کافی دیر سے زوبیہ دور افق کے پار تک رہی تھی ۔ اپنے ڈرائنگ روم کی کھڑکی سے وہ افق کے پار نہیں ،بلکہ ماضی کے جھروکوں میں گم تھی ۔آج اس نے اپنے تینوں بچوں کو بلوا بھیجا تھا ،تاکہ جو کچھ وراثت ہے اسے تقسیم کیا جا سکے۔ اس کی ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں ،جواس کی زندگی کا کل اثاثہ ہیں۔ اب شادی شدہ اور خوش باش زندگی گزار رہے ہیں ۔اس طرح کی زندگی تو وہ بھی گزار رہی تھی ۔اپنی شادی کے شروع کے دنوں میں وہ بھی دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔والدین نے فرائض کی ادائیگی کی، اور اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔اس کا میکہ اب دونوں بھائیوں اور بھابھیوں کے دم سے آباد تھا۔
ابو کی چھوڑی ہوئی جائداد میں کافی بڑا مکان تھا، جس کا کچھ حصہ کرایہ پر چڑھا دیا گیا تھا،اور کچھ دکانیں تھیں جو عین مارکیٹ میں تھی، جس سے بہت کچھ آمدنی ہو جایا کرتی تھی۔ نئی بستی میں کچھ زمینیں خرید رکھی تھی،جو کہ بوقت ضرورت استعمال کے لیےرکھی گئی تھی۔ راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ بگاڑ تو تب آیا جب عامر کو جو کہ اس کاشوہر تھا، اسے انجائنا کی شکایت ہوئی۔
ٹیسٹ کروانے پر پتہ چلا کہ اس کے دل کے کئی والو بند ہیں ،اور بائی پاس سرجری کرنا پڑے گی۔ ان کا اپنا شہر تو بہت چھوٹا تھا ۔ بڑے شہر جانا ہو گا۔وہاں کے اخراجات، سرجری کا خرچہ اور دیگر چیزیں ملاکر کل چھ سے سات لاکھ کی رقم درکار تھی۔ وہ مسلسل سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہی تھی، جب صفیہ اس کی بچپن کی سہیلی اس سے ملنے آئی تواس سے ضبط نہ ہو سکا۔ وہ اس کے سامنے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ ’’صفیہ کہو!اب میں کیا کروں؟ کہاں سے اتنے پیسوں کا انتظام ہوگا؟جو کچھ تھوڑی بہت جمع پونجی تھی، وہ تو اب تک کہ علاج اور ٹیسٹ کروانے میں ہی ختم ہو گئی۔ زیادہ کچھ بیچنے کے لیےہے نہیں ۔ایک مکان ہے، اگر اسے بیچ دیں گے تو رہیں گے کہاں؟اور اگر کرایہ کا مکان لیں گے تو ہر ماہ کا کرایہ ، بچوں کی تعلیم کے اخراجات اور دیگر مسائل رہیں گے ،اور ابھی تو عامر کو آپریشن کے بعد سنبھل کر دوبارہ کاروبار کو کھڑا کرنے میں بھی وقت لگے گا۔‘‘
’’ ہاں زوبیہ! تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔‘‘ صفیہ نے اس کی تائید کی ۔ پھر پر سوچ انداز میں کہا ۔
’’کیوں نہ کسی سے قرض لیا جائے۔‘‘
’’ہاں یہ بھی آیا تھا میرے ذہن میں۔ ‘‘اس نے آنسو پونچھ کر ٹھنڈی سانس لی۔
’’مگر اتنی بڑی رقم کوئی بھی نہیں دے پا رہا ہے،اور سود پر لیں گے تو بہت زیادہ قرض ہو جائےگا۔ ‘‘
’’نہ نہ زوبیہ !سود پر لینے کا تو سوچنا بھی مت، ورنہ گناہ تو گناہ اور سب کچھ بیچ کر بھی اصل باقی ہی رہتا ہے۔‘‘
’’ یہی تو،اب تم ہی بتاؤ میں کیا کروں؟‘‘اس کے تھمے ہوئے آنسو پھر بہنے لگے۔ تب صفیہ نے اس کاہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر نرمی سے کہا:’’تم اپنے بھائیوں سے والدین کی جائیداد میں سے اپنا حق کیوں نہیں مانگتی؟‘‘زوبیہ نے جھٹکے سے سر اٹھا کر صفیہ کو دیکھا۔
’’’ ہاں میری بہن! یہ تو تمھارا حق ہے۔ نہ قرض کا بوجھ ،نہ کوئی ناجائز کام۔ تمھارا حق ہے ،تم سر اٹھا کر مانگ سکتی ہو، لیکن وہ مانیں گے کیا؟ کہیں ناراض نہ ہو جائیں؟ میرے میکہ میں میرے بھائی بھائیوں کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ میں انھیں ناراض کس طرح کروں؟کہیں وہ سب مجھ سے منہ نہ موڑ لیں۔ ‘‘وہ ٹہلتے ہوئے خودکلامی کے انداز میں مسلسل بولے جا رہی تھی ،اس کے پیر تھمنے کو تیارنہیں تھے۔ہاتھوں کو مسلتے ہوئے وہ آخر تھک ہی گئی اور پھر سے صفیہ کے بازومیں آبیٹھی۔
’’ دیکھو زوبیہ! تمھارا مسئلہ میں سمجھ سکتی ہوں،لیکن یہ حق تمھیں اللہ نے دیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ تمھارے بھائی مجبور بھی نہیں ہیںاور نہ معاشی تنگی کے شکارہیں۔ اس کے علاوہ تمھارے پاس کوئی اور راستہ بھی تو نہیں ہے ۔‘‘وہ چپ سی صفیہ کو تکنے لگی۔
تب صفیہ نے گردن ہلا کر کہا:’’ فیصلہ تمھارے ہاتھ میں ہے ۔ تم ضرور اس پر غور کرو۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ اس کے ہا تھ تھپتھپا کر رخصت ہو گئی، اور وہ وہیں گرداب میں گھری سی بیٹھی رہ گئی۔ آخر وہ اپنی ساری ہمتیں مجتمع کر کے اپنے بھائیوں کےپاس آہی گئی۔
’’وہ بھائی! …عامر کی بائی پاس سرجری کا کہا گیا ہے ۔ ‘‘اس نے تھوک نگلتے ہوئے اٹک اٹک کر کہا۔
’’ہاں ہاں بہن! پتہ ہے ۔پریشان کیوں ہوتی ہو ؟کر لیں گے ہم سب مل کر کچھ نہ کچھ۔‘‘ بڑے بھائی نے نرمی سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو اسے لگا ابو اس کے سر پر دست شفقت پھیر کراسے تسلی دے رہے ہوں۔ وہ ضبط کے بندھن توڑ کر بھائی کے گلے لگ کر بے تحاشہ رودی۔
بڑی بھا بھی بھی جھٹ پانی کا گلاس لے آئیں۔ اسے شانوں سے پکڑ کر بٹھا یا اور پیار سے اس کے ہاتھوں کو سہلا کر تسلی دی ۔ اسے کچھ اطمینان ہوا۔ وہ جب دوبارہ چپ ہوئی تو بھائی نے پوچھا :’’کل کتنی رقم درکار ہوگی ؟‘‘
’’جی بھیا !یہی کوئی سات لاکھ کے قریب لگیں گے ۔ایک لاکھ کے میرے پاس کچھ زیورات اور بچت کی رقم ہے،لیکن باقی چھ لاکھ کا انتظام کرنا ہو گا۔‘‘ وہ روہانسی سی اپنی بات سامنے رکھ رہی تھی۔ چھوٹے بھیا بھی اس دوران قریب ہی بیٹھ گئے تھے۔
’’ ٹھیک ہے۔‘‘ بڑے بھیا نے گہری سانس لے کر کہا
’’ ہم دونوں بھائی تین تین لاکھ کی ذمہ داری لیتے ہیں ،اب اتنی رقم تو ہے نہیں ہاتھ میں ۔‘‘بڑے بھیا نے کچھ توقف کے بعد کہا۔
’’ہمیں قرض لینا ہوگا ۔ پھر جب سب ٹھیک ہو جائےگا،تب دھیرے دھیرے کر کے لو ٹا دینا۔‘‘اس بات پر وہ چونکی۔
پھر اسنے دھیرے سے کہا۔’’ نہیں بھیا !میں قرض نہیں چاہتی، میں کچھ اور چاہتی ہوں۔ ‘‘
’’مطلب کیا کوئی اور راستہ ہے تمھارے ذہن میں ؟‘‘ چھوٹے بھیا جانچتی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ چھوٹی بھا بھی بھی جوکہ دور کسی کام میں اپنے آپ کو مصروف ظاہر کر رہی تھیں، وہ بھی معاملہ کی سنگینی کو بھانپ کر قریب آگئیں۔
’’جی بھیا !‘‘اس نے ٹھنڈے ہوتے ہوئے ہا تھوں کو مضبوطی سے تھاما اور کہا۔
’’میں چاہتی ہوں کہ ابو کی جائیداد میں جومیرا حصہ ہے، وہ اگر مجھے مل جائے تو…‘‘وہ کہتے کہتے رک کر سب کے چہروں کا جائزہ لینے لگی، جہاں اب استعجاب اور ناسمجھی کے آثار نمودار ہو رہے تھے۔
’’ کیا مطلب ہے تمھارا؟ تم گھر کابٹوارہ کرنا چاہتی ہو؟‘‘بڑے بھیا کے چہرے سے اب ناراضگی چھلکنے لگی۔ (ان کی دانست میں جب وہ مدد کی بھیک مانگ رہی تھی تو وہ اس سے محبت جتا رہے تھے، لیکن جب وہ اصل میں اپنا حق مانگنے لگی توغصہ امڈ آیا۔)
’’ نہیں بھیا !بٹوارہ کیوں ؟ میں بس اپنا حق چاہتی ہوں۔‘‘
’’ہاں تو ایک ہی بات ہے، جائداد کو تقسیم کرکے اگر حق دیں گے تواسے بیچنا پڑےگا۔ یہ بٹوارہ نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘
’’ بھیا !بات کو سمجھیے ۔پوری جائداد جو ابو کی ہے،آپ اس کی کل رقم نکالیے اوراس میں سے جو میرا شرعی حق ہے وہ مجھے دیجیے۔ اس کے لیےجائداد بیچنا ضروری نہیں ہے ۔‘‘
’’ اچھا !چلو ٹھیک ہے، لیکن تمھارے حصے کی رقم اب ہمارے پاس تھوڑی موجود ہے؟ جائداد بیچیں گے تبھی تو رقم ہاتھ میں آئےگی۔‘‘ چھوٹے بھیا نے ترش لہجے میں کہا ۔
’’ہاں، لیکن جو نئی بستی میں زمینیں ہیں ،ہم انھیں بیچ دیں گے تو؟وہ نہ کسی کے استعمال میں ہے نہ اس کی کوئی آمدنی ہے،اور پھر وہ لی بھی اسی مقصد کے لیے گئ تھی کہ بوقت ضرورت ان سے فائدہ حاصل کیا جا سکے۔ کیوں نہ ہم وہ…‘‘ابھی وہ جملہ مکمل بھی نہ کر پائی تھی کہ بڑے بھیا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے تاسف سے کہا۔
’’ کیسی بات کرتی ہو زوبیہ؟ وہ زمین ابو، امی کی نشانی ہے ۔کیا تم بھول گئیں کہ ابو نے کتنے ارمانوں سے وہ مین خرید کر امی کے نام کی تھی؟ کیا تم اس نشانی کو ختم کرنا چاہتی ہو؟‘‘
’’ بھیا! میں بھی تو ان کی ہی نشانی ہوں۔‘‘ وہ بڑے گہرے لہجے میں ؎کہہ رہی تھی ۔
’’مجھے تکلیف میں دیکھ کر ان کابھی یہی فیصلہ ہوتا ۔کیا وہ اس وقت ہاتھ پرہاتھ دھرے رہتے؟ نہیں ناں ؟وہ بھی یہی کرتے۔‘‘
’’ تمھاری تعلیم اور شادی پر بھی بہت کچھ خرچ کیا امی ابو نے۔‘‘اب کی بار بڑی بھابھی اس طرح بڑبڑائی کہ ان کی بڑبڑاہٹ سب نے سنی۔
’’تو کیا بھائیوں کے تعلیم اور شادیوں پر اخراجات نہیں ہوئے ؟‘‘وہ تاسف سےبھابھی کو دیکھتی ہوئی گویا ہوئی۔
’’…اور جو جہیز کے نام پر مجھے سامان دیا گیا تھا وہ میرے لیےتحفہ ہے، جسے میں نے نہیں ،بلکہ سسرال والوں نے استعمال کیا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے زوبیہ!‘‘ چھوٹے بھیا کہنے لگے ۔
’’…لیکن امی ابو کی جائداد میں تمھارا حق ہے۔ اگر حصہ ملے گا بھی تو تمھیں،لیکن تم تو اپنے شوہر کے علاج کے لیےپیسے مانگ رہی ہو۔شاید تمھیں یاد نہیں کہ شادی کہ شروع کے دنوں میں اس شخص نے تمھیں آٹھ آٹھ آنسو رلائے ہیں ۔تمھارےامی ابو سے ملنے اور میکے آنے پر پابندی لگاتا تھا،اور اب تم امی ابو کا پیسہ اس کے علاج پر خرچ کرنا چاہتی ہو؟‘‘چھوٹے بھیا نے اپنے تئیں جیسے بہت بڑا تیر مارا تھا یہ کہہ کر۔
وہ استہزاء سے ہنسی ۔
’’ کیا بات کرتے ہو بھیا ؟وہ میرے شوہر ہیں،میرے بچوں کے باپ،اور میری خوشیاں ان ہی کے دم سے ہیں۔ شادی کی شروعات میں اس قسم کی باتیں تو ہر لڑکی کے ساتھ ہوتی ہیں ۔اگر انھوں نے پابندیاں لگائی بھی تھیں تو بعد میں وہی مجھے ملوانے بھی تو لاتے تھے۔کبھی انھوں نے مجھے رلایا بھی تھا، تومیری خوشی اور سکون کا باعث بھی تو وہی ہیں ،اوردیکھیے!میں کوئی بھیک نہیں مانگ رہی، نہ ہی آپ لوگوں سے مدد طلب کر رہی ہوں ۔ میں بس وہ حق مانگ رہی ہوں جو الله نے مجھے دیا ہے، اور الله تعالیٰ نےپوری طرح سےہر ایک کا مقرر حصہ کھل کر سورہ نساء میں بتا دیا ہے۔ ان آیات کی شروعات ہی اسی طرح کی کہ’’یوصیکم الله ‘‘ کہ اللہ تمہیں وصیت کرتا ہے،کہہ کر اولاد کا جائداد میں کتنا حصہ ہے یہ بتایا ہے ،جو کہ اٹل ہے۔‘‘وہ چند لمحہ رکی ،پھر اس نے کہا ۔
’’…اور بھائی! آپ کو پتہ ہے؟ صرف یہی ایسا مسئلہ ہے جس کے بارے میں اللہ نے تفصیلاً خود بتایا ہے کہ بیٹے بیٹیوں ،والدین اور دیگر رشتہ دار کا کتنا حصہ ہونا چاہیے؟ اور اس علم کو علم فرائض کہا گیا ہے، اور اس علم کے بارے میں ہمارے نبی ؐ نے خصوصاً تاکید کی ہے کہ اسے سیکھو اورسکھاؤ،کیونکہ یہ پہلی چیز ہے جو میری امت سے چھینی جائے گی ۔ ‘‘ وہ پر جوش انداز میں کہہ رہی تھی۔ یہ سب کہتے وقت اسے نہ کوئی اندیشہ تھا نہ کسی کی ناراضگی کی فکر۔ وہ تو سچے دل سے اللہ کے احکام بیان کر رہی تھی۔ آخراس نے تھکے ہوئے انداز میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’ میں نے اپنی کوشش کرلی۔ میں آپ لوگوں کی ناراضگی بھی نہیں چاہتی،لیکن آپ لوگ اطمینان سےسوچ کر اور قرآن کو سمجھ کر فیصلہ کریں ۔مجھے بھلے ہی آپ راضی نہیں کرنا چاہ رہے ہوں، لیکن رب کریم کو راضی کرنے کے لیے اس کے احکام پر عمل کیجیے۔ ‘‘ اور پھر فیصلہ اس کے حق میں ہوا ۔
اب سب کچھ نارمل ہو گیا ،لیکن اسے نارمل ہوتے ہوتے بھی کئی ماہ و سال لگ گئے، اور اس دوران وہ جس کرب سے گزری یہ وہی جانتی تھی،لیکن اب وہ دوبارہ یہی معرکہ آرائی اپنے بچوں کے درمیان نہیں چاہتی تھی۔ اس لیےآج اس نے شرعی طور پر وراثت کی تقسیم کے لیے اپنے بچوں کو بلوا بھیجا تھاتاکہ وہ اللہ کے احکام پر عمل کر کے خود بھی پر سکون ہو اور اپنے بچوں کو بھی دنیا اور آخرت کی کامیابی کےلیےتیار کر سکے۔
٭ ٭ ٭
0 Comments