أكتوبر ۲۰۲۳

محترم محمد عامریونس صاحب دور جدید میں تعویذ و گنڈے کے استعمال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ ایک اور حیران کن بات یہ کہ جب ان لوگوں سے اس کی دلیل مانگی جاتی ہے تو بجائے اس کے کہ یہ قرآن اور صحیح حدیث سے دلیل دیں، کہتے ہیں کہ یہ تعویذ فلاں نے استعمال کیا تو اس کا کام بن گیا،فلاں نے فلاں بیماری کے لیے باندھا تو اس کو شفاء مل گئی، اگر یہ جھوٹے تعویذ ہیں اور یہ غلط کام ہے تو اس سے شفاء کیوں ملتی ہے؟تو یہ ہے ان کی سب سے بڑی دلیل۔ اب اگر ان کی یہ دلیل مان لی جائے تو اس طرح اور بھی بہت کچھ جائز ہوجائے گا ۔مثلاً یہ کہ ہندو لوگ بھی یہ تعویذ سازی کا کام کرتے ہیں اور ہندوؤں کو بھی ان تعویذوں سے بہت سے فوائد ملتے ہیں، بیماروں کو شفاء ملتی ہے،بےروزگاروں کو کام ملتا ہے،اسی طرح ان کے یہاں بھی ہر بیماری کے لیے تعویذ بنایا جاتا ہے اور ہر مشکل کام کا تعویذ بنایا جاتا ہے ،تو اس انوکھی دلیل سے ہندوؤں کے تعویذ بھی صحیح ثابت ہوتے ہیں، تو کیا پھر ایک ہندو کے بنائےہوئے تعویذ کو بھی پہنا جاسکتا ہے؟اگر نہیں، تو کیوں نہیں پہنا جاسکتا؟اگر ہاں کہتے ہیں تو ہندوؤں کے مذہب کو کیوں غلط کہتے ہو؟‘‘(تعویذ کی شرعی حیثیت، از:محمد عامر یونس)

https://forum.mohaddis.com/tags/tyudh/

اب رہا ان متعدد امراض کا روحانی علاج، تو بعض احادیث سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ کلمات یا شرک سے پاک کلمات کے ذریعے جائز ہے، بشرطیکہ وہ دم کی صورت میں ہو، نہ کہ تعویذ و گنڈے کی صورت میں۔
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں ہے کہ حضرت عوف ابن مالک اشجعی کہتے ہیں کہ ہم زمانہ ٔجاہلیت میں جھاڑ پھونک کیا کرتے تھے۔ (جب اسلام کا زمانہ آیا تو ) ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان منتر وں کے بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ان منتروں کوپڑھ کر مجھ کو سناؤ، جب تک ان میں شرک نہ ہو ان میں کوئی حرج نہیں دیکھتا ۔ (مسلم )
حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منتر پڑھنے اور پھونکنے سے منع فرما دیا توعمر و ابن حزم کے خاندان کے لوگ (جو منتروں کے ذریعہ جھاڑپھونک کرتے تھے ) حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ،   ہمارے پاس ایک منتر ہے، جس کو ہم بچھو کے کاٹے پر پڑھا کرتے تھے، اب آپ نے منتروں سے منع فرمادیا ہے، اس کے بعد انھوں نے منتر پڑھ کر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا (تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس منتر کو درست یا غلط ہونے کا فیصلہ فرمائیں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (منتر کوسن کر) فرمایا کہ میں اس منتر میں کوئی حرج نہیں دیکھتا ،تم میں سے جو شخص اپنے بھائی کونفع پہنچا سکے، تو وہ ضرور نفع پہنچائے ،خواہ جھاڑپھونک کے ذریعہ اورخواہ کسی اور طرح سے ،بشرطیکہ اس میں کوئی خلاف شرع بات نہ ہو۔(بخاری ومسلم )
عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بی بی ام سلمہ کے مکان میں گئے اور گھر میں ایک لڑکا رو رہا تھا۔ لوگوں نے کہاکہ اس کو نظر لگ گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ دم کیوں نہیں کرتے اس کے لیے؟حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھاڑپھونک کے ذریعہ نظر بد ،ڈنک اور نملہ کا علاج کرنے کی اجازت دی ہے ۔ (مسلم )
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ایسا کوئی بھی دم جائز ہے، جس میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں، اور وہ طریقے جو شریعت سے ثابت نہ ہوں، ان کے ذریعے کیا گیا علاج باطل ہے۔جیسا کہ احادیث میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طویل روایت آئی ہے جس کے آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری امت کے وہ لوگ بلا حساب جنت میں داخل ہوں گے جو نہ داغنے کا علاج کراتے ہیں ، نہ جھاڑ پھونک کرواتے ہیں، نہ فال لیتے ہیں، بلکہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں ۔ ( مسلم)
اسی طرح حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: جس نے داغنے کا علاج کرایا اور جھاڑ پھونک کرائی، وہ اللہ پر توکل سے بے تعلق ہوگیا ۔
( ترمذی)
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس چیزوں کو ناپسند فرماتے تھے، جن میں سے ایک جھاڑ پھونک بھی ہے ، سوائے معوذتین کے۔ ( ابودائود، احمد، نسائی ، ابن حبان ، حاکم)
مولانا مودودی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابتداء میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جھاڑ پھونک سے بالکل منع فرمادیا تھا، لیکن بعد میں اس شرط کے ساتھ اس کی اجازت دے دی کہ اس میں شرک نہ ہو ، اللہ کے پاک ناموں یا اس کے کلام سے جھاڑا جائے ، کلام ایسا ہو جو سمجھ میں آئے اور یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس میں کوئی گناہ کی چیز نہیں ہے، اور بھروسہ جھاڑ پھونک پر نہ کیا جائے کہ وہ بجائے خود شفا دینے والی ہے، بلکہ اللہ پر اعتماد کیا جائے کہ وہ چاہے گا تو اسے نافع بنا دے گا۔( تفہیم القرآن، پارہ : 30 ، معوذتین، صفحہ : 300)
اس ضمن میں دوران نماز آپ کو بچھو کے کاٹنے پر نمکین پانی سے ملنے اور معوذات پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔( طبرانی)
نیز آپ کا اپنے نواسوں پر دعا پڑھ کر دم کرنے اور جبریل علیہ السلام کا آپ کی سخت بیماری میں آپ پر رقیہ شرعیہ سے دم کے شواہد ملتے ہیں۔ آپ اپنے نواسوں پر یہ کلمات پڑھتے تھے:

أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ.( بخاری ، مسند احمد، ترمذی ، اور ابن ماجہ)

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ بیمار ہوئے تو جبریل علیہ السلام نے آکر پوچھا :’’اے محمد، کیا آپ بیمار ہوگئے ؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ انھوں نے کہا :

 بِسْمِ الله أرْقِيكَ، مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ، مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنِ حَاسِدٍ، اللهُ يَشْفِيكَ، بِسمِ اللهِ أُرقِيك ( مسلم)

حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے داغ دلوایا یا منتر پڑھوایا تو وہ تو کل سے بری ہوا۔ ( احمد، ترمذی، ابن ماجہ )
حضرت ابوخزامہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا :’’یا رسول اللہ، اگر ہم جھاڑ پھونک کریں یا دوا دارو کریں اور پرہیز بھی کریں تو کیا یہ تقدیر الٰہی کو بدل سکتی ہیں؟‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ یہ خود اللہ کی تقدیر میں شامل ہیں۔‘‘ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
ابو النعمان، ابوعوانہ، ابوبشر، ابوالمتوکل، ابوسعید سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی ایک جماعت سفر کے لیے روانہ ہوئی، یہاں تک کہ عرب کے ایک قبیلہ میں پہنچی اور ان لوگوں سے چاہا کہ مہمانی کریں، انھوں نے مہمانی کرنے سے انکار کر دیا۔ اس قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا، لوگوں نے ہر طرح کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا، تو ان میں سے بعض نے کہا کہ تم اگر ان لوگوں کے پاس جاتے جو اترے ہیں تو شاید ان میں کسی کے پاس کچھ ہو۔ چنانچہ وہ لوگ آئے اور ان سے کہنے لگے کہ اے لوگو،ہمارے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے اور ہم نے ہر طرح کی تدبیریں کیں،لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا، کیا تم میں سے کسی کو کوئی تدبیر معلوم ہے؟ ان میں سے کسی نے کہا :ہاں،اللہ کی قسم میں جھاڑ پھونک کرتا ہوں ،لیکن ہم نے تم لوگوں سے مہمانی طلب کی ،لیکن تم نے ہماری مہمانی نہیں کی، اس لیے اللہ کی قسم میں جھاڑ پھونک نہیں کروں گا،جب تک کہ ہمارے لیے اس کا معاوضے کا بندوبست نہ کرو۔ چنانچہ انھوں نے بکریوں کے ایک ریوڑ پر مصالحت کی یعنی اجرت مقرر کی ،ایک صحابی اٹھ کر گئے اور سورہ فاتحہ پڑھ کر پھونکنے لگے اور فوراً اچھا ہو گیا ،گویا کوئی جانور رسی سے کھول دیا گیا ہو اور وہ اس طرح چلنے لگا کہ اسے کوئی تکلیف ہی نہ تھی ۔اس نے کہا کہ ان کو وہ معاوضہ دے دو جو ان سے طے کیا گیا تھا، ان میں سے بعض نے کہا کہ ان بکریوں کو بانٹ لو۔ جنھوں نے منتر پڑھا تھا،انھوں نے کہا ایسا نہ کرو، جب تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ پہنچ جائیں اور آپ سے وہ واقعہ بیان کریں جو گزرا۔ پھر دیکھیں کہ آپ کیا حکم دیتے ہیں۔ وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمھیں کس طرح معلوم ہوا کہ سورہ فاتحہ ایک منتر ہے؟ پھر فرمایا تم نے ٹھیک کیا، تم تقسیم کرلو اور اس میں ایک حصہ میرا بھی لگاؤ ،اور یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے، اور شعبہ نے کہا مجھ سے ابوبشر نے بیان کیا میں نے ابوالمتوکل سے یہ حدیث سنی ہے۔
(صحیح بخاری:جلد اول،باب:قبائل عرب کو سورۃ فاتحہ پڑھ کرپھو نکنے کے عوض اجرت دیے جانے کا بیان)
اوپر بیان کی گئی حدیث کو بطور دلیل پیش کرکے جھاڑ پھونک پر اجرت لینا درست نہیں ہے، کیونکہ اس وقت جو اجرت کی اجازت دی گئی تھی، وہ اس دور اور ایک خاص حالت کے تحت تھی ،جہاں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حالت سفر میں بھوک و پیاس کی شدت سے نبردآزما تھے اور دور جدید کےا سفار وغیرہ مادی سہولیات سے لیس ہیں، چنانچہ مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’اب اگر دوا اور علاج کرنے کے ساتھ اللہ کے کلام اور اس کے اسماءحسنیٰ سے بھی استفادہ کیاجائے ، یا ایسی جگہ جہاں کوئی طبی امداد میسر نہ ہو، اللہ ہی کی طرف رجوع کرکے اس کے کلام اور اسماء و صفات سے استعانت کی جائے، تو یہ مادہ پرستوں کے سوا کسی کی عقل کے بھی خلاف نہیں ہے۔ البتہ یہ صحیح نہیں ہے کہ دوا اور علاج کو، جہاں وہ میسر ہو، جان بوجھ کر چھوڑ دیا جائے، اور صرف جھاڑ پھونک سے کام لینے ہی پر اکتفا کیا جائے، اور کچھ لوگ عملیات اور تعویذوں کے مطب کھول کر بیٹھ جائیں اور اسی کو کمائی کا ذریعہ بنالیں۔‘‘
( تفہیم القرآن، پارہ : 30 ، معوذتین، صفحہ : 303)
اسی طرح دم کے متعلق اور بھی احادیث موجود ہیں ،ان سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بہتر عمل یہی ہے کہ انسان اللہ پر ہی بھروسہ رکھے ،مگر اگر کسی کا توکل اللہ پر کم ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ ایسے منتر سے دم کرواسکتا ہے، جو شرک سے پاک ہو ،مگر گلے میں تعویذ لٹکانے اور ہاتھ یا پاؤں میں دم کیا گیا دھاگہ باندھنے یا کڑا اور چھلہ پہننے کی کہیں بھی اجازت نظر نہیں آتی، بلکہ اس کی ممانعت ہی ملتی ہے ۔
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے ایک شخص کے ہاتھ میں پیتل کا چھلہ دیکھا، آپ علیہ السلام نے اس سے دریافت کیا یہ کیا ہے؟ اس نے عرض کیا کہ کمزوری سے نجات کے لیے پہنا ہے۔ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اسے اتار دو ،اس لیے کہ یہ تمھیںکمزوری کے علاوہ کچھ نہ دےگا اور اگر اسے پہنے ہوئے مرگیا تو تم کبھی نجات نہ پاؤ گے۔
مسند احمدکی اس حدیث میں نبی علیہ السلام نے واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ اگر اس کو پہنے ہوئے مرگئےتو کبھی نجات نہ پاؤ گے۔ اوپر ایک حدیث مذکورہے کہ جس میں دم کا ذکر کیا گیا تھا، جو کہ دورِ جاہلیت کا تھا ،اس کے خلافِ شرع الفاظ کو ختم کرکے باقی کو قائم رکھا، مگر یہاں آپ دیکھیں کہ اس کی بالکل ہی اجازت نہیں دی گئی ہے اور جس شخص نے وہ چھلہ پہنا تھا ،وہ مسلم تھا مگر ابھی اس معاملے کو جائز سمجھ کر چھلہ پہنے ہوئے تھا،چنانچہ آپ علیہ السلام نے اس کی ممانعت فرمادی۔ اب تاقیامت اس کی ممانعت ہی ہے،چھلہ بھی تعویذ کی طرح ہوتا ہے جو پہنا جاتا ہے۔ تعویذ وہ ہوتا ہے کہ جس پر قرآن کی آیات یا کچھ اور لکھ کر گلے میں لٹکایا جاتا ہے، اور چھلہ یا کڑا وہ ہوتا ہے جس پر دم کیا جاتا ہے، اور پھر اس کو پہنا جاتا ہے اور اس چھلے پر توکل کیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ ہم کو شفاء دے گا، جبکہ ایسا قرآن و سنت کے سرتاسر خلاف ہے۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے