أكتوبر ۲۰۲۳

تمام تعریفیں اللہ وحدہ لا شریک لہ کے لیے ،جس نے انسان کو حصول علم کا حکم دیا اور اس کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے انسانیت کے نام اپنا پہلا پیغام یہی بھیجا اور ارشاد فرمایا:

اقرأ باسم ربک الذی خلق

(اپنے رب کے نام سے پڑھو جس نے پیدا کیا)(سورۃ العلق : 1)
’’مطالعہ ‘‘عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ،کسی چیز کو اس سے واقفیت حاصل کرنے کی غرض سے دیکھنا ،غور و خوض کرنا، کسی چیز سے آگاہ ہونا۔ قرآن کی سب سے پہلی وحی کا آغاز لفظ ’’اقرأ‘‘ سے ہوتا ہے، جس میں تعلیم کی اہمیت اور کامیابی کا بہترین راز پنہا ںہے ۔تاریخ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن نے مسلمانوں کے اندر دیکھنے کا ذوق پیدا کر دیا تھا،جو مذہب کے پس منظر میں پیدا ہو کر علم کی تمام شاخوں تک پھیلتا چلا گیا۔جب تک مسلمانوں نے علم سے تعلق جوڑے رکھا، کتب بینی کو اپنے معمول میں شامل رکھا، علم عرفان کے گوہر لٹاتے رہے۔مطالعے کے شوق نے مسلم معاشرے کو بڑے بڑے سائنس دان اور حکماء دیے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن قوموں نے کتابوں سے اپنا رشتہ مضبوط رکھا، وہی قومیں عروج اور ترقی حاصل کرسکیں۔
امریکی ناول نگار جارج مارٹن لکھتے ہیںکہ جو شخص مطالعہ کرتا ہے وہ ہزاروں زندگیاں جیتا ہے اس کے برعکس مطالعہ نہ کرنے والا محض ایک زندگی جیتا ہے۔ علم انسان کا امتیاز ہی نہیں بلکہ اس کی بنیادی ضرورت بھی ہے، جس کی تکمیل کا سب سے بہتر اور مؤثر ذریعہ کتب بینی ہی ہے۔ ایک پڑھے لکھے شخص کے لیے معاشرہ کی تعمیر کا فریضہ بھی انتہائی اہم ہے۔ اس لحاظ سے مطالعہ ہماری معاشرتی ضرورت بھی ہے۔ اگر انسان اپنی تعلیم مکمل کر کے اسی پر اکتفا کر کے بیٹھ جائے تو فکر و نظر کا دائرہ انتہائی تنگ ہو کر رہ جائے گا۔
کیونکہ مدارس ،اسکولس، کالجز اور یونیورسٹیاں طالب علم کو علم و دانش کی دہلیز تک لا کر کھڑا تو کر دیتی ہیں، لیکن حصول علم کا اصل سفر اس کے بعد ہی شروع ہوتا ہے۔ اساتذۂ کرام طلبہ کی کامیابی اور ترقی کی راستے کی طرف رہنمائی تو کر سکتے ہیں، لیکن ان طریقوں کو اپنانا طلبہ کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی طالب علم کامیاب بننے کی آرو رکھتا ہو، لیکن کلاس کے درس کو ہی کافی سمجھتا ہو اور کتب بینی کی مزیدضرورت محسوس نہ کرتا ہو تو اس کی مثال ’’کباسط کفیہ الی الماء لیبلغ فاہوماھو ببالغہ ‘‘کی طرح ہے۔ترقی وکامیابی کی منازل کو طے کر نے کی آرزو

 ’’کسراب بقیعة یحسبہ الظمآن ماءً حتی اذا جاءہ لم یجدہ شیئا‘‘

کی سی ہے،لہذا کتب کو ہمہ وقت کا ساتھی بنانا ہوگا ۔
مطالعہ کے ذریعے انسان دنیا بھر کی سیاحت کرتا ہے،اور دنیا جہان کی تعلیمی،تہذیبی، سیاسی اور اقتصادی احوال سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔شورش نے کہا ہے کہ کسی مقرر کا بلا مطالعہ تقریر کرنا ایسا ہی ہے جیسے بہار کے بغیر بسنت منانا یا لو میں پتنگ اڑانا۔ چنانچہ کتب بینی ایک نہایت ہی مفید مشغلہ ہے ،جو علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ پریشانیوں سے نجات کے لیے بھی نہایت مؤثر ہے۔
صدیوں پہلے ایک عرب مصنف’’ الجاحظ‘‘نے ایک پریشان حال شخص کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ کتاب ایک ایسا دوست ہے جو آپ کی خوشامدانہ تعریف نہیں کرتا اور نہ ہی اپ کو برائی کے راستے پر ڈالتا ہے، یہ دوست آپ کو اکتاہٹ میں مبتلا نہیں ہونے دیتا ،یہ ایک ایسا پڑوسی ہے جو آپ کو کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتا ،یہ ایک ایسا واقف کارہےجو کبھی جھوٹ یا منافقت کے ذریعے آپ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کر سکتا۔
محققین کا کہنا ہے کہ مطالعہ کی عادت ذہنی صحت کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔ اگر روزانہ 20 منٹ کسی اچھی کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو ڈیمنشیا (یہ ایک بیماری ہے جو دماغی خلیات کو نقصان پہنچاتی ہے، جس کی وجہ سے یادداشت ،سوچ اور بات چیت کے ساتھ ساتھ شخصیت میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ )کا خطرہ ڈھائی فی صد کم ہو جاتا ہے۔ اس لیے ذہن کو صحت مند رکھنے کے لیے اچھی کتابوں کا مطالعہ اسی طرح ضروری ہے جس طرح جسمانی فٹنس کو برقرار رکھنے کے لیے ورزش ضروری ہے ۔
انگریز شاعر شیلے کا کہنا ہے کہ مطالعہ ذہن کو جلا بخشنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ ابراہم لنکن کا کہنا ہے کہ کتابوں کا مطالعہ ذہن کو روشنی عطا کرتا ہے ۔والٹیئر کا قول ہے کہ وحشی اقوام کے علاوہ تمام دنیا پر کتب حکمرانی کرتی ہیں۔ کتابوں کی صحبت میں انسان شاعر و ادیبوں، مفکروں اور داناؤں سے ہم کلام ہوتا ہے، جبکہ عملی زندگی میں احمقوں اور بے وقوفوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ان تمام اقوال سے کتب بینی کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، مگر افسوس صد افسوس! موجودہ دور میں مطالعے کی طرف لوگوں کو راغب کرنا ازحد مشکل ہو گیا ہے ،کیونکہ لوگوں نے اسمارٹ فون ،سوشل میڈیاکو تفریح کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور سوشل میڈیا پر لوگ اس قدر مصروف ہیں کہ مطالعے کے لیے بالکل وقت ہی نہیں نکال پاتے۔حالانکہ موجودہ دور میں بڑھتے نفسیاتی مسائل کے پیش نظر ماہرین مطالعہ کو حد درجہ اہم قرار دیتے ہیں۔
اکثر یہ مسئلہ مشاہدے میں آتا ہے کہ لوگ قلت وقت کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں، حالانکہ بحیثیت قوم ہم کسی چیز میں خود کفیل ہیں تو وہ وقت ہی ہے ۔ایک لمبا چوڑا پیریڈ انٹرنیٹ موبائل فون وغیرہ پہ صرف کر کے بھی ہمارا نوجوان طبقہ قلت وقت کا درد بیان کرتا نظر آتا ہے۔دانشوروں کا کہنا ہے کہ بڑے کامیاب افراد نے کتابوں کو بہت سارا وقت دیا ہے۔’’ ایلن مسک‘‘ کا کہنا ہے کہ اس نے راکٹ بنانے کا طریقہ کتابوں سے ہی حاصل کیا۔
اسلاف کی زندگیوں کے مطالعے سے واقفیت ہوتی ہے کہ وہ کس قدر مطالعے میں غرق کر رہا کرتے تھے۔ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کتب بینی میں اتنا زیادہ محو رہاکرتے تھے کہ ان کی بیوی نے جھلا کر یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اللہ کی قسم! یہ کتابیں میرے لیےتین سوکنوں سے بھی زیادہ گراں ہیں۔اسی طرح ایک شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:

نِعمَ الأنيسُ إذا خلوتَ كِتَابُ
تَلهو به إن خانَكَ الأحبابُ
لا مُفشِياً سرّا إذااستودعتَه
وتُنال منهُ حكمةٌ وصَوَابُ

(تمھاری تنہائی کا بہترین ساتھی کتاب ہے، جس میں تم اپنے آپ کو مشغول کر لو، جب تمھارے احباب تمھیں دھوکہ دے دیں، جب تم خوکود اس کے حوالے کر دو تو کوئی راز افشا نہیں ہونے والا اور تم اس سے دانائی اور درستگی ہی حاصل کرو گے ،یعنی کتاب کے اندر مذکور حکمت و بصیرت سے تمھیں فائدہ ہی پہنچے گا۔)

کتب بینی کی افادیت

دماغ میں ذخیرۂ الفاظ کا ہجوم ہوتا ہے، جس کے ذریعے فصاحت و بلاغت کی صفت پیدا ہوتی ہے،ذہن کے دریچے اوا ہوتے ہیں ،اور خیالات میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے، تحقیقی و تجزیاتی سوچ پروان چڑھتی ہے، معاملہ فہمی میں تیزی آتی ہے،اضطرابی کیفیت دور ہوتی ہے۔ محقق کرسٹل رسل اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں کہ مطالعہ آپ کے ذہن کے تناؤ کو ختم کر کے بہترین فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو جلا بخشتا ہے ۔مطالعہ کے دوران انسان علماء اور حکماء سے ہم کلام ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں خود اعتمادی پروان چڑھتی ہے، کتب بینی سے شخصیت میں نکھار اورکشش پیدا ہوتی ہے، مطالعہ دماغ کی ورزش ہے،مطالعے کے ذریعے انسان کے اندر لکھنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے،اور جو پہلے سے لکھتے ہیں اس میں مزید پختگی آتی ہے۔
کتب بینی کاسب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنے مقصد حیات کو متعین کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، جو ایک بامقصد زندگی گزارنے کے لیے بہت اہم ہے۔ مطالعے کے لیے ایسی کتاب کا انتخاب ہونا چاہیے جو وسعت فکر و نظر عطا کرے۔نعیم صدیقی صاحب رقم طراز ہیں:
’’ بنیادی طور پر قرآن و حدیث اور ان سے متعلق امور پر جس حد تک ممکن ہو، نگاہ ہونی چاہیے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے سیر پہ نگاہ ہونی چاہیے، بعد ازاں ضروری ہے کہ مطالعہ کا سفر کرنے والا ہر شخص کم از کم اپنے ملک اپنی قوم بلکہ اپنی تہذیب کے ادبیات سے واقف ہو۔‘‘

حاصل مطالعہ

مطالعہ کے ساتھ ساتھ حاصل مطالعہ کو ذہن نشین کرنے کی تدبیر بھی ازحد ضروری ہے۔ علم و معلومات کی مثال ایک شکار کی سی ہے۔ لہٰذا اسے فورا ًقابو میں کرنا چاہیے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:’’ علم ایک شکار کی مانندہے، لہٰذا کتابت کے ذریعے اسے قید کر لو۔‘‘
اس لیے دوران مطالعہ ڈائری اورقلم لے کر خاص خاص باتوں کو نوٹ کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے ،بعد میں کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو ملتی نہیں یا بات ہی سرے سے ذہن سے نکل جاتی ہے ،یا حوالہ دماغ سے نکل جاتا ہے۔ اگر ہم اہم پوائنٹس حوالے کے ساتھ ڈائری میں نوٹ کرتے جائیں تو ضرورت پڑنے پر بآسانی وہ چیزیں دستیاب ہو جاتی ہیں ،اور تسلسل کے ساتھ مطالعہ کرنے سے بہت زیادہ نوٹس وغیرہ کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ،کیونکہ بار بار مطالعے میں آنے کی وجہ سے واقعات ،کتب کے نام، مصنفین کے نام ازخود ذہن نشین ہو جاتے ہیں۔اس سلسلے میں نعیم صدیقی صاحب کہتے ہیں کہ میری ذہنی ساخت یوں بنی کی میں حاصل مطالعہ کو دماغ میں ڈال دیتا اور میرے اندر اس پہ غور و بحث کا ایک سلسلہ چلتے، پھرتے، اٹھتے ،بیٹھتے غرض ہمہ وقت جاری رہتا ،یہاں تک کہ اس کا منفی یا مثبت اثرمیرے عالم خیال پر رہ جاتا۔

 طریقۂ کار

کسی بھی کام کو اصول و ضوابط کے ساتھ کرنے پراس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ مطالعے کے لیے صحت ،و قت،ذہن کی یکسوئی اور روشنی کو بطور خاص ملحوظ رکھا جائے ،ورنہ اس کے منفی اثرات انسانی صحت پر ،بالخصوص آنکھ پر پڑتے ہیں۔بالعموم مطالعے کے تعلق سے ہماری بہنیں یہ مسئلہ سامنے رکھتی ہیں کہ مطالعہ کرنے کے بعد کچھ یاد نہیں رہتا۔ اس خیال سے مطالعہ کو ہرگز نہ ترک کریں، مطالعہ جاری رکھیں ،کہیں نہ کہیں اس کا فائدہ ضرور ہوتا ہے، کیونکہ مطالعہ جس قدر وسیع ہوگا اتنی ہی آسانی اور جلدی حافظے میں محفوظ ہوگا۔
یاد نہ رہنے کی وجہ سے مطالعے کو ہرگز تر ک نہ کریں،کیونکہ علم ایک گوہر نایاب ہے ،جس کی تحصیل سے انسان کامیابی و کامرانی کی منازل طے کرتا ہے، جس کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا:

 يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ

(اللہ اہل ایمان اور اہل علم کے درجات کو بلند کرتا ہے۔)(سورۃ المجادلہ: 11)
چنانچہ اللہ کی رضا کو مدنظر رکھتے ہوئے بلندی درجات کے حصول کے لیے کتب بینی کو خود پر لازم کر لیں۔ ا
عن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال

نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فيهما كثيرٌ من الناس: الصحةُ، والفراغُ.
(الصحیح للبخاري)

(دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے تئیں لوگوں کی اکثریت دھوکے کا شکار ہے، صحت و تندرستی اور فراغت۔)
ہمیں چاہیے کہ اللہ ربّ العزت نے ہمیں جو صحت و تندرستی اور وقت عطا کیا ہے ،اس کا صحیح استعمال کرتے ہوئے اسلامک لٹریچر بالخصوص قران سے ہم اپنا تعلق مضبوط کریں۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:


موجودہ دور میں مطالعے کی طرف لوگوں کو راغب کرنا ازحد مشکل ہو گیا ہے ،کیونکہ لوگوں نے اسمارٹ فون ،سوشل میڈیاکو تفریح کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور سوشل میڈیا پر لوگ اس قدر مصروف ہیں کہ مطالعے کے لیے بالکل وقت ہی نہیں نکال پاتے۔حالانکہ موجودہ دور میں بڑھتے نفسیاتی مسائل کے پیش نظر ماہرین مطالعہ کو حد درجہ اہم قرار دیتے ہیں۔
اکثر یہ مسئلہ مشاہدے میں آتا ہے کہ لوگ قلت وقت کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں، حالانکہ بحیثیت قوم ہم کسی چیز میں خود کفیل ہیں تو وہ وقت ہی ہے ۔ایک لمبا چوڑا پیریڈ انٹرنیٹ موبائل فون وغیرہ پہ صرف کر کے بھی ہمارا نوجوان طبقہ قلت وقت کا درد بیان کرتا نظر آتا ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے