أكتوبر ۲۰۲۳
زمرہ : ٹی ٹائم

بروقت

دیوار چین کی سیر کرنے کے بعد جب ہم پاکستانی مدیران کا وفد دیوار ہی کے قریب ایک ریستوران میں چائے پی رہا تھاکہ ہمارے میزبانوں نے اصرار کیا کہ ہم انہیں پاکستانی قومی ترانہ سنائیں۔ حفیظ صاحب کا لکھا ہوا ترانہ ہمارا قومی ترانہ قرار پایا تھا، مگر یہ نیا نیا واقعہ تھا، اس لیے یہ ترانہ ہم میں سے کسی کو یاد نہیں تھا۔ اپنےچینی دوستوں کی فرمائش پر ہم لوگ بے بسی سے ایک دوسرے کو دیکھ ہی رہے تھے کہ مولا نا اختر علی خان نے گومگو کی یہ کیفیت اپنی حاضر دماغی سے ختم کر دی ۔
انھوں نے ہم سب کو کھڑے ہونے کا حکم دیا، اور اس کے بعد وہ ہاتھ باندھ کر اپنے ابا جی مرحوم مولانا ظفر علی خان کی یہ مشہور نعت پڑھنے لگے، اور ہم سب ان کے ساتھ شامل ہو گئے:
’’وہ شمع ، اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں‘‘
چینی دوست مؤدب کھڑے رہے، اور جب ہم نے ’’ کچھ فرق نہیں ان چاروں میں‘‘ تک پہنچ کر’’ ترانہ‘‘ ختم کیا تو انھوں نے ہمیں اپنا قومی ترانہ سنایا، اور ہم نے بھی مؤدب کھڑے ہو کر یہ ترانہ سنا۔
بعد میں ہم سب واپس ہوٹل آئے تو ایک جگہ جمع ہوئےاور فیض صاحب نے ہم سب کی طرف سے مولانا اختر علی خان کا شکریہ ادا کیا کہ ان کی حاضر دماغی نے ہمیں شرمندہ ہونے سے بچالیا۔
کتاب:میرے ہم سفر،از:احمد ندیم قاسمی

زندگی کی دعا

جب میں آٹھ سال کا تھا، والد محترم (خرم مراد ) حج پر گئے۔ واپس آئے تو میں نے ان سے پوچھا:
’’آپ نے میرے لیے کیا دعا کی ؟‘‘
انھوں نے کہا:
’’میں نے دعا کی ہے کہ اللہ تمھیں شہید بنائے۔’’
میں نے کہا : ’’یہ تو موت کی دعا ہے۔‘‘
فرمایا: ’’نہیں ، یہ زندگی کی دعا ہے۔‘‘
حسن صهيب مراد

جادو

خلیفہ ہارون الرشید نے فرانس کے بادشاہ شارلمان کو ایک گھڑی تحفۃً بھیج دی۔یہ گھڑی 4 میٹر اونچی خالص پیتل سے بنی تھی اور پانی کے زور پر چلتی تھی۔گھنٹہ ہونے پر گھڑی کے اندر سے 1 گیند نکلتی، 2گھنٹے پر 2 گیندیں اور 3 گھنٹے پر 3 گیندیں، اس طرح ہر گھنٹے کے ساتھ ایک گیند کا اضافہ ہوتا تھا۔گیند کے نکلنے کے ساتھ ایک خوبصورت سریلی آواز کے ساتھ گیند کے پیچھے پیچھے ایک گھڑ سوار نکلتا، وہ گھڑی کے گرد چکر کاٹ کر واپس داخل ہوتا، جب 12 بج جاتے تو بارہ گھڑ سوار نکلتے چکر کاٹ کر واپس جاتے۔
‏گھڑی کی یہ حرکتیں دیکھ کر بادشاہ شارلمان کافی پریشان ہوا۔ اس نے پادریوں اور نجومیوں کو محل میں بلایا،سب نے دیکھ کر کہا:
’’ اس گھڑی کے اندر ضرور شیطان ہے۔‘‘
سب رات کے وقت گھڑی کے پاس آئے کہ اس وقت شیطان سویا ہواہوگا، چنانچہ انھوں نے گھڑی کھول لی تو آلات کے سوا کچھ نہیں ملا،لیکن گھڑی خراب ہوچکی تھی۔
پورے فرانس میں گھڑی کو ٹھیک کرنے کے لیےکوئی کاریگرموجود نہیں تھا۔ شرمندگی کی وجہ سے ہارون الرشید سے بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ کوئی مسلمان کاریگر بھیج دیں۔جب سائنس پر مسلمانوں کی اجارہ داری تھی اس وقت یورپ سائنس کو جادو سمجھتا تھا،اور جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔

غم ِروزگار

امام اعمش (سلیمان بن مہرانؒ) معروف محدث ہیں۔اعمش ؒکہتے ہیں کہ ایک دن میں امام ابراہیم نخعیؒ کے پاس بیٹھا تھا، انھوں نے مجھے 6 حدیثیں سنائیں جو مجھے یاد ہو گئیں۔
گھر آیا تو خادمہ نے کہا:
’’آقاۓ من! گھر میں آٹا نہیں ہے۔‘‘
یہ سننا تھا کہ وہ احادیث میرے حافظے سے محو ہو گئیں۔
کتاب:المخلصیات،از:محمدبن عبدالرحمٰن الذہبی،ترجمہ: طاہر اسلام عسکری

انقلاب

شہزادہ ٹیپو سُلطان دن رات مُطالعہ میں مصروف رہتا۔ جب حیدر علی کو اس کا علم ہوا تو وہ ایک دن شہزادے کے دار المطالعہ میں داخل ہوا۔ شہزادہ اس انہماک سے کتاب پڑھنے میں مصروف تھا کہ اُسے اپنے باپ کے آنے کی خبر نہ ہوئی۔ اگر حیدر علی اپنے فرزند کے شوقِ مطالعہ سے مرعوب ہوکر واپس چلا جاتا تو آج سُلطان ایک ادیب اور مفکّر کی حیثیت سے زندہ ہوتا۔ اُس کی کتابیں ہر تعلیم یافتہ شخص کی الماری کی زینت کو بڑھاتیں ،لیکن حیدر علی کو یہ منظور نہ تھا کہ اُس کا بیٹا دن رات مطالعہ میں مصروف رہنے کے بعد ہسپانیہ کے ایک اُموی خلیفہ کی طرح علم و ادب میں نام پیدا کرے۔
چنانچہ اُس نے شہزادے کے مطالعہ میں مداخلت کی۔ منہمک ٹیپو آداب بجا لایا۔
’’جانِ پدر! سلطنت کے لیے قلم سے زیادہ تلوار کی ضرورت ہے۔‘‘ باپ کے اس جُملے نے بیٹے کی زندگی بدل دی۔
ٹیپو اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلا۔ باپ ایسی جرأت اور شجاعت پیدا کی۔ میسور کی چاروں جنگوں میں ٹیپو سُلطان نے حصّہ لیا،اورچوتھی جنگ میں سرنگا پٹم کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوا۔
کتاب:کمپنی کی حکومت،از:باری علیگ

بیٹا

کچھ عرصہ پہلے ایدھی ہوم میں ایک 75 سالہ ماں جی سے ملاقات ہوئی۔ بہت خوش نظر آئیں۔ حیرت سے پوچھا کہ آپ کی اولاد آپ کویہاں چھوڑ گئی ہے اور آپ اتنی خوش ہیں؟
چہک کر بولیں:
’’وے کملیا! میرے بچوں نے تو مجھ پر اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا ہے۔‘‘
تفصیل پوچھی تو بڑے فخر سے بتانے لگیں:
’’میرے دو بیٹے ہیں، دونوں شادی شدہ ہیں لیکن میری بہوئیں اچھی نہیں۔مجھے کھانا بھی نہیں دیتی تھیں اور بغیر پنکھے والے کمرے میں رکھا ہوا تھا۔ اصل میں وہ ہر وقت میرے مکان پر قبضے کے خواب دیکھتی رہتی تھیں۔ پھر میرے بیٹوں نے مجھے کہا کہ ماں جی! یہ چھوٹا سا گھر ہے، اسے بیچ دیتے ہیں اور ہم اپنے پیسے بھی ملا کر آپ کے لیے ایک بہت بڑاسا گھر لے لیتے ہیں، جہاں ہماری بیویوں کو آنے کی اجازت ہی نہیں ہوگی۔ مجھے اور کیا چاہیے تھا؟میں نے گھر اُن کے نام کردیا۔ گھر بک گیا ،لیکن میرے بچوں نے اپنا وعدہ پورا کیا ،اور یہ دیکھو! مجھے اتنا بڑا گھر لے کر دیا ہے، جہاں اتنے سارے پنکھے بھی لگے ہوئے ہیں، کھانا بھی وقت پر ملتا ہے اور میری کوئی بہو یہاں قدم بھی نہیں رکھتی۔اللہ میاں میرے بچوں کو دنیا جہان کی خوشیاں دے۔ ‘‘
گل نوخیزاختر

ایک عمرہ ایسا بھی کیجیے…

کہ کوئی آنکھ نہ دیکھے۔ جو صرف اللہ کےلیے ہو اور آپ چپکے سے اپنا ٹکٹ پاسپورٹ جیب میں ڈالے خاموشی سے ایئرپورٹ چلے جائیں۔ نہ کوئی اعلان ہو اور نہ مدینے والے کے بلاوے کا دعویٰ کریں، نہ ہی دوسرے کم نصیبوں کو سنائیں۔ جا کر اپنے پھیرے لگائیں، سر منڈائیں اور بغیر سیلفی لیے مدینے کو روانہ ہو جائیں۔
وہاں کی نمازوں، روح پرور نظاروں اور دل کے کایا کلپ ہونے کو اپنے ہی دل میں رکھیں اور اسی عاجزی سے واپس آ کر بغیر ہار پہنے اور بغیر دعوتیں اڑائے اپنے کاموں میں لگ جائیں۔
کبھی ایسا کر کے دیکھیے! آپ کا دل، آپ کی روح اتنی تالی پیٹے گی کہ آپ کو باہر کی کسی تالی، کسی واہ واہ کی حاجت نہیں رہے گی۔
محمود فیاض

بھنگی

میرے مطب کے نزدیک ایک پرچون کی دکان تھی۔ اس دکان کے مالک کا نام مختار تھا، لیکن چھوٹے بڑے سب انھیں’’بڑے ابا‘‘ کہتے تھے۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ بڑے ابا بھنگی ( جمعدار ) سے لڑ رہے ہیں۔
بڑے ابا:
’’میں نے آپ سے کتنی مرتبہ کہا ہے، جھاڑو دینے کے بعد کچراڈبے میں ڈال دیا کریں۔ آپ ویسے ہی چھوڑ دیتے ہیں، اب دیکھیں ہوا اسے سارا کچرا پھیل گیا ہے ۔‘‘
میں نے بڑے ابا سے کہا :
’’ابا! آپ بھنگی سے بھی آپ آپ کر کے بات کر رہے تھے ؟ ‘‘
بڑے ابا کے جواب نے وہ کام کیا جو ڈیل کارنیگی اور اخلاقیات کی کئی کتابوں نے نہ کیا تھا۔ انھوں نے کہا:
’’ حکیم صاحب !وہ بھنگی ہے ، میں تو بھنگی نہیں ہوں۔‘‘
ویسےہوتا یہ ہی ہے کہ ہم بھنگی سے بات کرتے ہوئے خود بھنگی بن جاتے ہیں۔
حکیم جلیس احمد صدیقی

پچیس لفظوں کی کہانی
پسند

’’جویلری، فرنیچر ، ڈیکوریشن ہم نے ہر چیز میںبٹیا کی پسند کا خیال رکھا ہے۔‘‘
ڈرائنگ روم سے آواز آرہی تھی۔
’’سوائے لڑکے کے ۔ ‘‘
بیٹی سوچ کر رہ گئی۔
احمدبن نذر

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے