کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔اپنے بچے کی ان ساری چھوٹی چھوٹی کوششوں کو سراہیں۔ اس طرح نہ صرف ان کا اعتماد بڑھے گا بلکہ ان کی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار بھی لایا جا سکتا ہے۔
اپنے بچوں کے اندر سیکھنے کی خواہش پیدا کریں، سیکھنے کی خواہش کی حوصلہ افزائی کریں، اپنے بچے کی ذہنی نشوونما کے لیے آپ جو بہترین کام کر سکتے ہیں وہ ہے شروع سے ہی ان کے اندر سیکھنے کا شوق پیدا کرنا۔ اپنے بچے کو نئے آئیڈیاز دریافت کرنے اور دلچسپ سرگرمیوں میں حصہ لینے کے مواقع فراہم کریں۔بچوں کو مضبوط سماجی روابط استوار کرنے کے فوائد سے آگاہ کریں، انھیں خود اپنے ساتھ ایسی گیدرنگ میں لے کر جائیں جہاں وہ مختلف بچوں کے ساتھ انٹریکٹ کرنا سیکھ سکیں، سماجی روابط بچے کی ذہنی صحت اور نشوونما کے لیے اہم ہیں۔
اپنے بچے کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ خاندان کے لوگوں، ساتھیوں اور سرپرستوں کے ساتھ بامعنی تعلقات قائم کرے اور اس تعلق کو نبھانے کی ذمہ داری بھی قبول کرے۔ اس طرح اس کی جذباتی ذہانت بھی پروان چڑھتی ہے اور وہ رشتوں کی اہمیت سے آگاہ ہوتا ہے۔بچوں کو مناسب آزادی دینے کے ساتھ ذمہ داریاں قبول کرنے پر آمادہ کریں، اپنے بچے کو عمر کے لحاظ سے مناسب ذمہ داریاں دینا اور اسے خطرہ مول لینے اور غلطیاں کرنے کی اجازت دینا ان کی آزادی اور لچک پیدا کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ بنیادی عادتیں ہیں جو ان کی زندگی کو بامعنی اور ہمہ جہت پہلو سے ان کی شخصیت کی تشکیل میں مدد دیتی ہیں ۔
والدین کو بچوں کی جذباتی ضروریات سے ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہے، اور انھیں کھل کر اظہار خیال کرنے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے خوف اور پریشانیوں کو سنیں اور اس کے قابل حل ہونے کی یقین دہانی کرائیں۔ جب بچے جذباتی طور پر محفوظ محسوس کرتے ہیں، تو وہ خود کے اندر موجود ذہانت کے ارتقائی سفر سے محظوظ ہوتے ہیں۔ اس طرح ماں باپ کو بھی بہت آسانی ہوجاتی ہے اور انھیں خوشی بھی محسوس ہوتی ہے۔ سماجی ترقی بچے کی نشوونما کے لیے بہت ضروری ہے۔ ساتھیوں، بہن بھائیوں، اور دوسرے بڑوںکے ساتھ میل جول رکھنے کی حوصلہ افزائی کرنے سے بچے کو ان کی بات چیت اور Problem solving skills کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ اس کے لیےمتعدد سرگرمیاں اپنائی جا سکتی ہیں جیسے کہ گروپ میں کھیل، آرٹ کی کلاسیں، یا ایسے کھیل جس میں دوسروں کو کنوینس کر کے اپنی جیت کو یقینی بنایا جاتا ہو ،یہ معاشرتی سطح پہ مہارتیں پیدا کرنے کے بہترین طریقے ہیں۔
بچے کے اندر منطقی فکر کو پروان چڑھانے کے لیے انھیں اپنے عام معمولات میں شامل کریں، کیونکہ عملی طور پر ہونے والی سرگرمیوں سے وہ زیادہ تیزی سے سیکھتے ہیں۔ جب وہ خود عملی زندگی میں اترتے ہیں تو اسے فالو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس جدید دور میں والدین نے جہاں اپنی زندگی کے ہر شعبے میں نئی تکنیک اور وسائل کے استعمال میں مہارت حاصل کی ہے، وہیں انھیں بطور والدین نئے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیےنئی اسکلز سیکھنے پربھی غور کرنا ہوگا۔ بنیادی اخلاقیات کی اہمیت آج بھی وہی ہے جو آج سے پہلے تھی، لیکن اس اخلاقیات کو اسی پرانے طریقے سے بچوں کے اندر نہیں پیدا کیا جا سکتا، مطلب یہ ہوا کہ منزل وہی ہے لیکن ان راستوں میں بھول بھلیوں کی طرح بےشمار اور راستے جڑ گئے ہیں، جو کہ بچوں کی توجہ بہت تیزی کے ساتھ اپنی طرف کھینچ رہے ہیں، ایسے میں والدین کی ذمہ داریاں پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ اب بچے کی بنیادی حوائج ضروریہ کی تکمیل میں پیدا ہونے والی آسانی سے بچنے والا وقت ان کے ذہنی مسائل سے نمٹنے میں خرچ کرنا ہوگا۔ اگر بروقت اس پر توجہ نہیں دی گئی تو بڑے ہو کر بچے رحمت کے بجائے زحمت بن جائیں گے،اور آپ کے خاندان کے ساتھ ساتھ معاشرہ بھی متاثر ہوگا۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے